Tafseer-al-Kitaab - An-Nisaa : 59
اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ١ۛؕ۬ وَ الَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ١ۛؕ لَا یَعْلَمُهُمْ اِلَّا اللّٰهُ١ؕ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرَدُّوْۤا اَیْدِیَهُمْ فِیْۤ اَفْوَاهِهِمْ وَ قَالُوْۤا اِنَّا كَفَرْنَا بِمَاۤ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ وَ اِنَّا لَفِیْ شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَنَاۤ اِلَیْهِ مُرِیْبٍ
اَلَمْ يَاْتِكُمْ : کیا تمہیں نہیں آئی نَبَؤُا : خبر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے قَوْمِ نُوْحٍ : نوح کی قوم وَّعَادٍ : اور عاد وَّثَمُوْدَ : اور ثمود وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد لَا يَعْلَمُهُمْ : ان کی خبر نہیں اِلَّا : سوائے اللّٰهُ : اللہ جَآءَتْهُمْ : ان کے پاس آئے رُسُلُهُمْ : ان کے رسول بِالْبَيِّنٰتِ : نشانیوں کے ساتھ فَرَدُّوْٓا : تو انہوں نے پھیر لئے اَيْدِيَهُمْ : اپنے ہاتھ فِيْٓ : میں اَفْوَاهِهِمْ : ان کے منہ وَقَالُوْٓا : اور وہ بولے اِنَّا كَفَرْنَا : بیشک ہم نہیں مانتے بِمَآ : وہ جو اُرْسِلْتُمْ : تمہیں بھیجا گیا بِهٖ : اس کے ساتھ وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَفِيْ : البتہ میں شَكٍّ : شک مِّمَّا : اس سے جو تَدْعُوْنَنَآ : تم ہمیں بلاتے ہو اِلَيْهِ : اس کی طرف مُرِيْبٍ : تردد میں ڈالتے ہوئے
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے اولوالامر کی اور اگر تم کسی معاملے میں آپس میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو اگر تم (واقعی) اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ اسی میں ہی (تمہارے حق میں) بہتری ہے اور انجام کار کے اعتبار سے بھی (یہی طریقہ) بہت اچھا ہے۔
[48] اولوالامر سے مراد اسلامی معاشرے کے ارباب حل و عقد اور سربراہ کار کے ہیں۔ معاشرے کے حالات کے لحاظ سے اس کے مصداق ارباب علم و بصیرت بھی ہوسکتے ہیں اور ارباب اقتدار و سیاست بھی۔ جو لوگ بھی اس پوزیشن میں ہوں کہ عوام کی سربراہی کرسکیں وہ اس لفظ کے مصداق ہیں اگر خلیفہ موجود ہو تو وہ اور اس کے حکام اولوالامر ہیں اگر وہ موجود نہ ہو تو جماعت کے اندر جو معاملہ فہم اور صاحب بصیرت ہوں تو وہ اس سے مراد ہوں گے۔ [49] یعنی تم میں اور اولوالامر میں کسی معاملے میں اختلاف ہوجائے تو کتاب اللہ کی طرف رجوع کیا جائے کہ اس معاملے میں کیا حکم ہے۔ اگر اس میں نہ ملے تو نبی ﷺ کی سنت یعنی احادیث کی طرف رجوع کیا جائے اگر وہاں بھی نہ ملے تو پھر اس معاملے کے حل کرنے کا راستہ اجتہاد ہے۔ اجتہاد کے آداب و شرائط جو نبی ﷺ کی تعلیم اور صحابہ ؓ کے تعامل سے معلوم ہوتے ہیں وہ اصول فقہ کی کتابوں میں موجود ہیں اور ایسے فطری اور عقلی ہیں کہ کسی معقول آدمی کیلئے ان سے انکار کی گنجائش نہیں۔
Top