Bayan-ul-Quran - An-Nahl : 124
اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ١ؕ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَیَحْكُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں جُعِلَ : مقرر کیا گیا السَّبْتُ : ہفتہ کا دن عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اخْتَلَفُوْا : انہوں نے اختلاف کیا فِيْهِ : اس میں وَاِنَّ : اور بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لَيَحْكُمُ : البتہ فیصلہ کریگا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت فِيْمَا : اس میں جو كَانُوْا : وہ تھے فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے
بس ہفتے کی تعظیم تو صرف انہی لوگوں پر لازم کی گئی تھی جنہوں نے اس میں خلاف کیا تھا (ف 4) بیشک آپ کا رب قیامت کے دن اسمیں باہم فیصلہ کر دے گا جس بات میں یہ اختلاف کیا کرتے تھے۔ (ف 5)
4۔ مراد اس سے یہود ہیں یعنی تحریم طیبات کی یہ صورت مثل دوسری صورتوں کے صرف یہود کے مخصوص تھی ملت ابراہیمی میں نہ تھی۔ 5۔ اوپر ثم اوحینا۔ الخ۔ میں حضور ﷺ کی رسالت کے اثبات سے یہ مقصود تھا کہ مرسل علیھم اس رسالت کے حقوق ادا کریں یعنی تصدیق اواتباع کریں آگے خود رسول اللہ کو ادائے رسالت کے حقوق وآداب کی تعلیم ہے جن میں سے مراعاة عدل فی النتقام میں حضور ﷺ کے تابعین کو بھی خطاب ہے کیونکہ انتقام میں عادة تابعین کا اشتراک ضروری ہے بخلاف تبلیغ وبقیہ احکام مذکورہ آیت کے کہ نبی سے بالانفراد بھی اس کا صدور ہوسکتا ہے اس لیے اس میں خطاب خاص ہے۔
Top