Bayan-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 28
لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً١ؕ وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ
لَا يَتَّخِذِ :نہ بنائیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) اَوْلِيَآءَ : دوست (جمع) مِنْ دُوْنِ : علاوہ (چھوڑ کر) الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے ذٰلِكَ : ایسا فَلَيْسَ : تو نہیں مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ فِيْ شَيْءٍ : کوئی تعلق اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ تَتَّقُوْا : بچاؤ کرو مِنْھُمْ : ان سے تُقٰىةً : بچاؤ وَيُحَذِّرُكُمُ : اور ڈراتا ہے تمہیں اللّٰهُ : اللہ نَفْسَهٗ : اپنی ذات وَاِلَى : اور طرف اللّٰهِ : اللہ الْمَصِيْرُ : لوٹ جانا
مسلمانوں کو چاہیئے کہ کفار کو (ظاہرا یا باطنا) دوست نہ بناویں (ف 2) مسلمانوں (کی دوستی) سے تجاوز کرکے (ف 3) اور جو شخص ایسا (کام) کرے گا سو وہ شخص اللہ کے ساتھ (دوستی رکھنے کے) کسی شمار میں نہیں مگر ایسی صورت میں کہ تم ان سے کسی قسم کا (قوی) اندیشہ رکھتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ (ف 4) (28)
2۔ اوپر کفار کی مذمت مذکور تھی اس آیت میں ان کے ساتھ دوستی کرنے کی ممانعت فرماتے ہیں۔ 3۔ تجاوز دو صورت سے وہتا ہے، ایک یہ کہ مسلمانوں کے ساتھ بالکل دوستی نہ رکھیں، دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے ساتھ کفار سے بھی دوستی رکھیں، دونوں صورتیں ممانعت میں داخل ہیں۔ 4۔ کفار کے ساتھ تین قسم کے معاملے ہوتے ہیں۔ موالات یعنی دوستی۔ مدارات یعنی ظاہری خوش خلقی۔ مواساة یعنی احسان و نفع رسانی، موالات تو کسی حال میں جائز نہیں، اور مدرات تین حالتوں میں درست ہے۔ ایک دفع ضرر کے واسطے دوسرے اس کافر کی مصلحت دینی یعنی توقع ہدایت کے واسطے، تیسرے اکرام ضیف کے لئے، اور اپنی مصلحت و منفعت مال و جان کے لئے درست نہیں، اور مواسات کا حکم یہ ہے کہ اہل حرب کے ساتھ ناجائز ہے اور غیر اہل حرب کے ساتھ جائز۔
Top