Bayan-ul-Quran - Yunus : 16
قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَیْكُمْ وَ لَاۤ اَدْرٰىكُمْ بِهٖ١ۖ٘ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
قُلْ : آپ کہہ دیں لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ : اگر چاہتا اللہ مَا تَلَوْتُهٗ : نہ پڑھتا میں اسے عَلَيْكُمْ : تم پر وَلَآ اَدْرٰىكُمْ : اور نہ خبر دیتا تمہیں بِهٖ : اس کی فَقَدْ لَبِثْتُ : تحقیق میں رہ چکا ہوں فِيْكُمْ : تم میں عُمُرًا : ایک عمر مِّنْ قَبْلِهٖ : اس سے پہلے اَفَلَا : سو کیا نہ تَعْقِلُوْنَ : عقل سے کام لیتے تم
آپ یوں کہہ دیجیئے اگر خدا تعالیٰ کو منظور ہوتا تو نہ تو میں تم کو یہ (کلام) پڑھ کر سناتا اور نہ اللہ تعالیٰ تم کو اس کی اطلاع دیتا (ف 1) کیونکہ اس سے پہلے بھی تو ایک بڑے حصے عمر تک تم میں رہ چکا ہوں پھر تم کیا اتنی عقل نہیں رکھتے۔ (ف 2) (16)
1۔ پس جب میں تم کو سنا رہا ہوں اور میرے ذریعے سے تم کو اطلاع ہورہی ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کو اس کلام معجز کا سنورنا اور اطلاع کرنا منظور ہوا اور سنانا اور اطلاع دینا بدون وحی کے بوجہ اس کے معجز ہونے کے ممکن نہیں اس سے معلوم ہوتا ہے وہ وحی منزل اور کلام الٰہی ہے۔ 2۔ یعنی اگر یہ میرا کلام ہے تو یا تو اتنی مدت تک ایک جملہ بھی اس طرح کانہ نکلا اور یا دفعتا اتنی بڑی بات بنالی یہ تو بالکل عق کے خلاف ہے۔ فائدہ۔ اعجاز کے اثبات میں فقد لبثت فیکم سے استدلال علی سبیل التنزل ہے یعنی استدلال یہ ہے فاتوا بسورة من مثلہ اور اس میں کوئی بعید احتمال نکالنا کہ شاید عام اس پر قادر نہ ہوں آپ قادر ہوں اس احتمال پر یہ جواب دیا ہے کہ دفعتا ایسے اعلی طرف کا کلام طویل پیش کردینا ممتنعات عادیہ سے ہے اور اعجاز میں امتناع عادی ہی پر مدار ہوتا ہے۔
Top