Dure-Mansoor - Ar-Ra'd : 31
وَ لَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُیِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْاَرْضُ اَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتٰى١ؕ بَلْ لِّلّٰهِ الْاَمْرُ جَمِیْعًا١ؕ اَفَلَمْ یَایْئَسِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ لَّوْ یَشَآءُ اللّٰهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِیْعًا١ؕ وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا تُصِیْبُهُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَةٌ اَوْ تَحُلُّ قَرِیْبًا مِّنْ دَارِهِمْ حَتّٰى یَاْتِیَ وَعْدُ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ۠   ۧ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّ : یہ کہ (ہوتا) قُرْاٰنًا : ایسا قرآن سُيِّرَتْ : چلائے جاتے بِهِ : اس سے الْجِبَالُ : پہاڑ اَوْ : یا قُطِّعَتْ : پھٹ جاتی بِهِ : اس سے الْاَرْضُ : زمین اَوْ : یا كُلِّمَ : بات کرنے لگتے بِهِ : اس سے الْمَوْتٰى : مردے بَلْ : بلکہ لِّلّٰهِ : اللہ کے لیے الْاَمْرُ : کام جَمِيْعًا : تمام اَفَلَمْ يَايْئَسِ : تو کیا اطمینان نہیں ہوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : وہ لوگ جو ایمان لائے (مومن) اَنْ : کہ لَّوْ يَشَآءُ اللّٰهُ : اگر اللہ چاہتا لَهَدَى : تو ہدایت دیدیتا النَّاسَ : لوگ جَمِيْعًا : سب وَلَا يَزَالُ : اور ہمیشہ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جو کافر ہوئے (کافر) تُصِيْبُهُمْ : انہیں پہنچے گی بِمَا صَنَعُوْا : اس کے بدلے جو انہوں نے کیا (اعمال) قَارِعَةٌ : سخت مصیبت اَوْ تَحُلُّ : یا اترے گی قَرِيْبًا : قریب مِّنْ : سے (کے) دَارِهِمْ : ان کے گھر حَتّٰى : یہانتک يَاْتِيَ : آجائے وَعْدُ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُخْلِفُ : خلاف نہیں کرتا الْمِيْعَادَ : وعدہ
اور اگر قرآن ایسا ہوتا جس کی وجہ سے پہاڑ چلا دیئے جاتے یا اس کے ذریعہ زمین کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جاتے یا اس کے ذریعہ مردوں سے بات کرا دی جاتی تب بھی یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں، بلکہ تمام امور اللہ ہی کے لئے ہیں، کیا اہل ایمان ناامید نہیں ہوئے حالانکہ یہ جانتے ہیں کہ اللہ چاہتا تو سب لوگوں کو ہدایت دے دیتا، اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے اعمال بد کی وجہ سے انہیں برابر کوئی نہ کوئی مصیبت پہنچتی رہے گی یا ان کے مکانوں کے قریب مصیبت نازل ہوجائے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ آجائے بلاشبہ اللہ وعدہ خلاف نہیں فرماتا
ضدی منعت کو ہدایت نہیں ملتی : 1:۔ الطبرنی وابوالشیخ وابن مردویہ رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قریش مکہ نے نبی ﷺ سے کہا اگر تو ایسا ہی ہے جیسے تو کہتا ہے تو ہم کو دکھا دے ہمارے ان سرداروں کو جو مرچکے ہیں (تاکہ) ہم ان سے باتیں کریں اور ان پہاڑوں کو ہم سے دور کردیجئے۔ تو (یہ آیت) نازل ہوئی (آیت ) ” ولو ان قرانا سیرت بہ الجبال او قطعت بہ الارض اوکلم بہ الموتی “ 2:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ وابن مردویہ رحمہم اللہ نے عطیہ عوفی (رح) سے روایت کیا کہ قریش مکہ نے محمد ﷺ سے کہا اگر ہمارے لئے نہ مکہ کے پہاڑ چلے جائیں یہاں تک کہ ( جگہ) کشادہ ہوجائے اور ہم اس میں کھیتی کریں یا ہمارے لئے زمین پھٹ جائے، جیسے سلیمان (علیہ السلام) اپنی قوم کے لئے ہوا کے ذریعہ زمین کو طے کرتے تھے۔ یا ہمارے لئے مردوں کو زندہ کردیا جائے جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کے لئے مردوں کو زندہ کردیتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت ) ” ولو ان قرانا سیرت بہ الجبال “ سے لے کر ”(آیت ) ” افلم یایئس الذین امنوا “ تک فرمایا کیا ایمان والوں کے لئے (یہ بات) ظاہر نہیں ہوئی لوگوں نے پوچھا کیا یہ حدیث نہیں کہ نبی ﷺ کے اصحاب میں سے کسی صحابہ میں سے کسی صحابہ سے مروی ہے تو فرمایا ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ 3:۔ ابن جریر وابن مردویہ رحمہما اللہ نے عوفی (رح) سے راستہ سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قریش میں سے مشرکوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا اگر ہمارے لئے مکہ کی وادیاں وسیع ہوجائیں۔ ہمارے لئے چل پڑی تو ہم کھیتی باڑی کریں اور ہم سے جو مرچکے ہیں ان کو زندہ کردیں اور اس کے ذریعہ زمین کو پھاڑ دیں یا اس کے ذریعہ سے مردے بات کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ نے (آیت ) ” ولو ان قرانا “ (الآیہ) کو اتارا۔ اپنے خاندان والوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانا : 4:۔ ابویعلی و ابونعیم نے دلائل میں وابن مردویہ رحمہم اللہ نے زبیر بن عوام ؓ سے روایت کیا کہ جب (یہ آیت ) ” وانذر عشیرتک الاقربین (214) “ (الشعراء آیت 214) نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ابوقیس (پہاڑ) پر کھڑے ہو کر آواز لگائی۔ اے آل غیر مناف بلاشبہ میں ڈرانے والا ہوں تو قریش آگئے اور اپنے ان کو ڈرایا انہوں نے کہا تو یہ خیال کرتا ہے کہ تو نبی ہے کہ تیری طرف وحی کی جاتی ہے۔ اور سلیمان (علیہ السلام) کے لئے مسخر کیا گیا تھا ہوا کو اور پہاڑوں کو اور موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے دریا کو مسخر کردیا گیا۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) مردوں کو زندہ کردیتے تھے (تو) اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے۔ کہ یہ پہاڑ یہاں سے چل پڑیں۔ اور ہمارے لئے زمین سے نہریں پھوٹ پڑیں تاکہ ہم اس کو کھیتیاں کرنے کی جگہ بنالیں ہم کھیتی کریں اور ہم (اس میں سے) کھائیں ورنہ اللہ تعالیٰ سے دعا کر کہ وہ ہمارے لئے مردوں کو زندہ کردے کہ ہم ان سے باتیں کریں اور وہ ہم سے باتیں کریں ورنہ اللہ تعالیٰ سے دعا کر، کہ اس چٹان کو جو تیرے نیچے ہے سونے کا بنا دے تاکہ ہم اس میں سے تراش لیں اور ہم گرمی سردی کے سفر سے بےنیاز ہوجائیں۔ بلاشبہ تو گمان کرتا ہے کہ تو ان (سابقہ پیغمبروں) کی طرح ہے اس درمیان کہ ہم آپ کے اردگرد تھے اچانک آپ پر وحی نازل ہونے لگی۔ جب وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو عطا فرما دیا جو کچھ تم نے سوال کیا اگر میں چاہوں تو ہوجائے گا لیکن مجھ کو اختیار دیا گیا ہے درمیان ان (دو کاموں) کے کہ یا تم رحمت کے دروازہ میں داخل ہوجاؤ اور تمہارے ایمان لانے والے ایمان لانے والے ایمان نہ لائیں تو میں نے رحمت کے دروازے کو اختیار کیا اور تمہارے ایمان لانے والے ایمان لائیں اور مجھ کو خبردی گئی اگر تم کو (مانگی ہوئی چیزیں) عطا کردوں پھر تم نے کفر کیا تو تم کو ایسا عذاب دیا جائے گا کہ جہاں والوں میں سے کسی کو ایسا عذاب نہیں دیا جائے گا تو یہ (آیت ) ” وما منعنا ان نرسل بالایت الا ان کذب بھا الاولون “ نازل ہوئی یہاں تک کہ آپ نے تین آیات پڑھیں اور یہ (آیت ) ” ولو ان قرانا سیرت بہ الجبال ‘ ‘ 5:۔ ابوالشیخ (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس (آیت ) ” ولو ان قرانا سیرت بہ الجبال او قطعت بہ الارض اوکلم بہ الموتی “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت مکی ہے۔ 6:۔ ابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت ) ” ولو ان قرانا سیرت بہ الجبال “ کے بارے میں فرمایا کہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کفار نے محمد ﷺ سے مطالبہ کیا کہ ہمارے پہاڑوں کو چلایا جائے تاکہ ہماری زمینیں کشادہ ہوجائیں کیونکہ وہ تنگ ہیں (پہاڑوں کی وجہ سے) یا ہمارے لئے شام کو قریب کردے تاکہ ہم اس کی طرف تجارت کریں یا ہمارے لئے آباواجداد کو قبروں سے نکال دیں تاکہ ہم ان سے باتیں کریں۔ 7:۔ ابن جریر وابوالشیخ رحمہما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ کفار قریش نے کہا اس قریش نے کہا اس قرآن کے ذریعہ ہمارے لئے پہاڑ چلائے جائیں (اور) قرآن کے ذریعہ سے زمین پھاڑ دی جائے اور اس کے ذریعہ ہمارے مردوں کو (قبروں سے نکالا جائے) 8:۔ ابن جریر (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ مکہ کے کافروں نے محمد ﷺ سے کہا ہمارے لئے پہاڑوں کو چلایا جائے جیسے (داود (علیہ السلام) کے لئے پہاڑ مسخر تھے اور ہمارے لئے زمین (جلدی) طے ہوجائے جیسے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے لئے طے ہوتی تھی۔ اس کے ذریعہ (یعنی ہوا کے ذریعہ) وہ صبح کو ایک ماہ کا سفر (طے کرلیتے تھے اور ان کے ذریعہ شام کو بھی ایک ماہ کا سفر طے کرلیتے تھے یا ہم سے مردے بات کریں جیسے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ان سے باتیں کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس کتاب کو اس لئے نہیں اتارا گیا لیکن ایک چیز تھی میں نے اپنے انبیاء رسولوں کو عطا فرمائی تھی۔ کفار کے بےجا مطالبات : س 9:۔ ابن ابی شیبہ (رح) نے مصنف میں وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ قریش نے رسول اللہ ﷺ سے کہا اگر تو نبی ہے جیسے کہ تو (خود) گمان کرتا ہے تو ان کھردرے اور بلند پہاڑوں کو مکہ سے دور کردے چار دن یا پانچ دنوں کی مسافت پر۔ کیونکہ وہ تنگی کا باعث ہیں یہاں تک کہ وہ ہم سے باتیں کریں۔ اور وہ ہم کو خبر دیں کہ آپ اللہ کے نبی ہیں یا ہم کو سوار کردے شام کی طرف یا حیرہ کی طرف یہاں تک کہ ہم جائیں اور ہم ایک ہی رات میں واپس آجائیں گے جیسے کہ تو نے گمان کیا کہ تو نے بھی (معراج کی رات میں ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت ) ” ولو ان قرانا سیرت بہ الجبال “ نازل فرمائی۔ 10:۔ ابن اسحاق ابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” بل للہ الامر جمیعا “ سے مراد ہے کہ وہ اس میں سے کوئی کام نہیں ہوتا مگر جو اللہ تبارک وتعالیٰ چاہے اور اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں کہ یہ کسی کا مطالبہ پورا کرے۔ 11:۔ ابوعبید و سعید بن منصور وابن منذر رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ یوں پڑھتے تھے (آیت ) ” افلم یی اس الذین امنوا “ 12:۔ ابن جریر وابن الانباری نے مصاحف میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے یوں پڑھا آیت ” افلم بیناس الذین امنوا “ ان سے کہا گیا کہ مصحف میں یوں ہے ” افلم یایئس “ تو انہوں نے فرمایا میں کاتب کو گمان کرتا ہوں تو اس نے ( اس حال میں) لکھا کہ وہ اونگھ رہا تھا۔ 13:۔ ابن جریر (رح) نے علی ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس کو یوں پڑھتے تھے (آیت ) ” افلم یباس الذین امنوا “۔ 14:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” افلم یایئس “ یعنی وہ جانتا ہے۔ 15:۔ الطستی (رح) نے نافع بن ارزق (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت ) ” افلم یایئس الذین امنوا “ کے بارے میں فرمایا (آیت ) ” افلم یایئس “ بنومالک کی لغت میں پھر پوچھا گیا عرب کے لوگ اس (معنی) کو جانتے ہیں فرمایا ہاں کیا تو مالک بن عوف کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا۔ لقد یئس الاقوامانی اناابنہ وان کنت عن ارض العشیر ۃ نائبا۔ ترجمہ : بہت ہی قومیں ناامید ہوچکی ہیں (اس کے مقابلے میں) اس لئے کہ میں اس کا بیٹا ہوں چاہے میں اپنے خاندان کی زمین سے دور کیوں نہ ہوں۔ 16:۔ ابن الانباری (رح) نے ابوصالح (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت ) ” افلم یایئس الذین امنوا “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے (آیت ) ” افلم یایعلم “ ھوازن کی لغت میں اور مالک بن عوف نصری نے شعر کہا : أقول لہم بالشعب اذیسوننی الم تعلموا انی فارس زھدم : ترجمہ : جب وہ میرے مقابلہ سے مایوس ہوگئے تو میں نے گھاٹی میں ان سے کہا تمہیں پتہ نہیں میں فرس کے زھدم کا بیٹا ہوں : 17:۔ ابن جریر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” افلم یایئس الذین امنوا “ سے مراد ہے کیا ایمان والوں نے نہیں جانا ؟ 18:۔ ابوالشیخ (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” افلم یایئس الذین امنوا “ سے مراد ہے کیا ایمان والوں نے نہیں پہچانا ؟ 19:۔ ابوالشیخ (رح) نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” افلم یایئس “ کا معنی ” افلم یعلم “ ہے کچھ لوگ اسے ” افلم یتبین “ پڑھتے ہیں، کہ انکو عقل نہیں تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ یہ کرسکتا ہے وہ اس ناامید نہیں ہوتے حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ایسا کردے۔ 20:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ (رح) نے ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” افلم یایئس الذین امنوا “ سے مراد ہے کہ تحقیق ایمان والے لوگ اس بات سے ناامید ہوگئے کہ وہ لوگ ہدایت پائیں گے اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو (آیت ) ” لھدی الناس جمیعا “ (سب کو ہدایت عطا فرمادیں) 21:۔ الفریابی وابن جریر وابن مردویہ رحمہم اللہ نے عکرمہ ؓ کے راستے سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” تصیبہم بما صنعوا قارعۃ “ سے مراد ہے لشکر۔ 22:۔ الطیالسی وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ وابن مردویہ والبیہقی نے دلائل میں سعید بن جبیر کے راستہ سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولایزال الذین کفروا تصیبہم بما صنعوا قارعۃ “ سے مراد ہے لشکر ” قارعۃ اوتحل قریبا من دارہم “ (یعنی آپ خود اے محمد ﷺ انکی بستیوں کے قریب جاکر اتریں گے) (آیت ) ” حتی یاتی وعداللہ یعنی (اللہ کا وعدہ) فتح مکہ (کا آجائے) 23:۔ ابن مردویہ رحمۃ اللہ علیہنے ابوسعید ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” تصیبہم بما صنعوا قارعۃ “ یعنی رسول اللہ ﷺ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ” اوتحل “ یعنی اے محمد ﷺ آپ خود ہی اتریں گے) ” قریبا من دارہم یعنی ان کے گھروں میں کے قریب۔ 24:۔ ابن ابی شیبہ وابن جریر وابن منذر وابوالشیخ والبیہقی نے دلائل میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” القارعۃ “ سے مراد ہے لشکر (آیت ) ” اوتحل قریبا من دارہم “ یعنی حدیبہ ” حتی یاتی وعداللہ “ یعنی فتح مکہ۔ 25:۔ ابن جریر (رح) نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ولا یزال الذین کفروا “ کہ یہ آیت نبی کریم ﷺ کے لشکروں کے متعلق مدینہ منورہ میں نازل ہوئی (آیت ) ” اوتحل “ یعنی اے محمد ﷺ آپ خود (ہی اتریں گے) (آیت ) ” قریب من دارہم “ یعنی ان کے گھروں کے قریب “ 26:۔ عبد بن حمید وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے عکرمہ ؓ کے راستے سے ابن عباس ؓ سے رویت کیا کہ (آیت) ” تصیبہم بما صنعوا قارعۃ “ یعنی مصیبت یا آفت۔ 27:۔ ابن جریر وابن مردویہ رحمہما اللہ نے عوفی (رح) کے راستہ سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” تصیبہم بما صنعوا قارعۃ “ یعنی عذاب آسمان سے (آیت ) ” اوتحل قریبا من دارھم “ یعنی رسول اللہ ﷺ کا انکے پاس نازل ہونا اور ان سے قتال کرنا۔ 28:۔ ابن جریر (رح) نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” اوتحل قریبا من دارھم “ یعنی مصیبت نازل ہوگئی ہے انکے گھر کے قریب۔ (آیت ) ” حتی یاتی وعداللہ “ یعنی قیامت کے دن۔ اماقولہ تعالیٰ : ولقد استھزی برسل من قبلک : کسی کی نقل اتارنا گناہ ہے۔ 29:۔ ابوالشیخ وابن مردویہ (رح) نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ کے پیچھے ایک آدمی آپ کی نقل اتار رہا تھا اور آپ کا مذاق اڑا رہا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے جب اس کو دیکھا تو فرمایا اسی طرح تو ہوجا۔ وہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹا تو زمین پر گرپڑا اور ایک ماہ بیہوش پڑا رہا۔ پھر جب اس کو افاقہ ہوا تو اسی طرح کی حرکتیں کررہا تھا، جیسے رسول اللہ ﷺ نے اس کو فرمایا تھا۔ 30:۔ ابن جریر وابن مردویہ رحمہما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” افمن ھو قآئم علی کل نفس بما کسبت “ یعنی جو اس کے نفس نے خود اعمال کئے اس پر وہ نگران ہے۔ 31: عطاء (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” افمن ھو قآئم علی کل نفس بما کسبت “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر نفس کا نگران ہے۔ عدل و انصاف کے ساتھ۔ 32:۔ ابن جریر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” افمن ھو قآئم علی کل نفس بما کسبت “ سے مراد ہے یہ تمہارا رب تبارک وتعالیٰ ہے جو نگرانی کررہا ہے آدم کی اولاد پر ان کے رزق کی اور ان کی مدت (زندگی) کی۔ 33:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” افمن ھو قآئم علی کل نفس بما کسبت “ یعنی اللہ عزوجل ہر جاندار کی نگرانی کررہا ہے۔ آیت ” بما کسبت “ یعنی اس کے رزق پر اور اس کے عمل پر اور دوسرے لفظ میں یوں ہے کہ وہ نگرانی کررہا ہے ہر نیک اور برے آدمی کی انکو رزق دیتا ہے اور ان کی نگرانی کرتا ہے پھر مشرک اس کا شریک ٹھہراتا ہے۔ ا سی کو فرمایا (آیت ) ” وجعلوا للہ شرکآء “ یعنی (انسان) کہتا ہے کہ اس کے ساتھ اور معبود بھی ہے ” قل سموھم “ (یعنی فرما دیجئے ان کے نام لو) اور اگر انہوں نے کسی معبود کا نام لیا بھی تو انہوں نے جھوٹ بولا۔ اور انہوں نے اس بارے میں حق کے علاوہ بات کہی کیونکہ اللہ تعالیٰ ایک ہے ان کا کوئی شریک نہیں (آیت ) ” ام تنبئونہ بما لا یعلم فی الارض “ یعنی (کیا) اللہ تعالیٰ نہیں جانتے اپنے علاوہ کسی اور خدا کو (آیت ) ” ام بظاہر من القول “ یعنی باطل اور جھوٹی بات کہہ رہے ہو۔ 34:۔ ابن جریر وابوالشیخ رحمہما اللہ نے ابن جریر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” افمن ھو قآئم علی کل نفس بما کسبت “ یعنی جو اس نے خود کیا ہے اس پر نگران ہے (آیت ) ” قآئم علی کل نفس “ یعنی ہر نیک اور برے (کی نگرانی کرتا ہے) (آیت ) ” بما کسبت “ یعنی ان کے رزق کی ان کے کھانے کی میں اس صفت کے ساتھ ہوں۔ وہ میرے بندے ہیں پھر وہ میرا شریک بنا لیتے ہیں ” قل سموھم “ فرما دیجئے کہ ان کے نام تو لو اگر وہ نام لیتے ہیں تو جھوٹ بولتے کیا اللہ تعالیٰ اپنے علاوہ کسی اور کو معبود نہیں جانتے (آیت ) ” ام تنبئونہ بما لا یعلم فی الارض “ جس کے متعلق تم اسے آگاہ کرتے ہو۔ 35:۔ ابوالشیخ (رح) نے ربیعہ جرشی (رح) سے روایت کیا کہ وہ ایک دن لوگوں میں کھڑے تھے (اسی لئے) فرمایا تم لوگ ڈرو اللہ تعالیٰ سے چھپی ہوئے حالات میں اور نہیں لٹکائے جاتے اس پر پردے تم کو کیا ہوا کہ تم سے زیادتی کرتے ہو جو تم میں سے کسی کے پاس سے گزرتا ہے۔ اور اس کی بندیوں میں سے کسی سے شرارت کرتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ (آیت ) ” افمن ھو قآئم علی کل نفس بما کسبت “ یعنی وہ حکم فرماتا ہے پس تم احترام رکھو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے مقام کو تم میں سے کوئی اس بات سے امن میں نہیں ہے کہ وہ اس کو مسخ کردے بندر میں یا خنزیر میں خاص کر اس کے گناہوں کی وجہ سے پس وہ رسوائی ہے دنیا میں اور سزا ہے آخرت میں ایک آدمی نے قوم میں سے کہا اور اللہ کی قسم کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ اے ربیعہ ایسا ہوگا قوم نے اس شخص کو دیکھا جو قسم کھانے والا تھا تو وہ عبدالرحمن بن غنم تھا۔ 36:۔ ابن ابی شیبہ وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ام بظاہر من القول “ یعنی گمان کے ساتھ (آیت) ” بل زین للذین کفروا مکرھم “ میں ” مکرھم “ سے مراد ہے ” قولہم “ (یعنی ان کی بات) 37:۔ ابن جریر وابوالشیخ رحمہم اللہ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ام بظاہر من القول “ یعنی ظاہر میں القول سے مراد ہے باطل۔
Top