Dure-Mansoor - An-Nahl : 103
وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُهٗ بَشَرٌ١ؕ لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْهِ اَعْجَمِیٌّ وَّ هٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ
وَ : اور لَقَدْ نَعْلَمُ : ہم خوب جانتے ہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يُعَلِّمُهٗ : اس کو سکھاتا ہے بَشَرٌ : ایک آدمی لِسَانُ : زبان الَّذِيْ : وہ جو کہ يُلْحِدُوْنَ : کجراہی (نسبت) کرتے ہیں اِلَيْهِ : اس کی طرف اَعْجَمِيٌّ : عجمی وَّھٰذَا : اور یہ لِسَانٌ : زبان عَرَبِيٌّ : عربی مُّبِيْنٌ : واضح
اور بلاشبہ ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان کو ایک آدمی سکھاتا ہے کہ یہ لوگ جس کی طرف نسبت کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ واضح طور پر صاف عربی زبان ہے
1:۔ ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے سند ضعیف کے ساتھ ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں ایک غلام کو تعلیم دیتے تھے اس کا نام بلعام تھا وہ عجمی زبان والا تھا مشرکوں نے آپ کو بلعام کے پاس آتا جاتا دیکھ کر کہا کہ ان کو بلعام سکھاتا ہے تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” ولقد نعلم انہم یقولون انما یعلمہ بشر “ (الآیہ ) ۔ 2:۔ حاکم اور بیہقی نے شعب میں حاکم نے صحیح بھی کہا ہے۔ ابن عباس ؓ سے (آیت) ” انما یعلمہ بشر “ کے بارے میں روایت کیا کہ مشرکین نے کہا کہ محمد ﷺ کو عبدۃ بن حضرمی سکھاتا ہے اور وہ صاحب کتاب ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” لسان الذی یلحدون الیہ اعجمی وھذا لسان عربی مبین “۔ 3:۔ ابن جریر عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ بنو مغیرہ کے ایک عجمی غلام کو قرآن سکھاتے تھے جس کو مقیس کہا جاتا تھا (لوگوں نے باتیں نے باتیں شروع کردیں) تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” ولقد نعلم انہم یقولون “ (الآیۃ) 4:۔ آدم بن ابی ایاس، ابن ابی شبیہ، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے شعب میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولقد نعلم انہم یقولون انما یعلمہ بشر “ یہ قریش کا قول ہے کہ محمد ﷺ کو ابن حضرمی سکھاتا ہے اور وہ صاحب کتاب ہے (حالانکہ) لسان الذی یلحدون الیہ اعجمی “ یعنی وہ رومی زبان میں بات کرتا تھا (وھذالسان عربی مبین “ (اور یہ قرآن صاف عربی زبان ہے) 5:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ مشرکین مکہ کہتے تھے کہ محمد ﷺ کو عبدہ بن حضرمی سکھاتا ہے جس کو مقیس کہا جاتا ہے۔ 6:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ مشرکین مکہ کہا کرتے تھے کہ ان کو سلیمان فارسی ؓ سکھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اتارا (آیت) ” لسان الذی یلحدون الیہ اعجمی “۔ 7:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن شہاب کے طریق سے سعید ابن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ وہ شخص جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا کہ (آیت) ” انما یعلمہ بشر “ اس فتنہ میں وہ شخص اس وجہ سے مبتلا ہوا جو رسول اللہ ﷺ کے لئے وحی کو لکھتا تھا اور آپ اس کو لکھواتے تھے۔” سمیع علیم “ یا ” عزیز حکیم “ یا اس طرح کے (دوسرے) الفاظ آیت کے ختم پر پھر رسول اللہ ﷺ اس سے غافل ہوجاتے تھے (بعد میں) وہ کہتا تھا یا رسول اللہ ﷺ کیا یہ عزیز حکیم تھا یا سمیع علیم تھا آپ فرماتے تھے جو تو نے لکھا وہ ٹھیک ہے پس وہ فتنہ میں پڑگیا اور کہا کہ بلاشبہ محمد ﷺ مجھ پر بھروسہ کرتے ہیں پس میں جو چاہوں لکھ دوں یہ وہ بات ہے جو میرے لئے سعید بن المسیب نے حروف سبعہ میں ذکر فرمائی۔ ابوبسر نصرانی غلام سے ملاقات : 8:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو جب مکہ والے تکلیف دیتے تھے تو آپ ابن حضرمی کے ایک غلام کے پاس تشریف لے جاتے جس کو ابو یسر کہا جاتا تھا وہ نصرانی تھا اور وہ تورات اور انجیل پڑھتا تھا تو آپ اس سے سوال کرتے اور اس سے باتیں کرتے تھے جب مشرکین نے دیکھا کہ آپ اس کے پاس جاتے ہیں تو کہنے لگے کہ اس کو ابو یسر سکھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” اعجمی وھذا لسان عربی مبین “ (کہ یہ قرآن تو صرف عربی زبان میں ہے) اور ابویسر کی زبان عجمی ہے۔ 9:۔ ابن ابی حاتم نے معاویہ بن صالح (رح) سے روایت کیا کہ ابو امامہ کے پاس جھوٹ کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا اے اللہ میں جھوٹ سے معافی مانگتا ہوں کیا تم نے اللہ تعالیٰ کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا (آیت) ” انما یفتری الکذب الذین لا یومنون بایت اللہ واولئک ھم الکذبون “۔ 10:۔ خرائطی نے مساوی الاخلاق میں اور ابن عساکر نے تاریخ میں عبداللہ بن جرادرحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کیا مومن زنا کرسکتا ہے ؟ فرمایا یہ ہوسکتا ہے پھر پوچھا کیا مومن چوری کرسکتا ہے ؟ فرمایا یہ ہوسکتا ہے پھر پوچھا کی مومن جھوٹ بول سکتا ہے ـ؟ فرمایا نہیں پھر اس کے پیچھے اللہ کے نبی ﷺ نے یہ (آیت) انما یفتری الکذب الذین لا یومنون “۔ 11:۔ خطیب نے تاریخ میں عبداللہ بن جراد (رح) سے روایت کیا کہ ابوالدرداء ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ کیا مومن جھوٹ بول سکتا ہے فرمایا جب وہ جھوٹ بولتا ہے تو (گویا) وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں لایا۔ 12:۔ ابن مردویہ نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مجھے ڈرایا گیا کہ جس سے میں تم پر تین کاموں سے ڈرتا ہوں وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کی نعمت عطا کی یہاں تک کہ وہ اس کی بہجت (یعنی خوبصورتی) کو دیکھ لے اور اسلام کی چادراوڑھ لے اور اللہ تعالیٰ جو چاہے اسے عطا فرمائے پھر وہ اپنی تلوار کو سونتے اور اپنے پڑوسی کو مار دے اور اس پر کفر کا الزام لگائے صحابہ ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ! کون ان میں سے کفر سے زیادہ قریب ہے کفر کی تہمت لگا نے والا یا جسے تہمت لگائی گئی ؟ آپ نے فرمایا تہمت لگانے والا اور ایک خلافت والا تھا جو تم سے پہلے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو بادشاہی عطا فرمائی اس نے کہا جس شخص نے میری اطاعت کی تحقیق اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی تو تحقیق اس نے اللہ کی نافرمانی کی اس نے جھوٹ بولا جو اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی محبت کا خلیفہ نہیں بنایا تھا اور وہ آدمی جس کو باتوں نے اس طرح حیران کردیا ہو کہ جب وہ کوئی جھوٹ بولے تو اس کے ساتھ مزید جھوٹ ملا دے یہ وہ شخص ہے جو پائے گا دجال کو اور اس کی پیروی کرے گا۔
Top