Bayan-ul-Quran - Al-Ahzaab : 36
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ١ؕ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے لِمُؤْمِنٍ : کسی مومن مرد کے لیے وَّلَا مُؤْمِنَةٍ : اور نہ کسی مومن عورت کے لیے اِذَا : جب قَضَى : فیصلہ کردیں اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗٓ : اور اس کا رسول اَمْرًا : کسی کام کا اَنْ يَّكُوْنَ : کہ (باقی) ہو لَهُمُ : ان کے لیے الْخِيَرَةُ : کوئی اختیار مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ : ان کے کام میں وَمَنْ : اور جو يَّعْصِ : نافرمانی کرے گا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول فَقَدْ ضَلَّ : تو البتہ وہ گمراہی میں جا پڑا ضَلٰلًا : گمراہی مُّبِيْنًا : صریح
اور کسی ایمان دار مرد اور کسی ایماندار عورت کو گنجائش نہیں ہے جب کہ اللہ اور اس کا رسول (علیہ السلام) کسی کام کا حکم دے دیں کہ (پھر) ان کو ان (مومنین) کے اس کام میں کوئی اختیار (باقی) ہے اور جو شخص اللہ کا اور اس کے رسول (علیہ السلام) کا کہنا نہ مانے گا وہ صریح گمراہی میں پڑا۔ (ف 3)
3۔ اگلی آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ جب گزشتہ آیت کے نزول پر نکاح منظور کرلیا گیا تو اتفاق سے باہم مزاجوں میں توافق نہ ہوا۔ حضرت زید ؓ نے طلاق دینا چہا، اور حضور ﷺ سے مشورہ کیا، آپ نے فہمائش کی کہ طلاق مت دو ، مگر جب کسی طرح موافقت نہ ہوئی آخر پھر طلاق کا عزم ظاہر کیا۔ اس وقت آپ کو وحی سے معلوم ہوا کہ زید ضرور طلاق دیں گے اور زینب کا آپ سے نکاح ہوگا، اور اس وقت مصلحت بھی یہی تھی کیونکہ اول تو یہ نکاح خلاف مرضی ہونے سے موجب رنج طبعی ہوا تھا پھر اس پر طلاق دینا اور زیادہ موجب کلفت و دل شکنی تھا، اس دل شکنی کا تدارک جس سے حضرت زینب کی اشک شوئی ہوسکتی تھی اس سے بہتر اور کوئی نہ تھا کہ حضور ان سے نکاح کر کے ان کی دلجوئی اور قدر افزائی فرمائیں۔ مگر ساتھ ہی خیال تھا طعن عوام کا، مگر حکم الہی سے نکاح ہوا، جس میں علاوہ مصلحت مذکورہ خاصہ کے مصلحت شرعیہ عامہ یہ تھی کہ متنبی کی زوجہ سے نکاح کی حلت فعل رسول اللہ ﷺ سے بھی ثابت ہوجاوے۔
Top