Bayan-ul-Quran - Faatir : 43
اِ۟سْتِكْبَارًا فِی الْاَرْضِ وَ مَكْرَ السَّیِّئِ١ؕ وَ لَا یَحِیْقُ الْمَكْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ١ؕ فَهَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ١ۚ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا١ۚ۬ وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَحْوِیْلًا
اسْتِكْبَارًا : اپنے کو بڑا سمجھنے کے سبب فِي الْاَرْضِ : زمین (دنیا) میں وَمَكْرَ : اور چال السَّيِّئُ : بری وَلَا يَحِيْقُ : اور نہیں اٹھتا (الٹا پڑتا) الْمَكْرُ : چال السَّيِّئُ : بری اِلَّا : صرف بِاَهْلِهٖ ۭ : اس کے کرنے والے پر فَهَلْ : تو کیا يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار کر رہے ہیں اِلَّا : مگر صرف سُنَّتَ : دستور الْاَوَّلِيْنَ ۚ : پہلے فَلَنْ تَجِدَ : سو تم ہرگز نہ پاؤ گے لِسُنَّتِ اللّٰهِ : اللہ کے دستور میں تَبْدِيْلًا ڬ : کوئی تبدیلی وَلَنْ تَجِدَ : اور تم ہرگز نہ پاؤ گے لِسُنَّتِ اللّٰهِ : اللہ کے دستور میں تَحْوِيْلًا : کوئی تغیر
دنیا میں اپنے کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے اور ان کی بری تدبیروں کو (ف 8) اور بری تدبیروں کا وبال (حقیقی) ان تدبیر والوں ہی پر پڑتا ہے سو کیا یہ اسی دستور کے منتظر ہیں جو اگلے (کافر) لوگوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے (ف 9) سو آپ خدا کے (اس) دستور کو کبھی بدلتا ہوا نہ پاویں گے اور آپ خدا کے دستور کو کبھی منتقل ہوتا ہوا نہ پاویں گے۔ (ف 10)
8۔ یعنی تکبر کی وجہ سے آپ کے اتباع سے عار تو ہوئی ہی تھی مگر یہ بھی نہ کیا کہ نہ اتباع ہوتا اور نہ درپے ایذاء ہوتے، بلکہ آپ کی ایذاء رسانی کی فکر میں لگ گئے۔ چناچہ ہر وقت ان کا اسی میں لگا رہنا معلوم و مشہور ہے۔ 9۔ یعنی سزا و اہلاک۔ 01۔ مطلب یہ کہ حق تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ کافروں کو عذاب ہوگا خواہ دنیا میں بھی خواہ صرف آخرت میں بھی، اور حق تعالیٰ کا وعدہ ہمیشہ سچا ہوتا ہے، پس نہ یہ احتمال ہے کہ ان کو عذاب نہ ہو، نہ یہ احتمال ہے کہ دوسروں کو ہونے لگے، مقصود اس تکریر سے تاکید ہے وقوع عذاب کی۔
Top