Dure-Mansoor - Ibrahim : 5
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ۙ۬ وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ
وَ : اور لَقَدْاَرْسَلْنَا : البتہ ہم نے بھیجا مُوْسٰى : موسیٰ بِاٰيٰتِنَآ : اپنی نشانیوں کے ساتھ اَنْ : کہ اَخْرِجْ : تو نکال قَوْمَكَ : اپنی قوم مِنَ الظُّلُمٰتِ : اندھیروں سے اِلَى النُّوْرِ : نور کی طرف وَذَكِّرْهُمْ : اور یاد دلا انہیں بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ : اللہ کے دن اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيٰتٍ : البتہ نشانیاں لِّكُلِّ صَبَّارٍ : ہر صبر کرنیوالے کے لیے شَكُوْرٍ : شکر کرنے والے
اور اس میں شک نہیں کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاؤ اور انہیں ایام الہیہ یاد دلاؤ بیشک اس میں ہر ایسے شخص کے لئے نشانیاں ہیں جو خوب صبر کرنے والا ہے خوب شکر کرنے والا ہے
1:۔ ابن جریر ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد وعطاء وعبید بن عمیر رحمہم اللہ تینوں حضرات سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ولقد ارسلنا موسیٰ بایتنا “ سے مراد ہے نونشانیاں (یعنی بنی اسرائیل پر عذاب کی شکل میں آئیں تھیں) طوفان، ٹڈی، چیچڑی، مینڈک، خون، لاٹھی آپ کے ہاتھ (کا چمکنا) قحط سالی، پھلوں میں نقصان۔ 2:۔ امام ابن جریر و اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان اخرج قومک من الظلمت الی النور “ سے مراد ہے (اپنی قوم کو نکالئے) گمراہی سے ہدایت کی طرف۔ 3:۔ امام نسائی، عبداللہ بن احمد نے زوائد المسند میں، ابن جریر ابن منذر، ابن ابی حاتم ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابن کعب ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ (آیت) ” وذکرھم بایم اللہ “ سے مراد ہے کہ (ان کو یاد دلائیے) اللہ کی نعمتیں۔ 4:۔ امام عبدالرزاق اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وذکرھم بایم اللہ “ سے مراد ہے اللہ کی نعمتیں۔ 5:۔ امام ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جب یہ (آیت) ” وذکرھم بایم اللہ “ ہوئی تو آپ نے ان کو وعظ فرمایا۔ خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلانا : ﷺ 6:۔ امام ابن مردودیہ نے عبداللہ بن سلمہ کے طریق سے حضرت علی یا زبیر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہم کو خطبہ ارشاد فرماتے تھے اور ہم کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلاتے تھے یہاں تک کہ ہم اس بات کو آپ کے چہرہ مبارک سے پہچان لیتے تھے گویا کہ لوگوں کو کسی امر کا صبح شام حکم فرماتے تھے اور جب جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ ملاقاتوں کا ابتدائی دور تھا تو آپ ہنستے نہیں تھے یہاں تک کہ وہ چلے جاتے تھے۔ 7:۔ امام ان جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وذکرھم بایم اللہ “ سے مراد ہیں وہ نعمتیں جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم پر فرمائی تھیں اور ان کو فرعون والوں سے نجات دی اور ان کے لئے دریا کو پھاڑ دیا اور ان پر بادلوں کا سایہ کیا اور ان پر ترنجین اور بٹیرے نازل فرمائے۔ 8:۔ ابن ابی حاتم نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وذکرھم بایم اللہ “ سے مراد گزشتہ قوموں کے احوال اور واقعات ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ نے ان پر جاری فرمائے۔ 9:۔ امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان فی ذلک لکل صبار شکور “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے بہترین بندہ وہ ہے جب کسی مصیبت میں مبتلا کیا جائے تو صبر کرے اور جب (کوئی نعمت) دی جائے تو شکر کرے۔ 10:۔ امام ابن ابی منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” لکل صبار شکور “ سے مراد ہے کہ ہم نے ان کو بہت زیادہ صبر کرنے والا اور بہت زیادہ شکر کرنے والا پایا اور زیادہ شکر کرنے والا اور زیادہ صبر کرنے والا (پایا) 11:۔ ابن ابی حاتم اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابوظبیان کے طریق سے علقمہ سے اور انہوں نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ صبر آدھا ایمان ہے اور یقین سارا ایمان ہے علقمہ (رح) نے کہا کہ میں نے یہ حدیث علاء بن یزید (رح) کو بتائی تو انہوں نے فرمایا کیا یہ قرآن میں نہیں ہے (یعنی قرآن میں موجود ہے اور وہ یہ ہے) (آیت) ” ان فی ذلک لکل صبار شکور “ (اور) ” ان فی ذلک لایت للمومنین “۔
Top