Bayan-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 47
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا١ؕ وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَا١ؕ وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ
وَنَضَعُ : اور ہم رکھیں گے (قائم کرینگے) الْمَوَازِيْنَ : ترازو۔ میزان الْقِسْطَ : انصاف لِيَوْمِ : دن الْقِيٰمَةِ : قیامت فَلَا تُظْلَمُ : تو نہ ظلم کیا جائے گا نَفْسٌ : کسی شخص پر شَيْئًا : کچھ بھی وَ اِنْ : اور اگر كَانَ : ہوگا مِثْقَالَ : وزان۔ برابر حَبَّةٍ : ایک دانہ مِّنْ خَرْدَلٍ : رائی سے۔ کا اَتَيْنَا بِهَا : ہم اسے لے آئیں گے وَكَفٰى : اور کافی بِنَا : ہم حٰسِبِيْنَ : حساب لینے والے
اور (وہاں) قیامت کے روز ہم میزان عدل قائم کریں گے (اور سب کے اعمال کا وزن کریں گے) (ف 3) سو کسی پر اصلاً ظلم نہ ہوگا اور اگر (کسی کا) عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا تو ہم اس کو (وہاں) حاضر کردیں گے اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں۔ (ف 4)
3۔ موازین کا جمع لانا یا تو اس وجہ سے ہے کہ ہر شخص کے لئے جدا میزان عمل ہو، یا چونکہ ایک ہی میزن میں بہت سے لوگوں کے اعمال کا وزن ہوگا، اس لئے وہ ایک قائم مقام متعددہ کے ہوگی۔ 4۔ شروع سورت سے یہاں تک توحید اور رسالت کا زیادہ اور اس کے ضمن میں اس کے تعلق سے مخالفین رسل کا آخرت میں عموما معذرت ہونا اور بعض کا دنیا میں بھی ہلاک ہونا مذکور تھا، آگے بعض حضرات انبیاء (علیہم السلام) کے قصص بیان فرمانے سے ان ہی مضامین کی تائید فرماتے ہیں، رسالت کی تائید تو ان کے رسول ہونے سے ظاہر ہے، اور توحید کی تائید ان کے داعی الی التوحید ہونے سے، اور تعذیب کی تائید ان کی بعض امم کی ہلاکت سے۔
Top