Dure-Mansoor - An-Nahl : 126
وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ١ؕ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر عَاقَبْتُمْ : تم تکلیف دو فَعَاقِبُوْا : تو انہیں تکلیف دو بِمِثْلِ : ایسی ہی مَا عُوْقِبْتُمْ : جو تمہیں تکلیف دی گئی بِهٖ : اس سے ۭوَلَئِنْ : اور اگر صَبَرْتُمْ : تم صبر کرو لَهُوَ : تو وہ خَيْرٌ : بہتر لِّلصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والوں کے لیے
اور اگر تم بدلے لینے لگو تو اسی جیسا بدلہ لو جیسا تمہارے ساتھ برتاؤ کیا گیا اور اگر تم صبر کرلو تو البتہ وہ صبر کرنے والوں کے لئے بہتر ہے
1:۔ ترمذی (ترمذی نے تحسین بھی کی ہے) عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں نسائی ابن منذر ابن ابی حاتم ابن حبان ابن مردویہ حاکم اور بیہقی نے دلائل میں (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ احد کی جنگ میں 64 انصار اور چھ مہاجر شہید ہوئے مہاجرین شہداء میں حضرت حمزہ بھی شامل تھے ان سب کو کافروں نے مثلہ کردیا تھا (یعنی شہیدوں کے ناک کان بھی کاٹ لئے تھے) انصار نے کہا اگر اللہ تعالیٰ نے ان پر ہم کو غلبہ دیا تو ہم بھی ان سے بڑھ کر مثلہ کریں گے کچھ مدت کے بعد جب مکہ فتح ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت) ” وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ ولئن صبرتم لھو خیرللصبرین “ (اس آیت کے نازل ہونے کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم سزا نہیں دیں گے بلکہ صبر کریں گے فرمایا چار آدمیوں کے علاوہ باقی سب سے ہاتھ لو کسی کو قتل نہ کرو) حضرت حمزہ ؓ کی شہادت : 2:۔ ابن سعد، بزار، ابن منذر، ابن مردویہ، حاکم اور بیہقی نے دلائل میں (حاکم نے تصحیح بھی کی ہے) ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ (اپنے چچا) حضرت حمزہ ؓ (کی نعش) کے پاس کھڑے تھے جب ان کو شہید کردیا گیا آپ نے ایسا منظر دیکھا جو کبھی آپ نے نہیں دیکھا تھا اور آپ کے دل کو اس سے بڑی تکلیف ہوئی اور ان کی طرف دیکھا کہ ان کو مثلہ کردیا گیا تھا (یعنی ان کے ناک کان وغیرہ کاٹ لئے گئے تھے) آپ نے فرمایا اللہ کی رحمت ہو تجھ پر میں تیرے متعلق جانتا ہوں کہ آپ بڑے نیک کام کرنے والے اور صلہ رحمی کرنے والے تھے اگر تیرے بعد تجھ پر غم کئے جانے کا خیال نہ ہوتا تو مجھے اس بات سے خوشی ہوتی کہ میں تجھے ایسے ہی چھوڑ جاوں تاکہ قیامت کے دن آپ کا حشر مختلف روحوں میں سے ہو خدا کی قسم اگر مجھے اللہ تعالیٰ نے غلبہ دیا تو میں تیرے بدلے ان کے ستر آدمیوں کا مثلہ کروں گا اور نبی کریم ﷺ ابھی وہاں کھڑے ہوئے تھے کہ جبرئیل (علیہ السلام) سورة نحل کی یہ آخری آیت لئے آئے۔ (آیت) ” وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ “ (یہ سن کر) نبی کریم ﷺ نے اپنی قسم کا کفارہ ادا فرمایا اور اپنے ارادے سے باز آگئے جس کا آپ نے ارادہ کیا تھا اور آپ نے صبر کا مظاہرہ فرمایا۔ 3:۔ ابن منذر، طبرانی، ابن مردویہ اور بیہقی نے دلائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حمزہ ؓ کے قتل کرنے کا دن فرمایا جبکہ ان کو مثلہ کردیا گیا تھا کہ اگر میں نے قریش پر فتح حاصل کرلی تو میں نے ان میں سے ستر آدمیوں کو ضرور مثلہ کروں گا تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی (آیت) ” وان عاقبتم “ الایۃ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے میرے رب بلکہ ہم صبر کریں گے پس آپ نے صبر کیا اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا۔ 4:۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور ابن جریر نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ جب احد کا دن تھا اور مشرکین (لڑائی کے بعد) چلے گئے تو مسلمانوں نے اپنے شہید بھائیوں کو مثلہ (کی حالت میں) دیکھا انہوں نے ان کانوں کو ان کی ناکوں کا کاٹ دیا تھا اور ان کے پیٹوں کو چیر دیا تھا رسول اللہ ﷺ کے اصحاب ؓ نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ نے ہم کو موقعہ دیا (یعنی غلبہ عطا فرمایا) ان پر تو ہم ضرور ضرور ایسا کریں گے (کہ ان کو بھی ہم مثلہ کردیں گے) تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” وان عاقبتم “ (پوری آیت) ” تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلکہ ہم صبر کریں گے۔ 5:۔ ابن اسحاق اور ابن جریر نے عطا بن یسار (رح) سے روایت کیا کہ سورة نحل ساری ساری مکہ میں نازل ہوئی مگر اس کے آخر میں تین آیات احد کے دن مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں جب حمزہ ؓ شہید کردیئے گئے اور ان کو مثلہ کردیا گیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر ہم کو ان پر فتح حاصل ہوئی تو ان میں سے ہم ضرور تیس آدمیوں کو مثلہ کریں گے جب مسلمانوں سے اس بات کو سنا تو کہنے لگے اللہ کی قسم اگر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائی ان پر کہ ہم ضرور ان کو ایسا مثلہ کریں گے کہ عرب میں سے کسی نے ایسا مثلہ نہیں کیا ہوگا تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی (آیت) ” وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ “ سورة کے آخر تک۔ 6:۔ ابن جریر اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ “ یہ اس وقت کا ہے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو حکم فرمایا کہ اس سے لڑو جو تم سے لڑے پھر سورة برأۃ نازل ہوئی اور شہر حرام کے گذرنے کا حکم نازل ہوا تو جہاد کرنے کا حکم ہوا پس یہ آیت منسوخ ہوگئی۔ 7:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ مشرکین سے درگذر کا حکم کیا گیا تھا پھر جب رعب اور دبدبے والے افراد مسلمان ہوگئے تو کچھ صحابہ ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ اگر اللہ تعالیٰ نے ہم کو اجازت فرمائیں تو ہم ان کتوں سے ضرور بدلہ لیں گے تو یہ آیت نازل ہوئی پھر جہاد کی آیت کے ساتھ (یہ حکم) منسوخ ہوگیا۔ 8:۔ عبدالرزاق، سعید بن منصور، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون “ سے مراد ہے کہ بچو تم ان چیزوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے ان پر حرام کی ہیں اور اچھا عمل کرو ان چیزوں میں جو ان پر فرض کی گئی ہیں۔ 9:۔ سعید بن منصور، ابن سعد، ابن ابی شیبہ، ھناد، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ھرم بن حیان (رح) سے روایت کیا کہ جب ان پر موت کا وقت آیا تو لوگوں نے ان سے کہا کوئی وصیت کر جنے فرمایا میں تم کو سورة نحل کی آخری تین آیات کی وصیت کرتا ہوں یعنی (آیت) ” ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ “ سورة کے آخر تک۔ 10:ـ۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر اور ابن منذرنے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ “۔ سے مراد ہے کہ تم حد سے تجاوز نہ کرو۔ 11:۔ عبدالرزاق، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے محمد بن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ “۔ سے مراد ہے تم میں سے اگر کوئی آدمی کوئی چیز لے لے تو تم بھی اس سے طرح کی چیز لے لو۔ الحمد للہ سورة النحل مکمل ہوئی۔
Top