Dure-Mansoor - Ar-Ra'd : 27
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ اَنَابَۖۚ
وَيَقُوْلُ : اور کہتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) لَوْ : کیوں لَآ اُنْزِلَ : نہ اتاری گئی عَلَيْهِ : اس پر اٰيَةٌ : کوئی نشانی مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُضِلُّ : گمراہ کرتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو چاہتا ہے وَيَهْدِيْٓ : اور راہ دکھاتا ہے اِلَيْهِ : اپنی طرف مَنْ : جو اَنَابَ : رجوع کرے
اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ کہتے ہیں کہ ان پر کوئی نشانی ان کے رب کی طرف سے کیوں نازل نہیں کی گئی آپ فرما دیجئے بلاشبہ اللہ گمراہ کرتا ہے جس کو چاہے اور جو اس کی طرف رجوع ہوا سے اپنی طرف راہ دکھاتا ہے
ذکر اللہ سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ 1:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابن حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویھدی الیہ میں اناب “ یعنی جس نے توبہ کیا (آیت) ” وتطمئن قلوبہم بذکر اللہ “ یعنی اللہ کے ذکر سے دل مانوس ہوتے ہیں اور اس کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ 2:۔ ابوالشیخ (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الذین امنوا وتطمئن قلوبہم بذکر اللہ “ یعنی اگر ان کے لئے اللہ کی قسم کھائی جائے تو سچ کردکھاتے ہیں (آیت) ” الا بذکر اللہ تطمئن القلوب “ یعنی اللہ کے ذکر سے دلوں کو سکون حاصل ہوتا ہے۔ 3:۔ ابن ابی شیبہ وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الا بذکر اللہ تطمئن القلوب “ یعنی محمد ﷺ اور آپ کے اصحاب کے دل کو اللہ کے ذکر سے سکون حاصل کرتے ہیں 4:۔ ابوالشیخ (رح) نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا جب یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” الا بذکر اللہ تطمئن القلوب “ کیا تم جانتے ہو اس کا معنی کیا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں فرمایا جو شخص اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور میرے صحابہ ؓ سے محبت کرتا ہے۔ 5:۔ ابن مردویہ (رح) نے علی ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت (آیت) ” الا بذکر اللہ تطمئن القلوب “ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتے ہیں اور میرے اہل بیت سے محبت کرے سچے طور پر نہ جھوٹے طور پر اور ایمان والوں سے محبت کرتے ہیں حاضر میں بھی اور غائب میں بھی خبردار اللہ کے ذکر سے آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ 6:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” طوبی لہم “ سے مراد ہے کہ ان کے لئے خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ 7:۔ ابن ابی شیبہ وھنا دوابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” طوبی لہم “ یعنی کتنا اچھا ہے ان کے لئے ہے۔ 8:۔ ابن جریر وابوالشیخ رحمہما اللہ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” طوبی لھم “ یعنی رشک ہوگا ان کے لئے۔ 9:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” طوبی لھم “ ” وحسن لہم “ یعنی ان کے لئے بھلائی ہے اور یہ کلمہ عرب کے کلام میں سے ہے۔ 10:۔ ابن جریر (رح) نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” طوبی لھم “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ عربی کلمہ ہے کوئی آدمی کہتا ہے۔ یعنی تجھے خیر محبوب ہو۔ 11:۔ ابن جریر وابوالشیخ رحمہما اللہ نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” طوبی لھم “ یعنی یہ خبر ہے اور کرامت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمائی۔ 12:۔ ابن ابی شیبہ وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” طوبی لھم “ سے مراد ہے جنت۔ 13:۔ ابن جریر (رح) نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” طوبی لھم “ سے مراد ہے جنت۔ 14:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حبشی زبان میں طوبی جنت کا نام ہے۔ 15:۔ ابن جریر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے جنت کو پیدا فرمایا اور اس سے فارغ ہوگئے تو فرمایا (آیت) ” الذین امنوا وعملوا الصلحت طوبی لھم وحسن ماب “ اور یہ اس وقت فرمایا جب جنت اچھی لگی۔ 16:۔ ابن جریر وابوالشیخ رحمہما اللہ نے سعید بن مسجوج (رح) سے روایت کیا کہ طوبی ہندی زبان میں جنت کا نام ہے۔ 17:۔ ابن منذر (رح) نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ طوبی ہندی زبان میں جنت کا نام ہے۔ 18۔ ابن جریر وابن منذر وابوالشیخ رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” طوبی “ جنت میں ایک درخت کا نام ہے۔ طوبی جنت میں ایک درخت ہے : 19:۔ عبدالرزاق وابن ابی الدنیا نے صفت الجنۃ میں ابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ” طوبی “ جنت میں ایک درخت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لئے فرماتے ہیں کھل جا۔ میرے بندے کے لئے ان چیزوں میں سے جتنا وہ چاہے پس وہ کھل جاتا ہے۔ اس کے گھوڑوں ان کی زینوں اور ان کی لگاموں کے ساتھ کھل جاتا ہے۔ اونٹوں کے لئے ان کے کجاوں اور ان کی پہاڑوں کے ساتھ اور ان چیزوں میں سے جو وہ چاہے گا لباس میں سے۔ (یعنی جو لباس چاہے گا اس میں سے نکل آئے گا) 20:۔ ابن جریر (رح) نے معاویہ میں قرۃ کے طریق سے معاویہ بن قرہ (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے روایت کیا کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ طوبی ایک درخت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بویا اور اس میں اپنی روح میں سے پھونکا وہ لگاتا ہے زیور اور جوڑے اور اس کی ٹہنیاں البتہ تو دیکھے گا جنت کی دیواروں کے پیچھے سے۔ 21:۔ احمد وابن جریر وابن ابی حاتم والطبرانی وابن مردویہ والبیہقی نے البعث والنشور میں عتبہ بن عبد ؓ سے روایت کیا کہ ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا یارسول اللہ ﷺ کیا جنت میں پھل ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! اس میں ایک درخت ہے جس کو طوبی کے نام سے پکارا جاتا یہ فردوس کے درمیان ہے۔ دیہاتی نے کہا ہماری زمین میں سے کون سادرخت اس کے مشابہ ہے ؟ آپ نے فرمایا تیری زمین کے درخت میں سے کوئی بھی اس کے مشابہ نہیں ہے۔ لیکن کیا تو (کبھی) شام گیا ہے۔ اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا وہ ایک درخت کے مشابہ ہے جو شام میں ہے جس کو جوزہ کے نام سے پکارا جاتا ہے وہ ایک پودے کے تنہ پر اگتا ہے پھر اس کا اوپر (والا حصہ پھیل جاتا ہے۔ اس نے کہا اس کے تنے کی موٹائی کتنی ہے ـ؟ آپ نے فرمایا اگر تیرے گھرکے اونٹوں میں سے جوان اونٹ اس کا سفر شروع کرے تو وہ اس کے تنے کا احاطہ نہیں کرسکے گا۔ یہاں تک کہ اس کا سینہ ٹوٹ جائے گا۔ بڑھاپے کی وجہ سے اس نے کہا کیا اس میں انگور ہیں فرمایا ہاں دیہاتی نے کہا جنت کے انگور کتنے موٹے ہیں۔ فرمایا البقع کوے کا ایک ماہ کی مسافت اڑنے کے لحاظ سے۔ بن دیکھے رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے والوں کو بشارت : 22:۔ احمد وابویعلی وابن جریر وابن ابی حاتم وابن حبان وابن مردویہ والخطیب نے اپنی تاریخ میں ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک آدمی نے کہا یارسول اللہ خوشخبری ہے اس کے لئے جس نے آپ کو دیکھا اور آپ پر ایمان لایا اور مجھ کو نہیں دیکھا اس آدمی نے کہا طوبی کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا جنت میں ایک درخت ہے (جس کی لمبائی) سو سال کا سفر ہے نکلتا ہے۔ اپنے غلاف میں سے۔ 23:۔ ابن ابی شیبہ نے صفۃ الجنۃ میں وابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے ابوامامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو جنت میں داخل ہو مگر وہ چلے گا طوبی کی طرف اس کے لئے اس کے غلاف کھل جائیں گے۔ وہ اس کے لئے نکالے گا وہ چیز جو وہ چاہے گا چاہے سفید چاہے سرخ چاہے سبز چاہے سیاہ (ویسی ہی پھول پیتاں نکالے گا جیسے شفائق النعمان کے پھول) بلکہ اس سے زیادہ نرم اور خوبصورت۔ 24:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن سرین سے روایت کیا کہ ایک درخت ہے جنت میں کہ اس کی جڑ ہر اونچے حجرہ میں ہے اور جنت میں کوئی حجرہ ایسا نہیں ہے مگر اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ اس میں موجود ہے۔ 25:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہما اللہ نے ابوجعفر جو شام والوں میں سے ایک آدمی ہیں ان سے روایت کیا کہ تیرے رب نے ایک موتی لیا اس کو رکھا پھر اس کو عمدگی سے ڈھالا پھر اس کو جنت کے درمیان میں بچھا دیا پھر اس سے فرمایا پھیل جا یہاں تک کہ پہنچ جا میری مرضی کو اس نے ایسا ہی کیا پھر ایک درخت کو لیا پھر اس کو موتی کے درمیان میں بودیا۔ پھر اس سے فرمایا پھیل جا یہاں تک کہ پہنچ جا میری مرضی کو اس نے ایسا ہی کیا پھر ایک درخت کو لیا پھر اس کو موتی کے درمیان میں بودیا۔ پھر اس سے فرمایا پھیل جا اس نے ایسا ہی کیا جب وہ برابر ہوگیا تو اس کی جڑوں میں سے جنت کی نہریں جاری ہوگئیں اور یہی درخت طوبی ہے۔ 26:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے فرقد سجنی (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انجیل میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی۔ اے عیسیٰ ! میرے حکم میں کوشش کر اور اور کمزور درخت ہوجا میری بات کو سن اور میرے حکم کی اطاعت کر اے بکر بتول کے بیٹے میں نے تجھ کو پیدا کیا بغیرمرد کے اور تیری ماں کو جہان والوں کے لئے نشانی بنایا تو صرف میری ہی عبادت کرو اور مجھ پر بھروسہ رکھ اور کتاب کو مضبوطی کے ساتھ پکڑو عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے میرے رب کون سی کتاب کو مضبوطی کے ساتھ پکڑوں فرمایا ؟ انجیل کتاب کو مضبوطی کے ساتھ پکڑو اور سریانی زبان والوں کے لئے اس کی تفسیر بیان کر اور ان کو خبر دے کہ میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں میں ہمیشہ زندہ ہوں اور قائم رہنے والا ہوں۔ مثال کی چیزوں کو بنانے والا ہوں اور ہمیشہ رہنے والا ہوں۔ میں وہ ہوں جس کو کوئی زوال نہیں پس تم اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ جو نبی امی ہیں۔ جو آخری زمانہ میں ہوں گے تم اس کی تصدیق کرو اور ان کی تابعداری کرو جو اونٹ والے ہیں، زرہ والے ہیں چھڑی والے ہیں، اور تاج والے ہیں بڑی آنکھوں والے اور ملے ہوئے بھنووں والے ہیں وہ چادر والے ہیں ان کی نسل مبارک سے حضرت خدیجہ ؓ ہیں اے عیسیٰ (علیہ السلام) اس (خدیجہ) کے لئے ایک محل ہے جو موتیوں سے بنا ہوا ہے۔ اس پر سونا لگا ہوا ہے۔ اس میں سے نہ کسی تکلیف دہ بات کو سنیں گے اور نہ کبھی تھکان کو اس کی ایک بیٹی فاطمہ ہے اور اس کے دو بیٹے ہیں جو شہید ہوں گے یعنی حسن اور حسین ؓ خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جو ان کے کلام کو سنے اور ان کے زمانے کو پائے اور اب آپ کی زندگی میں ہو عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے میرے رب ! طوبی کیا ہے ؟ فرمایا یہ ایک درخت ہے جنت میں میں نے اس کو اپنے ہاتھ سے بویا اور اس میں میں نے اپنے فرشتوں کو ٹھہرایا اس کی جڑ (جنت) رضوان میں سے ہے۔ اور اس کا پانی تسنیم میں سے ہے۔ 27:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہما اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ طوبی جنت میں ایک درخت ہے اس کا پھل عورتوں کے پستانوں کی طرح ہے اس میں جنت والوں کے لئے جوڑے ہیں (یعنی لباس ہیں) 28:۔ ابن ابی الدنیا نے العزاء میں وابن ابی حاتم نے خالد بن معدان (رح) سے روایت کیا کہ جنت میں ایک درخت ہے جس کو طوبی کہا جاتا ہے اس کے سارے تھن ہیں اس سے جنت والوں کے بچے دودھ پیتے ہیں، دودھ پیتا بچہ فوت ہوجاتا ہے۔ (پھر) وہ طوبی سے جنت میں دودھ پلایا جاتا ہے۔ اور اگر کسی عورت کا (ادھورا) بچہ گرجائے تو وہ جنت کے نہروں میں سے ایک نہر میں ہوتا ہے۔ اس میں گھومتا رہے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہوگئی اور وہ چالیس سال کی عمر میں اٹھایا جائے گا۔ 29:۔ ابن جریر وابوالشیخ نے شھربن حوشب (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے طوبی کے بارے میں فرمایا کہ یہ ایک درخت ہے جنت میں ہر درخت طوبی سے ہے کہ اس کی ٹہنیاں جنت کی دیواروں کے پیچھے سے نظر آتی ہیں۔ درخت طوبی کی تفصیل : 30:۔ ابن جریر وابوالشیخ رحمہما اللہ نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ جنت میں ایک درخت ہے جس کو طوبی کہا جاتا ہے ایک سوار اس کے سائے میں سو سال تک چلے گا تو اس کا سایہ ختم نہ ہوگا اس کی کلیاں بڑے کیڑوں کی طرح ہیں اور اس کے پتے بڑی بڑی چادریں ہیں اس کی ٹہنیاں غیر کی ہیں اور اس کے سنگریزے یاقوت کے ہیں اس کی مٹی کافور کی ہے۔ اور اس کا کیچڑ مشک کا ہے۔ اس کی جڑ میں سے شراب دودھ اور شہد کی نہریں نکلتی ہیں اور یہ ایک بیٹھنے کی جگہ ہوگی جنت والوں کی بیٹھنے کی جگہوں میں سے ان کے درمیان باتیں کریں گے۔ اس درمیان کہ وہ اپنے مجلس میں ہوں گے اچانک ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے فرشتے آئیں گے وہ اونٹنیاں لئے ہوں گے جو سونے کے تاروں سے نکیل ڈالی گئی ہوں گی اس کے چہرے خوبصورتی کی وجہ سے چراغوں کی طرح ہوں گے ان کی اون نرمی میں رخسار کے پردوں کی طرح نرم ہوگی۔ ان پر ایسے کجاوے ہوں گے کہ جن کے تختیاں یاقوت کی ہوں گی۔ جن کی لکڑی سونے کی ہوں گی اور ان کے کپڑے باریک اور موٹے ریشم کے ہوں گے۔ وہ ان اونٹنیاں کو بٹھائیں گے اور وہ کہیں گے ہمارے رب نے ہم کو بھیجا ہے تمہاری طرف تاکہ تم اس کی زیارت کرو اور ان پر سوار ہوجاؤ تو یہ پرندے سے زیادہ تیز ہوں گی اور بستروں سے زیادہ نرم ہوں گی یہ بڑی عمدہ اونٹنیاں ہوگی۔ ایکآدمی اپنے بھائی کے پہلو سے گزرے گا۔ اور وہ اس سے باتیں کرے گا اور اس سے سرگوشی کرے گا۔ کسی سورای کا کان دوسری سواری کے کان کو نہیں پہنچے گا ہر سواری دوسری سواری کے برابر چلے گی حتی کہ درخت ان کے راستے سے ہٹ جائے گا۔ تاکہ آدمی اور اس کے بھائی کے درمیان جدائی نہ ہوجائے وہ لوگ رحمن رحیم کی طرف آئیں گے ان کے لئے پردہ ہٹادیا جائے گا۔ اس کریم ذات مبارک چہرے سے یہاں تک کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھیں گے۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے تو کہیں گے اے اللہ ! تو ہی سلامتی دینے والا ہے اور تجھ ہی سے سلامتی ہے اور آپ کے لئے حق ہے اے بزرگی اور عزت والے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں ہی سلامتی والا ہوں، اور مجھ ہی سے سلامتی ہے اور تمہارے اوپر لازم کردی اپنی رحمت اور اپنی محبت مرحبا اے میرے بندو جو مجھ سے بغیر دیکھے ڈرتے تھے اور میرے حکم کی اطاعت کرتے تھے وہ لوگ کہیں گے اے ہمارے رب ہم نے عبادت نہیں کی جیسے حق تھا تیری عبادت کا اور ہم نے قدر نہیں کی جیسے حق تھا تیری قدر کا ہم کو اپنے قدموں میں سجدہ کرنے کی اجازت دیجئے اللہ عزوجل فرمائیں گے یہ گھر (یعنی جنت) ایسا ہے جس میں کسی قسم کی تھکاوٹ اور عبادت کا حکم نہیں ہے۔ یہ ملک ونعیم کا گھر ہے۔ میں نے تم سے عبادت کی مشقت اٹھائی ہے مجھ سے سوال کرو جو تم چاہوتم میں سے ہر ایک کو اس کی خواہش کے مطابق ملے گا وہ اللہ تعالیٰ سے مانگتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ ان میں سے حبشی کی خواہش سب سے کم ہوگی۔ تو وہ کہے گا اے میرے رب ! دنیا والوں نے دنیا میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کی تو اس سے تنگ ہوگئے اے میرے رب ! آپ نے مجھے ہر چیز دی جو تو نے دنیا میں ابتداء سے انتہاء تک پیدا فرمایا جس میں لوگ لگے رہے اللہ عزوجل فرمائیں گے تیری خواہش بہت مختصر ہے۔ اور تو نے اپنی قدرومنزلت سے کم سوال کیا یہ سب کچھ تجھے ملے گا میری طرف سے میں تجھے اپنے مقام سے گھبراوں گا۔ کیوں کہ میرے پاس عطا میں کمی اور اختتام کا تصور ہی نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میرے بندوں پر وہ نعمتیں پیش کرو جو کبھی اپنوں میں بھی نہیں لائیں۔ اور نہ کبھی ان کے خیال میں آئیں (پھر وہ چیزیں ان پر پیش کی جائیں گی) اور وہ یہ ہوں گی گھوڑے اچھی نسل کے آپس میں ملے ہوئے ہیں ان میں ہر چار پر ایک پلنگ ہوگا ایک ہی یاقوت سے ان میں سے ہر ایک پر سونے کا قبہ ہوگا۔ ہر قبہ میں جنت کے قالین بچھے ہوں گے۔ ان میں ہر ایک حور پر جنت کے کپڑوں میں سے دو کپڑے ہوں اور جنت میں کوئی ایسا رنگ نہ ہوگا جو اس میں نہ ہو اور پاکیزہ خوشبو اس کے ساتھ مہک رہی ہوگی ان کے چہرے کی چمک قبہ کی دیواروں میں سے باہر دکھائی دے گی یہاں تک کہ گمان کرے گا وہ شخص جو ان کو دیکھے گا کہ حوریں قبہ سے باہر کھڑی ہیں ان کی پنڈلیوں کا گودا لباس سے باہر دکھائی دے گا جیسے سفید لڑی میں پرویا ہوا سرخ یاقوت ہو۔ ایک دوسرے سے بہتر دکھائی دے گی۔ جیسے سورج کی فضیلت ہے پتھروں پر یا اس سے بھی زیادہ افضل ہر جنتی اس کو اس طرح دیکھے پھر ہر جنتی ان کے پاس جائے گا (دونوں حوریں) اس کی آؤ بھگت کریں گی تو ان کے پاس آکر بوس وکنار اور معانقہ کریں گے اور وہ اس کو کہیں گے اللہ کی قسم ہم کو گمان بھی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ایسی نعمتیں پیدا فرمائیں گے پر فرشتوں کو حکم فرمائیں گے وہ ان کو جنت میں ایک صف میں لے جاؤ یہاں تک کہ ان میں سے ہر آدمی اپنے مقام پر پہنچ جائے گا جو اس کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ طوبی درخت کے سایہ کی مقدار : 31:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ایک دوسری سند سے محمد بن علی بن حسین بن فاطمہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت میں ایک درخت ہے جس کو طوبی کہا جاتا ہے۔ ایک تیز رفتار سوار اس کے سائے میں چلے البتہ اس میں سو سال تک چلے گا اس کے ختم ہونے سے پہلے اس کے پتے دھاری دار سبز چادر (کی طرح) ہیں اور اس کے کلیاں زرد چادریں ہیں اور اس کی لکڑیاں موٹے اور باریک ریشم کی ہیں اور اس کے پھل سبز (کپڑوں) کے جوڑے ہیں اور اس کی گوند زنجیل اور شہد ہے اور اس کی کنکریاں سرخ یاقوت اور سبز زار کی ہیں اور اس کی مٹی مشک اور عنبر کی ہے اور زرد کافور کی ہے اس کا گھاس عمدہ زعفران کا ہے اور اس کی انگیٹھیوں میں لکڑیاں بغیر جلائے چلیں گی اس کی جڑ سے نہریں نکلتی ہیں اس کی نہریں مسلسل اور حسین فی الرفیق ہیں اس اور سایہ جنت کی مجلس گاہوں میں سے ایک مجلس گاہ ہے جس میں بات کررہے ہوں گے اچانک ان کے پاس فرشتے ایسی اونٹنیاں لائیں گے جو یاقوت سے پیدا کی ہوئی ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ اس میں روح پھونکے گا ان کی صورت گویا ان کے چہرے چمک کی وجہ سے چراغ معلوم ہوں گے۔ ان کی اون سرخ ریشم اور رخساروں کے روشن جیسی ہوگی۔ دیکھنے والوں نے اس کی مثل خوبصورت اور دیدہ زیب کبھی نہ دیکھا ہوگا ان اونٹنیوں پر ایسے کجاوے ہوں گے ان کی تختیاں موٹی اور یاقوت ہوں گے ان کے اوپر موتی اور مرجان جڑے ہوئے ہوں گے یہ سواریاں ان کی طرف بٹھا دیں گے ان کی جانبوں میں پھر وہ فرشتے ان سے کہیں گے تمہارا رب تم کو سلام بھیجتا ہے اور وہ تم کو زیارت کرانا چاہتا ہے تاکہ تم اس کی طرف دیکھو اور وہ تمہاری طرف دیکھیں۔ اور تم ان کو مبارک باد دے دو اور وہ تم کو مبارک بادی دے دیں تم ان سے باتیں کرو اور وہ تم سے باتیں کریں۔ اور وہ زیادہ فرمائیں گے تم کو اپنے فضل سے کیونکہ وہ وسیع رحمت والے اور بڑے فضل والے ہیں پس ہر آدمی اپنی اونٹنی کی طرف جائے گا۔ یہاں تک کہ وہ ایک صف میں میانہ روی کے ساتھ چلیں گے اس سے کچھ بھی فوت نہ ہوگا ایک اونٹنی کا کان دوسری اونٹنی کے کان کو فوت نہیں کرے گا اور ایک اونٹنی کے بیٹھنے کی کیفیت دوسری اونٹنی کے بیٹھنے کی کیفیت سے جدا نہ ہوگئی اور وہ نہیں گزریں گے جنت کے درختوں میں سے کسی درخت کے پاس سے مگر وہ ان کو گھیر لے گا اپنے پھلوں کے ساتھ اور درخت ہٹ جائے گا ان کے لئے راستے سے ناپسند کرتے ہوئے اس بات کو کہ ان کی صف نہ ٹوٹے جائے یا آدمی اور اس کے ساتھی کے درمیان جدائی نہ ہوجائے۔ جب وہ پہنچیں گے اللہ تعالیٰ کی طرف تو وہ ان کے لئے اپنے کریم چہرے کو کھول دے گا اور ان کے لئے ظاہر فرمائے گا اپنی بڑی عظمت اور ان کو سلام فرمائیں گے اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے میں سلامتی والا ہوں اور میری طرف سلامتی ہے جلال واکرام کا حق میرے لئے ہے خوشآمدید اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے میری وصیت کی حفاظت کی اور میرے وعدے کو پورا کیا اور بغیر دیکھے مجھ سے ڈرے۔ اور ہر حال میں مجھ سے ڈرتے رہے۔ وہ لوگ کہیں گے (لیکن) آپ کی عزت کی آپ کی عظمت اور آپ کے جلال اور آپ کے بلند مرتبہ کی قسم ہم نے آپ کی قدر نہیں کی جیسے حق تھا قدر کرنے کا اور ہم آپ کا حق نہ پہچان سکے ہم نے کما حقہ تیرا حق ادا نہیں کیا۔ (اب) ہم کو اپنے لئے سجدہ کی اجازت دیجئے۔ رب ان سے فرمائیں گے میں نے تم سے عبادت کی تکلیف کو مٹا دیا ہے۔ اور میں نے تمہارے بدنوں کو راحت دی ہے۔ کیونکہ دنیا میں تم نے میرے لئے بدنوں کو تھکایا اور تم نے میرے لئے اپنے چہروں کو جھکایا اب تم میری روح اور میری رحمت اور میری عزت اور میری بڑائی اور میرے جلال اور میرے بلند مرتبہ اور میری عظمت شان کی طرف آپہنچے۔ پس وہ ہمیشہ خواہشات اور نوازشات میں رہیں گے۔ یہاں تک کہ ان میں سے کم سے کم امید کرنے والا وہ ہوگا جو یہ کہے گا کہ میرے لئے ساری دنیا کی وہ چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی۔ پیدا کرنے کے دن سے فنا ہونے کے دن تک ان کے رب ان سے فرمائیں گے البتہ تحقیق تم نے بہت کم خواہشات کی ہیں اور تم راضی ہوگئے کم پر تمہارے لئے حق میں بنایا گیا تھا اب میں نے وہ سب کچھ تمہارے لئے ثابت کردیا ہے جو کچھ تم نے سوال کیا اور جس کی تم نے تمنا کی اور میں نے تم کو وہ سب کچھ دیا جہاں تک تمہاری خواہشات بھی نہ پہنچ سکیں دیکھو تم اپنے رب کی عطا کردہ چیزوں کی طرف جو تم کو انہوں نے عطا فرمائی ہیں پس وہ دیکھیں گے رفیق اعلی میں بڑے بڑے قبے تھے اور بلند وبالا کمرے ہیں موتیوں اور مرجان سے ان کے دروازے سونے کے ہیں ان پر پلنگ یاقوت کے ہیں ان کے قالین سندس اور استبرق کے ہیں اس کے منبر نور سے ہیں جو نکل رہا ہے ان کے دروازوں سے اور اس کے صحن میں ایسے ہیں جو سورج کی شعاع کی طرح ہیں اس کے پاس چمکتے ہوئے ستارے کی طرح ہے جو دن کی روشنی بھی چمکتا ہے اور اونچے محل ہوں گے یاقوت کے اعلی علیین میں کہ جن کا نور چمکے گا اگر وہ نور مسخر نہ ہوتا تو (اس کی روشنی) اچک لیتی آنکھیوں کو جو محل سفید یاقوت کے بنے ہوئے ہیں ان میں قالین بچھائے گئے ہیں سفید ریشم کے اور جو بالا خانے سرخ یاقوت کے ہیں تو وہ ان میں سے قالین ہیں نادر اور قیمتی اور جو محل سبز یاقوت کے ہیں انمیں سے قالین ہیں سبز ریشم کے جو محل زرد یاقوت کے ہیں ان میں قالین ہیں گلابی رنگ کے اور ان کے دروازے سبز زمرد کے اور سرخ سونے کے اور سفید چاندی کے ہیں ان کی دیواریں اور ستون جواہر سے بنے ہوئے ہیں ان کے اوپر موتیوں کے قبے بنائے گئے ہیں ان کے بروج پر موتیوں کی قلعی بنائی گئی ہے۔ جب وہ لوٹیں گے ان انعامات کی طرف جو ان کے رب نے ان کو عطا کئے۔ تو ان کے قریب کئے جائیں گے۔ سفید یاقوت کے گھوڑے جن میں روح پھونکی گئی ہوگی اس کے پہلو میں ہمیشہ ایک حالت پر رہنے والے خوبصورت لڑکے ہوں گے۔ ان میں سے ہر لڑکے کے ہاتھ میں گھوڑے کی لگام ہوگی ان گھوڑوں میں سے اور ان کی لگامیں اور رسیاں سفید چاندی کی جو موتی اور یاقوت سے پروئی ہوئی ہوں گی۔ ان گھوڑوں کی زینیں سندس اور استبرق سے مزین ہوں گی۔ یہ گھوڑے ان کو لے کر چلیں گے اور جنت کی زمین کو روندیں گے۔ جب اپنی پر پہنچی گے تو فرشتوں کو پائیں گے جو نور کے منبروں پر بیٹھے ہوئے ان کا انتظار کررہے ہوں گے تاکہ ان کی زیارت کریں اور ان سے مصافحہ کریں اور ان کو مبارک باد دیں اپنے رب کی طرف سے عزت ملنے پر جب اپنے محلات میں داخل ہوں گے تو پائیں گے سب نعمتوں کو وافر مقدار میں جو اپنے رب سے انہوں نے سوال کیا تھا اور تمنا کی تھی اور ہر محل کے دروازے پرچار باغات ہوں گے (آیت ) ” ذواتا افنان “ (48) ۔ (یعنی بہت شاخوں والے) (آیت) ” مدھآمتن (64) (یعنی وہ دونوں بہت ہی سبز ہوں گے) ” فیھما عینن نضاختن (66) “ (یعنی دونوں چشمے ابتلے ہوئے ہوں گے) اور ان دونوں میں ہر پھل ہوگا دو قسم کا ” حور مقصورت فی الخیام (72) (الرحمن : 72) (یعنی وہ حوریں جو خیموں میں بند ہوں گی) جب وہ اپنی اپنی جگہ پر آرام سے پہنچ جائیں گے تو ان کا رب ان سے فرمائے گا کیا تم نے اس وعدے کو سچا پالیا جو تمہارے رب نے تم سے کیا تھا وہ کہیں گے ہاں ہمارے رب پھر فرمائیں گے کیا تم راضی ہوگئے اپنے رب کے ثواب کے ساتھ وہ کہیں گے ہمارا رب راضی ہوگا اپنے رب کے ثواب کے ساتھ وہ کہیں گے ہمارے رب ہم سے راضی ہوگئے آپ بھی ہم سے راضی ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میری رضا مندی کی وجہ سے تم میرے گھر میں اترے ہو، اور تم نے دیکھ لیا میرے چہرے کی طرف اور تم نے مصافحہ کرلیا میرے فرشتوں سے پس تمہیں مبارک ہو دائمی عطا (تمہارے رب کی طرف سے) جو کبھی ختم نہیں ہوگئی۔ نہ ہونے والی ہے۔ اس وقت وہ لوگ کہیں گے سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہم سے غم کو دور کردیا اور ہم کو قیام کرنے کی جگہ (یعنی جنت) میں اتار دیا اپنے فضل سے (اس میں) نہ کوئی مشقت اور نہ کوئی تھکان ہم کو پہنچے گی۔ بلاشبہ ہمارا رب البتہ بہت بخشنے والا قدر دانی کرنے والا ہے۔ 32:۔ عبدبن حمید (رح) نے زید مولی مخزوم سے روایت کیا کہ میں نے ابوہریرہ ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جنت میں ایک درخت ہے ایک سوار اس کے سایہ میں سو سال تک چلے گا تو بھی اس کو قطع نہیں کرسکتا اور یہ آیت پڑھ لو اگر چاہو آیت ” وظل ممدود (30) (واقعہ آیت 30) یہ بات کعب ؓ کو پہنچی تو انہوں نے فرمایا (ابوہریرہ ؓ نے) سچ کہا اس ذات کی قسم جس نے تورات کو موسیٰ (علیہ السلام) پر اور فرقان کو محمد ﷺ پر نازل فرمایا اگر ایک سوار نوجوان اونٹ پر سوار ہو پر وہ اس درخت کے تنے کا چکر لگائے تو اس کا احاطہ نہ کرسکے گا۔ یہاں تک کہ بوڑھا ہو کر گرجائے گا۔ اللہ تعالیٰ عزوجل نے اس کو اپنے ہاتھ سے بویا اور اس میں اپنی روح کو پھونکا اور اس کی شاخیں جنت کی دیوروں سے باہر ہیں اور جنت کی ہر نہر اس درخت کے تنے سے نکلتی ہے۔ 33:۔ ابن جریر (رح) نے مغیث بن سمی (رح) سے روایت کیا کہ طوبی جنت میں ایک درخت ہے اگر ایک آدمی جوان اونٹ یا اونٹنی پر سوار ہو کر اس کے گرد گھومے تو نہیں پہنچے گا اس جگہ پر جہاں سے وہ چلا تھا یہاں تک کہ وہ اونٹ بوڑھا ہو کر مرجائے گا اور جنت والوں میں سے کوئی گھر ایسا نہیں ہے کہ اس درخت میں سے ایک ٹہنی اس پر لٹکی ہوئی ہے۔ جب وہ ارادہ کریں گے کہ پھل میں سے کھائیں تو ان کی طرف وہ پھل لٹک آئے گا۔ اور وہ لوگ اس میں کھائیں گے جتنا چاہیں گے اور ایک پرندہ آئے گا وہ لوگ ان میں سے بھی خوش اور بھونا ہوا گوشت کھائیں گے جتنا چاہیں گے پھر وہ اڑ جائیں گے۔ 34:۔ ابن ابی شیبہ (رح) نے ابواصالح (رح) سے روایت کیا کہ طوبی ایک درخت اگر ایک سوار تین سال یا دو سال کے اونٹنی کے بچے پر سوار ہوجائے اور اس کے گرد چکرلگائے تو اس جگہ کو نہ پہنچے گا جہاں سے وہ سوار ہوا تھا یہاں تک کہ وہ بوڑھاپا اس کو قتل کردے گا۔ 35:۔ ابن مردویہ (رح) نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس طوبی کا ذکر کیا گیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے ابوبکر ؓ کیا تجھ کو طوبی کی بات پہنچی ہے ؟ عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں فرمایا طوبی جنت میں ایک درخت ہے اس کی لمبائی کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ایک ایک سوار اس کی ٹہنیوں میں سے ایک ٹہنی کے نیچے ستر سال تک چلے گا۔ اس کے پتے لباس ہیں اس پر پرندے بیٹھے ہیں ویہ بختی اونٹوں کی مثل ہیں۔ ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ وہ پرندے نرم ہیں۔ فرمایا وہ بھی نرم ونازل ہیں جو اس میں سے کھائیں گے۔ اور تو ان میں سے ہوگا اے ابوبکر اگر اللہ نے چاہا۔ 36:۔ ابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا طوبی جنت میں ایک درخت ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بویا اور اس میں اپنی روح کو پھونک دیا اور اس کی شاخیں جنت کی دیواروں کے باہر دیکھی جاتی ہیں۔ وہ لباس اگاتا ہے اور اس پر پھل لٹکے ہوئے ہیں ان کے مونہوں پر۔ 37:۔ سعید بن منصور وابن ابی شیبہ وھنا دوابن السری نے الزہد میں وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے مغیث بن سمی (رح) سے روایت کیا کہ طوبی جنت میں ایک درخت ہے جنت میں کوئی گھر ایسا نہیں ہے کہ اس کی شاخوں میں سے کسی شاخ کا اس پر سایہ نہ ہو اس میں پھل ہیں ہر رنگ کے اس پر بختی اونٹوں کی مثل پرندے بیٹھے ہوئے ہیں جب ایک آدمی اس پرندے کو چاہے گا تو اس کو بلائے گا اور وہ پرندہ اس کے دسترخوان پر واقع ہوجائے گا۔ اسکی ایک جانب سے بھنا ہوا (گوشت) کھائے گا اور دوسری جانب سے خشک گوشت کھائے گا پھر وہ (پورا) پرندہ بن کر اڑ جائے گا۔ 38:۔ ابن ابی الدنیا نے العزاء میں وابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے خالد بن معدان ؓ سے روایت کیا کہ جنت میں ایک درخت ہے جس کو طوبی کہا جاتا ہے۔ اس کے سارے تھن ہوں گے بچوں میں سے جو بچے اس حال میں مریں گے کہ وہ دودھ پیتے تھے تو وہ (مرنے کے بعد) طوبی میں ( دودھ) پیتا ہے۔ 39:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ فرمایا کہ (آیت) ” طوبی لہم “ سے مراد ہے رشک وحسن مآب یعنی اچھی ہے لوٹنے کی جگہ۔ 40:۔ ابوالشیخ (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وحسن ماب “ سے مراد ہے اچھی ہے لوٹنے کی جگہ۔
Top