Bayan-ul-Quran - Al-Ahzaab : 32
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاۚ
يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ : اے نبی کی بیبیو لَسْتُنَّ : نہیں ہو تم كَاَحَدٍ : کسی ایک کی طرح مِّنَ النِّسَآءِ : عورتوں میں سے اِنِ : اگر اتَّقَيْتُنَّ : تم پرہیزگاری کرو فَلَا تَخْضَعْنَ : تو ملائمت نہ کرو بِالْقَوْلِ : گفتگو میں فَيَطْمَعَ : کہ لالچ کرے الَّذِيْ : وہ جو فِيْ قَلْبِهٖ : اس کے دل میں مَرَضٌ : روگ (کھوٹ) وَّقُلْنَ : اور بات کرو تم قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : اچھی ( معقول)
اے نبی کی بی بیو تم معمولی عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم تقویٰ اختیار کرو (ف 5) تو تم (نا محرم مرد سے) بولنے میں (جب کہ بضرورت بولنا پڑے) نزاکت مت کرو (اس سے) ایسے شخص کو (طبعاً ) خیال (فاسد پیدا) ہونے لگتا ہے جس کے قلب میں خرابی ہے اور قاعدہ (عفت) کے موافق بات کہو۔ (ف 6)
5۔ یعنی نری نسبت بلا تقوی ہیچ ہے۔ 6۔ مطلب یہ ہے کہ جیسے عورتوں کے کلام کا فطری انداز ہوتا ہے کلام میں نرمی ہوتی ہے، سادی مزاجی سے اس انداز کو مت برتو، بلکہ ایسے موقع پر تکلف اور اہتمام سے اس فطری انداز کو بدل کر گفتگو کرو، یعنی ایسے انداز سے جس میں خشکی اور روکھا پن ہو کر یہ حافظ عفت ہے۔
Top