Dure-Mansoor - Ar-Ra'd : 36
وَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مِنَ الْاَحْزَابِ مَنْ یُّنْكِرُ بَعْضَهٗ١ؕ قُلْ اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ وَ لَاۤ اُشْرِكَ بِهٖ١ؕ اِلَیْهِ اَدْعُوْا وَ اِلَیْهِ مَاٰبِ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰتَيْنٰهُمُ : ہم نے انہیں دی الْكِتٰبَ : کتاب يَفْرَحُوْنَ : وہ خوش ہوتے ہیں بِمَآ : اس سے جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف وَ : اور مِنَ : بعض الْاَحْزَابِ : گروہ مَنْ : جو يُّنْكِرُ : انکار کرتے ہیں بَعْضَهٗ : اس کی بعض قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اُمِرْتُ : مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَعْبُدَ : میں عبادت کروں اللّٰهَ : اللہ وَ : اور لَآ اُشْرِكَ : نہ شریک ٹھہراؤں بِهٖ : اس کا اِلَيْهِ : اس کی طرف اَدْعُوْا : میں بلاتا ہوں وَاِلَيْهِ : اور اسی کی طرف مَاٰبِ : میرا ٹھکانا
اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی وہ اس کی وجہ سے خوش ہوتے ہیں جو آپ پر نازل کیا گیا، اور گروہوں میں بعض ایسے ہیں جو اس کے بعض حصے کا انکار کرتے ہیں، آپ فرما دیجئے مجھے تو بس یہ حکم ہوا ہے کہ اللہ کی عبادت کروں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراوں، میں اس کی طرف بلاتا ہوں اور اسی کی طرف میرا لوٹنا ہے
1:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہما اللہ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” والذین اتینہم الکتب یفرحون انزل الیک “ سے مراد محمد ﷺ کے اصحاب ہیں جو اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول کے ساتھ خوش ہوئے اور ان کی تصدیق بھی کی۔ (آیت ) ” ومن الاحزاب من ینکر بعضہ “ یعنی یہود نصاری اور مجوس (جو انکار کرنے والے ہیں ) 2:۔ ابن جریر وابوالشیخ رحمہما اللہ نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” والذین اتینہم الکتب یفرحون انزل الیک “ سے وہ لوگ مراد ہیں جو اہل کتاب میں سے رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے اور وہ اس سے خوش ہوئے ہیں اور (یہ آیت) ” ومن الاحزاب “ سے یہود نصاری اور مجوس کی امتیں مراد ہیں۔ ان میں سے بعض ایمان لے آئے اور ان میں سے بعض نے اس کا انکار کردیا۔ 3:۔ ابن جریر وابن ابی منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ومن الاحزاب “ یعنی اہل کتاب میں سے بعض لوگ (آیت) ” من ینکربعضہ “ یعنی قرآن کے بعض حصے کا ( انہوں نے انکار کردیا ) 4:۔ عبدالرزاق وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا (آیت) ” والیہ ماب “ یعنی ہر بندہ اسی کی طرف لوٹنے والا ہے۔ 5:۔ ابوالشیخ (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” مالک من اللہ من ولی ولا واق “ یعنی تم کو کوئی بچانے والا نہیں اللہ کے عذاب سے۔ 6:۔ ابن ماجہ وابن منذر وابن ابی حاتم والطبرانی وابوالشیخ وابن مردویہ رحمہم اللہ نے قتادہ ؓ کے راستہ سے حسن اور سمرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ الگ تھلگ رہنے (یعنی شادی نہ کرنے سے) منع فرمایا پھر قتادہ ؓ عنہنے (یہ آیت) ” والقد ارسلنا رسلا من قبلک وجعلنا لہم ازواجا وذریۃ “ پڑھی۔ 7:۔ ابن ابی حاتم وابن مردویہ رحمہما اللہ نے سور بن ہشام (رح) نے فرمایا کہ میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس آیا اور میں نے کہا کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں الگ تھلگ رہوں یعنی شادی نہ کروں) حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا ایسا مت کر کیا تو اللہ تعالیٰ کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا (آیت) ” ولقد ارسلنا رسلا من قبلک وجعلنا لھم ازواجا وذریۃ “۔ 8:۔ ابن ابی شیبہ واحمد والترمذی نے ابوایوب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چارچیزیں ہیں رسولوں کے طریقوں میں سے عطر لگانا نکاح کرنا مسواک کرنا اور ختنہ کرنا۔ 9:۔ عبدالرزاق (رح) نے اپنی کتاب المصنف میں فرمایا کہ ختنہ کرنا مسواک کرنا عطر لگانا اور نکاح کرنا میرے طریقہ میں سے ہے (یعنی رسول اللہ ﷺ کے طریقہ میں سے ہے ) 10:۔ ابن جریر وابوالشیخ رحمہما اللہ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” لکل اجل کتاب “ سے مراد ہے کہ ہر کتاب جو آسمان سے نازل ہوئی ہے۔ اس کی ایک مدت ہوتی ہے پھر اللہ تعالیٰ اس میں سے جو چاہتے ہیں مٹا دیتے ہیں (اور) جو چاہتے ہیں باقی رکھتے ہیں اسی کو فرمایا (آیت) ” ویثبت وعندہ ام الکتب “ 11:۔ ابن ابی شیبہ وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جب (یہ آیت ) ” وما کان لرسول ان یاتی بایۃ الا باذن اللہ “ نازل ہوئی تو قریش نے کہا اے محمد ہم آپ کو دیکھتے ہیں کہ آپ کسی چیز کے مالک نہیں ہیں تمام معاملے سے فراغت ہوچکی تو یہ آیت (آیت) ” یمحواللہ ما یشآء ویثبت “ نازل ہوئی ان کو ڈرانے کے لئے اور دھمکانے کے لئے (مطلب یہ ہے) اگر ہم چاہیں تو نیا حکم دے دیں۔ اور اللہ تعالیٰ نیا حکم طے فرماتے ہیں ہر رمضان میں اور اللہ تعالیٰ مٹا دیتے ہیں جو چاہتے ” ویثبت “ اور جو چاہتا ہے ثابت کرتا ہے لوگوں کے ارزاق میں سے ان کے مصائب میں سے اور جو کچھ ان کو عطا کرنا ہے اور جو ان میں تقسیم کرنا ہے۔ 12:۔ عبدالرزاق والفریابی وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم والبیہقی نے شعب الایمان میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” یمحواللہ ما یشآء ویثبت “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نزول فرماتے ہیں ہر رمضان کے مہینہ میں آسمان دنیا کی طرف تدبیر فرماتے ہیں ایک سال سے دوسرے سال کے کاموں کی لیلۃ القدر میں سو مٹا دیتے ہیں جو چاہتے ہیں اور ثابت رکھتے ہیں (جو چاہتے ہیں) بدبختی، نیک بختی، زندگی اور موت کے علاوہ۔ 13:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” یمحواللہ ما یشآء “ سے مراد آدمی ہے جو ایک زمانے تک اللہ کی اطاعت کے ساتھ عمل کرتا ہے پھر وہ اللہ کی نافرمانی کی طرف لوٹ آتا ہے اور گمراہی پر مرجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے۔ اور جو چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے اور دوسرا آدمی جو اللہ کی نافرمانی کے ساتھ عمل کرتا ہے اور اس کے لئے خیر آگے بڑھ جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ اس حال میں مرتا ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت میں ہوتا ہے۔ 14:۔ ابن جریر ومحمد بن نصر وابن منذر وابن ابی حاتم والحاکم نے اور آپ نے اس کو صحیح کہا ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” یمحواللہ ما یشآء ویثبت “ سے مراد ہے کہ دو کتابیں ہیں ایک میں سے اللہ تعالیٰ جو چاہتے ہیں مٹا دیتے ہیں اور (جو چاہتے ہیں) ثابت رکھتے ہیں۔ (آیت ) ” وعندہ ام الکتب “ یعنی پوری کتاب اس کے پاس ہے۔ 15:۔ ابن جریر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے ایک لوح محفوظ ہے جو سفید موتی کی ہے اور پانچ سال کے چلنے کا راستہ ہے۔ اس کی یاقوت کے دو گتے اللہ کی دو تختیاں ہیں ہر دن تریسٹھ جو چاہتے ہیں ان سے مٹا دیتے ہیں جو چاہتے ہیں باقی رکھتے ہیں اسی کو فرمایا (آیت) ” ویثبت وعندہ ام الکتب “ اور اس کے پاس اصل کتاب ہے۔ 16:۔ ابن جریر وابن وابی حاتم وابن مردویہ والطبرانی رحمہم اللہ نے ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نزول فرماتے ہیں ہر رات کی آخری تین گھڑیوں میں (اپنی شان کے لائق) پہلی گھڑی میں ذکر چھپا دیتے ہیں اور اس ذکر کو دیکھتے ہیں کہ جس میں ان کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں دیکھتا پس مٹا دیتے ہیں جو چاہتے ہیں اور ثابت رکھتے ہیں (جو چاہتے ہیں) پھر دوسری گھڑی میں وہ جنت عدن کی طرف نزول فرماتے ہیں اور یہ ایسا گھر ہے جس کو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور کسی آدمی کے دل پر اس کا خیال نہیں گزرا آدم کی اولاد میں سے تین طبقوں کے علاوہ کوئی وہاں نہیں ٹھہرے گا یعنی انبیاء صدیقین اور شہداء پھر فرماتے ہیں خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جو تجھ میں اترا پھر تیسری گھڑی میں آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں اپنی روح اور اپنے فرشتوں کے ساتھ آسمان کانپنے لگتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ٹھہر جا میری عزت کی وجہ سے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کیا ہے کوئی استغفار کرنے والا کہ میں اس کی مغفرت کردوں ہے کوئی مجھے پکارنے والا کہ میں اس کی پکار کو قبول کروں یہاں تک کہ صبح کی نماز ادا ہوجاتی ہے۔ اسی کو فرمایا (آیت ) ” ان قرآن الفجر کان مشہودا، پھر فرماتے ہیں کہ (اس وقت میں) اللہ تعالیٰ اور رات اور دن کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں (اپنی شان کے لائق) 17:۔ الطبرانی نے الاوسط میں وابن مردویہ رحمہما اللہ نے ایک ضعیف سند کے ساتھ ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (آیت) ” یمحواللہ ما یشآء ویثبت “ کہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے مٹا تا ہے اور جو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے نیک بختی زندگی اور موت کے علاوہ۔ 18:۔ ابن سعد ابن جریر وابن مردویہ رحمہم اللہ نے کلبی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ (اللہ تعالیٰ ) مٹا دیتے ہیں (یعنی گھٹا دیتے ہیں) رزق میں سے اور اس میں زیادہ بھی کردیتے ہیں اور مٹا دیتے ہیں (یعنی کم کردیتے ہیں) عمر میں سے اور اس میں سے بھی فرمادیتے ہیں ان سے پوچھا گیا یہ بات آپ کو کس نے بیان کی تو انہوں نے فرمایا ابوصالح نے روایت کیا جابر بن عبداللہ بن رباب انصاری سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے۔ 19:۔ ابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ سے (آیت) ” یمحواللہ ما یشآء ویثبت “ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ معاملہ لیلۃ القدر میں ہوتا ہے اور اونچا کردیتے ہیں (جس کو چاہتے ہیں) اور گرادیتے ہیں (جس کو چاہتے ہیں) اور رزق دیتے ہیں سوائے زندگی اور موت کے اور بدبختی اور سخاوت مندی سے کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ 20:۔ ابن مردویہ وابن عساکر رحمہما اللہ نے علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا آپ نے فرمایا میں ٹھنڈا کروں گا تیری آنکھوں کو اس کی تفسیر کے ساتھ اور تو ٹھنڈا کرنا میری امت کی آنکھوں کو اس کی تفسیر سے میرے بعد۔ صدقہ کرنا صحیح جگہ پر والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، اور بھلائی کا کام کرنا (تو یہ کام بدل دیتے ہیں بدبختی کو نیک بختی سے اور زیادہ کردیتے ہیں عمر میں، اور بری جگہ مرنے سے بچاتے ہیں۔ 21:۔ حاکم (رح) نے اور آپ نے اس کو صحیح کہا ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بچاؤ تقدیر میں نفع نہیں دیتا لیکن اللہ تعالیٰ مٹا دیتے ہیں اس میں سے جو چاہیں۔ 22:۔ ابن جریر (رح) نے قیس بن عباد (رح) سے روایت کیا کہ دسواں دن رجب میں سے یہ وہ دن ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ مٹادیتے ہیں اس میں سے جو چاہتے ہیں۔ 23:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم والبیہقی رحمہم اللہ نے الشعب میں قیس بن عباس (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ کا امر ہوتا ہے۔ ہر دسویں رات میں عزت والے مہینوں میں سے لیکن دسواں دن اضحی میں سے تو یہ دن قربانی کا ہے۔ اور محرم میں سے دسواں دن تو یہ دن عاشوراء کا ہے اور رجب میں سے دسواں دن تو اس میں (آیت) ” یمحواللہ ما یشآء ویثبت “ (اللہ تعالیٰ جو چاہتے ہیں مٹاتے ہیں اور جو چاہتے ہیں باقی رکھتے ہیں راوی کہتے ہیں کہ ذی القعد کے بارے میں جو فرمایا وہ بھی بھول گیا۔ ہدایت و گمراہی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے۔ 24:۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن منذر رحمہم الہ نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ وہ بیت اللہ کا کررہے تھے اے اللہ اگر تو نے میرے اوپر بدبختی یا گناہ کو لکھ دیا ہے تو اس کو مٹادے بلاشبہ آپ جو چاہتے ہیں مٹاتے ہیں اور جو چاہتے ہیں برقرار رکھتے ہیں اور اصل کتاب آپ کے پاس ہے پس اس کو نیک بختی اور مغفرت والا بنا دے۔ 25:۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف میں وابن ابی الدنیا نے دعاء میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ان دعاوں کے ساتھ جو بندہ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس کی روزی میں وسعت فرما دیتے ہیں (وہ دعا یہ ہے) یاذالمن ولا یمن علیہ یا ذالجلال والاکرام یاذالطول لا الہ الا انت ظھر اللاجین وجار المستجیرین وما من الخائفین ان کنت کتبتنی عندک فی ام الکتب شقیا فامح عنی اسم الشقاء واثبتنی عندک سعید وان کنت کتبتنی عندک فی ام الکتب محروما مقترا علی رزقی فافح حرمانی ویسررزقی واتبنی عندک سعیدا موفقا للخیر فانک تقول فی کتابک الذی انزلت یمحواللہ ما یشآء ویثبت وعندہ ام الکتب۔ ترجمہ : اے احسان کرنے و الا کہ جس پر کوئی احسان نہیں کیا جاتا اے بزرگی اور بخشش والے اے طاقت والے تیرے سوا کوئی معبود نہیں اے پناہ طلب کرنے والوں کے سہارے اے بےسہاروں اے خوف زدہ لوگوں کی امن گاہ اگر تو نے اپنے پاس اصل کتاب میں مجھے بدبخت لکھ دیا ہے تو اس کو مجھ سے بدبختوں کے نام سے مٹا دے اور مجھے اپنے پاس اصل کتاب میں محروم اور مجھ پر تنگی کا رزق لکھ دیا ہے تو میرے محروم ہونے کو مٹا دے اور میرے رزق کو آسان کردے اور اپنے پاس سے مجھے نیک بخت اور خیر کی توفیق دیا ہوا لکھ دے کیونکہ تو نے اپنے کتاب میں فرمایا ہے جو آپ نے نازل فرمائی ہے (آیت) ” یمحواللہ ما یشآء ویثبت وعندہ ام الکتب “ کہ اللہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب ہے۔ 26:۔ ابن مردویہ والبیہقی نے شعب الایمان میں سائب بن ملجان جو اہل شام میں سے تھے اور انہوں نے صحابہ کو پایا (گویا تابعین میں سے تھے) ان سے روایت کیا جب حضرت عمر ؓ شام میں داخل ہوئے۔ تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان فرمائی پھر وعظ نصیحت فرمائی نیک کام کا حکم فرمایا اور برائی سے روکا پھر فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کھڑے ہوئے جیسے میں تمہارے درمیان کھڑا ہوں پھر آپ نے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا صلہ رحمی کرنے کا اور آپس میں جھگڑے کی صلح کرنے کا حکم فرمایا اور فرمایا جماعت کو لازم پکڑو کیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور اکیلے شخص کے ساتھ شیطان ہے اور وہ دو سے زیادہ دور ہے کوئی آدمی کسی (اجنبی) عورت سے علیحدگی میں ہوتا ہے تو شیطان اس کا تیسرا ہوتا ہے اور جس آدمی کو اس کی برائی بری لگے اور جس کو اس کی نیکی خوش لگے تو یہ مسلمان مومن کی نشانی ہے اور منافق کی نشانی یہ ہے کہ اس کو اس کی برائی بری نہ لگتی اور نہ اس کو نیکی خوش لگتی ہے اگر کوئی خیر کا عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس بارے میں ثواب کی امید نہیں رکھتا اور اگر کوئی برا عمل کرے تو اللہ تعالیٰ سے اس بارے میں کسی سزا سے نہیں ڈرتا اور دنیا کی طلب عمدہ طریقے سے کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کفیل ہیں اور تمہارے رزقوں کے اوپر ایک کے لئے اس کا عمل مکمل ہوگا جو وہ عمل کرے گا تو اللہ تعالیٰ سے اپنے اعمال پر مدد طلب کرو کیونکہ وہ مٹا دیتا ہے جو چاہتا ہے اور باقی رکھتا ہے جو چاہتا ہے اور اس کے پاس اصلی کتاب ہے صلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ و (علیہ السلام) ورحمۃ اللہ السلام علیکم بیہقی نے فرمایا کہ یہ عمر بن خطاب ؓ شام والوں کو خطاب فرمایا تھا اور انہوں نے یہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا تھا۔ ابورومی ؓ کی توبہ کا واقعہ : 27:۔ ابن مردویہ والدیلمی رحمہما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ابو رومی اپنے زمانہ کے شریر لوگوں میں سے تھا اور حرام کاموں میں سے کسی کو نہ چھوڑتا تھا مگر یہ اس کا ارتکاب کرلیتا تھا۔ اور نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے اگر میں ابورومی کو دیکھ لوں مدینہ کی بعض گلیوں میں تو میں ضرور اس کی گردن اڑا دوں گا۔ نبی کریم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک صحابی کے پاس مہمان آیا اور اس نے اپنی بیوی سے کہا ابورومی کے پاس جا اور اس سے ہمارے لئے ایک درہم کا کھانا لے کر آ اللہ تعالیٰ آسانی اور خوشحالی پیدا فرمائے گا تو اس کا درہم دے دیں گے اس عورت نے اس صحابی سے کہا کہ تو مجھے بھیج رہا ہے ابورومی کی طرف اور وہ مدینہ والوں میں سے سب سے زیادہ بدکار ہے اس نے کہا تو چلی جا تجھے اس سے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔ ان شآء اللہ تعالیٰ وہ عورت اس کی طرف گئی اور اس نے ابورومی کا دروازہ کھٹکھٹایا اس نے کہا کون ہے ؟ عورت نے کہا میں فلانی ہوں اس نے کہا تو تو ہمارے پاس نہیں آئی تھی۔ اس کے لئے دروازہ کھول دیا اور اس عورت سے فحش کلامی شروع کردی اور اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا اس عورت کو شدید کپکپی لگ گئی اس نے اس عورت سے کہا تجھے کیا ہوا اس نے کہا کہ یہ عمل میں کبھی نہیں کروں گی ابورومی نے اپنے آپ سے کہا اب رومی تجھ پر تیری ماں روئے تو نے یہ عمل بچپن سے شروع کیا ہے اور کبھی کپکپی طاری نہیں ہوئی۔ اور نہ میں نے کبھی پرواہ کی (لیکن اب) ابورومی پر اللہ تعالیٰ کا عہد ہے (یعنی وہ اللہ تعالیٰ سے عہد کرتا ہے کہ وہ نہیں لوٹے گا اس برے کام کی طرف کبھی جب صبح ہوئی تو نبی کریم ﷺ کے پاس صبح سویرے آیا آپ نے فرمایا مرحبا اے ابو رومی اور اس کے لیے کشادہ جگہ بنائی اور اس سے فرمایا اے ابو رومی تو نے گزشہ رات کو کیا کام کیا تھا اس نے کہا اے اللہ کے نبی میں ایسا کوئی نیک کام کرسکتا تھا میں زمین والوں میں سے سب سے زیادہ برا تھا نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرا ٹھکانہ جنت کی طرف لوٹا دیا ہے اور فرمایا (آیت) ” یمحواللہ ما یشآء ویثبت “۔ 28:۔ یعقوب بن سفیان و ابونعیم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ابورومی اپنے زمانہ کے رہنے والے (سب سے) شریر لوگوں میں سے تھا حرام کردہ کاموں میں سے کسی چیز کو نہیں چھوڑتا تھا مگر اس کا ارتکاب کرتا تھا جب صبح کو نبی کریم ﷺ کے پاس آیا تو نبی کریم ﷺ نے اس کو دور سے دیکھ کر فرمایا خوش آمدید ہو اے رومی اور اس کے لئے کشادہ جگہ بنائی اور فرمایا اے ابو رومی۔ تو نے گزشتہ رات کیا عمل کیا ؟ اس نے کہا اے اللہ کے نبی قریب ہے کہ میں اب برے کام نہیں کروں گا۔ میں زمین والوں میں سب سے زیادہ برا تھا نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے لکھے ہوئے کو جنت کی طرف پلٹ دیا ہے اور فرمایا (آیت) ” یمحواللہ ما یشآء ویثبت۔ ، وعندہ ام الکتب “ اللہ تعالیٰ جو چاہے مٹا دے : 29:۔ ابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” یمحواللہ ما یشآء ویثبت “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پورے سال میں ہونے والی ہر چیز کو نازل فرماتے ہیں لیلۃ القدر میں اور مٹادیتے ہیں جو چاہتے ہیں عمر میں سے رزقوں میں سے اور تقدیروں میں سے مگر بدبختی اور نیک بختی کو (نہیں مٹاتے) کیونکہ یہ دونوں باقی رہتی ہیں۔ 30:۔ ابن جریر (رح) نے منصور (رح) سے روایت کیا کہ میں نے مجاہد (رح) سے پوچھا کہ مجھے بتائیے کہ ہم میں سے اس کو نیک بختوں میں کردے۔ حسن نے فرمایا پھر سال یا اس سے زائد عرصہ کے بعد میری ملاقات مجاہد سے ہوئی تو میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا (آیت) ” انا انزلنہ فی لیلۃ مبرکۃ انا کنا منذرین (3) فیھا یفرق کل امر حکیم (4) ۔ (دخان آیت 4) یعنی لیلۃ القدر میں سال کے اندر جو رزق اور مصیبت ملنی ہوتی ہے وہ نازل فرماتے ہیں پھر آگے کردیتے ہیں جو چاہتے ہیں اور پیچھے کردیتے ہیں جو چاہتے ہیں لیکن بدبختی اور نیک بختی کی کتاب میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی باقی رہتا ہے اس کو تبدیل نہیں کیا جاتا۔ 31:۔ ابن جریر وابن منذر (رح) نے مجاہد رحمہما اللہ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” یمحواللہ ما یشآء ویثبت “ کے بارے میں فرمایا اگر زندگی اور موت بدبختی اور نیک بختی ان میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ 32:۔ ابن جریر (رح) نے شقیق بن ابی وائیل (رح) سے روایت کیا کہ اکثر ان کلمات کے ساتھ دعا فرمایا کرتے تھے ’ ’ اللہم ان کنت کتبنا شقیاء فامسحنا “ اے اللہ اگر تو نے ہم کو بدبختوں میں لکھ دیا ہے تو ہم کو ” واکتبنا سعداء وان کنت کتبنا “ ان سے مٹا دے اور ہم کو نیک بختوں میں سے دو ” سعداء فاثبتنا فانک تمحوا ماتشاء “ اور اگر تو نے ہم کو نیک بختوں میں لکھ دیا ہے ہم کو (ان میں) ” ویثبت وعندک ام الکتاب “ برقرار رکھ کیونکہ تو مٹا دیتا ہے جو چاہتا ہے اور باقی رکھتا ہے (جو چاہتا ہے) اور آپ کے پاس اصل کتاب ہے۔ 33:۔ ابن جریر وابن منذر والطبرانی رحمہم اللہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ وہ فرمایا کرتے تھے اے اللہ اگر تو نے مجھے نیک بختوں میں لکھ دیا ہے تو مجھے باقی رکھ نیک بختوں میں اور اگر تو نے مجھے بدبختوں میں لکھ دیا ہے تو مجھے بدبختوں میں سے مٹادے اور مجھے نیک بختوں میں رکھ دے۔ کیونکہ آپ جو چاہتے ہیں مٹادیتے ہیں (جو چاہتے ہیں) باقی رکھتے ہیں اور آپ کے پاس اصل کتاب ہے۔ 34:۔ ابن جریر (رح) نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عمر ؓ سے عرض کیا اے امیر المومینن ! اگر ایک آیت اللہ کی کتاب میں نہ ہوتی تو البتہ میں آپ کو خبر دیتا ہوں جو کچھ ہونے والا ہے قیامت کے دن تک عمر نے فرمایا وہ (آیت) ” کیا ہے عرض کیا اللہ کا یہ قول (آیت) ” یمحواللہ ما یشآء ویثبت وعندہ ام الکتب “ 35:۔ ابن جریر (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا جو تو چاہے مٹا دے۔ اور عمدوں میں جو چاہے زیادتی کر دے اور اگر چاہے تو اس میں کمی کردے (آیت) ” وعندہ ام الکتب “ یعنی اس کے پاس اصل کتاب ہے جو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے۔ 36:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم والبیہقی نے المدخل میں ابن عباسؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” یمحواللہ ما یشآء ویثبت “ یعنی اللہ تعالیٰ تبدیل کردیتے ہیں جو چاہتے ہیں قرآن میں سے اور اس کو منسوخ کردیتے ہیں اور باقی رکھتے ہیں جو چاہتے ہیں اور اس کو تبدیل تبدیل نہیں فرماتے (آیت ) ” وعندہ ام الکتب “ یعنی یہ سب کچھ ان کے پاس ہے ناسخ اور منسوخ میں سے اصل کتاب میں جو کچھ وہ تبدیل کرتے ہیں اور جو کچھ وہ باقی رکھتے ہیں یہ سب کچھ اللہ کی کتاب میں ہے۔ 37:۔ ابن جریر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” یمحواللہ ما یشآء ویثبت “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ اس قول کی طرح ہے یعنی (آیت ) ” ماننسخ من آیۃ اور ننسھا نات بخیر منھا او مثلھا “ (البقرہ آیت 106) اور فرمایا (آیت) ” وعندہ ام الکتب “ یعنی ساری کتاب اور اس کی اصل اس کے پاس ہے۔ 38:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا (آیت) ” یمحواللہ ما یشآء “ یعنی ان (احکام) میں سے جو انبیاء پر نازل ہوتے ہیں اس میں سے جو چاہتے ہیں مٹاتے ہیں (آیت) ” یثبت “ اور جو چاہتے ہیں باقی رکھتے ہیں جو انبیاء پر نازل فرماتے ہیں (آیت ) ” عندہ ام الکتب “ اس کے پاس اصل کتاب ہے تبدیل ہوتی ہے۔ اور نہ بدلی جاتی ہے۔ 39:۔ ابن جریر (رح) نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” یمحواللہ ما یشآء “ کہ اللہ تعالیٰ جو چاہتے ہیں منسوخ کردیتے ہیں (آیت ) ” وعندہ ام الکتب “ اور ام الکتاب ‘ سے مراد ہے ذکر۔ 40:۔ ابن ابی شیبہ وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” یمحواللہ ما یشآء ویثبت “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک آیت کو بدلے دوسری آیت کے مٹا دیتے ہیں (آیت) ” وعندہ ام الکتب “ یعنی اصل کتاب اسی کے پاس ہے۔ 41:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” لکل اجل کتاب “ کے بارے میں فرمایا کہ آدم کی اولاد کی عمریں کتاب میں ہے (آیت) ” یمحواللہ ما یشآء “ یعنی جس کو موت کا وقت آجاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ مٹا دیتا ہے۔” ویثبت “ یعنی جس کی موت کا وقت نہیں آیا ہوتا اسے اپنے وقت تک باقی رکھتا ہے۔ 42:۔ ابن ابی شیبہ وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ ” یمحواللہ “ (یعنی اللہ تعالیٰ مٹا دیتے ہیں) میت کے رزق کو ” ویثبت “ یعنی اس زندہ مخلوق کے رزق کو باقی رکھتے ہیں۔ 43:۔ ابن جریر (رح) نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” یمحواللہ ما یشآء ویثبت “ کے بارے میں فرمایا کہ وہ ثابت قدم کرتا ہے ماں کے پیٹ میں بدبختی اور نیک بختی کو اور ہر وہ چیز جو ہونے والی ہے پس آگے کرتے ہیں اس میں جو چاہتے ہیں اور پیچھے کردیتے ہیں جو چاہتے ہیں۔ 44:۔ الحاکم (رح) نے ابودرداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے یوں پڑھا (آیت) ” یمحواللہ ما یشآء ویثبت “ کو تخفیف کے ساتھ۔ 45:۔ ابن جریر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وعندہ ام الکتب “ سے مراد ہے ذکر۔ 46:۔ ابن منذر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وعندہ ام الکتب “ سے مراد ہے ذکر۔ 47:۔ عبدالرزاق وابن جریر رحمہما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ کعب سے سوال کیا ام الکتاب کے بارے میں تو انہوں نے فرمایا اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا ان چیزوں کے بارے میں علم ہے جس کو اس نے پیدا کرنا تھا اور جو انہوں نے کام کرنے تھے اور اپنے علم سے فرمایا کتاب بن جا تو وہ کتاب بن گئی۔ 48:۔ سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وعندہ ام الکتب “ کے بارے میں فرمایا اور ان کے پاس وہ کتاب جو تبدیل نہیں ہوئی۔
Top