Dure-Mansoor - Hud : 50
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ
وَاِلٰي : اور طرف عَادٍ : قوم عاد اَخَاهُمْ : ان کے بھائی هُوْدًا : ہود قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارا نہیں مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اِنْ : نہیں اَنْتُمْ : تم اِلَّا : مگر (صرف) مُفْتَرُوْنَ : جھوٹ باندھتے ہو
اور قوم عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو بھیجا انہوں نے کہا کہ اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے علاوہ تمہارے کوئی معبود نہیں تم صرف جھوٹ بولتے ہو۔
حضرت ہود (علیہ السلام) کی دعوت : 1:۔ ابن جریر ابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) الا علی الذین فطرنی “ یعنی جس نے مجھے پیدا کیا۔ 2:۔ ابن عساکر (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ قوم عاد سے تین سال تک بارش روک دی گئی ھود نے ان سے فرمایا (آیت) ” استغفروا ربکم ثم تو بوا الیہ یرسل السمآء علیکم مدرارا “ مگر انہوں نے سرکشی کرتے ہوئے انکار کردیا۔ 3:۔ ابن سعد (رح) نے الطبقات میں وسعد بن منصور وابن ابی شیبہ نے مصنف میں وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ والبیہقی رحمہم اللہ نے اپنی سنن میں شعبی (رح) سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ بارش طلب کرنے کے لئے باہر تشریف لائے اور استغفار سے زیادہ (کچھ بھی) نہ کہا یہاں تک کہ واپس لوٹ آئے ان سے روایت کیا گیا ہم نے آپ کو بارش طلب کرتے ہوئے نہ دیکھا فرمایا میں نے ان مخاریج السماء سے بارش طلب کی ہے جن کے سبب بارش نازل ہوتی ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی (آیت) ” ویقوم استغفروا ربکم ثم تو بوا الیہ یرسل السمآء علیکم مدرارا “ (اور) (آیت) ” یرسل السمآء علیکم مدرارا “ (نوح) 4:۔ ابوالشیخ (رح) نے ہارون تیمی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” یرسل السمآء علیکم مدرارا “ یعنی ان پر لگاتار بارش برسائے گا۔ 5:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویزدکم قوۃ الی قوتکم “ یعنی وہ تمہارے بیٹوں کو اولاد عطا فرما کر تمہاری پہلی قوت میں اور اضافہ کردے گا۔ 6:۔ ابن جریر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان نقول الا اعتراک بعض الھتنابسوٓء “ یعنی ہمارے کسی معبود نے تجھے جنون میں مبتلا کردیا ہے۔ 7:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الا اعترک بعض الھتنا بسوء “ یعنی تجھ کو (ہمارے) بتوں سے جنون پہنچ گیا ہے۔ 8:۔ عبدالرزاق وابن جریر وابو الشیخ رحمہم اللہ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا ہمارے معبودوں کی برائی (بیان کرنے) پر تجھ کو صرف یہ چیز آمادہ کرتی ہے کہ تجھ کو ان سے کوئی برائی (یعنی تکلیف) پہنچ گئی ہے۔ 9:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے یحی بن سعید (رح) سے روایت کیا کہ جو آدمی ڈرتا ہے کسی عادی چور سے یا تکلیف دینے والے جنگلی جانور سے یا شیطان سرکش سے تو اس کو چاہئے کہ وہ یہ آیت پڑھا کرے۔ (آیت) ” انی توکلت علی اللہ ربی وربکم ما من دآبۃ الا ھو اخذبنا صیتھا ان ربی علی صراط مستقیم “ تو اللہ تعالیٰ اس سے پھیر دے گا۔ 10:۔ ابن جریر وابو الشیخ رحمہما اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان ربی علی صراط مستقیم “ یعنی میرا رب حق پر ہے۔ 11:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” عذاب غلیظ “ یعنی شدید اور سخت عذاب۔ 12:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” کل جبار عنید “ یعنی مشرک (شرک کرنے والا) 13:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” کل جبار عنید “ سے مراد ہے میثاق یعنی وعدہ۔ 14:۔ ابن منذر (رح) نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا کہ عنید کا معنی ہے کہ وہ حق سے پھرگئے۔ 15:۔ ابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہما اللہ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” واتبعوا فی ھذہ الدنیا “ یعنی قوم عاد کے بعد اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کو نہیں بھیجا مگر قوم عاد کو لعنت کی گئی ان کی زبان پر۔ 16:۔ ابو الشیخ (رح) نے مجاہد سے روایت کیا کہ (آیت) ” واتبعوا فی ھذہ الدنیا لعنۃ ویوم القیمۃ “ سے مراد ہے دوسری لعنت (ہوگئی قیامت کے دن ) ۔ 17:۔ ابن منذر وابوالشیخ (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ ان کے پیچھے لگا دی گئیں دو لعنتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک لعنت دنیا میں اور ایک لعنت آخرت میں۔
Top