Tafseer-e-Madani - An-Najm : 27
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ لَیُسَمُّوْنَ الْمَلٰٓئِكَةَ تَسْمِیَةَ الْاُنْثٰى
اِنَّ الَّذِيْنَ : یشک وہ لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ : جو ایمان نہیں لاتے آخرت پر لَيُسَمُّوْنَ الْمَلٰٓئِكَةَ : البتہ وہ نام رکھتے ہیں فرشتوں کے تَسْمِيَةَ الْاُنْثٰى : نام عورتوں والے
جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کو موسوم کرتے ہیں عورتوں کے ناموں سے
[ 33] آخرت پر ایمان سے محرومی ہر خیر سے محرومی۔ والعیاذ باللّٰہ : سو ایمان بالآخرت سے محروم انسان سب سے بڑا محروم ہے۔ والعیاذ باللّٰہ۔ کہ آخرت پر ایمان و یقین کی دولت سے محروم انسان راہ حق و ہدایت سے محروم ہوتا ہے، اور وہی فرشتوں کے بارے میں اس طرح کی بات کرسکتا ہے، کہ وہ اللہ کی بیٹیاں اور ہمارے نجات دہندہ ہیں۔ ورنہ یہ ایسی بےبنیاد اور گستاخانہ بات ہے کہ آخرت پر ایمان و یقین رکھنے والے کسی انسان سے یہ صادر ہو ہی نہیں سکتی۔ اس جرم کا ارتکاب وہی لوگ کرسکتے ہیں جو آخرت پر ایمان و یقین کی دولت سے مھروم ہوں سو اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کا انکار تمام خرابیوں کی جڑ بنیاد ہے، جس سے آگے طرح طرح کے مفاسد جنم لیتے اور خرابیاں سر نکالتی ہیں، اور اس سے انسان ایک بےمقصد اور بےکیف بلکہ مردہ زندگی گزارتا ہے، اور وہ لایعنی ولا ابالیٰ اور لاپرواہ ہو کر محض ایک حیوان بلکہ اس سے بھی کہیں بدتر اور شرالبریۃ بن جاتا ہے، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اور ایمان و یقین کی دولت سے محروم ہوجانے کے بعد ایسے لوگ من گھڑت افسانوں اور خودساختہ ڈھکوسلوں کے سہاروں پر اپنی متاع عمر ضائع کرتے ہیں۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین [ 34] منکرین آخرت کی ایک اور حماقت کا ذکر وبیان : کہ ایسے لوگ فرشتوں کو عورتوں کے ناموں سے موسوم کرتے ہیں۔ اور اس طرح یہ بدبخت حماقت در حماقت کا ارتکاب کرتے ہیں، کہ اول تو ان فرشتوں کو جو اللہ کے نہایت فرمانبردار بندے ہیں، جو اس کے یہاں اس کے اذن کے بغیر سفارش کرنے کا یارا بھی نہیں رکھتے، ان کو انہوں نے خدائے پاک کا شریک اور اس کی خدائی میں حصے دار بنادیا، اور پھر اس سے بڑھ کر دوسری حماقت انہوں نے یہ کی کہ انہوں نے ان کو مونث اور اس وحدہٗ لاشریک کی بیٹیاں بنادیا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا۔ { وجعلوا الملائکۃ الذین ہم عبد الرحمن اناثا ط اشھدوا خلقھم ط ستکتب شھادتھم ویسئلون } [ الزخرف : 19 پ 25] سو یہ نتیجہ ہوتا ہے ایمان و یقین کی دولت سے عاری اور محروم ہونے کا، اور آخرت پر ایمان نہ رکھ کر حیوان بلکہ اس سے بدترین مخلوق بن جانے کا۔ والعیاذ باللّٰہ۔ سو آخرت کا آنا اور اس کے عدل و انصاف کا قائم ہونا عقل و نقل کا تقاضا اور اشد ضروری ہے، تاکہ ایسے منکر اور گمراہ لوگ اپنے کیے کرائے کا پھل پاس کیں، اور اپنی حماقتوں کا بھگتان بھگت سکیں اور اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں، اور اپنی آخری اور کامل شکل میں پورے ہو سکیں، اسی لئے سورة الزخرف کی مذکورہ بالا آیت کریمہ میں ان کے اس جرم کے ذکر کے ساتھ فرمایا گیا۔ { اشھدوا خلقہم ستکتب شھادتھم ویسئلون } یعنی کیا یہ لوگ فرشتوں کی تخلیق کے وقت وہاں موجود تھے اور انہوں نے اس بات کا مشاہدہ کرلیا تھا کہ فرشتے مونث تھے ؟ سو ان کی یہ گواہی لکھی جا رہی ہے اور عنقریب ہی ان سے اس بارے میں پوچھ ہونی ہے۔ اور جب یہ لوگ وہاں موجود نہیں تھے اور نہیں ہوسکتے تو پھر یہ لوگ اتنی بری اور اس قدر ہولناک و بےبنیاد بات کس طرح کہتے ہیں ؟ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ آخرت کے ایمان و یقین سے محرومی کے باعث اس کے نتیجے میں ایسے لوگوں نے فرشتوں کے نام عورتوں کے ناموں پر رکھ دیے اور اس بناء پر انہوں نے ازخود اور اپنے طور پر ایک مالا تصنیف کرلی کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں۔ اور ایسی چہیتی اور پیاری بیٹیاں کہ انہی کی سفارش سے دنیا کی نعمتیں بھی حاصل ہوتی اور اگر آخرت ہوئی تو وہاں بھی ہمارا کام یہی بنادیں گی اور ہم جو کچھ وہاں پر چاہیں گے وہ ہمیں دلوادیں گی وغیرہ وغیرہ۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ من کل زیغ و ضلال وسواء وانحراف، بکل حال من الاحوال، جل وعلا۔
Top