Bayan-ul-Quran - Al-Anfaal : 46
وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهَبَ رِیْحُكُمْ وَ اصْبِرُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَۚ
وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور لَا تَنَازَعُوْا : آپس میں جھگڑا نہ کرو فَتَفْشَلُوْا : پس بزدل ہوجاؤگے وَتَذْهَبَ : اور جاتی رہے گی رِيْحُكُمْ : تمہاری ہوا وَاصْبِرُوْا : اور صبر کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
اور حکم مانو اللہ کا اور اس کے رسول ﷺ کا اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تم ڈھیلے پڑجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور ثابت قدم رہو۔ یقیناً اللہ ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہے
آیت 46 وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یہ تیسرا حکم ڈسپلن کے بارے میں ہے کہ جو حکم تمہیں رسول ﷺ کی طرف سے ملے اس کی دل و جان سے پابندی کرو۔ اگرچہ یہاں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی بات ہوئی ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو عملی طور پر یہ اطاعت رسول اللہ ﷺ ہی کی تھی ‘ کیونکہ جو حکم بھی آتا تھا وہ آپ ﷺ ہی کی طرف سے آتا تھا۔ قرآن بھی حضور ﷺ کی زبان مبارک سے ادا ہوتا تھا اور اگر آپ ﷺ اپنی کسی تدبیر سے اجتہاد کے تحت کوئی فیصلہ فرماتے یا کوئی رائے ظاہر فرماتے تو وہ بھی آپ ﷺ ہی کی زبان مبارک سے ادا ہوتا تھا۔ لہٰذا عملاً اللہ کی اطاعت آپ ﷺ ہی کی اطاعت میں مضمر ہے۔ اقبالؔ نے اس نکتے کو بہت خوبصورتی سے اس ایک مصرعے میں سمو دیا ہے : ع بمصطفٰی ﷺ بر ساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست ! وَلاَ تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْاط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ۔ یہ وہی الفاظ ہیں جو ہم سورة آل عمران کی آیت 152 میں پڑھ چکے ہیں۔ وہاں غزوۂ احد کے واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعْدَہٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَہُمْ بِاِذْنِہٖج حَتّٰیٓ اِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَعَصَیْتُمْ مِّنْم بَعْدِ مَآ اَرٰٹکُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ ط اللہ تعالیٰ کو تو علم تھا کہ ایک سال بعد غزوۂ احد میں کیا صورت حال پیش آنے والی ہے۔ چناچہ ایک سال پہلے ہی مسلمانوں کو جنگی حکمت عملی کے بارے میں بہت واضح ہدایات دی جا رہی ہیں ‘ کہ ڈسپلن کی پابندی کرو اور اطاعت رسول ﷺ پر کاربند رہو۔
Top