Dure-Mansoor - Hud : 114
وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ١ؕ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِ١ؕ ذٰلِكَ ذِكْرٰى لِلذّٰكِرِیْنَۚ
وَاَقِمِ : اور قائم رکھو الصَّلٰوةَ : نماز طَرَفَيِ : دونوں طرف النَّهَارِ : دن وَزُلَفًا : کچھ حصہ مِّنَ : سے (کے) الَّيْلِ : رات اِنَّ : بیشک الْحَسَنٰتِ : نیکیاں يُذْهِبْنَ : مٹا دیتی ہیں السَّيِّاٰتِ : برائیاں ذٰلِكَ : یہ ذِكْرٰي : نصیحت لِلذّٰكِرِيْنَ : نصیحت ماننے والوں کے لیے
اور دن کے دونوں طرفوں میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیجئے بیشک نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہے۔ یہ نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کے لئے
1:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” واقم الصلوۃ طرفی النھار “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مغرب اور صبح کی نماز مراد ہے (اور) (آیت) ” وزلفا من الیل “ سے عشاء کی نماز مراد ہے۔ 2:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” واقم الصلوۃ طرفی النھار “ سے فجر اور عصر کی نماز مراد ہے (آیت) ” وزلفا من الیل “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ دونوں رات کے حصے ہیں مغرب اور عشاء کی نمازیں اور رسول اللہ ﷺ نے بھی فرمایا کہ یہ دونوں رات کے دو حصوں میں ہیں۔ پانچوں نمازوں کا حکم قرآن میں ہے : 3:۔ عبدالرزاق وابن جریر وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” واقم الصلوۃ طرفی النھار “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد فجر کی نماز اور عشاء کی نمازیں ہیں یعنی ظہر اور عصر کی نمازیں (آیت) ” وزلفا من الیل “ سے مغرب اور عشاء کی نماز مراد ہے۔ 4:۔ ابن منذر وابو الشیخ (رح) نے مجاہد سے روایت کیا کہ (آیت) ” وزلفامن الیل “ سے مراد ساعۃ بعد ساعۃ ہے یعنی ایک ساعت کے بعد دوسری ساعت تو اسے مراد ہے عشاء کی نماز۔ 5:۔ سعید بن منصور وابن جریر وابن ابی حاتم وابن مردویہ والبیہقی نے اپنی سنن میں ابن عباسؓ سے روایت کیا کہ عشاء کی نماز میں تاخیر کرنا مستحب ہے اور یہ آیت پڑھتے تھے (آیت) ” وزلفا من الیل “۔ 6:۔ وابن جریر ومحمد بن نصر وابن مردویہ رحمہم اللہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان الحسنت یذھبن السیات “ میں حسنات سے مراد پانچویں نمازیں ہیں۔ 7:۔ عبدالرزاق والفریابی وابن ابی شیبہ محمد بن نصر وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان الحسنت یذھبن السیات “ سے پانچویں نمازیں مراد ہیں۔ اور (آیت) ” والبقیت الصلحت “ (کہف آیت 46) سے بھی پانچویں نمازیں مراد ہیں۔ 8:۔ ابن حبان (رح) نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ایک باغ میں میں ایک عورت سے ملا میں نے اس کو اپنے ساتھ چمٹا لیا اس کا بوسہ لیا اور میں نے اس سے مباشرت کی۔ اور میں نے اس کے ساتھ سب کیا سوائے اس کہ میں نے اس سے جماع نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی (آیت) ” واقم الصلوۃ طرفی النھار وزلفا من الیل ان الحسنت یذھبن السیات ذلک ذکری للذکرین (114) رسول اللہ ﷺ نے اس کو بلایا اور اس پر یہ آیت پڑھی۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کی یہ حکم خاص کر اس کے لئے ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلکہ سب لوگوں کے لئے ہے۔ 9:۔ احمد والبخاری ومسلم والترمذی والنسائی وابن ماجہ وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ ابن حبان رحمہم اللہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے ایک عورت کا بوسہ لیا (پھر) رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور یہ بات ان سے ذکر کی گویا کہ وہ اس کے کفارے کا سوال کررہا تھا۔ تو یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” واقم الصلوۃ طرفی النھار وزلفا من الیل ان الحسنت یذھبن السیات “ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا یہ (صرف) میرے لئے ہے آپ نے فرمایا بلکہ میری امت میں سے ہر اس شخص کے لئے ہے جو ایسا عمل کرے۔ نماز گناہوں کا کفارہ ہے : 10:۔ عبدالرزاق واحمد ومسلم وابوداود ولاترمذی والنسائی وھنادابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابن حبان والطبرانی وابوالشیخ وابن مردویہ والبیہقی نے شعب الایمان میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا یارسول اللہ ﷺ میں نے ایک عورت کو باغ میں پایا میں اس کے ساتھ سوائے جماع کے ہر کام کیا۔ میں نے اس کا بوسہ لیا اس کو اپنے ساتھ چمٹا لیا اور اس کے علاوہ میں نے کوئی کام نہیں کیا میرے ساتھ (جومعاملہ) کریں جو آپ چاہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے کچھ نہیں فرمایا تو وہ آدمی چلا گیا عمر ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ کو چھپایا تھا اگر یہ اپنے گناہ کو چھپا لیتا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے نظر کو پیچھے لگا لیا اور فرمایا میرے پاس اس کو لے آؤ وہ واپس آیا تو آپ نے اس پر یہ (آیت) پڑھی ” واقم الصلوۃ طرفی النھار “ الآیہ معاذ بن جبل نے فرمایا یا رسول اللہ ! کیا یہ (حکم) اس اکیلے کے لئے ہے یا سب لوگوں کے لئے ؟ آپ نے فرمایا بلکہ سب لوگوں کے لئے۔ 11:۔ ترمذی نے اور آپ نے اس کو حسن کہا والبزار وابن جریر وابن مردویہ رحمہم اللہ ابو السیر ؓ سے روایت کیا کہ میرے پاس ایک عورت آئی میں کھجوریں بیچ رہا تھا میں نے اس سے کہا گھر میں اس سے اچھی کھجوریں رکھی ہیں وہ عورت میرے ساتھ (کھجوریں خریدنے کے لئے) گھر میں داخل ہوئی میں اس کی طرف جھک پڑا اور اس کا بوسہ لیا۔ میں ابوبکر ؓ کے پاس آیا یہ بات میں نے ان کو بتائی تو انہوں نے فرمایا یہ بات اپنے دل میں چھپالے اور توبہ کرلے پھر میں عمر ؓ کے پاس آیا اور ان کو یہ بات بتائی تو انہوں نے فرمایا یہ بات اپنے دل میں چھپالے اور توبہ کرلے اور کسی کو خبر نہ کر۔ مجھ سے صبر نہ ہوا تو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور ان کو یہ بات بتائی آپ نے فرمایا کیا تجھے ایسے عمل کے لئے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کا نائب اور اس کا قائم مقام بنایا گیا ہے ؟ یہاں تک کہ اس نے یہ آرزو کی تھی کہ میں مسلمان نہ ہوتا مگر اس وقت یہاں تک کہ اس نے یہ گمان کیا کہ وہ دوزخ والوں میں سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ طویل وقت تک سرجھکائے رکھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی فرمائی (آیت) ” واقم الصلوۃ طرفی النھار وزلفا من الیل “ سے لے کر ” للذکرین “ تک۔ ابوالیسر ؓ نے کہا پھر میں حاضر خدمت ہوا تو آپ نے مجھ پر یہ آیتیں پڑھیں۔ تو آپ کے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ خاص (حکم) اس کے لئے ہے آپ نے فرمایا بلکہ سارے لوگوں کے لئے۔ 12:۔ احمد ومسلم وابو داود والنسائی وابن خزیمہ وابن جریر والطبرانی وابن مردویہ رحمہم اللہ نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھ پر حد قائم کیجئے ایک مرتبہ یا دو مرتبہ آپ نے اس سے اعراض فرمایا پھر نماز کھڑی ہوگئی جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا وہ آدمی کہاں ہے ؟ اس نے کہا میں ہوں آپ نے فرمایا کیا تو نے پورا وضو کیا اور ابھی تو نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ؟ عرض کیا ہاں ! فرمایا تو اپنی غلطی (یعنی اپنے گناہ) سے ایسا پاک ہوچکا ہے جیسے کہ تیری ماں نے آج تجھ کو جنا ہے پھر اس گناہ کو نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت رسول اللہ ﷺ پر یہ (آیت) ” واقم الصلوۃ طرفی النھار “ اتاری۔ 13:۔ احمد والترمذی والنسائی وابن جریر وابوالشیخ والدارقطنی والحاکم وابن مردویہ رحمہم اللہ نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا آپ کیا فرماتے ہیں اس آدمی کے بارے میں جو ایک ایسی عورت سے ملا جس کو وہ نہ پہنچانتا تھا۔ پھر وہ آدمی جو کچھ اپنی بیوی سے کرتا ہے۔ وہی کچھ اس نے اس عورت کے ساتھ کیا۔ سوائے جماع کے تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت اتاری) (آیت) ” واقم الصلوۃ طرفی النھار “ نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا تو وضو کر اچھا وضو پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھ (تو تیرا گناہ انشاء اللہ معاف ہوجائے گا) معاذ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا یہ (حکم) اس کے لئے خاص کر یا سب ایمان والوں کے لئے ہے آپ نے فرمایا سب ایمان والوں کے لئے عام ہے۔ 14:۔ احمد وابن جریر والطبرانی وابن مردویہ رحمہم اللہ نے ابن عباسؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ ایک عورت آئی وہ مجھ سے خریدو فروخت کرنا چاہتی تھی۔ لیکن میں نے اس کو (اپنے گھر میں) داخل کرلیا اور میں اس سے ہر کام کو پہنچا سوائے جماع کے آپ نے فرمایا شاید کہ وہ عورت اللہ کے راستے میں گھر سے نکلی ہوئی ہے۔ اس نے کہا میں ایسا ہی خیال کرتا ہوں آپ نے فرمایا اندر داخل ہوجا۔ وہ داخل ہوا تو قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” واقم الصلوۃ طرفی النھار وزلفا من الیل “ الآیہ اس آدمی نے کہا کیا یہ (حکم) خاص میرے لئے ہے یا عام ایمان والوں کے لئے ؟ حضرت عمر ؓ نے اس کے سینے میں مارا اور فرمایا نہیں، کہ نعمت خاص نہیں ہوتی لیکن سب مومنین کے لئے ہوتی ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے اور فرمایا عمر ؓ نے سچ کہا یہ عام مومنین کے لئے ہے۔ 15:۔ الطبرانی (رح) نے الاوسط میں وابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک عورت کو اس کے نفس کے بغیر پایا (یعنی جما ع کے سوا اس کے ساتھ اور کام کئے) تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” واقم الصلوۃ “ پوری آیت۔ 16:۔ البراز وابن مردویہ والبیہقی رحمہم اللہ نے شعب الایمان میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی ایک عورت سے محبت کرتا تھا۔ ایک ضرورت کے لئے اس نے نبی کریم ﷺ سے اجازت لی۔ آپ نے اس کو اجازت دیدی تو وہ بارش کے دن میں چل پڑا۔ اچانک اس کی نظر ایک عورت پر پڑی جو پانی کے تالاب میں غسل کررہی تھی یہ آدمی عورت کے اس جگہ پر بیٹھ گیا جہاں ایک آدمی (جماع کے لئے) بیٹھا کرتا ہے۔ اور اس کا ذکر (یعنی عضو خاص) حرکت کرنے لگا۔ اچانک وہ دیکھتا ہے گویا کہ (اس کا ذکر) کپڑے پھندنا (یعنی جھالر) ہے تو اس پر اسے خودندامت ہوئی (اور جماع نہیں کیا) اور نبی کریم ﷺ کے پاس آکر اس بات کو ذکر کیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا چار رکعت نماز پڑھ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” واقم الصلوۃ طرفی النھار “ 17:۔ ابن مردویہ (رح) نے بریرہ ؓ سے روایت کیا کہ انصار میں سے ایک عورت ایک ایسے آدمی کے پاس آئی جو کھجوریں بیچتا تھا مدینہ منورہ میں۔ عورت بڑی خوبصورت تھی۔ جب اس نے اس عورت کی طرف دیکھا تو اس کو اچھی لگی اور (اس عورت سے) کہا میں مناسب خیال نہیں کرتا جو کھجوریں یہاں میرے پاس ہیں وہ تیرے لئے زیادہ پسندیدہ ہوں لیکن گھر میں تیری حاجت کے مطابق ہیں وہ عورت اس کے ساتھ چلی یہاں تک کہ جب وہ داخل ہوگئی تو اس نے اسے اپنے نفس پر قدرت دینے کو کہا (یعنی اس کو جماع پر آمادہ کیا) تو اس نے انکار کردیا اور اسے قسمیں دینے لگی اور وہ آدمی اس کو پہنچا (یعنی اس سے بوس وکنار وغیرہ کی) سوائے اس سے جماع کرنے کے (پھر) یہ آدمی چلا اور اس کام پر نادم ہوا جو اس نے کیا یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور ان کو (سارا واقعہ) بتایا آپ نے فرمایا کس چیز نے تجھے اس کام پر نادم کیا اس نے کہا شیطان نے آپ نے اس سے فرمایا ہمارے ساتھ نماز پڑھ اور یہ (آیت) ” واقم الصلوۃ طرفی النھار نازل ہوئی اور فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ہے صبح، ظہر اور عصر کی نماز ” وزلفا من الیل “ یعنی مغرب اور عشاء کی نمازیں (آیت) ” ان الحسنت یذھبن السیات “ لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ کیا یہ حکم خاص اس کے لئے ہے یا لوگوں کے لئے عام ہے فرمایا کہ یہ سب لوگوں کے لئے عام ہے۔ گناہ پر نادم اور پشمان ہونا :ـ۔ 18:۔ ابن جریر (رح) نے عطا بن رباح (رح) سے روایت کیا کہ ایک عورت ایک ایسے آدمی کے پاس آئی جو آٹا فروخت کرتا تھا تاکہ اس سے آٹا خریدے اس نے عورت کو اندر داخل کرلیا۔ جب خلوت ہوئی تو اس نے اس کا بوسہ لیا پھر وہ نادم اور پشمان ہوا۔ پھر ابی ؓ کی طرف چل پڑا اور ان کو یہ بات بتائی تو انہوں نے کہا تو غور کر کہ وہ کسی جہاد کرنے والے کی عورت تو نہ ہو۔ ہم اس بات پر سوچ بچار کررہے تھے کہ اس بارے میں یہ (آیت) ” واقم الصلوۃ طرفی النھار وزلفا من الیل “ نازل ہوئی عطا سے پوچھا گیا کیا یہ فرض نماز ہے تو انہوں نے جواب دیا فرمایا ہاں۔ 19:۔ ابن جریر (رح) نے ابراہیم نخعی ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی فلاں بن مقیب انصار کا آدمی آیا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ میں ایک عورت پر داخل ہوا اور میں نے اس سے وہ کام کیا (یعنی بوس وکنار کیا) جیسے آدمی اپنی بیوی سے کرتا ہے۔ سوائے اس کے کہ میں نے اس سے جماع نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے کوئی جواب نہیں پایا یہاں تک کہ یہ (آیت) ” واقم الصلوۃ طرفی النھار “ نازل ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو بلوایا اور اس پر (یہ آیتیں) پڑھیں۔ 20:۔ ابن جریر (رح) نے سلیمان تیمی (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے ایک عورت کے چوتڑ پر مارا پھر ابوبکر اور عمر ؓ کے پاس آیا اور ان سے اس کے کفارہ کے بارے میں پوچھا ان میں سے ہر ایک نے کہا میں نہیں جانتا پھر نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا تو آپ نے فرمایا میں بھی نہیں جانتا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” واقم الصلوۃ “ (الآیہ) 21:۔ ابن جریر (رح) نے یزید بن رومان (رح) سے روایت کیا کہ بنوتمیم میں سے ایک آدمی کے پاس ایک عورت آئی اس نے اس کا بوسہ لیا اور اپنے ہاتھ کو اس کے چوتڑ پر رکھا پھر ابوبکر ؓ ، عمر ؓ سے ہو کر نبی کریم ﷺ کے پاس آیا۔ تو یہ (آیت) ” واقم الصلوۃ “ سے لے کر (آیت) ” ذلک ذکری للذکرین “ تک نازل ہوئی۔ وہ آدمی جس نے عورت کا بوسہ لیا تھا وہ ہمیشہ نصیحت کرتا رہا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ذلک ذکری للذکرین “ 22:۔ عبدالرزاق وابن جریر (رح) نے یحی بن جعدہ (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی یہ ارادہ لے کر آیا کہ نبی کریم ﷺ کو بارش کی خوشخبری دے (راستے میں) اس نے ایک عورت کو پانی کے جوہڑ پر بیٹھے ہوئے پایا اس کے دل میں (کوئی بات) واقع ہوئی اور وہ اس عورت کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا اس کا ذکر (یعنی عضوخاص) کپڑے کی پھندنے کی طرح ہوگیا (یعنی وہ جماع نہ کرسکا) وہ کھڑا ہوگیا اور نبی کریم ﷺ کے پاس آکر ان کو (ساری بات) بتائی جو کچھ اس نے کیا آپ نے اس سے فرمایا اپنے رب سے استغفار کر اور چار رکعت نماز پڑھ اور اس پر یہ (آیت) ” واقم الصلوۃ طرفی النھار “ تلاوت فرمائی۔ 23:۔ الطیالسی واحمد والدارمی وابن جریر والطبرانی والبغوی نے اپنی معجم میں وابن مردویہ رحمہم اللہ نے سلمان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے درخت کی ایک خشک ٹہنی لی اس کو حرکت دی یہاں تک کہ اس کے سارے پتے گرگئے پھر فرمایا مسلمان جب وضو کرتا ہے اور اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر پانچ نمازیں پڑھتا ہے تو اس کے گناہ ایسے گرجاتے ہیں جیسے یہ پتے گرگئے۔ پھر یہ (آیت) ” واقم الصلوۃ طرفی النھار “ سے لے کر ” للذکرین “ تک تلاوت فرمائی۔ 24:۔ ابن جریر والطبرانی وابن مردویہ رحمہم اللہ نے ابو مالک اشعری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نمازوں کو گناہوں کا کفارہ بنادیا جو ان کے درمیان ہوئے ہوں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت ) ” ان الحسنت یذھبن السیات “ 25:۔ احمد وابن مردویہ رحمہما اللہ نے ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر نماز اپنے سامنے والے گناہوں کو گرا دیتی ہے۔ ایک نماز دوسری نماز تک گناہوں کا کفارہ ہے : 26:۔ احمد والبزار وابویعلی وابن جریر وابن منذر ابن ابی حاتم وابن مردویہ رحمہم اللہ نے ایک صحیح سند سے عثمان ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا پھر آپ نے فرمایا جس نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا پھر کھڑے ہوئے اور ظہر کی نماز پڑھی تو اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے جو اس (نماز) اور صبح کی نماز کے درمیان ہوئے پھر اس نے عصر کی نماز پڑھی اور فرمایا معاف کردیے گئے وہ گناہ جو اس (نماز) اور ظہر کی نماز کے درمیان ہوئے۔ پھر آپ نے مغرب کی نماز پڑھی اور فرمایا کہ بخش دیئے گئے ہو (گناہ) جو اس (نماز) اور عصر کی نماز کے درمیان ہوئے۔ پھر آپ نے عشاء کی نماز پڑھی اور فرمایا کہ بخش دیئے گئے وہ (گناہ) جو عشاء اور مغرب کی نماز کے درمیان ہوئے پھر وہ رات اس حال میں گزارتا ہے کہ وہ طرح طرح کے غلط کام کرتا ہے اپنی رات میں پھر اگر وہ کھڑا ہوا وضو کیا اور صبح کی نماز پڑھی تو بخش دیئے جائیں گے اس کے (گناہ) جو صبح اور عشاء کی نماز کے درمیان ہوئے۔ اور وہ نیکیاں ہیں جو برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ لوگوں نے کہا یہ تو نیکیاں ہیں اور باقیات کیا ہیں۔ اے عثمان ! فرمایا وہ ” لا الہ الا اللہ، سبحن اللہ والحمدللہ واللہ اکبر اور ” لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم “ ہیں 27:۔ بخاری ومسلم وابن مردویہ رحمہم اللہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم بتاؤ تم میں سے کسی کے دروازے پر ایک نہربہہ رہی ہو جس میں وہ ہر دن پانچ مرتبہ غسل کرے کیا کوئی میل اس پر باقی رہے گی ؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ باقی نہیں رہے گی۔ فرمایا اسی طرح پانچوں نمازیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ گناہوں اور خطاوں کو مٹا دیئے ہیں۔ 28:۔ احمد (رح) نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نہیں مٹاتے برائی کو برائی سے لیکن برائی کو نیکی سے مٹاتے ہیں۔ 29:۔ الحکیم الترمذی والطبرانی وابن مردویہ رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میں نے کسی چیز کو نہیں دیکھا جو پرانی برائی کی جگہ نئی نیکی سے بڑھ کر طلب اور ادراک کے لحاظ سے زیادہ حسین ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت) ” ان الحسنت یذھبن السیات “۔ 30:۔ احمد (رح) نے معاذ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا اے معاذ ہر برائی سے پیچھے لے آ نیکی کو (یعنی ہر برے کام کے بعد نیک کام کرے) وہ اس (برے کام کو مٹا دے گی ) ۔ 31:۔ احمد وابن مردویہ والبیہقی (رح) نے الاسماء والصفات میں ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ مجھ کو وصیت فرمائیے آپ نے فرمایا اللہ سے ڈر جب تو کوئی برا کام کرے تو اس کے پیچھے نیک کام کرے تو وہ اس کو مٹا دے گا راوی نے کہا پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا ” لا الہ الا اللہ “ نیکیوں میں سے ہے آپ نے فرمایا یہ تو افضل نیکیوں میں سے ہے۔ 32:۔ ابویعلی (رح) نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو بندہ ” لا الہ الا اللہ رات میں یا دن میں سے کسی وقت کہتا ہے تو اس کے اعمال نامہ میں سے برائیاں مٹادی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ اس کی مثل نیکیوں سے وہاں نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ 33:۔ بزار (رح) نے انس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ میں نے کسی بڑی یا چھوٹی ضرورت کو نہیں چھوڑا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں اس نے کہا ہاں آپ نے فرمایا یہ آدمی (قیامت کے دن) اسی گواہی پر اٹھے گا۔ برائی کے بعد نیکی برائی کو مٹا دیتی ہے :۔ 34:۔ ابن مردویہ (رح) نے عقبہ بن عامر ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ایسے شخص کی مثال جو برائیوں کے پیچھے نیک عمل کرتا ہے۔ اس شخص کی طرح ہے جس پر لوہے کی تنگ زرہ ہو قریب ہے کہ اس کا گلا گھونٹ دے پس جب اس نے وہ نیک عمل کیا تو اس نے اس کی ایک گرہ کھول دی۔ یہاں تک کہ اس کی ساری گرہیں کھول دے گا۔ 35:۔ الطبرانی (رح) نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ نماز نیکیوں میں سے ہے اور کفارہ ہے (ان گناہوں کا) پہلی نماز سے لے کر عصر کی نماز تک جو گناہ ہوئے یعنی ان کا کفارہ نماز عصر ہے۔ اور عصر کی نماز سے مغرب کے درمیان جو گناہ ہوئے ان کا کفارہ مغرب کی نماز ہے۔ اور مغرب اور عشاء کے درمیان کا کفارہ یعنی عشاء کی نماز ہے پھر (عشاء کی نماز کے بعد) ایک مسلمان اپنے بستر پر آتا ہے اس حال میں کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا جب تک کہ بڑے گناہوں سے بچتا رہے۔ پھر (یہ آیت) ان الحسنت یذھبن السیات “ پڑھی۔ 36:۔ الطبرانی (رح) نے الاوسط والصغیر میں حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کی ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے اپنی بات دھرائی نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا تو نے ہمارے ساتھ یہ نماز نہیں پڑھی اور تو نے اس کے لئے اچھے طریقے سے وضو نہیں کیا تھا اس نے کہا کیوں نہیں فرمایا یہ کفارہ ہے اس (گناہ) کا ) ۔ 37:۔ مالک وابن حبان (رح) نے عثمان بن عفان ؓ سے روایت کیا کہ میں ضرور تم کو ایسی حدیث بیان کروں گا اگر وہ آیت کتاب اللہ میں نہ ہوتی تو میں تم سے اس کو بیان نہ کرتا۔ پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو آدمی وضو کرتا ہے اور اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر نماز پڑھتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ بخش دیتے ہیں اس کے گناہوں کو جو اس نماز اور دوسری نماز کے درمیان ہوئے یہاں تک کہ (دوسری) نماز کو پڑھ لیتا ہے۔ مالک نے فرمایا کہ اس کے بارے میں میرا یہ خیال ہے کہ آپ کی مراد یہ آیت ہے (آیت) ” واقم الصلوۃ طرفی النھار وزلفا من الیل ان الحسنت یذھبن السیات “۔ 38:۔ ابن حبان (رح) نے واثلہ بن اسقع ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ میں حد کو پہنچا ہوں مجھ کو قائم کیجئے۔ آپ نے اس سے منہ پھیرلیا پھر نماز کھڑی ہوگئی۔ جب نماز سے سلام پھیرلیا تو پھر اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میں حد کو پہنچا ہوں مجھ کو قائم کیجئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی اس نے کہا ہاں تو آپ نے فرمایا چلا جا اللہ تعالیٰ نے تیری مغفرت فرما دی ہے۔ 39:۔ احمد والبخاری ومسلم رحمہم اللہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس تھا ایک آدمی آیا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ میں ایک حد کو پہنچا ہوں مجھ پر قائم فرمائیے آپ نے اس سے سوال نہیں فرمایا نماز کھڑی ہوئی تو اس نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی جب نماز ختم ہوئی تو وہ آدمی کھڑا ہوا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ میں ایک حد کو پہنچا ہوں اللہ کی کتاب کا فیصلہ مجھ پر قائم فرمائیے آپ نے فرمایا کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی اس نے کہا ہاں ! پھر آپ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تیرے گناہ کو معاف کردیا ہے۔ 40:۔ بزار وابو یعلی ومحمد بن نصر وابن مردویہ رحمہم اللہ نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا پانچوں نمازوں کی مثال ایک جاری نہر کی طرح ہے۔ جو میٹھی اور گہری ہے تم میں سے کسی دروازے پر ہو اور وہ اس میں میں ہر دن پانچ مرتبہ غسل کرتا ہے کیا اس کی میل باقی رہے گی۔ پھر فرمایا اس کی میل اس کا گناہ ہے۔ 41:۔ ابن ابی شیبہ (رح) نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پانچوں نمازوں کی مثال اس جاری نہر کی طرح ہے جو کسی کے دروازہ پر ہو اور وہ اس میں پانچ مرتبہ نہاتا ہو۔ 42:۔ ابن ابی شیبہ (رح) نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پانچوں نمازوں کی مثال اس نہر کی طرح ہے جو تم میں سے کسی کے دروازہ پر جاری ہو اور وہ اس میں پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو تو اس پر کوئی میل باقی نہیں رہے گا۔ 43:۔ ابن ابی شیبہ (رح) نے عبید بن عمیر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پانچوں نمازوں کی مثال اس نہر کی طرح ہے جو کسی کے دروازہ پر جاری ہو اور وہ ہر دن اس میں غسل کرتا ہو تو میل تو کیا کوئی میل اس پر باقی رہے گا۔ 44:۔ احمد وابن خزیمہ ومحمد بن نصر والطبرانی (رح) نے الاوسط میں والحاکم (رح) نے (اور آپ نے اس کو صحیح کہا) اور بیہقی (رح) نے شعب الایمان میں ایک صحیح سند سے عامر بن سعد بن ابی وقاص (رح) سے روایت کیا کہ میں نے سعد اور نبی کریم ﷺ کے اصحاب سے سنا کہ وہ فرماتے تھے دو آدمی جو (آپس میں) بھائی تھے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ان میں سے ایک دوسرے سے افضل تھا۔ ان میں جو افضل وہ مرگیا اور دوسرے نے اس کے بعد چالیس راتیں اور عمر پائی۔ پھر وہ بھی فوت ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ کے سامنے دوسرے پر پہلے کے افضل ہونے کا ذکر کیا گیا آپ نے فرمایا کیا وہ نماز نہیں پڑھتا تھا۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم نہیں جانتے کہ وہ اپنی نماز کے ذریعہ کتنے اجر کو پہنچا ہے پھر آپ نے اس وقت فرمایا بلاشبہ نمازوں کی مثال اس نہر کی طرح ہے جو تم میں سے کسی کے دروازہ پر جاری ہو اور (وہ نہر) گہری اور میٹھی ہو کہ جس میں وہ ہر دن پانچ مرتبہ گھستا ہے (یعنی غسل کرتا ہے) تو کیا تم دیکھتے ہو کہ اس کی میل میں سے کچھ باقی رہے گا 45:۔ الطبرانی (رح) نے ابو امامہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پانچوں نمازوں کی مثال اس میٹھے پانی کی نہر کی طرح ہے جو تم میں سے کسی ایک کے دروازے پر جاری ہو۔ اور اس میں وہ پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو کیا اس پر کوئی میل باقی رہے گا ؟ ہر نماز گناہوں کا کفارہ ہے : 46:۔ ابن ابی شیبہ (رح) نے ابو برزہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی نماز نہیں پڑھتا مگر یہ کہ میں امید کرتا ہوں کہ وہ کفارہ ہوگی اپنے آگے والے گناہوں کی۔ 47:۔ احمد والطبرانی رحمہما اللہ نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو کوئی مسلمان آدمی جب نماز کا وقت ہوجائے تو وہ کھڑا ہو اور اچھی طرح وضو کرے اور اچھی طرح نماز پڑھے تو جو گناہ اس نماز اور اس سے پہلی والی نماز کے درمیان ہوئے وہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ 48:۔ بزار ولطبرانی (رح) نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ پانچوں نمازیں کفارہ ہیں ان گناہوں کا جو ان کے درمیان ہوئے پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم بتاؤ مگر ایک آدمی کوئی کام کرتا ہے اور اس کے گھر اور اس کے کام کرنے کی جگہ کے درمیان پانچ نہریں ہیں جب وہ اپنے کام کرنے کی جگہ پر آیا اور اس نے کام کیا جتنا اللہ نے چاہا اس کو (کام کے درمیان) میل کچیل اور پسینہ پہنچ گیا۔ جب بھی وہ کسی نہر سے گزرا تو اس نے غسل کرلیا تو اس کی میل کچیل باقی رہے گی ؟ اسی طرح نماز ہے جب بھی اس نے کوئی گناہ کا کام کیا پھر نماز پڑھ لی دعا مانگی اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا تو اللہ تعالیٰ اس سے پہلے والے (سب گناہ) معاف کردیں گے۔ 49:۔ بزار (رح) نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پانچوں نمازیں اور ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کفارہ ہے ان گناہوں کا جو ان کے درمیان ہوئے جب تک بڑے گناہوں سے بچتا رہے۔ 50:۔ الطبرانی (رح) نے الاوسط والصغیر میں انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہر نماز کے وقت یہ آواز لگاتا ہے اے آدم کی اولاد ! کھڑے ہوجاؤ اس آگ کی طرف جس کو تم نے جلایا ہے اپنے اوپر (گناہوں کی وجہ سے) اس کو بجھاؤ۔ 51:۔ الطبرانی (رح) نے الکبیر میں عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر نماز کے وقت ایک آواز لگانے والا بھیجا جاتا ہے وہ کہتا ہے کہ آدم کے بیٹے کھڑے ہوتے ہیں اور وضو کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں تو ان کے وہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں جو ان کے درمیان گناہ ہوئے۔ جب عصر کا وقت ہوتا ہے پھر اسی طرح ہوتا ہے جب مغرب کا وقت ہوتا ہے تو پھر اسی طرح ہوتا ہے۔ جب عشاء کا وقت ہوتا ہے تو اسی طرح ہوتا ہے پھر لوگ سو جاتے ہیں اس حال میں کہ ان کی مغفرت ہوچکی ہوتی ہے پس (کوئی) رات کا وقت گزارتا ہے خیر میں اور (کوئی) رات گزارتا ہے برائی میں۔ 52:۔ الطبرانی (رح) نے ابوامامہ باہلی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ فرض نماز دوسری نماز تک اپنے سے پہلے ہونے والے کفارہ بن جاتی ہے۔ جو اس سے پہلے ہوئے اور ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک ان گناہوں کو مٹا دیتا ہے جو اس سے پہلے ہوئے اور رمضان کا مہینہ مٹا دیتا ہے ان گناہوں کو جو اس سے پہلے ہوئے دوسرے رمضان کے مہینہ تک اور ایک حج مٹا دیتا ہے ان گناہوں کو جو اس سے پہلے ہوئے دوسرے حج تک۔ 53:۔ طبرانی (رح) نے ابوبکر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پانچوں نمازیں اور ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک گناہوں کو مٹانے والے ہیں جو ان کے درمیان ہوئے جب تک بڑے گناہوں سے بچتا رہے۔ 54:۔ بزار والطبرانی رحمہما اللہ نے سلمان فارسی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمان نماز پڑھتا ہے اور اس کے گناہ اس کے سر پر بوجھ دیتے ہیں جب بھی سجدہ کرتا ہے تو اس سے گرجاتے ہیں جب وہ اپنی نماز سے فارغ ہوتا ہے تو اس کے گناہ اس سے گر چکے ہوتے ہیں۔ 55:۔ طبرانی (رح) نے الاوسط میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب بندہ نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اس کے گناہ اس کی گردن پر جمع ہوجاتے ہیں جب رکوع کرتا ہے تو متفرق ہوجاتے ہیں۔ 56ـ:۔ الطبرانی (رح) نے الاوسط میں ابودرداء ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو مسلمان کوئی گناہ کرتا ہے پھر وضو کرتا ہے پھر دو یا چار رکعت فرض نماز یا نفل نماز پڑھتا ہے پھر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کردیتے ہیں۔ 57ـ:۔ ابن ابی شیبہ (رح) نے سلمان ؓ سے روایت کیا کہ پانچوں نمازیں ان گناہوں کو مٹانے والی ہیں جو ان کے درمیان ہوئے جب تک وہ بڑے گناہوں سے بچتا رہے۔ 58:۔ ابن ابی شیبہ (رح) نے ابن مسعود ؓ سے مرفوعا اور بزار اور طبرانی نے مرفوعا روایت کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ فرض نمازیں گناہوں کو مٹانے والی ہیں جو ان کے درمیان ہوئے جب تک بڑے گناہوں سے بچتا رہے۔ 59:۔ ابن ابی شیبہ (رح) نے ابوموسی ؓ سے روایت کیا کہ پانچویں نمازوں کی مثال اس نہر کی طرح ہے جو تم میں سے کسی کے دروازہ پر جاری ہو اور وہ اس پر ہر روز پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو تو کیا اس پر کوئی میل کچیل باقی رہے گی ؟ 60:۔ ابن ابی شیبہ (رح) نے ابودرداء ؓ سے روایت کیا کہ پانچوں نمازوں کی مثال اس آدمی کی طرح ہے کہ جس کے دروازہ پر ایک نہر جاری ہو اور وہ اس میں دن میں پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو تو کیا اس پر کوئی میل کچیل باقی رہے گی ؟ س 61:۔ ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہنے ا بو ہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ہر عیب اور گالی کا کفارہ دو رکعتیں ہیں۔ 62:۔ ابن ابی شیبہ والطبرانی رحمہما اللہ نے الکبیر میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ لوگ گناہوں سے جلتے رہتے ہیں جب وہ ظہر کی (نماز) پڑھتے ہیں تو وہ اسے دھوڈالتی ہیں پھر گناہ کی آگ سے جلتے رہتے ہیں جب عصر (کی نماز) پڑھتے ہیں تو وہ اسے دھو ڈالتی ہے پھر ہو گناہوں کی آگ میں جلتے رہتے ہیں جب مغرب کی نماز پڑھتے ہیں تو وہ اسے دھو ڈالتی ہے یہاں تک کہ آپ نے سب نمازوں کا ذکر فرمایا۔ 63:۔ الطبرانی نے الاوسط الصغیر میں عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم لوگ (گناہوں کی آگ سے) جلتے رہتے ہو جب تم صبح کی نماز پڑھتے ہو تو اس کو وہ دھوڈالتی ہے پھر تم گناہوں کی آگ میں جلتے رہتے ہو جب تم ظہر کی نماز پڑھتے ہو تو اس کو دھو ڈالتی ہے پھر تم گناہوں کی آگ میں جلتے رہتے ہو جب تم عصر کی نماز پڑھتے تو وہ اس کو دھوڈالتی ہے پھر تم گناہوں کی آگ سے جلتے رہتے ہو جب تم مغرب کی نماز پڑھتے ہو تو وہ اس کو دھو ڈالتی ہے پھر تم (گناہوں کی آگ سے) جلتے رہتے ہو جب تم عشاء (کی نماز) پڑھتے ہو تو اس کو وہ دھوڈالتی ہے پھر تم سو جاتے ہو اس حال میں کہ کوئی گناہ تم پر نہیں لکھا جاتا یہاں تک کہ تم جاگ جاتے ہو۔ 64:۔ احمد (رح) نے الزہد میں ابوعبیدہ بن جراح ؓ سے روایت کیا کہ جلدی کرو تم نئی نیکیوں میں پرانے گناہوں (کومٹانے) کے لئے اگر تم میں سے کسی نے اتنے گناہ کئے کہ جتنا آسمان و زمین کے درمیان خلا ہے پھر نیک عمل کرلیا تو وہ ان گناہوں کے اوپر ہوگا یہاں تک کہ ان پر غالب آجائے گا۔ 65:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ مدد حاصل کرو پر نے گناہوں پر نئی نیکیوں کے ساتھ تم ہرگز نئی نیکیوں سے بڑھ کر کسی چیز کو نہیں پاوگے پرانے گناہ کو مٹانے کے لئے اور اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے ہے یعنی (آیت) ” ان الحسنت یذھبن السیات “۔ 66ـ:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ذلک ذکری للذکرین “ کے بارے میں فرمایا کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والے ہیں خوشحالی میں تنگ دستی میں نرمی میں، عافیت میں، تکلیف میں۔ 67ـ:۔ ابن منذر (رح) نے ابن جریح (رح) سے روایت کیا کہ جب جھگڑا ہو عورت کی طرف سے تو (اس کو) نصیحت کرو اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ذلک ذکری للذکرین “ (یہ نصیحت ہے نصیحت قبول کرنے والوں کے لئے )
Top