Bayan-ul-Quran - An-Nisaa : 65
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
فَلَا وَرَبِّكَ : پس قسم ہے آپ کے رب کی لَا يُؤْمِنُوْنَ : وہ مومن نہ ہوں گے حَتّٰي : جب تک يُحَكِّمُوْكَ : آپ کو منصف بنائیں فِيْمَا : اس میں جو شَجَرَ : جھگڑا اٹھے بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان ثُمَّ : پھر لَا يَجِدُوْا : وہ نہ پائیں فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : اپنے دلوں میں حَرَجًا : کوئی تنگی مِّمَّا : اس سے جو قَضَيْتَ : آپ فیصلہ کریں وَيُسَلِّمُوْا : اور تسلیم کرلیں تَسْلِيْمًا : خوشی سے
پھر قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ ایمان دار نہ ہونگے جبتک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جو جھگڑا واقع ہو اس میں یہ لوگ آپ سے تصفیہ کروایں (ف 3) پھر اس آپ کے تصفیہ سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پاویں اور پورا پورا تسلیم کرلیں۔ (ف 4) (65)
3۔ اور آپ نہ ہوں تو آپ کی شریعت سے۔ 4۔ تحکیم اور عدم حرج اور تسلیم کے مراتب تین ہیں اراعتقاد سے اور زبان سے اور عمل سے۔ اعتقاد سے یہ کہ قانون شریعت کو حق اور موضوع التحکیم جانتا ہے اور اس میں مرتبہ عقل میں ضیق نہیں اور اسی مرتبہ میں اس کو تسلیم کرتا ہوں اور زبان سے یہ کہ ان امور کا اقرار کرتا ہوں کہ حق اسی طرح ہے اور عمل سے یہ کہ مقدمہ لے بھی جاتا ہے اور طبعی ضیق بھی نہیں اور اس فیصلہ کے موافق کاروائی بھی کرلی سواول مرتبہ تصدیق و ایمان کا ہے اس کانہ ہونا عنداللہ کفر ہے اور منافقین میں خود اسی کی کمی تھی چناچہ تنگی کے ساتھ لفظ انکار اسی کی توضیح کے لیے ظاہر کردیا ہے اور دوسرا مرتبہ اقرار کا ہے اس کا نہ ہونا عندالناس کفر ہے تیسرامرتبہ تقوی وصلاح کا ہے اس کانہ ہونافسق ہے اور طبعی تنگی معاف ہے۔ پس آیت میں بقرینہ ذکر منافقین مرتبہ اول مراد ہے۔
Top