Dure-Mansoor - Yunus : 16
قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَیْكُمْ وَ لَاۤ اَدْرٰىكُمْ بِهٖ١ۖ٘ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
قُلْ : آپ کہہ دیں لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ : اگر چاہتا اللہ مَا تَلَوْتُهٗ : نہ پڑھتا میں اسے عَلَيْكُمْ : تم پر وَلَآ اَدْرٰىكُمْ : اور نہ خبر دیتا تمہیں بِهٖ : اس کی فَقَدْ لَبِثْتُ : تحقیق میں رہ چکا ہوں فِيْكُمْ : تم میں عُمُرًا : ایک عمر مِّنْ قَبْلِهٖ : اس سے پہلے اَفَلَا : سو کیا نہ تَعْقِلُوْنَ : عقل سے کام لیتے تم
آپ فرما دیجئے کہ اگر اللہ چاہتا تو میں تم لوگوں پر اس کی تلاوت نہ کرتا اور نہ تمہیں اللہ اس کی اطلاع دیتا، سو میں تمہارے درمیان اس سے پہلے عمر کے ایک بڑے حصہ تک رہ چکا ہوں کیا تم سمجھ نہیں رکھتے
1:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولا ادرکم بہ “ نہ ہی تم کو اس بارے میں بتایا۔ 2:۔ ابو الشیخ (رح) نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولا ادرکم بہ “ یعنی وہ تم کو اس کا شعور دلاتا۔ 3:۔ ابو عبید وابن جریر وابن منذر رحمہم اللہ نے حسن ؓ سے رویت کیا کہ وہ اس کو یوں پڑھتے تھے (آیت) ” ولا ادرکم بہ “ یعنی ہمزہ کے ساتھ فراء نے کہا میں نہیں جانتا کہ یہ جائز ہے (دریت سے اور نہ ادریت سے) مگر یہ کہ حسن نے کہ اس کو دیا ہے ان طبیعت کے مطابق کیونکہ عرب کبھی غلل کرجاتے ہیں اور وہاں ہمزہ پڑھتے ہیں جہاں ہمزہ نہ ہو۔ 4:۔ سعید بن منصور وابن جریر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس کو یوں پڑھا کرتے تھے (آیت) ” قل لو شآء اللہ ما تلوتہ علیکم ولا ادرکم بہ “ 5:۔ ابن جریر وابو الشیخ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولا ادرکم بہ “ کہ تم کو اس کے ذریعہ نہ ڈراتا۔ 6:۔ ابن ابی حاتم و ابوالشیخ (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ “ (میں تو تمہارے درمیان اس سے پہلے عمر کا ایک حصہ گزر چکا ہوں) یعنی میں نے تم پر تلاوت کی اور نہ میں نے ذکر کیا۔ 7:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ “ یعنی چالیس سال (ان کے درمیان) رہے آپ کے پاس وحی آنے سے پہلے اور آپ نے دو سال خواب دیکھے پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی بھیجی دس سال مکہ میں اور دس سال مدینہ منورہ میں اور آپ نے باسٹھ یا تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی۔ 8:۔ ابن ابی شیبہ والبخاری والترمذی رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی چالیس سال کے بعد بعثت ہوئی (یعنی نبوت ملی) مکہ مکرمہ میں تیرہ سال ٹھہرنے کے ان کی طرف وحی کی جاتی تھی پھر ہجرت کا حکم دیا گیا تو اور آپ دس سال ہجرت فرما رہے اور آپ نے تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی۔ نبوت چالیس سال کی عمر میں ہوئی۔ 9:۔ احمد والبیہقی (رح) نے دلائل میں انس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کس عمر میں نبی کریم ﷺ کو مبعوث کیا گیا۔ (یعنی نبوت عطا کی گئی) تو انہوں نے فرمایا کہ چالیس سال کی عمر تھی۔ 10:۔ بیہقی نے دلائل میں شعبی (رح) سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ پر چالیس سال کی عمر میں نبوت کو نازل کیا گیا یعنی تین سال تک آپ کو نبوت کے ساتھ اسرافیل (علیہ السلام) متصل رہے اور آپ کو حکمت اور دوسری چیزیں سکھاتے تھے اور (ابھی) قرآن نازل نہیں ہوا تھا جب تین سال گزر گئے تو ان کی نبوت کے ساتھ جبرئیل (علیہ السلام) منسلک ہوئے پھر آپ کو زبان پر بیس سال قرآن نازل ہوا دس سال مکہ میں اور دس سال مدینہ منورہ میں۔ 11:۔ ابن ابی شیبہ (رح) نے حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ چالیسویں سال کے شروع میں رسول اللہ ﷺ کو نبوت ملی آپ مکہ میں دس سال رہے اور مدینہ میں دس سال رہے اور ساٹھ سال کی عمر میں آپ نے وفات پائی۔
Top