Dure-Mansoor - Hud : 40
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوْرُ١ۙ قُلْنَا احْمِلْ فِیْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَ اَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ وَ مَنْ اٰمَنَ١ؕ وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَهٗۤ اِلَّا قَلِیْلٌ
حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَا جَآءَ : جب آیا اَمْرُنَا : ہمارا حکم وَفَارَ : اور جوش مارا التَّنُّوْرُ : تنور قُلْنَا : ہم نے کہا احْمِلْ : چڑھا لے فِيْهَا : اس میں مِنْ : سے كُلٍّ زَوْجَيْنِ : ہر ایک جوڑا اثْنَيْنِ : دو (نرو مادہ) وَاَهْلَكَ : اور اپنے گھر والے اِلَّا : سوائے مَنْ : جو سَبَقَ : ہوچکا عَلَيْهِ : اس پر الْقَوْلُ : حکم وَمَنْ : اور جو اٰمَنَ : ایمان لایا وَمَآ : اور نہ اٰمَنَ : ایمان لائے مَعَهٗٓ : اس پر اِلَّا قَلِيْلٌ : مگر تھوڑے
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور سے پانی ابلنے لگا تو ہم نے کہا اس کشتی میں ایک ایک نر ایک ایک مادہ (یعنی ہر جنس سے دو عدد) سوار کردو اور اپنے گھروالوں کو بھی سوار کردو سوائے اس کے جس کے بارے میں پہلے سے فیصلہ ہوچکا ہے، اور ان لوگوں کو بھی سوار کرلو جو ایمان لائے ہیں اور ان کے ساتھ کم آدمی ایمان لائے
1:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وفارالتنور “ سے مراد ہے پانی کا (زمین سے چشمے کی صورت میں) پھوٹنا۔ 2:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” وفارالتنور “ کے بارے میں فرمایا کہ جب تو دیکھے اپنے گھروالوں کے تنور کو کہ اس میں سے پانی نکل رہا ہے تو یہ تیری قوم کی ہلاکت اور بربادی کی نشانی ہے۔ 3:۔ ابن جریررحمۃ اللہ علیہ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ یہ تنور پتھر کا تھا ج۔ مردویہ حواعلیہا السلام کا تھا یہاں تک کہ نوح (علیہ السلام) تک جا پہنچا، ان سے کہا گیا جب تو پانی کو دیکھے کہ وہ تنور میں سے نکل رہا ہے تو (کشتی میں) سوار ہوجاؤ تو بھی اور تیرے ساتھی بھی۔ 4:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ والحاکم نے اور آپ نے اس کو صحیح کہا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) کی دعوت اور اس کی قوم کی ہلاکت کے درمیان تین سو سال کا فاصلہ تھا اور ہندوستان میں تنور ابل پڑا تھا اور نوح (علیہ السلام) کی کشتی پورا ہفتہ گھر ہی میں تیرتی رہی۔ 5:۔ ابن ابی حاتمرحمۃ اللہ علیہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وفارالتنور “ کے بارے میں فرمایا وہ چشمہ جو جزیرہ میں ہے وہی عین الوردہ ہے۔ 6:۔ ابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ ایک تنور ابل پڑا مسجد کوفہ میں ابواب کندہ کی جانب سے۔ 7:۔ ابوالشیخ (رح) نے حبۃ العربی (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے علی ؓ کے پاس آخر کہا کہ میں نے ایک سورای (اونٹنی) خرید کی ہے اور میرے پاس خوراک کا سامان ختم ہوگیا ہے۔ اور میں بیت المقدس کا ارادہ رکھتا ہوں تاکہ میں اس میں نماز پڑھوں کیونکہ اس میں ستر نبیوں نے نماز پڑھی اور وہاں سے تنورا ابلا تھا یعنی مسجد کوفہ سے۔ 8:۔ ابو الشیخ (رح) نے شعبی (رح) نے راستہ سے علی ؓ سے روایت کیا کہ اس ذات کی قسم ! جس نے دانے کو پھاڑ اور نرم ونازک کونپل کو نکالا کہ تمہاری یہ مسجد البتہ چوتھی مسجد ہے، مسلمانوں کی چار مسجدوں میں سے اور البتہ اس میں دو رکعت نماز ادا کرنا مجھے زیادہ محبوب ہیں اس کے علاوہ دوسری کسی مسجد میں دس رکعت نماز پڑھنے سے سوائے مسجد حرام اور رسول اللہ ﷺ کی مسجد کے مدینہ منورہ میں اور اس کی دائیں جانب قبلہ رخ تنور ابلا تھا۔ 9:۔ ابوالشیخ (رح) نے سدی بن اسماعیل ہمدانی (رح) سے روایت کیا کہ نوح نے اپنی کشتی کو اس مسجد کے درمیان میں تیار کیا تھا یعنی مسجد کوفہ میں اور اس کے دائیں جانب تنور ابل پڑا اور صحرا اس جگہ سے شاید بارہ میل کی مسافت پر تھا اس کی ایک جانب اور اس میں ایک نماز پڑھنا افضل ہے کسی دوسری مسجد میں چار نمازوں سے سوائے دو مسجدوں، مسجدالحرام اور رسول اللہ ﷺ کی مسجد مدینہ منورہ کے اور اس کی دائیں جانب سے قبلہ رخ پر تنور ابلا تھا۔ تنور سے کیا مراد ہے ؟ 10ـ:۔ سعید بن منصور وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ تنور زمین کی سطح کو کہتے ہیں ان سے کہا گیا جب تم پانی کو سطح زمین پر دیکھو تو آپ بھی اور جو آپ کے ساتھ ہیں وہ بھی سوار ہوجائیں اور عرب کے لوگ زمین کی سطح کو تنور الارض کہتے ہیں۔ 11:۔ ابن الشیخ (رح) نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وفارالتنور “ سے مراد ہے زمین کی سطح۔ 12:۔ عبدبن حمید وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ تنور زمین کی سطح پر اونچے والے حصے کو کہتے ہیں اور یہ نشانی تھی نوح اور درمیان ان کے رب عزوجل کے۔ 13:۔ ابوالشیخ (رح) نے بسطام بن مسلم (رح) سے روایت کیا کہ میں نے معاویہ بن قرہ سے کہا کہ قتادہ ؓ جب اس آیت پر آئے تو فرمایا یہ زمین کی اعلی اور اشرف حصہ ہے اور فرمایا اللہ تعالیٰ زیادہ جاننے والے ہیں لیکن میں نے ان سے دو حدیثیں سنی ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی زیادہ جاننے والے ہیں ان کے بعض نے کہا اس میں سے پانی ابل پڑا اور ان کے بعض نے کہا اس سے آگ بھڑک اٹھی اور (آیت) ” وفارالتنور “ یہ لغت میں تنور ہی ہے۔ 14:۔ ابن جریر وابن منذر رحمہما اللہ نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وفارالتنور “ سے مراد ہے فجر کا طلوع ہونا ان سے کہا گیا جب فجر طلوع ہو تو آپ بھی اور آپ کے ساتھی بھی سوار ہوجائیں۔ 15:ـ۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے علی ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وفارالتنور “ سے مرادد ہے صبح کا روشن ہونا۔ 16:۔ ابو الشیخ (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” احمل فیھا من کل زوجین اثنین “ کے بارے میں فرمایا کہ عرب کے کلام میں نر اور مادہ کو زوجین کہتے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ ہر مخلوق کا جوڑا تھا : 17:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے مسلم بن یسار (رح) سے روایت کیا کہ نوح کو حکم فرمایا کہ دو دو جوڑے ہر ایک (مخلوق) میں سے اپنے ساتھ سوار کرلو اور ان کے ساتھ فرشتہ بھی تھا پس ایک جوڑا جوڑا کرکے پکڑتے رہے رنگوں بچ گیا ابلیس آیا اور کہا یہ سارا میرے لئے ہے، نوح (علیہ السلام) نے فرشتہ کی طرف دیکھا اور فرمایا یہ آپ کا شریک ہے تو اس کی شرکت کا اچھا کیجئے فرمایا ہاں میرے لئے دو تہائی ہے اور اس کے لئے ایک تہائی ہے فرشتے نے کہا بیشک وہ آپ کا شریک ہے تو اس کی شرکت کو اچھا کیجئے فرمایا میرے لئے آدھا اور اس کے لئے آدھا ابلیس نے کہا یہ سارا میرے لئے ہے انہوں نے فرشتے کی طرف دیکھا تو اس نے کہا بیشک وہ آپ کا شریک ہے تو اس کی شراکت کو اچھا کیجئے فرمایا ہاں میرے لئے ایک تہائی اور اس کے لئے دو تہائی اس نے کہا تم نے احسان کیا اور میں بھی بہت نیکی کرنے والا ہوں آپ اس کو انگور کی صورت میں اور کشمش کی صورت میں کھائیں گے اور اس کا جوس بھی پئیں گے تین مسلم نے فرمایا یہ خیال کرتے تھے کہ جب وہ اس طرح انگور کا جوس پئیں گے تو شیطان کے لئے اس میں سے کوئی حصہ نہ ہوگا۔ 18:۔ عبدالرزاق وابن منذر (رح) نے محمد بن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ جب نوح (علیہ السلام) کشتی پر سوار ہوئے تو انہوں نے ہر ایک شے کا نام لکھا جس کو انہوں نے کشتی میں سوار کیا نوح نے فرمایا تو نے لکھ لیا ہے۔ انگور کی بل کی حالانکہ وہ یہاں نہیں ہے ساتھیوں نے کہا آپ نے سچ فرمایا مگر اس کو شیطان لے گیا ہے۔ اور عنقریب اس کو بھیج دیں گے جو اس کو لے آئے گا پھر اس کو لے آیا گیا اور اس کے ساتھ شیطان تھی آیا۔ نوح (علیہ السلام) کو کہا گیا کہ وہ تیرا شریک ہے پس تو اچھا بنا اس کی شرکت کو آگے انہوں نے ماقبل روایت کی طرح بیان کیا (اس بات کو) زیادہ کیا کہ آپ اسے جوس کی طرح پئیں گے اور اس کو پکائیں گے جب اس کے دو ثلث گندگی اور شیطان کے حصہ کے طور پر ختم ہوجائیں اور اس کا ایک تہائی باقی رہ جائے گا تو اس کو پی لو۔ 19:۔ ابن منذر (رح) نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ جب نوح (علیہ السلام) نے شیر کو کشتی میں سوار کیا تو عرض کیا اے میرے رب یہ عنقریب مجھ سے کھانا مانگے گا میں اس کو کہاں سے کھلاوں گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا عنقریب میں اس کو کھانے سے روک دوں گا اللہ تعالیٰ نے اس پر بخار کو مسلط کردیا نوح جب اس کے پاس ایک دنبہ لاتے تھے اسے کہتے تو گھوم وہ کھائے گا شیر جوابا کہتا آہ ہائے افسوس (میں نہیں کھا سکتا) ؎ 20:۔ ابن منذر وابو الشیخ البیہقی نے شعب الایمان میں وابن عساکر وابن البخارنے اپنی تاریخوں میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) شیر کے پاس سے گزرے اور وہ کشتی میں تھا آپ نے اس کے پاوں کے ساتھ ٹھوکر لگائی۔ شیر نے آپ کی پنڈلی پر خراش لگا دی۔ (درد کی وجہ سے) آپ نے رات بھر جاگ کر گزاری اس تکلیف سے نوح (علیہ السلام) رونے لگے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی بھیجی بلاشبہ آپ نے اس پر ظلم کیا کہ ( اس کو ٹھوکر ماری) اور بیشک میں ظلم کو پسند نہیں کرتا۔ 21:۔ ابن عدی وابن عساکر نے ایک اور سند سے حضرت ابن عباس ؓ سے مرفوعا روایت کیا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) شیر کے پاس سے گزرے جو پاوں سمیٹ کر بیٹھا ہوا تھا تو آپ نے اس کو اپنے پاوں کے ساتھ ٹھوکر لگائی شیر نے اپنا سر اٹھایا اور آپ کی پنڈلی پر خراش لگا دی تو وہ ضرب جو اس کے آپ کو لگائی اسی کے سبب رات بھر آپ کو نیند نہ آئی آپ یہ کہنے لگے اے مرے رب تیرے کتے نے مجھے کاٹ لیا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی بھیجی کہ اللہ تعالیٰ ظلم سے راضی نہیں ہوتا اور ابتداء آپ نے کی ہے۔ ابن عدی نے کہا یہ حدیث اس سند کے ساتھ باطل ہے اس میں ایک راوی جعفربن احمد غافقی ہے جو حدیثیں وضع کرتا ہے۔ 22:۔ اسحاق بن بشیر وابن عساکر نے زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا کہ نوح بکری کو کشتی میں داخل کرنا مشکل ہوگیا چناچہ آپ نے اس کی دم پکڑ کر دھکیلا اس لئے اس کی دم ٹوٹ گئی تو وہ دم کٹی ہوگئی اور ظاہر ہوگئی اس کی جائے شرم جب بھیڑ کی باری آئی تو وہ اندر داخل ہوگئی (پھر) آپ نے اس کی دم پر ہاتھ پھیرا تو اس نے اس کی شرم گاہ کو چھپا دیا۔ 23:۔ ابو الشیخ (رح) نے جعفر بن محمد (رح) سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ ہر جنس میں سے نر اور مادہ کو اپنے ساتھ سوار کرلو۔ تو انہوں نے اپنے ساتھ یمن میں سے عجوہ کھجور کا درخت اور بادام کو سوار کرلیا۔ 24:۔ احمد (رح) نے الزہد میں ابو الشیخ (رح) نے وھب بن منبہ سے روایت کیا کہ جب نوح (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ ہر جنس میں سے دو دو جوڑے سوار کرلو عرض کیا میں گائے کو کیسے اٹھاوں گا۔ اور بھیڑ اور بھیڑیئے کو کس طرح سوار کروں گا اور کبوتر اور بلی کے ساتھ کیا کروں گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کے درمیان دشمنی کس نے ڈال دی ہے۔ عرض کیا اے ہمارے رب تو نے ڈالی ہے۔ پھر فرمایا میں ان کے درمیان محبت ڈال دوں گا۔ یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کو ضرر نہیں دیں گے۔ 25:۔ ابن عساکر (رح) نے خالد (رح) سے روایت کیا کہ جب نوح کشتی میں سب کو سوار کرچکے جو سوار کرنا تھا ایک بچھو آیا ایک پاوں پر چلتے ہوئے اور اے اللہ کے نبی مجھے اپنے ساتھ داخل کرلیجئے نوح (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں تو لوگوں کو ڈسے گا اور ان کو تکلیف دے گا بچھو نے کہا مجھے آپ اپنے ساتھ سوار کرلیجئے اور آپ کے ساتھ میرا یہ وعدہ رہا کہ میں نہیں ڈسوں گا جو رات کے وقت آپ پر دورد پڑے گا۔ 26:۔ ابن عسا کر (رح) نے ابوامامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی شام کے وقت یہ کہے گا۔ صلی اللہ علی نوح وعلی نوح (علیہ السلام) تو اس رات اس کو بچھو نہیں کاٹے گا۔ 27:۔ اسحاق بن بشر وابن عساکر رحمہما اللہ نے ضداد اور ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ ابلیس آیا تاکہ کشتی میں سوار ہوجائے نوح (علیہ السلام) نے اس کو دور کردیا۔ اس نے کہا اے نوح بلاشبہ میں دیکھنا چاہتا ہوں اور تم مجھ پر قابو نہیں پاسکتے انہوں نے جان لیا کہ وہ سچا ہے۔ اور اس کو حکم دیا گیا کہ وہ بیٹھ جائے کشتی کے بانس پر۔ آدم نے انہی اولاد کو وصیت کی تھی کہ وہ ان کے جسم کو اٹھائیں گے اور اس بارے میں نوح (علیہ السلام) ان کے وارث بنیں اور ہر کوئی اپنی اولاد کو یہ وصیت بطور وراثت کے کرتا رہا یہاں تک کہ نوح (علیہ السلام) نے وصیت کو وصول کیا۔ اور آدم کے جسد خاکی کو مردوں اور عورتوں کے درمیان جا رکھا۔ 28:۔ ابن ابی الدنیا وابن عساکر نے مکاید الشیطان میں ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا کہ جب نوح (علیہ السلام) کی کشتی لنگر انداز ہوئی اس وقت وہ ابلیس کو لٹرا السفینہ پر (بیٹھا ہوا تھا) نوح (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا تو ہلاک ہوجائے تیری وجہ سے زمین والے غرق ہوگئے۔ ان سے ابلیس نے کہا میں کیا کروں ؟ نوح (علیہ السلام) نے فرمایا توبہ کرلے اس نے کہا اپنے رب سے سوال کر کیا میرے لئے توبہ ہے ؟ نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا فرمائی اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی بھیجی کہ اس کی توبہ یہ ہے کہ آدم کی قبر کو سجدہ کرے اس نے کہا کہ میں نے اس کو سجدہ نہیں کیا تھا جبکہ وہ زندہ تھے اور اس کو سجدہ کروں گا (جبکہ وہ مرچکے ہیں ) 29:۔ النسائی (رح) نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) نے شیطان سے انگور کی بیل کے بارے میں جھگڑا کیا۔ اس نے کہا یہ میرے لئے ہے۔ اور آپ نے فرمایا یہ میرے لئے ہے۔ دونوں کی صلح اس شرط پر ہوئی کہ نوح (علیہ السلام) کے لئے اس کا ایک تہائی ہوگا اور شیطان کے لئے دو تہائی۔ 30:۔ اسحاق بن بشر وابن عساکر (رح) نے علی ؓ سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) نے اپنے ساتھ کشتی میں سارے درختوں کو بھی سوار کیا تھا۔ 31:۔ اسحاق بن بشر نے اسحاق بن بشر (رح) سے روایت کیا کہ اہل علم میں ایک آدمی نے ہم کو خبر دی کہ نوح نے کشتی میں ایک جوڑا ھد ھد سے بھی سوار کیا اور ھدھد کی ماں کو جوڑے پر بطور اضافی رکھا۔ وہ زمین کے ظاہر ہونے سے پہلے کشتی میں مرگئی۔ اس کو ھدھد نے اٹھا لیا اور دنیا کا چکر لگایا تاکہ کوئی جگہ دفن کرنے کی مل جائے لیکن اس نے کسی مٹی کو نہیں پایا سو اس کے رب نے اس پر رحم فرمایا اور اس کی گدی میں قبر کھودی اور اس میں اس کو دفن کردیا پس وہ بال وپر جو ھد ھد کی گدی میں بڑھے ہوئے ہیں وہ قبر کی جگہ پر ہیں اسی وجہ سے تعریف کی گئی۔ ھد ھد کے گدیوں کی اسے ابن عساکر نے بیان کیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے لئے نگینے : 32:۔ اسحاق بن بشر وابن عساکر نے جو ہر کے راستے سے اور مقابل نے ضحاک کے واسطہ سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو کشتی میں دو نگینے پتھر کے عطا فرمائے اس میں سے ایک سفیدی دن کی سفید کی طرح تھی اور دوسری کی سیاہی رات کی سیاہی کی طرح تھی۔ جب وہ شام کرتے تو اس کی سیاہی اس سفیدی پر غالب کرجاتی اور جب وہ صبح کرتے تو سفیدی اس کو سیاہی پر غالب آجاتی دونوں کا وقت بارہ گھنٹے مقرر تھا۔ نوح (علیہ السلام) نے کشتی میں اوقات کو بارہ بارہ گھنٹوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ دن یا رات میں کسی کو دوسرے پر زائد نیند نہ کرتے تھے۔ تاکہ اس کے ذریعہ نماز کے اوقات کو پہچان لیا جائے کشتی آپ کے مکان سے چلی یہاں تک کہ وہ چلی داہنی طرف اور حبشہ پہنچی پھر وہ واپس ہوئی یہاں تک یہ جدہ کی طرف لوٹی پھر روم کی سمت اختیار کی پھر روم سے بھی آگے بڑھ گئی اور ارض مقدس کی وادیوں پر لوٹتی ہوئی آئی اور اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ وہ پہاڑ کی چوٹی پر ٹھہرے گی۔ اس لئے پہاڑوں کو بلند کردیا گیا اور اس لئے وہ ظاہر ہوئے اور انہوں نے اپنی جڑوں کو زمین سے نکال لیا اور جودی (پہاڑ) نے اللہ عزوجل سے عجز و انکساری شروع کردی۔ کشتی آئی یہاں تک کہ سب پہاڑوں سے آگے بڑھ گئی اور جودی پہاڑ پر ٹھہر گئی اور وہیں لنگر انداز ہوئی۔ سب پہاڑوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف شکایت کی اور کہا اے ہمارے رب بیشک ہم نوح (علیہ السلام) کی کشتی کے لئے ظاہر ہوئی ہیں اپنی جڑوں کو زمین سے نکالا نوح (علیہ السلام) کی کشتی کے لئے۔ جودی پہاڑ سکڑ گیا اور نوح کی کشتی اس پر ٹھہر گئی اللہ تعالیٰ نے فرمایا اسی طرح جو میرے لئے تواضع کرتا ہے اس کو بلند کرتا ہوں اور جو میرے سامنے بلند ہوتا ہے اس کو ذلیل کرتا ہوں۔ اور کہا گیا کہ جودی جنت کے پہاڑوں میں سے ہے جب عاشوراء کا دن تھا کشتی اس میں ٹھہر گئی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے زمین اپنا پانی نگل جا اور یہ حبشہ کی لغت میں ہے اے آسمان تھم جا یعنی رک جا اور یہ بھی حبشہ کی لغت میں ہے زمین نے اپنا پانی نگل لیا اور آسمان کا پانی اٹھ گیا یہاں تک کہ آسمان کی بلندیوں کو پہنچ گئے امید کرتے ہوئے کہ وہ اپنی جگہ کی طرف لوٹ آئے گا اللہ تعالیٰ نے اس کو حکم دیا کہ واپس لوٹ جا کیونکہ تو عذاب اور غصہ والا ہے پانی لوٹ آیا اور وہ کھاری اور گرم ہوگیا اور موجیں مارنے لگا۔ لوگوں کو اس سے تکلیف پہنچی اللہ تعالیٰ نے ہوا کو بھیجا تو اس نے سمندروں کی جگہ میں اس کو جمع کردیا تو وہ اتنا سخت کھاری ہوگیا جس سے کوئی نفع نہیں اٹھایا جاتا۔ نوح (علیہ السلام) کو اطلاع ملی انہوں نے دیکھا کہ سورج طلوع ہوچکا ہے اور آپ کے لئے ایک ہاتھ آسمان سے ظاہر ہوا ور یہ نشانی تھی ان کے اور ان کے رب کے درمیان غرق سے امن ہوجانے کی اور ہاتھ وہ قوس ہے جس کو قوس قزح کہتے ہیں اور اس کو قوس قزح کہنے سے منع کیا گیا۔ چونکہ یہ قزح شیطان ہے اور قوس اللہ کی جانب سے ہے اور انہوں نے گمان کیا کہ یہ تیر کمان پہلے بھی آسمان تک پھیل جایا کرتی تھی۔ جب اللہ اس کو امن بنادیا غرق ہونے سے زمین والوں کے لئے تو اللہ نے کمان اور تیر پھینک دیئے نوح (علیہ السلام) نے اس وقت فرمایا اے میرے رب آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا کہ تو نجات دے گا میرے ساتھ میرے گھروالوں کو اور حالانکہ میرا بیٹا غرق ہوگیا ہے اور فرمایا (آیت) ” ونادی نوح ربہ فقال رب ان ابنی من اھلی وان وعدک الحق وانت احکم الحکمین (45) “ فرمایا وہ تیرے دین والوں میں سے نہیں ہے کہ اس کے عمل اچھے نہیں ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ اتر جا نوح (علیہ السلام) نے بھیجا کہ کون زمین کی خبر لائے گا ایک پالتو پرندہ آیا اور کہا میں خبر لاوں گا نوح (علیہ السلام) نے اس کو پکڑا اور اس کے پروں پر مہر لگائی اور فرمایا تجھ پر میری مہر لگ چکی ہے۔ اب تو کبھی نہیں اڑے گا میری اولاد تیرے ساتھ نفع اٹھائے گی پھر آپ نے کوے کو بھیجا اس نے ایک مردار دیکھاوہ اس پر گرپڑا اور وہ (واپس جانے سے) رک گیا نوح (علیہ السلام) سے اسے قید کیا اور اس پر لعنت کی۔ اس لئے حرم میں اس کو قتل کیا جاسکتا ہے۔ اور ایک کبوتری کو بھیجا اور وہ قمری ہے۔ وہ گئی مگر زمین میں قرار نہ پایا اور سبا کی زمین کے ایک درخت پر بیٹھ گئی زیتون کا ایک پتہ اس نے اٹھایا اور نوح کے پاس لوٹ آئی انہوں نے جان لیا کہ یہ زمین پر نہیں ٹھہری۔ پھر کچھ دنوں کے بعد اس کو بھیجا۔ وہ باہر نکلی یہاں تک حرم شریف کی وادی میں واقع ہوگئی۔ وہاں پانی خشک ہوچکا تھا اور سب سے پہلے کعبہ شریف کی جگہ خشک ہوئی۔ اور اس کی مٹی سرخ تھی اس کے اپنے پاوں کو اس کے ساتھ رنگا پھر وہ نوح کے پاس لوٹ آئی اور کہنے لگی مبارک ہو زمین نے قرار حاصل کرلیا ہے۔ انہوں نے اپنا ہاتھ اس کی گردن پر پھیرا اور اس کو ہار پہنایا اور اس کے پاوں میں اس کے لئے سرخی عطاء کی اور اس کے لئے دعا کی اور اس کو حرم میں ٹھہرایا اور اس پر برکت رکھ دی اس وجہ سے لوگ اس سے شفقت کرتے ہیں آپ نکلے اور موصل کی زمین پر نازل ہوئے اور یہ قریۃ الثمانین کہلاتا ہے کیونکہ آپ نے اسی افراد کے ساتھ یہاں سکونت اختیار اس میں وبا واقع ہوگئی سب لوگ مرگئے سوائے نوح اور ان کے بیٹے) سام حام اور یافث اور ان کی عورتوں کے زمین ان سے بھرگئی اس لئے فرمایا (آیت) ” وجعلنا ذریتہ ھم البقین (77) “ (الصافات آیت 77) حضرت نوح (علیہ السلام) کا روزہ رکھنا : 33:۔ ابن عساکر (رح) نے خالد الزیات (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ نوح رجب کے پہلے دن کشیت میں سوار ہوئے اور ان کے ساتھ جو انسان اور جن تھے ان سے فرمایا آج کے دن روزہ رکھو کیونکہ جو تم میں سے یہ روزہ رکھے گا تو اس سے آگ ایک سال کی مسافت تک دور رہے گی۔ اور جو شخص تم میں سے سات دن کے روزہ رکھے گا تو اس کے لئے جہنم کے ساتھ دروازے بند کردیئے جائیں گے۔ اور جو شخص تم میں سے آٹھ دن کے روزہ رکھے گا تو اس کے لئے جنت کے آٹھ دروازے کھول دیئے جائیں گے اور جو شخص تم میں سے دس دن کے روزہ رکھے گا اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے سوال کر میں تجھ کو عطا کروں گا۔ اور جو شخص تم میں سے پندرہ دن رورزے رکھے گا اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے نئے سرے سے عمل کر تیرے سارے پچھلے گناہ معاف کردیئے گئے اور جو شخص زیادہ روزے رکھے گا اللہ تعالیٰ اس کو زیادہ عطا فرمائیں گے نوح (علیہ السلام) نے کشتی میں رجب، شعبان، رمضان، اور شوال، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم کے دس دن کے روزے رکھے عاشورہ کے دن کشتی رک گئی تو انسانوں اور جنوں سے فرمایا جو ان کے ساتھ تھے آج کے دن بھی روزہ رکھو۔ 34:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) رجب کی دسویں تاریخ میں کشتی میں سوار ہوئے اور محرم کی دسویں تاریخ میں اس سے اترآئے اور آپ اور آپ کے گھر والے ایک رات سے دوسری رات تک روزہ رکھتے تھے۔ 35:۔ ابو الشیخ (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جب نوح (علیہ السلام) نے کشتی میں ہر چیز کو سوار فرمایا پھر شیر کو سوار کیا اور وہ کشتی والوں کو تکلیف دینے لگا تو اس پر بخار کو مسلط دیا گیا۔ 36:۔ ابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہما اللہ نے ابو عبیدہ ؓ سے روایت کیا کہ جب نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ کشتی میں ہر جنس سے جوڑا جوڑا سوار کرو تو وہ شیر کو سوار نہ کرسکے یہاں تک کہ اس پر بخار کر مسلط دیا گیا آپ نے اس کو اٹھا کر کشتی میں داخل کردیا۔ 37:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے زید بن المسلم (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے روایت کرے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب نوح (علیہ السلام) نے کشتی میں ہر ایک جنس سے جوڑا جوڑا سوار کردیا تو ان کے ساتھیوں نے کہا ہم کس طرح مطمئن ہوسکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ شیر ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر بخار کو مسلط کردیا یہ پہلا بخار تھا جو زمین پر نازل کیا گیا پھر انہوں نے چوہے کی شکایت کی۔ اور عرض کیا چوہا ہمارے کھانے کو اور ہمارے سامان کو خراب کردے گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے شیر کی طرف وحی بھیجی اس نے چھینک ماری تو ایک بلی اس میں سے نکلی تو چوہا اس سے چھپ گیا۔ 38:۔ حکیم ترمذی نے نوادرالاصول میں وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب نوح کشتی میں تھے تو چوہے نے کشتی کی رسیوں کو کاٹ دیا نوح (علیہ السلام) نے اللہ عزوجل کو اس بات کی شکایت کی اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی تو انہوں نے شیر کے ماتھے کو ہاتھ لگایا تو اس سے بلی کی طرح دو جانور نکلے۔ اور کشتی میں گندگی گھی نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی طرف شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی انہوں نے ہاتھی کی دم کو ہاتھ لگایا اس میں سے دو سور نکلے انہوں نے اس گندگی کو کھالیا۔ 39:۔ ابو الشیخ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ کشتی والوں نے چوہے سے تکلیف پائی شیر نے چھینک ماری اس کی ناک کے نتھنوں میں سے دو بلیاں نکلیں نر اور مادہ دو دونوں نے چوہے کو کھالیا مگر جو اللہ تعالیٰ نے اس میں سے باقی رکھنا چاہا اور ان کو کشتی والوں کی غلاظت کے سبب اذیت دی گئی بس ہاتھی نے چھینک ماری اس کی ناک کے نتھنوں سے دو سور نر اور مادہ نکلے اور کشتی والوں کی گندگی کو کھاگئے۔ جب نوح (علیہ السلام) نے گدھے کو کشتی میں سوار کرنے کا ارادہ کیا تو نوح (علیہ السلام) نے گدھے کے کانوں کو پکڑا اور ابلیس نے اس کی دم سے پکڑا نوح نے ان کو کھینچنا شروع کیا اور ابلیس نے بھی (دم کو) کھینچنا شروع کیا نوح (علیہ السلام) نے فرمایا شیطان داخل ہوجا گدھا داخل ہوا اور ابلیس بھی اس کے ساتھ داخل ہوا اور ابلیس بھی اس کے ساتھ داخل ہوا۔ جب کشتی چلی تو شیطان اس کے پچھلے حصے پر بیٹھ کر گانے لگا، نوح (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا تو ہلاک ہوجائے کس نے اجازت دی۔ اس نے کہا آپ نے۔ فرمایا کب ؟ جب آپ نے گدھے سے کہا اے شیطان داخل ہوجا تو میں آپ کی اجازت سے داخل ہوگیا۔ 40:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نوح نے سب سے پہلے کشتی میں چوپاوں میں سے سب سے پہلے اونٹنی کو سوار کیا اور آخر میں گدھے کو سوار کیا جب گدھے کو داخل کیا تو اس نے اپنا سینہ داخل کیا تو ابلیس اس کی دم سے چمٹ گیا تو وہ اپنے پاوں کو نہ اٹھا سکا۔ نوح (علیہ السلام) نے کہنا شروع کیا تیری ہلاکت ہوا اے شیطان داخل ہوجا۔ وہ اٹھنے لگا مگر طاقت نہ رکھی۔ یہاں تک کہ نوح نے فرمایا داخل ہوجا اگرچہ تیرے ساتھ شیطان ہے۔ یہ کلمہ پھسل گیا انکی زبان پر جب نوح (علیہ السلام) نے اس (گدھے) کو یہ بات فرمائی تو شیطان نے اس کا راستہ چھوڑ دیا گدھا داخل ہوا تو شیطان بھی اس کے ساتھ داخل ہوا نوح (علیہ السلام) نے اس فرمایا اے اللہ کے دشمن تجھے کس نے داخل کیا اس نے کہا آپ نے نہیں فرمایا تو داخل ہوجا اگرچہ تیرے ساتھ شیطان ہے۔ نوح (علیہ السلام) نے فرمایا مجھ سے نکل جا اس نے کہا آپ کے لئے کوئی چارہ کار نہیں۔ اس سے کہ مجھے سوار کریں اور کشتی کی چھت میں ایسے ہی ہوا جیسا کہ وہ گمان کرتے تھے۔ 41:۔ ابن عساکر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) اپنی قوم کو ساڑھے نوسوسال دعوت دیتے رہے آپ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف چپکے سے بلاتے رہے پھر اس کی اونچی آواز سے دعوت شروع کردی پھر اعلانیہ دعوت کرنے لگے مجاہد نے فرمایا اعلان سے مراد بہت چیخ و پکار کرنا لوگ ان کو پکڑتے اور ان کا گلا گھونٹ دیتے یہاں تک کہ آپ پر غشی طاری ہوجاتی اور وہ آپ کو زمین پر گرا دیتے تھے اور آپ بےہوش ہوتے تھے جب افاقہ ہوتا تو فرماتے اے اللہ میری قوم کو ہلاک نہ کر کیونکہ وہ نہیں جانتے۔ ایک آدمی نے ان میں سے اپنے باپ سے پوچھا اے میرے رب یہ بوڑھا آدمی کون ہے۔ ہر دن یہ زور سے آواز لگاتا ہے۔ اور تھکتا نہیں باپ نے کہا مجھ کو میرے باپ نے بیان کیا اپنے دادا سے یہ جب سے ہے اس کام پر ہے (یعنی اس کام میں لگا ہوا ہے) جب اپنی قوم کے لئے بددعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے کشتی بنانے کا حکم فرمایا انہوں نے کشتی بنائی تین سال تک کام کیا جب آپ کی قوم میں سے جو لوگ گزرتے ان پر مذاق کرتے ان کو کشتی بنانے میں تعجب کرتے۔ جب اس سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایک نشانی مقرر فرمائی کہ جب تم تنور کو ابلتا ہوا دیکھوتو کشتی میں سے ہر شے کا جوڑا جوڑا سوار کرلو۔ اور یہ تنور کوفہ کی مسجد کے ایک کونے میں تھا۔ جب تنور ابل پڑا تو اس میں ہر چیز کو سوار کرلیا جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا تھا۔ اور عرض کیا اے میرے رب شیر اور ہاتھی کو کیسے سوار کروں ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں ان پر بخار کو مسلط کردوں گا بلاشبہ وہ ثقیل اور بھاری ہے۔ اور اپنے گھر والوں کو اپنے بیٹوں کو اپنی بیٹیوں کو اور اپنی بہو وں کو (کشتی میں) سوار کرلیا اور اپنے بیٹے (کنعان) کو بلایا (جو نافرمان تھا) اس نے انکار کردیا۔ جب کشتی میں ہر چیز کو داخل کرنے سے فارغ ہوگئے تو ان کو دوسری کشتی کے ساتھ اوپر سے بند کردیا اگر ایسا نہ ہو تو کشتی میں کوئی چیز باقی نہ رہتی مگر وہ پانی کی شدت کے ساتھ واقع ہونے کی وجہ سے ہلاک ہوجاتی۔ جب پانی آسمان سے آیا جس کو اللہ تعالیٰ نے باقی نہ رہتی مگر وہ پانی کی شدت کے ساتھ واقع ہونے کی وجہ سے ہلاک ہوجاتی۔ جب پانی آسمان سے آیا جس کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ (ففتحنا ابواب السمآء بمآء منھمر (11) اور ہر قطرہ کی مقدار ایسی تھی جیسا کہ مشکیزے کے منہ سے بہہ رہا تھا۔ زمین پر کوئی چیز باقی نہ رہی مگر وہ اس دن ہلاک ہوگئی اور وہ چیز باقی رہی جو کشتی میں تھی۔ اور اس میں کوئی چیز داخل نہیں ہوئی۔ 42:۔ اسحاق بن بشر وابن عساکر (رح) نے عبداللہ بن زیاد بن سمعان سے روایت کیا کہ کچھ آدمیوں سے روایت کرتے ہیں جن کے نام لیتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے طوفان آنے کے چالیس سال پہلے ان کے مردوں کو بانجھ بنا دیا تھا اور انکی عورتوں کو بھی بانجھ بنا دیا تھا کہ انہوں نے بچے نہیں جنے نوح (علیہ السلام) کے بددعا کے دن سے چالیس سال تک انہوں نے کسی بچے کو جنم نہیں دیا یہاں تک کہ آپ نے چھوٹے بچے اور بالغ سب کو پالیا اور اللہ کے لئے ان کے خلاف حجت قائم ہوگئی پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر آسمان سے طوفان بھیجا۔ 43:۔ ابن جریر وابو الشیخ (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لوگوں نے یہ خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے بچوں کو ان کے آباواجداد کے ساتھ غرق کیا ایسا نہیں ہے بیشک وہ بچہ پرندے کے قائم مقام ہے اور جن کو اللہ تعالیٰ نے بغیر گناہ کے غرق کردیا تو ان کی زندگی کے ختم ہونے کا وقت حاضر ہوچکا تھا اس لئے وہ اپنا وقت (پورا کرلینے) کی وجہ سے مرگئے اور جو آپ کو پانے والے ہیں مردوں سے اور عورتوں سے تو ان کا غرق ہوجانا عذاب اور سزا تھا۔ 44:۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابوالشیخ وابن عساکر رحمہم اللہ نے مجاہد کے راستہ سے عبید بن عمیر (رح) سے روایت کیا کہ جب قوم نوح غر ق ہوئی تو اس پر پانی کی بلندی پندرہ ذراع تک تھی ہر پہاڑ کی چوٹی پر پس ایک عورت غرق ہوئی اس حال میں کہ اس کے پاس بچہ بھی تھا (اس عورت نے) اس کو اپنے سینے پر رکھ لیا جب وہاں تک پانی پہنچ گیا تو اس نے (اپنے بچے کو) اپنے مونڈھوں پر اٹھا لیا جب وہاں تک پانی پہنچ گیا تو اس نے اس کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر ہاتھوں کو بلند کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر میں زمین والوں میں سے کسی پر رحم کرتا تو اس عورت پر رحم کرتا لیکن میری جانب سے قول (یعنی حکم) ثابت ہوچکا تھا۔ 45:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ نوح (علیہ السلام) نے اپنی باندی سے فرمایا جب تیرا تنور پانی کو ابلنے لگے تو مجھ کو خبر کردینا جب وہ فارغ ہوئی اپنی آخری روٹی سے تو تنور ابل پڑا۔ وہ بھاگتے ہوئے اپنے آقا کی طرف گئی اور ان کو خبر دی تو نوح (علیہ السلام) اور جو ان کے ساتھ تھے کشتی کے اوپر سوار ہوگئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے آسمان کے دروازے پر موسلادھار بارش کے ساتھ کھول دیئے اور زمین سے چشمے پھوٹ پڑے۔ 46:۔ اسحاق بن بشر وابن عساکر ہر ایک نے اپنی سند سے روایت کیا کہ عبداللہ العمر سے انہوں نے نافع سے نافع نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ جب پانی پھوٹ پڑا نوح کی کشتی کے اردگرد تو آپ کی امت کا ایک آدمی اپنے سرداروں میں سے ایک کے پاس گیا کہ وہ ہے جس کا تم گمان کرتے ہیں کہ وہ مجنون ہے ؟ تم پر وہ آچکا جس کا تم سے وعدہ کرتا تھا وہ اپنی سواری پر سوار ہوا اور اپنے اصحاب کی ایک جماعت کو لے کر آیا۔ یہاں تک کہ ہو ٹھہرے جو نوح سے زیادہ دور نہیں تھے نوح نے ان سے فرمایا تو کیا کہتا ہے نوح نے فرمایا تمہارے پاس آچکا جس کا تم وعدہ کردیئے جاتے تھے اس نے پوچھا اس کی علامت کیا ہے آپ نے فرمایا اپنی سواری کے سر کو پھیر پس اس نے اپنی سواری کو پھیرا تو پانی اس کے پاوں کے نیچے سے ابل پڑا۔ پس وہ پانی سے بھاگتے ہوئے پہاڑ کی طرف نکل آیا۔ 47:۔ ابن اسحاق وابن عساکر رحمہما اللہ نے جعفر بن محمد (رح) سے روایت کیا کہ نوح کے گھر میں سے ایک تنور سے پانی نکل آیا ان کی بیٹی اس تنور میں روٹیاں پکارہی تھی اور نوح اس کے توقع رکھتے تھے اچانک ان کی بیٹی ان کے پاس آئی اور کہا اے میرے باپ تنور میں پانی ابل پڑا پس ایک کے سوا سب کے سب بڑھئی نوح (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے۔ اس نے کہا میری مزدوری مجھے دیجئے نوح (علیہ السلام) نے فرمایا میں تجھ کو تیری مزدوری دوں گا اس شرط پر کہ تو ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہوجا اس آدمی نے کہا کہ ودا، سواع، یغوث اور نسر عنقریب مجھ کو نجات دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی۔ کہ اس میں ہر جنس کا ایک ایک جوڑا سوار کرلو اور اپنے گھروالوں کو مگر جن کے بارے میں پہلے حکم ہوچکا ہے۔ وہ سوار نہ ہوں گے اور جن کے بارے میں مجھے حکم ہوچکا تھا وہ آپ کی بیوی والقہ اور آپ کا بیٹا کنعان تھا۔ نوح (علیہ السلام) نے فرمایا اے میرے رب ان کو تو میں نے سوار کرلیا میں کیسے سوار کروں وحشی جانوروں چوپائیوں اور جنگلی درندوں اور پرندوں کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں ان کو تجھ پر جمع کردوں گا۔ جبرئیل (علیہ السلام) بھیجے گئے اور انہوں نے سب کو اکٹھا کردیا۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں کو مارنا شروع کیا جوڑوں پر دایان ہاتھ مذکر پر اور بائیں ہاتھ مونث پر لگتا اور ان کو کشتی میں داخل کردیتے تھے یہاں تک کہ ایک تعداد کو انہوں نے داخل کردیا جس کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم فرمایا تھا جب ان کو کشتی میں جمع کرلیا اور چوپائیوں اور وحشی جانوروں اور درندوں نے عذاب دیکھا۔ انہوں نے نوح (علیہ السلام) کے قدم کو چاٹنا شروع کیا۔ اور کہتے تھے ہم کو اپنے ساتھ سوار کیجئے۔ تو نوح (علیہ السلام) فرماتے تھے ہر جنس میں ایک ایک جوڑا سوار کرنے کا حکم دیا گیا۔ 48:۔ ابن عساکر (رح) نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو بھیجا تو وہ آپ کی طرف پرندوں درندوں وحشی جانوروں اور چوپائیوں میں سے مذکر اور مونث دو کو اٹھاکر لے آئی۔ 49:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” من کل زوجین اثنین “ کے بارے میں فرمایا کہ ہر قسم میں سے ایک نر اور ایک مادہ۔ 50:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ مذکر ایک روح ہے اور مونث ایک روح ہے۔ 51:۔ ابن جریر وابو الشیخ رحمہما اللہ نے ابن جریح (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الا من سبق علیہ القول “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد عذاب ہے اور وہ آپ کی بیوی تھی پیچھے رہ جانے والوں میں سے۔ 52:۔ ابن ابی حاتم وابو الشیخ نے حکم (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وما امن معہ الا قلیل “ سے مراد نوح (علیہ السلام) اس کے تین بیٹے اور ان کی چار بہو ویں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے تین بیٹے : 53:۔ ابن جریر وابو الشیخ رحمہما اللہ نے ابن جریح (رح) سے روایت کیا کہ یہ بیان کیا گیا کہ نوح نے اپنے تین بیٹے اور ان بیٹوں کی تین بیویوں کو سوار کیا حام نے اپنی بیوی کے ساتھ کشتی میں جماع کیا نوح نے دعا فرمائی کہ اس کے نطفہ کو بدل دے تو وہ سودان پیدا ہوا اسے ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن جریح کی سند سے ابو صالح سے بیان کیا۔ 54:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نوح کے ساتھ کشتی میں اسی 80 آدمی سوار ہوئے۔ ان میں سے ایک درہم تھا اور اس کی زبان عربی تھی۔ 55:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم وابن عساکر نے عکرمہ کے راستہ سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نوح کی کشتی میں اسی آدمی تھے ان کے ساتھ ان کے اہل و عیال بھی تھے۔ اور وہ کشتی میں 150 دن رہے۔ اللہ تعالیٰ نے کشتی کا رخ مکہ کی طرف کردیا۔ چالیس دنوں تک کشتی بیت اللہ کے گرد گھومتی رہی۔ پھر جودی کی طرف پھیر دیا اور اس پر وہ ٹھہر گئی۔ نوح (علیہ السلام) نے کوے کو بھیجا کہ وہ خبر لے آئے وہ گیا اور ایک مردار پر واقع ہوگا اور اس نے دیر لگائی پھر نوح (علیہ السلام) نے فاختہ کو بھیجا وہ ایک زیتون کا پتا لے کر آئی اور اس کے پاوں کیچڑ سے لتھڑے ہوئے تھے نوح (علیہ السلام) نے جان لیا کہ پانی خشک ہوگیا تو وہ جودی کے نچے حصے کی طرف اترے۔ ایک گاؤں آباد کیا اور اس کا نام ثمانین رکھا۔ ایک دن انہوں نے صبح کی تو ان کی زبانیں اسی لغت پر جاری ہوگئیں۔ ان میں سے ایک عربی زبان تھی ان میں سے بعض بعض کی زبان کو سمجھتا تھا اور نوح (علیہ السلام) ان کی طرف سے تعبیر فرماتے تھے۔ 56:۔ ابن ابی الدنیا نے مکاید الشیطان میں وابن عساکر (رح) نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ جب نوح (علیہ السلام) کشتی میں سوار ہوئے اور اس میں ہر جنس سے جوڑا جوڑا سوار کرلیا جیسے حکم دیا گیا پھر انہوں نے ایک بوڑھے کو کشتی میں دیکھا جس کو انہوں نے نہ پہچانا اس سے پوچھا تو کون ہے ؟ اس نے کہا ابلیس (کہنے لگا) میں (اس لئے) داخل ہوا تاکہ آپ کے ساتھیوں کے دلوں پر قابوپاوں تو ان کے لئے دل میرے ساتھ ہوں گے اور ان کے جسم تیرے ساتھ ہوں گے۔ پھر کہا پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے ذریعہ میں نے لوگوں کو ہلاک کیا اور عنقریب میں ان میں تین کو بتاوں گا اور دو کو نہیں بتاوں گا نوح (علیہ السلام) کی طرف وحی کی گئی کہ ان تین چیزوں کی تجھ کو کوئی ضرورت نہیں اس کو حکم کرو کہ وہ تجھ کو دو چیزوں کے بارے میں بیان کرے تو اس نے کہا ایک حس ہے اور حس کے سبب مجھ پر لعنت کی گئی اور مجھے شیطان مردود بنادیا گیا اور دوسری حرص ہے کہ آدم (علیہ السلام) کے لئے ساری جنت کو حلال کیا گیا اور میں نے حرص کے ذریعہ اپنی حاجت پوری کرلی۔ 57:۔ ابن منذر (رح) نے حکم (رح) سے روایت کیا کہ قوس قزح طوفان کے بعد نکلی زمین والوں کے سب کے غرق ہوجانے سے امان کی علامت تھی۔
Top