Dure-Mansoor - Hud : 44
وَ قِیْلَ یٰۤاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَكِ وَ یٰسَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَ غِیْضَ الْمَآءُ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ وَ اسْتَوَتْ عَلَى الْجُوْدِیِّ وَ قِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
وَقِيْلَ : اور کہا گیا يٰٓاَرْضُ : اے زمین ابْلَعِيْ : نگل لے مَآءَكِ : اپنا پانی وَيٰسَمَآءُ : اور اے آسمان اَقْلِعِيْ : تھم جا وَغِيْضَ : اور خشک کردیا گیا الْمَآءُ : پانی وَقُضِيَ : اور پورا ہوچکا (تمام ہوگیا) الْاَمْرُ : کام وَاسْتَوَتْ : اور جا لگی عَلَي الْجُوْدِيِّ : جودی پہاڑ پر وَقِيْلَ : اور کہا گیا بُعْدًا : دوری لِّلْقَوْمِ : لوگوں کے لیے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور حکم ہوا کہ اے زمین اپنے پانی کو نگل لے اور اے آسمان تھم جا اور پانی کم ہوگیا اور فیصلہ کردیا گیا اور کشتی جودی پر ٹھہر گئی اور کہہ دیا گیا کہ کافروں کے لئے دوری ہے
1:۔ ابن منذر وابن عساکر رحمہما اللہ نے الکلبی کے راستہ میں ابن عباس ؓ سے فرمایا جس دن نوح (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی اس وقت کے بادشاہ کی بادشاہی کو بیاسی سال ہوچکے تھے اس زمانہ میں کوئی ایسا نہیں تھا جو برائی سے روکے اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی طرف بھیجا (اس وقت) ان کی عمر چار سو اسی سال تھی پھر انہوں نے (اپنی قوم کو) اپنی نبوت کے زمانہ میں ایک سو بیس سال تک بلایا پھر ان کو کشتی بنانے کا حکم دیا گیا انہوں نے اس کو بنایا اور اس پر سوار ہوئے ان کی عمر چھ سو سال تک رہی نوح (علیہ السلام) کا لڑکا پیدا ہوا سام اس کی اولاد میں سفیدی اور گندم گوئی رنگ تھا اور حام پیدا ہوئے اولاد میں سیاہی اور سفیدی تھی اور یافث (پیدا ہوئے) اور ان کے رنگ زردی اور سرخی تھی اور کنعان وہی ہے جو غرق ہوگیا اور عرب نسبت کرتے ہیں ماں کے ساتھ اور ان کی ماں ایک ہی تھے اور ایک وسیع عریض وادی کے کنارے نوح (علیہ السلام) نے کشتی تیار کی اور یہیں سے طوفان شروع ہوا تو نوح کشتی میں سوار ہوئے آپ کے ساتھ وہ بیٹے اور ان بیٹوں کی بیویاں بھی تھیں۔ اور بنوشیث میں سے تہتر افراد تھے جو آپ پر ایمان لائے تھے اور وہ کشتی میں اسی آدمی تھے۔ اور آپ نے اپنے ساتھ ہر جنس سے نر اور مادہ (کا ایک جوڑا) بھی سوار کیا اور کشتی کی لمبائی تین سو ذراع تھی اور یہ ذراع نوح (علیہ السلام) کے دادا کا مقرر کردہ تھا۔ اور اس کی چوڑائی پچاس ذراع تھی اور اس کی لمبائی آسمان میں ( یعنی اس کی بلندی) تلبیس ذراع تھی۔ اور پانی سے چھ ذراع (باہر) نکلی ہوئی تھی اور یہ کشتی ڈھکی ہوئی تھی۔ آپ نے اس کے تین دروازے بنائے اس کا بعض دروازہ بعض کے نیچے تھا اللہ تعالیٰ نے چالیس دن بارش برسائی جب بارش پہنچی وحشی درندوں کو جانوروں کو اور سب پرندوں کو تو وہ نوح (علیہ السلام) کی طرف آئے وہ آپ کے لئے تابع کردیئے گئے۔ انہوں نے اس میں سے ان کو (کشتی میں) سوار کیا جسے اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا تھا ہر جنس میں سے جوڑا جوڑا اور اپنے ساتھ آدم (علیہ السلام) کے جسد اطہر کو بھی سوار کیا اور اسے عورتوں اور مردوں کے درمیان ایک ایک رکاوٹ بنادیا اور وہ اس میں سوار ہوئے رجب میں سے دس دن گزرنے کے بعد اور وہ اس میں سے نکلے محرم میں سے عاشوراء کے دن۔ اس لئے عاشوراء کے دن جنہوں نے روزہ رکھا اس کی وجہ یہی ہے اور اسی طرح پانی دو حصوں میں تقسیم ہو کر ظاہر ہوگیا۔ آدھا آسمان سے اور آدھا زمین سے اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ففتحنا ابواب السمآء بمآء منھمر (11) “ (القمر آیت 11) یعنی آسمان کے دروازوں میں سے پانی انڈیل دیا گیا۔ (اور) فرمایا (آیت) ” وفجرنا الارض عیونا “ (لقمر آیت 12) یعنی ہم نے زمین کو پھاڑ دیا تو پانی مل گیا (بارش کے پانی سے) (آیت) ” علی امر قد قدر “ (ایک مقرر کام پر) اور پانی زمین کے سب سے بلند ترین پہاڑ پر پندرہ ذراع اوپر اٹھ گیا۔ ان کو لے کر کشتی چلتی رہی اور چھ ماہ میں ساری زمین کی طرف گھومی کسی چیز پر نہیں ٹھہری یہاں تک کہ حرم شریف پر آئی اور اس میں داخل نہیں ہوئی۔ اور حرم شریف کے ساتھ ایک ہفتہ گھومتی رہی اور بیت اللہ کو اٹھا لیا گیا جس کو آدم نے بنایا تھا غرق ہونے سے بچا لیا گیا تھا اور وہی بیت المعمور ہے اور حجر اسود کو ابو قیس پہاڑ پر اٹھالیا گیا جب (یہی کشتی) حرم کے گرد گھومی ان کو لے زمین میں چلتی رہی یہاں تک کہ جودی پہاڑ پر جالگی۔ اور وہ حصین کے ساتھ ایک پہاڑ موصل کی زمین میں سے سال کے مکمل ہونے کے چھ ماہ بعد وہاں کشتی جا کر ٹھہری اور مطلق چھ ماہ کے بعد کا قول بھی کیا گیا ہلاکت اور بربادی ہو ظالم قوم کے لئے جب جودی پہاڑ پر ٹھہری تو کہا گیا (آیت) ” یارض ابلعی مآءک ویسمآء اقلعی “ یعنی اپنے پانی کو روک لو (آیت) ” وغیض المآء “ یعنی زمین نے پانی کو خشک کردیا اور ایسا ہوگیا کہ یہ سمندر جو تم زمین میں دیکھتے ہو آسمان سے اترے ہی نہیں وہ آخر پانی جو طوفان میں سے زمین میں باقی رہا۔ وہ پانی زمین میں چالیس سال تک باقی رہا طوفان کے بعد پھر پانی ختم ہوگیا پس نوح ایک بستی کی طرف نیچے اترے ان میں سے ہر ایک آدمی نے ایک گھر بنایا اور سوق الثمانین اس کا نام رکھا۔ قابیل کی اولاد سب ہلاک ہوگئیں اور نوح سے لے کر آدم تک درمیان کے آباؤ اجداد میں سے (سب) اسلام پر تھے نوح (علیہ السلام) نے شیر کے خلاف دعا کی تو اس پر بخار کو ڈال دیا جائے اور فاختہ کے لئے محبت کی دعا کی۔ اور کوے کو معیشت کی بدبختی قرار دیا نوح (علیہ السلام) نے بنو قابیل کی ایک عورت سے نکاح کیا اور اس میں سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام یوناطن تھا۔ جب سوق الثمانین کا گاؤں ان کے لئے تنگ ہوگیا تو وہ بابل کی طرف لوٹ گئے اور اس کو تعمیر کیا اور فرات اور صراہ کے درمیان ہے یہ لوگ وہاں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ ایک لاکھ تک پہنچ گئے اور یہ لوگ (مذہب) اسلام پر تھے۔ جب نوح کشتی سے باہر تشریف لائے تو حضرت آدم (علیہ السلام) کو بیت المقدس میں دفن کردیا۔ 2:۔ عبدالرزاق وابوالشیخ رحمہما اللہ نے قتادہ ؓ نے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) نے ایک فاختہ کو بھیجا وہ زیتون کا ایک پتہ لے آئی آپ نے وہ عطا فرمایا جو اس کی گردن میں ہے اور کے پاوں میں خضاب لگایا۔ 3:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے سعید (رح) نے روایت کیا کہ میں کڑوا پانی پینے کے ارادہ سے باہر نکلا تو کہا گیا کڑوا پانی مت پی، کیونکہ جب طوفان کا زمانہ تھا اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم فرمایا تھا کہ اپنے پانی کو نگل جا اور آسمان کو حکم دیا فرمایا کہ تھم جا اس پر (زمین کے) بعض ٹکڑوں نے نافرمانی کی تو اس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی تو اس کا پانی کڑوا ہوگیا۔ اور اس کی مٹی میں شور ہوگیا اور وہ کوئی چیز نہیں اگا سکتی۔ 4:۔ ابو الشیخ (رح) نے ابراہیم تیمی (رح) سے روایت کیا کہ جب زمین کو حکم دیا گیا کہ پانی جذب کر تو سوائے کوفہ کی زمین ساری زمین خشک ہوگئی تو اس پر لعنت کی گئی ساری زمین دو نوروں پر ہوگی اور کوفہ کی زمین چار پر ہوگی۔ 5:۔ ابن منذر (رح) نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا (آیت) ” یارض ابلعی “ میں ” اباحی “ حبشی زبان کا لفظ ہے۔ 6:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ سے روایت کیا کہ اپنے والد سے روایت کیا کہ (آیت) ” و قیل یارض ابلعی مآءک “ حبشی زبان ہے یا فرمایا ازدیہ زبان کا ہے۔ 7:۔ ابوالشیخ (رح) نے جعفر بن محمد (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا (آیت) ” یارض ابلعی “ سے مراد ہے پی جا۔ ہندوستان کی لغت میں۔ 8:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” یارض ابلعی “ یعنی رک جا (آیت) ” وغیض المآء “ یعنی (پانی) خشک ہوگیا۔ 9:۔ ابن جریر وابو الشیخ رحمہما اللہ نے مجاہد (رح) نے روایت کیا کہ (آیت) ” وغیض المآء “ یعنی پانی اتر گیا (آیت) ” وقضی الامر “ قوم نوح (علیہ السلام) کی ہلاکت کا حکم نافذ ہوگیا۔ اما قولہ تعالیٰ : واستوت علی الجودی : عاشوراء کے دن کا روزہ : 10:۔ احمد وابو الشیخ وابن مردویہ رحمہم اللہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ یہودیوں کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے اور انہوں نے عاشورہ کے دن کا روزہ رکھا ہوا تھا۔ آپ نے پوچھا یہ کیا روزہ ہے ؟ انہوں نے کہا یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور بنی اسرائیل کو غرق ہوجانے سے نجات دی تھی اور اس میں فرعون کو غرق کردیا۔ اور یہ وہ دن ہے جس میں کشتی جودی پہاڑ پر جالگی تھی تو نوح (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) دونوں نے اللہ تعالیٰ کے شکر ادا کرنے کے لئے روزہ رکھا یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے اس دن کے روزے کا زیادہ حقدار ہوں آپ نے روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کو بھی روزے کا حکم فرمایا۔ 11:۔ ابن جریر (رح) نے عبدالعزیز بن عبدالغفور سے روایت کیا کہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رجب کے پہلے دن نوح (علیہ السلام) کشتی میں سوار ہوئے اور انہوں نے روزہ رکھا اور جو ان کے ساتھ تھے (سب نے روزہ رکھا) اور کشتی ان کو لے کر چھ ماہ تک چلتی رہی اور یہ سفر حرم پر جا کر رکا۔ اور عاشورہ کے دن کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہر گئی نوح (علیہ السلام) نے روزہ رکھا اور جو ان کے ساتھ تھے ( کشتی میں) وحشی درندے جانور سب کو روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو سب نے اللہ کا شکر ادا کرنے کے لئے روزہ رکھا۔ 12:۔ اصبہانی (رح) نے الترغیب میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ عاشورہ کا وہ دن ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی توبہ قبول فرمائی۔ اور یہ وہ دن ہے جس میں نوح (علیہ السلام) کی کشتی جودی پہاڑ پر جا ٹھہری اور یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لئے دریا کو پھاڑ دیا اور یہ وہ دن ہے جس میں عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا کئے گئے اس کا روزہ رکھنا سنت مرورہ کے مطابق ہے۔ 13:۔ ابن مردویہ (رح) نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ جب جودی پہاڑ پر کشتی ٹھہر گئی جتنا اللہ نے چاہا اس پر ٹھہرے رہے پھر ان کو اجازت دی گئی تو وہ پہاڑ سے نیچے اترے۔ پھر آپ نے ایک کوے کو بلا کر فرمایا جا زمین کی خبر لے آیا کوا زمین پر گرپڑا اور اس میں قوم نوح (علیہ السلام) کے غرق ہونے والے (پڑے) تھے تو کوے نے آپ کے حکم کو موخر کردیا تو انہوں نے اس پر لعنت کی اور ایک فاختہ کو بلایا وہ نوح (علیہ السلام) کی ہتھیلی پر آبیٹھی اس سے فرمایا جا اور میرے پاس زمین کی خبر لے آ وہ اڑی اور نہیں ٹھہری مگر تھوڑی دیر یہاں تک کہ اس حال میں آئی کہ وہ اپنے پروں کو اپنی چونچ میں جھاڑ رہی تھی اور کہنے لگی اتر جائیے زمین خشک ہوگئی نوح (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ تعالیٰ تجھے اور تیرے گھر میں برکت عطا فرمائے۔ تجھے لوگوں کے نزدیک محبوب بنادے اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ لوگ تیری ذات پر قابض ہوجائیں گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تیرے سر کو سونے کا بنا دیتا۔ 14:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جودی پہاڑ ہے جزیرہ میں اور اس دن غرق ہونے سے بچنے کے لئے پہاڑ بلند ہوگئے اور لمبے ہوگئے اور اس نے اللہ کے لئے عاجزی اختیار کی وہ غرق نہیں ہوا اور اس پر نوح (علیہ السلام) کی کشتی کو بھیج دیا گیا۔ 15:۔ ابو الشیخ (رح) نے العظمۃ میں عطاء (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ پہاڑ آسمان میں بلند ہوگئے سوائے جودی کے جودی نے یہ یقین کرلیا کہ اللہ کا حکم عنقریب اس کو پالے گا تو وہ ٹھہرا رہا اور فرمایا مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابوقیس (پہاڑ) میں رکن (سواری) یعنی حجر اسود کو چھپا دیا۔ 16:۔ ابن جریر (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ جودی موصل میں ایک پہاڑ ہے۔ 17:۔ ابن ابی حاتم ابوالشیخ رحمہما اللہ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جودی پہاڑ کو الجزیرہ کی زمین سے باقی رکھا (جو بطور عبرت ہے اور نشانی کے یہاں تک کہ اس امت کے پہلے لوگوں نے اس کو دیکھا اور کتنی کشتیاں جو بعد میں تھیں اور وہ تباہ ہوگئیں۔
Top