Bayan-ul-Quran - Al-Anfaal : 18
ذٰلِكُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ مُوْهِنُ كَیْدِ الْكٰفِرِیْنَ
ذٰلِكُمْ : یہ تو ہوا وَاَنَّ : یہ کہ اللّٰهَ : اللہ مُوْهِنُ : سست کرنیوالا كَيْدِ : مکر۔ داؤ الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
یہ تو ہوچکا اور (آئندہ کے لیے بھی سمجھ لو کہ) اللہ کفار کی تمام چالوں کو ناکام بنا دینے والا ہے
آیت 18 ذٰلِکُمْ وَاَنَّ اللّٰہَ مُوْہِنُ کَیْدِ الْکٰفِرِیْنَ ۔ یہ گویا اہل ایمان اور کفار دونوں کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے۔ اس کے بعد صرف کفار سے خطاب ہے۔ ابو جہل کو بحیثیت سپہ سالار اپنے لشکر کی تعداد ‘ اسلحہ اور سازو سامان کی فراوانی کے حوالے سے پورا یقین تھا کہ ہم مسلمانوں کو کچل کر رکھ دیں گے۔ چناچہ انہوں نے پہلے ہی پراپیگنڈا شروع کردیا تھا کہ معرکہ کا دن یوم الفرقان ثابت ہوگا اور اس دن یہ واضح ہوجائے گا کہ اللہ کس کے ساتھ ہے۔ اللہ کو تو کفار بھی مانتے تھے۔ چناچہ تاریخ کی کتابوں میں ابو جہل کی اس دعا کے الفاظ بھی منقول ہیں جو بدر کی رات اس نے خصوصی طور پر اللہ تعالیٰ سے مانگی تھی۔ اس رات جب ایک طرف حضور اکرم ﷺ دعا مانگ رہے تھے تو دوسری طرف ابو جہل بھی دعا مانگ رہا تھا۔ اس کی دعا حیرت انگیز حد تک موحدانہ ہے۔ اس دعا میں لات ‘ منات ‘ عزیٰ اور ہبل وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں ‘ بلکہ اس دعا میں وہ براہ راست اللہ سے التجاکر رہا ہے : اللّٰھم اقطعنا للرحم فاحنہ الغداۃ کہ اے اللہ جس شخص نے ہمارے رحمی رشتے کاٹ دیے ہیں ‘ کل تو اسے کچل کر رکھ دے۔ اس دعا سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ابو جہل کا حضور ﷺ پر سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ آپ ﷺ کی وجہ سے قریش کے خون کے رشتے کٹ گئے تھے۔ مثلاً ایک بھائی مسلمان ہوگیا ہے اور باقی کافر ہیں ‘ تو نہ صرف یہ کہ ان میں اخوت کا رشتہ باقی نہ رہا ‘ بلکہ وہ ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔ اسی طرح اولاد ماں باپ سے اور بیویاں اپنے شوہروں سے کٹ گئیں۔ چونکہ اس عمل سے قریش کی یک جہتی ‘ طاقت اور ساکھ بری طرح متاثر ہوئی تھی ‘ اس لیے سب سے زیادہ انہیں اسی بات کا قلق تھا۔ بہر حال ابوجہل سمیت تمام قریش کی خواہش تھی اور وہ دعا گو تھے کہ اس چپقلش کا واضح فیصلہ سامنے آجائے۔ ان کی اسی خواہش اور دعا کا جواب یہاں دیا جا رہا ہے۔
Top