Dure-Mansoor - Hud : 84
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ
وَ : اور اِلٰي مَدْيَنَ : مدین کی طرف اَخَاهُمْ : ان کا بھائی شُعَيْبًا : شعیب قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا وَ : اور لَا تَنْقُصُوا : نہ کمی کرو الْمِكْيَالَ : ماپ وَالْمِيْزَانَ : اور تول اِنِّىْٓ : بیشک میں اَرٰىكُمْ : تمہیں دیکھتا ہوں بِخَيْرٍ : آسودہ حال وَّاِنِّىْٓ : اور بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ مُّحِيْطٍ : ایک گھیر لینے والا دن
اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا انہوں نے کہا کہ اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو تمہارے لئے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بیشک میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ آسودہ حال ہو بیشک میں تم پر ایک ایسے دن کے عذاب کا اندیشہ کرتا ہوں جو گھیر لینے والا ہوگا
قوم شعیب (علیہ السلام) کا ذکر : 1:۔ ابن جریر وابو الشیخ رحمہما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” انی ارکم بخیر “ سے مراد اشیاء کی قیمتوں کا سستا ہونا۔ (اور فرمایا) (آیت) ” وانی اخاف علیکم عذاب یوم محیط “ سے مراد ہے کہ قیمتوں کا چڑھنا اور مہنگا ہونا ہے (یعنی میں ڈرتا ہوں تم پر اس دن سے جبکہ قمیتیں چڑھ جائیں اور بھاؤ مہنگا ہوجائے۔ 2:۔ ابن جریر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” بقیت اللہ “ یعنی اللہ کا رزق۔ 3:۔ عبدالرزاق وابن جریر وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” بقیت اللہ خیر لکم “ یعنی تمہارا حصہ تمہارے رب کی طرف سے بہتر ہے تمہارے لئے۔ 4:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” بقیت اللہ “ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت۔ 5:۔ ابوالشیخ (رح) نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” بقیت اللہ “ یعنی اللہ کی وصیت وہ بہتر ہے تمہارے لئے۔ 6:۔ ابوالشیخ (رح) نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” بقیت اللہ “ سے مراد ہے کہ اللہ کا رزق تمہارے لئے بہتر ہے تمہارا لوگوں کے مالوں کو گھٹانے سے۔ 7:۔ عبدالرزاق وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے اعمش (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” اصلوتک تامرک “ یعنی کہا تیری قرأت تجھے حکم دیت ہے۔ 8:۔ ابن عساکر (رح) نے احنف (رح) سے روایت کیا کہ شعیب (علیہ السلام) انبیاء میں سب سے زیادہ نماز پڑھتے تھے۔ 9:۔ ابن جریر وابو الشیخ نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” یشعیب اصلوتک تامرک “ الآیہ کے بارے میں فرمایا کہ ان کو منع کیا ان دنانیر اور دراہم کے (ناحق) کاٹنے سے (لوگوں کے مالوں سے) تو کہنے لگے یہ ہمارے مال ہیں ان میں ہم جو چاہیں کریں۔ اگر ہم نے چاہا تو بند کو توڑ دیں گے۔ اور اگر ہم چاہیں تو ان کو جلا دیں گے اور اگر ہم چاہیں تو ان کو پھینک دیں۔ 10:۔ ابن جریر وابن منذر نے محمد بن کعب قرظی ؓ نے فرمایا شعیب (علیہ السلام) کی قوم کو عذاب دیا گیا ان کے دراہم توڑنے کی وجہ سے (وہ کہتے ہیں) (آیت) ” اوان نفعل فی اموالنا مانشوا “۔ 11:۔ ابن جریر وابن منذر ابوالشیخ نے زید بن مسلم (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” اوان نفعل فی اموالنا مانشوا “۔ یعنی (ناحق) دراہم کو کاٹ دینا (لوگوں کے مالوں سے) اور وہ زمین میں فساد برپا کرنا ہے۔ 12:۔ عبدالرزاق وابن سعید وابن منذر وابوالشیخ وعبدبن حمید رحمہم اللہ نے سعید بن المسیب ؓ سے روایت کیا کہ اس آیت میں اشارہ دراھم اور دنانیر اور ان مثاقیل کو توڑنے کی طرف ہے جو لوگوں کے درمیان رائج تھے اور انہوں نے اس سے زمین میں فساد برپا کیا۔ 13:۔ ابوالشیخ نے ربیع بن ابی ھلال سے روایت کیا کہ ابن زبیر نے سزا دی درھم کو توڑنے پر۔ 14:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” انک لانت الحلیم الرشید “ یعنی وہ لوگ کہتے تھے کہ نہ تو بردبار ہے اور نہ ہی تو رشید (یعنی دانا) ہے اور وہ مذاق کے طور پر آپ کو کہا کرتے تھے کہ پس تم ہی دانا اور نیک چلن رہے گئے ہو۔ 15:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” انک لانت الحلیم الرشید “ یعنی ان الفاظ سے مذاق کرتے تھے۔ 16:۔ ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ورزقنی منہ رزقا حسنا “ یعنی رزق حلال ہے۔ 17:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہما اللہ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وما ارید ان اخالفکم الی ما انھکم عنہ “ یعنی میں ایسا نہیں ہوں کہ میں تم کو منع کروں اس کام سے کہ جس کو میں (خود) کروں۔ 18:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے مسروق (رح) سے روایت کیا کہ ایک عورت ابن مسعود کے پاس آئی اور اس نے کہا میں مواصلہ (اپنے بالوں میں دوسرے بال لگوانا) سے روکتے ہیں ؟ فرمایا ہاں کہنے لگی شاید کہ وہ تیری بعض عورتوں میں سے بھی کوئی ہو تو انہوں نے فرمایا تو نے ایک نیک بندے کی وصیت کی حفاظت نہیں کی۔ اور فرمایا (آیت) وما ارید ان اخالفکم الی ماانھکم عنہ “۔ 19:۔ احمد (رح) نے معاویہ قشیری (رح) سے روایت کیا کہ ان کے بھائی مالک نے کہا اے معاویہ ! محمد نے میرے پڑوسی کو پکڑ لیا ہے۔ تم اس کی طرف جاؤ چناچہ میں اس کی طرف اس کے ساتھ گیا۔ اور اس نے کہا میرے پڑوسی کو میرے لئے چھوڑ دے حالانکہ وہ مسلمان ہوچکے تھے تو اس سے اعراض کیا اور کہا خبردار ! اللہ تعالیٰ کی قسم بلاشبہ لوگ گمان کریں گے کہ آپ ایک کام کا حکم کرتے ہیں اور آپ (خود) اس کے خلاف کرتے ہیں پھر اس نے کہا کیا انہوں نے اس طرح کیا ہے ؟ اگر میں بھی ایسا کروں تو وہی سزامجھ پر ہے جو اس پر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والے کا اکرام : 20:۔ ابوالشیخ (رح) نے مالک بن دیناررحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کو پڑھا (آیت) ” وما ارید ان اخالفکم الی ماانھکم عنہ “ اور فرمایا مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ قیامت کے دن نصیحت کرنے والے مرد صادق کو بلایا جائے گا اور اس کے سر پر تاج شاہی رکھا جائے گا پھر اس کو جنت کی طرف جانے کا حکم دیا جائے گا وہ کہے گا اے میرے خدا کہ قیامت کے مقام پر کچھ ایسی قومیں ہیں جو میری مدد کرتی تھیں دنیا میں اس کام پر جو بھی میں کرتا تھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کے ساتھ ایسے ہی کیا جائے گا جیسے اس کے ساتھ کیا گیا پھر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی عزت و کرامت کے ساتھ ان کی قیادت کرتے ہوئے جنت کی طرف چلا جائے گا۔ 21:۔ ابوالشیخ (رح) نے ابو اسحاق فزاری (رح) سے روایت کیا کہ میں نے جب بھی کسی کام کا ارادہ کیا تو اس وقت میں نے اس آیت کی تلاوت کی تو میرے لئے اس کا یقین ہوگیا علی وجہ البصیرت (وہ آیت یہ ہے) (آیت) ” ان ارید الا الاصلاح ما استطعت، وما توفیقی الا باللہ، علیہ توکلت والیہ انیب “ 22:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” والیہ انیب “ یعنی میں اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ 23:۔ ابونعیم (رح) نے الحلیۃ حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ مجھے وصیت فرمائیے آپ نے فرمایا تو کہہ میرا رب اللہ ہے پھر اس پر پکا ہوجا، میں نے عرض کیا (آیت) ” ربی اللہ وما توفیقی الا باللہ، علیہ توکلت والیہ انیب “ (یعنی میرا رب اللہ ہے اور نہیں ہے میری توفیق مگر اللہ کی مدد سے اس پر میں نے بھروسہ کیا اور اس کی طرف میں نے رجوع کیا) آپ نے فرمایا اے ابوالحسن (یہ حضرت علی کی کنیت ہے) یہ علم تجھ کو مبارک ہو تو سیراب ہوگیا اور تو نے اس کی پیاس خوب بجھائی ہے۔
Top