Madarik-ut-Tanzil - Az-Zukhruf : 77
قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ قُلِ اللّٰهُ١ؕ قُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَ لَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا١ؕ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُ١ۙ۬ اَمْ هَلْ تَسْتَوِی الظُّلُمٰتُ وَ النُّوْرُ١ۚ۬ اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ خَلَقُوْا كَخَلْقِهٖ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَیْهِمْ١ؕ قُلِ اللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ وَّ هُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ
قُلْ : پوچھیں آپ مَنْ : کون رَّبُّ السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کا رب وَالْاَرْضِ : اور زمین قُلِ : کہ دیں اللّٰهُ : اللہ قُلْ : کہ دیں اَفَاتَّخَذْتُمْ : تو کیا تم بناتے ہو مِّنْ دُوْنِهٖٓ : اس کے سوا اَوْلِيَآءَ : حمایتی لَا يَمْلِكُوْنَ : وہ بس نہیں رکھتے لِاَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں کے لیے نَفْعًا : کچھ نفع وَّلَا ضَرًّا : اور نہ نقصان قُلْ : کہ دیں هَلْ : کیا يَسْتَوِي : برابر ہوتا ہے الْاَعْمٰى : نابینا (اندھا) وَالْبَصِيْرُ : اور بینا (دیکھنے والا) اَمْ : یا هَلْ : کیا تَسْتَوِي : برابر ہوجائے گا الظُّلُمٰتُ : اندھیرے (جمع) وَالنُّوْرُ : اور اجالا اَمْ : کیا جَعَلُوْا : وہ بناتے ہیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے شُرَكَآءَ : شریک خَلَقُوْا : انہوں نے پیدا کیا ہے كَخَلْقِهٖ : اس کے پیدا کرنے کی طرح فَتَشَابَهَ : تو مشتبہ ہوگئی الْخَلْقُ : پیدائش عَلَيْهِمْ : ان پر قُلِ : کہ دیں اللّٰهُ : اللہ خَالِقُ : پیدا کرنیوالا كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے وَّهُوَ : اور وہ الْوَاحِدُ : یکتا الْقَهَّارُ : زبردست (غالب)
تو خدا نے اس کا انجام یہ کیا کہ اس روز تک کے لئے جس میں وہ خدا کے رو برو حاضر ہوں گے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا اس لئے کہ انہوں نے خدا سے جو وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کیا اور اس لئے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔
پھر جب مال سے نفاق دل میں گھر گیا : آیت 77: فَاَعْقَبَھُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِھِمْ (پس اللہ تعالیٰ نے ان کی سزا میں ان کے دلوں میں نفاق قائم کردیا) بخل نے ان کے دلوں میں نفاق کو پختہ کردیا کیونکہ نفاق کا وقتی سبب یہی بنا۔ اِلٰی یَوْمِ یَلْقَوْنَہٗ (جو اللہ تعالیٰ کے پاس جانے کے دن تک رہے گا) اپنے فعل کی سزا پائیں گے وہ دن قیامت کا ہے۔ بِمَآ اَخْلَفُوا اللّٰہَ مَا وَعَدُوْہُ وَبِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ (اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اپنے وعدہ میں خلاف ورزی کی اور اس سبب سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے) اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے جو صدقہ، صلاح کا وعدہ کیا تھا اس کی خلاف ورزی کی تو جھوٹے ثابت ہوگئے۔ اسی لئے وعدہ خلافی کو نفاق کا تیسرا حصہ کہا جاتا ہے۔
Top