Dure-Mansoor - Ibrahim : 44
وَ اَنْذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَاْتِیْهِمُ الْعَذَابُ فَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَاۤ اَخِّرْنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍ١ۙ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَ نَتَّبِعِ الرُّسُلَ١ؕ اَوَ لَمْ تَكُوْنُوْۤا اَقْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِّنْ زَوَالٍۙ
وَاَنْذِرِ : اور ڈراؤ النَّاسَ : لوگ يَوْمَ : وہ دن يَاْتِيْهِمُ : ان پر آئے گا الْعَذَابُ : عذاب فَيَقُوْلُ : تو کہیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو ظَلَمُوْا : انہوں نے ظلم کیا (ظالم) رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اَخِّرْنَآ : ہمیں مہلت دے اِلٰٓى : طرف اَجَلٍ : ایک دن قَرِيْبٍ : تھوڑی نُّجِبْ : ہم قبول کرلیں دَعْوَتَكَ : تیری دعوت وَنَتَّبِعِ : اور ہم پیروی کریں الرُّسُلَ : رسول (جمع) اَوَ : یا۔ کیا لَمْ تَكُوْنُوْٓا : تم نہ تھے اَقْسَمْتُمْ : تم قسمیں کھاتے مِّنْ قَبْلُ : اس سے قبل مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ زَوَالٍ : کوئی زوال
اور آپ لوگوں کو اس دن سے ڈرائیے جس دن ان کے پاس عذاب آئے گا، سو جن لوگوں نے ظلم کیا وہ یوں کہیں گے کہ اے ہمارے رب تھوڑی سی مدت کے لئے ہمیں مہلت دیجئے ہم آپ کے بلاوے کو قبول کریں گے۔ اور رسولوں کا اتباع کریں گے، کیا تم نے اس سے پہلے قسم نہ کھائی کہ ہمیں کہیں جانا ہی نہیں
1:۔ امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وانذر الناس یوم یاتیھم العذاب “ سے مراد ہے کہ ان کو دنیا میں ڈرائیے پہلے اس سے کہ ان کے پاس عذاب آجائے۔ 2:۔ امام ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وانذر الناس یوم یاتیھم العذاب “ یعنی قیامت کے دن (آیت ) ” فیقول الذین ظلموا ربنا اخرنا الی اجل قریب “ یعنی وہ مدت کہ اس دنیا میں جو وہ عمل کرتے ہیں۔ (آیت ) ” اولم تکونوا اقسمتم من قبل “ (جیسے) اللہ تعالیٰ یہ قول ” واقسموا باللہ جھد ایمانہم لا یبعث اللہ من یموت “ (النخل آیت 38) (وہ قسم کیا تھی) کہ (آیت) ” مالکم من زوال “ یعنی دنیا سے آخرت کی طرف انتقال (نہیں ہوگا ) ۔ 3:۔ امام ابن جریر نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی کے دوزخ والے آواز دیں گے (آیت ) ” ربنا اخرنا الی اجل قریب، نجب دعوتک ونتبع الرسل “ تو جواب دیا جائے گا۔ (آیت ) ” اولم تکونوا اقسمتم من قبل مالکم من زوال “ سے لے کر (آیت ) ” لتزول منہ الجبال “ تک۔ 4:۔ امام ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” مالکم من زوال “ یعنی (اس دنیا سے) جس میں تم ہو (جانا نہیں ہوگا) اس (آخرت کی طرف) جو تم کہتے ہو۔ 5:۔ امام ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” مالکم من زوال “ سے مراد ہے کہ تم کہتے تھے کہ موت کے بعد اٹھانا (نہیں ہوگا ) ۔ 6:۔ امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ’ ’ وسکنتم فی مسکن الذین ظلموا انفسم “ یعنی تم رہے قوم نوح قوم عاد اور قوم ثمود کے رہنے کی جگہوں میں اور ان کے درمیان بہت سی قومیں ہیں اور ان قوموں میں سے جو ہلاک ہوگئیں (آیت ) ” وتبین لکم کیف فعلنا بہم وضربنا لکم الامثال “ یعنی تحقیق اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو بھیجا اور اپنی کتابوں کو نازل فرمایا اور انہوں نے تمہارے لئے مثالوں کو بیان فرمایا پس ان تمام حقائق سے کوئی بہرہ ہی بہرہ رہ سکتا ہے اور کوئی ازلی نامراد ہی خائب ورہ سکتا ہے پس سمجھو تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے حکم کو۔ 7:۔ امام عبد بن حمید اور ابن منذر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ’ ’ وسکنتم فی مسکن الذین ظلموا انفسم “ یعنی تم نے بھی ان کے اعمال کی طرح عمل کیا۔ 8: امام ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وضربنا لکم الامثال “ یعنی اس طرح کی مثالیں (بیان کیں) ۔ 9:۔ امام ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وان کان مکرھم “ یعنی ان کا مکر ایسا تھا کہ اس سے پہاڑ بھی اکھڑ جائے۔ 10:۔ امام ابن جریر اور ابن انباری نے مصاحف میں حسن (رح) سے روایت کیا کہ چار مقامات پر ان ما کے معنی میں استعمال ہوا (آیت) ” وان کان مکرھم لتزول منہ الجبال “ یعنی مامکرھم “ اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول (آیت) ” لاتخذنہ من لدنا ان کنا فعلین (17) “ یعنی انبیاء (علیہم السلام) ” ما کنا فعلین “ (نہیں تھے ہم کرنے والے) اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول (آیت) ” ان کان للرحمن ولدا “ یعنی ” ماکان ولد “ (یعنی نہیں ہے رحمن کی اولاد) اور اللہ کا یہ قول (آیت) ” ولقد مکنہم فیما ان مکنکم فیہ “ یعنی ما مکنہم فیہ “ (یعنی ہم نے تم کو حکومت نہیں دی اس میں ) ۔ 11:۔ امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وان کان مکرہم “ یعنی ان کا شرک جیسے اللہ تعالیٰ کا قول (آیت) ” تکاد السموت یتفطرن منہ “ (مریم آیت 90) ۔ 12:۔ امام ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وان کان مکرہم لتزول منہ الجبال “ کا یہ قول ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ قول (آیت) ” وقالواتخذ الرحمن ولدا (88) لقد جئتم شیئا ادا (89) ” تکاد السموت یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخیرالجبال ھدا (90) “ (مریم آیت 90) 13:۔ امام ابن جریر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ حسن ؓ فرمایا کرتے تھے یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اھون واصغر ہے ان کے اس مکروفریب سے کہ جس سے پہاڑ اکھڑ جائے قتادہ ؓ نے فرمایا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ کے مصحف میں یوں تھا (آیت) ” وان کان مکرہم لتزول منہ الجبال “ اور قتادہ ؓ اس آیت کی تلاوت کے وقت بطور دلیل یہ آیت پڑھتے تھے ” تکاد السموت یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخیرالجبال ھدا (90) “ یعنی ان کے اس کلام سے (آسمان پھٹ جائیں زمین ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے اور پہاڑ گر کر زیر وزبر ہوجائیں ) ۔ 14:۔ ابن حمید سعید بن منصور ابن جریر وابن منذر رحمہم اللہ سے روایت کیا کہ اس کو یوں پڑھتے تھے (آیت) ” وان کان مکرہم “ یعنی نون کے ساتھ ” لتزول “ دوسرے لام کے رفع اور پہلے کے فتح کے ساتھ۔ 15:۔ امام ابن انباری نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس کو یوں پڑھتے تھے (آیت) ” وان کان مکرہم لتزول “ لام اول کے کسرہ کے ساتھ اور دوسرے کے فتح کے ساتھ اور فرماتے تھے بلاشبہ ان کا مکر یعنی ان کی تدبیر زیادہ آسان ہے اور اس سے زیادہ کمزور ہے۔ 16:۔ امام ابن انباری نے مصاحف میں عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس کو یوں پڑھتے تھے (آیت) ” وان کان مکرہم لتزول منہ الجبال “ یعنی دال کے ساتھ۔ 17:۔ امام ابن منذر اور ابن انباری نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس کو یوں پڑھتے تھے (آیت) ” وان کان مکرہم “۔ 18:۔ امام ابن انباری نے ابی ابن کعب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس کو یوں پڑھا (آیت) ” وان کان مکرہم “ اور ان کے نزدیک اس کی تفسیر یہ آیت ہے۔ (آیت) ” تکاد السموت یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخیرالجبال ھدا (مریم آیت 90) “ اس وجہ سے انہوں نے یہ کہا (آیت) ” ان دعواللرحمن ولدا (مریم آیت 91) کہ رحمن کا ایک بیٹا ہے۔ 20:۔ امام ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس کو اس طرح پڑھتے تھے ” لتزول “ پہلے لام کے فتح اور دوسرے کے رفع کے ساتھ۔ 21:۔ امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، اور ابن انباری نے علی ابن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے یہ آیت پڑھی (آیت) ” وان کان مکرہم لتزول منہ الجبال “ پھر اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک جابر آدمی تھا اس نے کہا میں ابراہیم (علیہ السلام) کی بات کو تسلیم نہیں کروں گا یہاں تک کہ میں دیکھوں گا اس چیز کی طرف جو آسمان میں ہے اس نے چار گدھ کے بچے پکڑے کہ ان کو گوشت کھلانا شروع کیا یہاں تک کہ وہ جوان ہوگئے اور طاقت ور ہوگئے اس نے ایک صدوق بنوایا اس کو ہموار کرکے دو آدمیوں کے (بیٹھنے کی) گنجائش بنائی گئی پھر اس کے درمیان ایک لکڑی لگائی گئی پھر ان کی ٹانگوں کو کیلوں سے باندھ دیا گیا کئی دنوں تک اس کو بھوکا رکھا گیا پھر اس درمیانی لکڑی پر گوشت رکھ دیا گیا پھر وہ اور اس کا ایک ساتھی صندوق میں داخل ہوئے پھر ان گدھوں کو صندوق کے پائیوں سے باندھ دیا گیا پھر ان کو چھوڑ دیا گیا (اس حال میں) کہ وہ گوشت (کے حاصل کرنے) کا ارادہ کررہے تھے اس صندوق کو لے کر اڑے جتنا اللہ نے چاہا پھر اس نے اپنے ساتھی سے کہا دروازہ کھول دے اس نے دروازہ کھولا تو اس نے دیکھا کیا نظر آتا ہے جب اس نے دروازہ کھولا تو کہا پہاڑ مجھے مکھیوں کی طرح نظر آتے ہیں اس نے کہا دروازہ بند کردے اس نے بند کردیا وہ گدھ اسے لے کر چلتے رہے جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا پھر کہا دروازہ کھول دے اس نے کھولا پھر کہا دیکھ کیا نظر آتا ہے اس کے ساتھی نے کہا آسمان تو پہلے کی طرح دور نظر آتا ہے پھر اس نے کہا لکڑی کو نیچے کردو اس نے اس کو نیچے کردیا (پرندے) گوشت حاصل کرنے لئے نیچے آنے لگے پس وہ لکڑیاں دھڑام سے نیچے گریں تو پہاڑوں نے ان کے ٹوٹنے اور گرنے کی آواز سنی قریب تھا کہ دہشت کی وجہ سے اپنی جگہ سے ہل جاتے۔ کفار کے مکروفریب : 22:۔ امام ابن جریر نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ اس جھگڑا کرنے والے نے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ان کے رب کے بارے میں جھگڑا کررہا تھا اور چھوٹی گدھیں لیں ان کو پالا یہاں تک کہ وہ موٹی ہوگئیں اور جوان ہوگئیں اس نے ان میں سے ہر ایک گدھ کو تابوت کے پایوں کے ساتھ باندھ دیا اور ان (گدھ) کو بھوکا رکھا پھر وہ اور دوسرا آدمی اس تابوت میں بیٹھ گئے تابوت کے اوپر ایک لکڑی لگا دی جس کے سرے پر گوشت رکھا گیا تھا وہ دونوں گدھ اس تابوت کو لے کر اڑتے رہے اور اس نے اپنے ساتھی سے کہنا شروع کیا دیکھتا رہ تجھ کو کیا دکھائی دیتا ہے اس نے کہا مجھے ایسا ایسا دکھائی دیتا ہے یہاں تک کہ اس نے کہا میں دنیا کو دیکھ رہا ہوں گویا کہ وہ ایک مکھی ہے اس نے کہا گوشت والی لکڑی کو نیچا کردے اس نے اس (گوشت والی لکڑی) کو نیچا کردے اس نے اس (گوشت والی لکڑی) کو نیچا کیا تو وہ دنوں گرپڑے اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وان کان مکرہم لتزول منہ الجبال “ اور ابن مسعود ؓ کی قرأت میں بھی اسی طرح (آیت) ” وان کان مکرہم لتزول منہ الجبال “۔ 23:۔ امام ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ بخت نصر نے (چند) گدھوں کو بھوکا رکھا پھر ان پر تابوت کو رکھ دیا پھر اس میں خود داخل ہوگیا اس نے اس کے اطراف نیزے لگا دیے تھے اور گوشت ان کے اوپر رکھ دیا تھا پس گدھ گوشت کی طرف بلند ہوئے اور اڑتے گئے یہاں تک کہ زمین والوں سے اوجھل ہوگئے ایک غیبی آوازآئی اے سرکش تو کہاں کا ارادہ رکھتا ہے اس سے وہ خوف زدہ ہوگیا پھر اس نے اپنے اوپر سے آواز سنی تو اس نے نیزوں کے سر نیچے کردئے تو گدھ ٹوٹ کر نیچے گرے تو پہاڑ ان کے گرنے کی وجہ سے ڈر گئے اور قریب تھا کہ پہاڑ اس آواز سے ہل جائیں اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وان کان مکرہم لتزول منہ الجبال “ اسی طرح مجاہد (رح) نے اس کو پڑھا۔ 24:۔ امام ابن جریر نے سعید بن جبیر (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ نمرود گدھوں والا اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے اس نے ایک تابوت تیار کرنے کا حکم دیا تھا اور خود اور اس کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تابوت میں بیٹھ گئے پھر اس نے گدھوں کو اڑنے کا حکم دیا جب وہ اوپر اڑے تو اس نے اپنے ساتھی سے کہا تو کیا چیز دیکھ رہا ہے اس نے کہا میں پانی اور جزیرہ کو دیکھ رہا ہوں یعنی دنیا کو پھر وہ اوپر چڑھے تو اس نے اپنے ساتھی سے کہا تو کیا چیز دیکھ رہا ہے اس نے کہا ہم آسمان سے اور زیادہ دور ہورہے ہیں تو اس نے کہا نیچے اتر جاؤ۔ 25:۔ امام ابن ابی شیبہ نے ابوعبیدہ (رح) سے روایت کیا کہ ایک جابر شخص نے کہا تھا کہ میں اس وقت ابراہیم (علیہ السلام) کی بات کو نہیں مانوں گا یہاں تک کہ میں دیکھوں گا جو کہے کہ آسمان میں کون ہے ؟ (اللہ تعالیٰ نے) اس پر اپنی سب سے زیادہ کمزور مخلوق کو مسلط کردیا ایک مچھر اس کی ناک میں داخل ہوگیا تو اس کو موت نے پکڑ لیا اس نے لوگوں سے کہا میرے سر کو مارو انہوں نے اس کو مارا یہاں تک کہ اس کا دماغ پھٹ گیا۔ 26:۔ امام سعید بن منصور اور ابن ابی حاتم نے ابو مالک (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” وان کان مکرہم لتزول منہ الجبال “ کے بارے میں روایت کیا کہ لوگ گئے اور انہوں نے گدھوں کو پکڑا اور انہوں نے ان پر صندوقوں کی طرح (کچھ صندوق) باندھ دے پھر ان کو آسمان کی طرف چھوڑ دیا جب پہاڑوں کو ان کو دیکھا تو انہوں نے گمان کیا کہ کوئی چیز آسمان سے نازل ہورہی ہے تو وہ اس وجہ سے حرکت کرنے لگے۔ ابراہیم ولوط (علیہما السلام) کی ہجرت : 27:۔ امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ جس شخص نے ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ جھگڑا گیا ان کے رب کے بارے میں اس نے ابراہیم (علیہ السلام) کو شہر چھوڑ جانے کا حکم دیا تو شہر چھوڑ جانے کا حکم دیا تو شہر کے دروازے پر لوط (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی جو ان کے بھتیجے تھے اس کو (ایمان کی) دعوت دی وہ ان پر ایمان لے آئے ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرکے جارہا ہوں اور نمرود نے قسم کھائی کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے خدا کو تلاش کرے گا تو اس نے گدھوں کے بچوں میں سے چار بچے لئے ان کو پالا روٹی اور گوشت سے یہاں تک کہ جب وہ بڑے ہوگئے اور موٹے ہوگئے تو ان کو ایک تابوت سے باندھ دیا اور خود اس تابوت میں بیٹھ گیا پھر ان کے لئے اوپر کی جانب گوشت لٹکایا گیا تو وہ گدھ اڑنے لگے یہاں تک کہ جب کہ وہ آسمان میں داخل ہوا اور اس نے زمین کی طرف اور پہاڑوں کی طرف دیکھا تو وہ رینگتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں چیونٹی کے رینگنے کی طرح پھر ان کے لئے گوشت کو (اور) اونچا کردیا پھر دیکھا تو زمین کو ایسے دیکھا کہ وہ گھری ہوئی ہے سمندر سے گویا کہ وہ ایک پانی کا جزیرہ ہے پھر مزید اوپر گیا اور وہ ایک اندھیرے میں پہنچ گیا نہ اس نے اپنے اوپر کسی چیز کو دیکھا اور نہ اپنے نیچے کسی چیز کو دیکھا تو اس نے گوشت کو نیچے ڈال دیا تو گدھ بھی اس (گوشت) کے پیچھے لگ گئے اور نیچے اترنے لگے جب پہاڑوں نے ان کی طرف دیکھا کہ وہ نیچے اترتے ہوئے آرہے ہیں اور ان کی آواز کو سنا تو پہاڑ ڈر گئے اور قریب تھا کہ وہ اپنی جگہ سے ہل جاتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اسی کو فرمایا (آیت) ” وقد مکروا مکرھم عند اللہ مکرھم ” وان کان مکرہم لتزول منہ الجبال “ اور یہ عبد اللہ بن مسعود ؓ کی قرأت میں ہے۔” وان کان کاد مکرھم “ ہے اور ان پرندوں کو لے کر اڑنا بیت المقدس سے تھے اور ان کا دخان کے پہاڑوں میں تھا جب نمرود نے دیکھا کہ وہ کسی چیز کی طاقت نہیں رکھتا تو اس نے ایک محل کو بنانا شروع کیا یہاں تک کہ آسمان کی طرف انتہا کی بلند محل بنایا اور اس کے اوپر چڑھا تاکہ ابراہیم (علیہ السلام) کے خدا کو دیکھ لے اس کی یہ کوشش ناکام ہوئی اور کچھ نہ کرسکا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی عمارت کو بنیادوں سے پکڑ کر اکھیڑ دیا (پھر فرمایا) فخر علیہم السقف من فوقہم واتہم العذاب من حیث لا یشعرون (26) ”(النخل آیت 26) (پس گرپڑی ان پر چھت ان کے اوپر سے اور ان پر آگیا عذاب جہاں سے ان کو گمان بھی نہ تھا) اس محل کے گرنے کی وجہ سے لوگوں زبانیں خوف مارے صحیح نہ بول سکیں پس وہ بات کرنے لگے اس وجہ سے اس کو بابل کا نام دیا گیا اور اس سے پہلے ان میں سریانی زبان بولی جاتی تھی۔ 28:۔ امام ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان اللہ عزیز ذوانتقام “ کہ اللہ کی قسم وہ اپنے کام میں غالب ہیں اللہ تعالیٰ اپنے ڈھیل دیتا ہے اور ان کی تدبیر مضبوط ہے پھر جب انتقام لیتے ہیں تو اپنی قدرت کے ساتھ انتقام لیتے ہیں۔ 29:۔ امام مسلم، ابن جریر، حاکم اور بیہقی نے دلائل میں ثوبان ؓ سے روایت کیا کہ یہودیوں کا ایک بڑا عالم رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا لوگ کہاں ہوں گے جس دن زمین کو دوسری زمین میں تبدیل کیا جائے گا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ اندھیرے میں ہوں گے پل صراط کے نیچے۔ 30:۔ امام احمد، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن حبان، ابن مردویہ اور حاکم نے عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت کیا کہ میں لوگوں میں سب سے پہلی تھی جس نے رسول اللہ ﷺ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا (یعنی) (آیت) ” یوم تبدل الارض غیر الارض “ (پھر) میں نے عرض کیا اس دن لوگ کہاں ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا پل صراط پر ہوں گے۔ 31:۔ امام ابن بزار، ابن منذر، طبرانی، ابن مردویہ، اور بیہقی نے البعث میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” یوم تبدل الارض غیر الارض “ کے بارے میں فرمایا زمین سفید ہوگی گویا کہ وہ چاندی ہے اس میں حرام خون نہیں بہایا گیا ہوگا اور نہ اس میں کوئی گناہ کا کام ہوا۔ 32:۔ امام عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر ابن ابی حاتم، طبرانی، ابو الشیخ نے العظمۃ میں، حاکم اور بیہقی نے البعث میں (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) ابن مسعود ؓ سے (آیت) ” یوم تبدل الارض غیر الارض “ کے بارے میں روایت کیا کہ زمین کو سفید زمین میں تبدیل کردیا جائے گا گویا کہ وہ ڈھیلی وہ چاندی ہے اسمیں حرام خون نہیں بہایا گیا ہوگا اور نہ اس پر کوئی گناہ کا کام ہوا ہوگا۔ 33:۔ امام، ابن جریر، اور ابن مردویہ، نے زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا کہ یہودی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا تاکہ اس سے سوال کرے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ میرے پاس آیا میں ان کو سوال کرنے سے پہلے جواب دوں گا (آیت) ” یوم تبدل الارض غیر الارض “ آپ نے فرمایا وہ زمین سفید ہوگی چاندی کی طرح آپ نے ان سے پوچھا تو کہنے لگے سفید زمین ہوگی مانند صاف ستھری خالص چاندی کے۔ قیامت کے روز یہ زمین بدل جائے گی : 34:۔ امام ابن مردویہ نے علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (آیت) ” یوم تبدل الارض غیر الارض “ سے مراد ہے کہ ایسی سفید زمین کہ جس پر کوئی گناہ کا کام نہ ہوا اور نہ اس پر کوئی خون بہا۔ 35:۔ امام ابن جریر اور ابن مردویہ نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے یہ آیت (آیت) ” یوم تبدل الارض غیر الارض والسموت “ تلاوت فرمائی اور فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی زمین سے بدل دیں گے کہ جس پر کوئی گناہ نہیں کئے ہوں گے پھر جبار عزوجل (یعنی اللہ تعالیٰ ) اس پر نزول فرمائیں گے۔ 36:۔ امام ابن ابی الدنیا نے صفۃ الجنہ میں، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا زمین کو چاندی سے اور آسمان کو سونے سے بدل دیں گے۔ 37:۔ امام ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” یوم تبدل الارض غیر الارض “ کے بارے میں روایت کیا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ چاندی کی ہوگی۔ 38:۔ امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے (آیت) ” یوم تبدل الارض غیر الارض والسموت “ کے بارے میں روایت کیا کہ زمین گویا چاندی کی ہوگی اور آسمان بھی اسی طرح (چاندی کے ہوں گے) 39:۔ امام بیہقی نے البعث میں ابن عباس ؓ سے (آیت) ” یوم تبدل الارض غیر الارض والسموت “ کے بارے میں فرمایا کہ اس میں زیادتی اور کمی کی جائے گی اور اس کے ٹیلے، اس کے پہاڑ اس کی وادیاں اور اس کے درخت اور جو کچھ اس میں ہے (سب کے سب) چلے جائیں گے (یعنی ختم ہوجائیں گے) اور برابر ہوجائے گا عکاظی چمڑوں کے پھیلانے کی طرح سفید زمین ہوگی چاندی کی طرح نہ اس میں خون بہا ہوگا اور نہ اس میں کوئی گناہ کا کام ہوا ہوگا اور آسمانوں میں اس کا سورج اس کا چاند اور اس کے ستارے ختم ہوجائیں گے۔ 40:۔ امام بخاری، مسلم، ابن جریر اور ابن مردویہ نے سہل بن سعد ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن لوگ اکٹھے کئے جائیں گے سفید مٹیالی زمین پر جو چاندی کی خالص سفید ٹکیہ کی طرح ہوگی اس میں کسی کے لئے کوئی علامت نہ ہوگی۔ قیامت کے دن یہ زمین روئی کی طرح ہوگی۔ 41:۔ امام بخاری، مسلم اور ابن مردویہ نے ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن زمین ایک روٹی کی طرح ہوگی جبار (یعنی اللہ تعالیٰ ) اس کو پکڑیں گے اپنے ہاتھ میں جیسے تم میں سے کوئی سفر میں اپنی روٹی کو پکڑتا ہے یہ مہمانی ہوگی جنت والوں کے لئے راوی نے کہا یہودیوں میں سے ایک آدمی نے آکر کہا اے ابوالقاسم (یہ محمد ﷺ کی کنیت ہے) اللہ تعالیٰ تجھ پر برکت نازل فرمائے کیا میں آپ کو نہ بتاوں اہل جنت کی ضیافت کے بارے میں قیامت کے دن پھر اس نے کہا قیامت کے دن زمین ایک روٹی کی ہوگی جیسے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا روای نے کہا پھر ہماری طرف رسول اللہ ﷺ نے دیکھا پھر آپ ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے داڑھیں مبارک ظاہر ہوگئیں پھر فرمایا کیا میں تم کو اس کے سالن کے بارے میں نہ بتاوں ؟ عرض کیا ضرور ارشاد فرمائے فرمایا کہ ان کا سالن بیل کا ہوگا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا وہ کیا ہے ؟ فرمایا وحشی بیل مچھلی کے جگر کے زائد حصہ سے ستر ہزار افراد کھائیں گے۔ 42:۔ امام ابن مردویہ نے ا بو ایوب ؓ کے آزاد کردہ غلام افلح سے روایت کیا کہ یہودیوں میں سے ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ سے (آیت) ” یوم تبدل الارض غیر الارض “ کے بارے میں پوچھا کہ کس چیز میں اس کو تبدیل کیا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا روٹی میں یہودی نے کہا در مکہ میرا باپ تجھ پر قربان ہو تو آپ (یہ سن کر) ہنس پڑے پھر فرمایا اللہ تعالیٰ یہودیوں کو قتل کرے کیا تم جانتے ہو در مکہ کیا ہے (پھر فرمایا) خالص روٹی۔ 43:۔ امام ابن جریر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ یہ (آیت) ” یوم تبدل الارض غیر الارض والسموت “ سے مراد ہے کہ زمین تبدیل ہوگی سفید روٹی میں مومن کھائے گا اپنے قدموں کے نیچے سے۔ 44:۔ امام بیہقی نے البعث میں عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ زمین سفید ہوجائے گی روٹی کی طرح اس میں سے اہل اسلام کھائیں گے حساب سے فارغ ہونے تک۔ 45:۔ امام ابن جریر نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” یوم تبدل الارض غیر الارض “ سے مراد ہے زمین روٹی ہوجائے گی اس میں سے مومن کھائیں گے اپنے قدموں کے نیچے سے۔ 46:۔ امام احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابونعیم نے دلائل میں ابوایوب انصاری ؓ سے روایت کیا کہ یہودیوں میں سے ایک بڑا عالم نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا مجھے بتائیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت) ” یوم تبدل الارض غیر الارض “ پھر مخلوق اس وقت کہاں ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کے مہمان ہوں گے وہ ان کو عاجز نہیں کرے گا جو ان کے پاس ہوگا۔ 47:۔ امام عبد بن حمید نے عکرمہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ یہ زمین لپیٹ دی جائے گی دوسری قسم کی زمین سے۔ آسمان باغوں میں تبدیل ہوگا : 48:۔ امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابی بن کعب ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ آسمان بدل دئیے جائیں گے باغوں میں اور سمندر کی جگہ آگ ہوجائے گی اور زمین بدل دی جائے گی دوسری قسم کی زمین سے۔ 49:۔ امام ابن جریر نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” یوم تبدل الارض غیر الارض “ یعنی قیامت کے دن تبدیل ہوگی پہلی پیدائش کے علاوہ دوسری پیدائش ہوگی۔ 51:۔ امام بخاری نے تاریخ میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا قیامت کے دن زمین کہاں ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ جنت کا سنگ مرمر ہوگی۔ 52:۔ امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” مقرنین فی الاصفاد “ سے مراد ہے بیڑیاں۔ 53:۔ امام عبدالرزاق اور ابن جریر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” مقرنین فی الاصفاد “ سے مراد ہے بیڑیاں اور طوق۔ 54:۔۔ امام ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” فی الاصفاد “ سے مراد ہے زنجیروں میں۔ 55:۔ امام ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” فی الاصفاد “ سے مراد ہے رسیوں میں (یعنی بندھن میں ) ۔
Top