Bayan-ul-Quran - An-Nisaa : 76
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۚ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْۤا اَوْلِیَآءَ الشَّیْطٰنِ١ۚ اِنَّ كَیْدَ الشَّیْطٰنِ كَانَ ضَعِیْفًا۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) يُقَاتِلُوْنَ : وہ لڑتے ہیں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) يُقَاتِلُوْنَ : وہ لڑتے ہیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ الطَّاغُوْتِ : طاغوت (سرکش) فَقَاتِلُوْٓا : سو تم لڑو اَوْلِيَآءَ : دوست (ساتھی) الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّ : بیشک كَيْدَ : فریب الشَّيْطٰنِ : شیطان كَانَ : ہے ضَعِيْفًا : کمزور (بودا)
جو لوگ پکے ایمان دار ہیں وہ تو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جو لوگ کافر ہیں شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں تو تم شیطان کے ساتھیوں سے جہاد کرو واقع میں شیطانی تدبیر لچر ہوتی سے۔ (ف 4) (76)
4۔ اوپر جہاد کا وجوب اور اس کے فضائل بیان کرکے اس کی ترغیب تھی آگے دوسرے طور پر اس کی ترغیب ہے یعنی جہاد میں بعض مسلمانوں کے مستعد نہ ہونے پر ان کی ایک لطف آمیز شکایت بھی ہے جس کی بنایہ ہوئی کہ مکہ میں کفار بہت ستاتے تھے اس وقت بعض اصحاب نے جہاد کی اجازت اصرار چاہی مگر اس وقت حکم تھا عفو وصلح کا بعد ہجرت کے جب جہاد کا حکم نازل ہوا تو طبعا بعض کو دشوار ہوا اس پر شکایت فرمائی گئی اور چونکہ بطور انکار یا اعتراض علی الحکم کے نہ تھا بلکہ محض تمنا تھی اور چندے اس حکم کے نہ آنے کی اس لیے توبیخ نہیں محض لطف آمیز شکایت ہے۔
Top