Dure-Mansoor - Hud : 6
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا١ؕ كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ
وَمَا : اور نہیں مِنْ : سے (کوئی) دَآبَّةٍ : چلنے والا فِي : میں (پر) الْاَرْضِ : زمین اِلَّا : مگر عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ رِزْقُهَا : اس کا رزق وَيَعْلَمُ : اور وہ جانتا ہے مُسْتَقَرَّهَا : اس کا ٹھکانا وَمُسْتَوْدَعَهَا : اور اس کے سونپے جانے کی جگہ كُلٌّ : سب کچھ فِيْ : میں كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ : روشن کتاب
اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں ہے جس کی روزی اللہ کے ذمہ نہ ہو اور وہ ہر ایک کے ٹھکانہ کو جانتا ہے وہ ٹھکانہ زیادہ عرصہ رہنے کا ہو یا چند دن رہنے کا ہو، سب کچھ کتاب مبین میں ہے
1:۔ ابو الشیخ (رح) نے ابو الخیر بصری (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے داود (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ تو گمان کرتا ہے کہ بلاشبہ تو مجھ سے محبت کرتا ہے۔ اور تو میرے بارے میں برے گمان رکھتا ہے۔ اور شام کو کیا تیرے لئے یہ عبرت نہیں کہ اگر تو ساتویں زمینیں پھاڑ ڈالے تو میں تجھے چیونٹی دکھاوں گا۔ کہ اس کے منہ میں گندم کا دانہ ہے۔ اور میں اس کو نہیں بھولا۔ 2:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت ) ” وما من دآبۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا “ کے بارے میں فرمایا کہ ہر زمین پر چلنے والا (کوئی ایسا نہیں ہے جس کی روزی اللہ کے ذمہ نہ ہو) 3:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وما من دآبۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا “ یعنی جو آتا ہے ان کے پاس رزق میں سے وہ اللہ کی طرف سے اور کبھی اس کو رزق نہیں دیتے یہاں تک کہ وہ بھوک سے مرجاتا ہے لیکن جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کے لئے رزق میں سے تو وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ منجانب اللہ کھانے کا انتظام : 4:۔ حکیم ترمذی (رح) نے زید بن اسلم ؓ سے روایت کیا کہ اشعرین یعنی ابو موسیٰ ، ابو مالک اور ابو عامر اپنے میں سے ایک جماعت نے ہجرت کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے ان کا توشہ (یعنی کھانے پینے کا سامان) ختم ہوگیا انہوں نے اپنے میں سے ایک آدمی کو رسول اللہ ﷺ کے پاس سوال کرنے کے لئے بھیجا جب یہ آدمی رسول اللہ ﷺ کے دروازہ پر پہنچا تو آپ کو یہ آیت (آیت ) ” وما من دآبۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا “ ویعلم مستقرھا ومستودعھا، کل فی کتب مبین (6) “ پڑھتے ہوئے سنا اس آدمی نے کہا کہ ہم اشعر یون اللہ تعالیٰ کے نزدیک جانوروں سے زیادہ حقیر نہیں ہیں وہ آدمی لوٹ گیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا (واپس آکر اپنے ساتھیوں سے کہا) خوش ہوجاؤ تمہارے پاس اللہ کی مدد آرہی ہے۔ اس کے ساتھیوں نے یہ سمجھا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا تھا اور آپ نے (شاید) وعدہ فرما لیا تھا۔ اس درمیان کہ وہ اس حال میں تھے کہ اچانک ان کے پاس دو آدمی آئے جو ایک پیالہ روٹی اور گوشت سے بھرا ہوا اٹھائے ہوئے تھے انہوں نے اس میں سے جتنا چاہا کھایا پھر ان کے بعض نے بعض سے کہا کہ یہ (بچا ہوا) کھانا ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیج دیں تاکہ وہ بھی اس سے اپنی ضرورت کو پورا فرما لیں انہوں نے ان دونوں (پیالہ لانے والوں) سے کہا کہ یہ کھانا رسول اللہ ﷺ کے پاس لے جاؤ کیونکہ ہم نے اپنی ضرورت پوری کرلی ہے یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم نے اس کھانے سے بڑھ کر کسی کھانے کو اس سے زیادہ اور سے لذیذ نہیں دیکھا جو آپ نے بھیجا تھا آپ نے فرمایا میں نے تمہارے پاس کھانا نہیں بھیجا تھا انہوں نے بتایا کہ ہم نے اپنے ساتھی کو آپ کے پاس بھیجا تھا رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا تو انہوں نے آپ کو سارا واقعہ بتایا جو ہوا اور جو اس نے اپنے ساتھیوں سے (آکر) کہا تھا ( یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ وہ چیز ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے تم کو رزق عطا فرمایا۔ 5:۔ عبدالرزاق وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویعلم مستقرھا “ کے بارے میں فرمایا ہے کہ پناہ لینے کی جگہ اور (آیت) ” ومستودعھا “ سے مراد ہے مرنے کی جگہ (کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ کو جانتے ہیں ) ۔ 6:۔ ابو الشیخ (رح) نے ابو صالح سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کے رات کے وقت ٹھہرنے کی جگہ اور جہاں وہ مرے گا اس جگہ کو بھی جانتا ہے۔ 7:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویعلم مستقرھا “ سے مراد ہے کہ آتا ہے کہ اس کا رزق جہاں وہ ہوتا ہے۔ 8:۔ ابن ابی شیبہ وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم والحاکم رحمہم اللہ نے اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویعلم مستقرھا ومستودعھا “ سے مراد ہے کہ (اللہ تعالیٰ جانتے ہیں) ارحام اس کے ٹھہرنے کی جگہ کو اور اس جگہ کو جہاں وہ مرے گا۔ 9:۔ حکیم ترمذی (رح) نے نوادرالاصول میں والحاکم نے اور آپ نے اس کو صحیح کہا وابن مردویہ نے ولبیہقی (رح) نے شعب الایمان میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کی موت جس زمین میں (آنے والی) ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس زمین کی طرف اس کی کوئی ضرورت پیدا فرما دیتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ اس مخصوص جگہ کی انتہاتک پہنچتا ہے تو (اس کی روح) قبض کرلی جاتی ہے اور قیامت کے دن زمین کہے گی وہ آدمی ہے کہ جس کو آپ نے میرے پاس امانت رکھا تھا۔
Top