Bayan-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 168
اَلَّذِیْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِهِمْ وَ قَعَدُوْا لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْا١ؕ قُلْ فَادْرَءُوْا عَنْ اَنْفُسِكُمُ الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو قَالُوْا : انہوں نے کہا لِاِخْوَانِھِمْ : اپنے بھائیوں کے بارے میں وَقَعَدُوْا : اور وہ بیٹھے رہے لَوْ : اگر اَطَاعُوْنَا : ہماری مانتے مَا قُتِلُوْا : وہ نہ مارے جاتے قُلْ : کہدیجئے فَادْرَءُوْا : تم ہٹادو عَنْ : سے اَنْفُسِكُمُ : اپنی جانیں الْمَوْتَ : موت اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
یہ ایسے لوگ ہیں کہ اپنے بھائیوں کی نسبت بیٹھے ہوئے باتیں بناتیں ہیں کہ اگر ہمارا کہنا مانتے تو قتل نہ کیے جاتے۔ آپ فرمادیجئیے کہ اچھا تو اپنے اوپر سے موت کو ہٹاؤ اگر تم سچے ہو۔ (ف 2) (168)
2۔ اس واقعہ ہزیمت میں جو صحابہ کی عتاب کے بعد جابجا تسکین کی گئی تو اس سے نافرمانی کرنے والے دھوکہ نہ کھادیں کہ ہم سے جو گناہ ہوتے ہیں اس میں بھی مشیت و حکمت الہییہ ہوتی ہے پھر غم کی کوئی بات نہیں بات یہ ہے کہ اول تو صحابہ سے خطا ایسا ہوا قصدا مخالفت نہ تھا دوسرے ان پر ندامت اور غم کا بےانتہا غلبہ تھا جو اعلی درجہ ہے توبہ کا اس لیے ان کی تسلی کی گئی اور جو قصدا گناہ کرے پھر اس پر کرے جرات، وہ مستحق تسلی نہیں بلکہ مستحق تخویف وعید ہے۔
Top