Bayan-ul-Quran - Al-Anfaal : 32
وَ اِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ
وَاِذْ : اور جب قَالُوا : وہ کہنے لگے اللّٰهُمَّ : اے اللہ اِنْ : اگر كَانَ : ہے هٰذَا : یہ هُوَ : یہ الْحَقَّ : حق مِنْ : سے عِنْدِكَ : تیری طرف فَاَمْطِرْ : تو برسا عَلَيْنَا : ہم پر حِجَارَةً : پتھر سے مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان اَوِ : یا ائْتِنَا : لے آ ہم پر بِعَذَابٍ : عذاب اَلِيْمٍ : دردناک
اور جب انہوں نے کہا کہ اے اللہ ! اگر یہ (قرآن) تیری ہی طرف سے برحق ہے تو برسا دے ہم پر پتھر آسمان سے یابھیج دے ہم پر کوئی دردناک عذاب۔
آیت 32 وَاِذْ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنْ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ اءْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے کہ سرداران قریش کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوگیا تھا کہ مکہ کے عام لوگوں کو محمد رسول اللہ ﷺ کی دعوت کے اثرات سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔ اس کے لیے وہ مختلف قسم کی تدبیریں کرتے رہتے تھے ‘ جن کا ذکر قرآن میں بھی متعدد بار ہوا ہے۔ اس آیت میں ان کی ایسی ہی ایک تدبیر کا تذکرہ ہے۔ ان کے بڑے بڑے سردار عوام کے اجتماعات میں علی الاعلان اس طرح کی باتیں کرتے تھے کہ اگر یہ قرآن اللہ ہی کی طرف سے نازل کردہ ہے اور ہم اس کا انکار کر رہے ہیں تو ہم پر اللہ کی طرف سے عذاب کیوں نہیں آجاتا ؟ بلکہ وہ اللہ کو مخاطب کر کے دعائیہ انداز میں بھی پکارتے تھے کہ اے اللہ ! اگر یہ قرآن تیرا ہی کلام ہے تو پھر اس کا انکار کرنے کے سبب ہمارے اوپر آسمان سے پتھر برسا دے ‘ یا کسی بھی شکل میں ہم پر اپنا عذاب نازل فرما دے۔ اور اس کے بعد وہ اپنی اس تدبیر کی خوب تشہیر کرتے کہ دیکھا ہماری اس دعا کا کچھ بھی ردِّ عمل نہیں ہوا ‘ اگر یہ واقعی اللہ کا کلام ہوتا تو ہم پر اب تک عذاب آچکا ہوتا۔ چناچہ اس طرح وہ اپنے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
Top