Dure-Mansoor - An-Nahl : 24
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ مَّا ذَاۤ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ١ۙ قَالُوْۤا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَۙ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمْ : ان سے مَّاذَآ : کیا اَنْزَلَ : نازل کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اَسَاطِيْرُ : کہانیاں الْاَوَّلِيْنَ : پہلے لوگ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا نازل کیا تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ پہلے لوگوں کی لکھی ہوئی باتیں ہیں
1:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ جب قریش اکھٹے ہوئے اور کہنے لگے کہ محمد ﷺ میٹھی زبان والے آدمی ہیں جب کوئی آدمی اس سے بات کرتا ہے تو وہ اس کی عقل پر غالب آجاتا ہے تم اپنے عزت والے آدمیوں کو تیار کرو جن کے نسب معروف ہوں ان کو مکہ کے ہر راستہ پر ایک ایک کرکے بٹھاؤ جو شخص اس کا ارادہ لے کر آئے (یعنی محمد ﷺ سے ملنے کا) تو اس کو اس سے واپس کردو (ملنے نہ دو ) یہ لوگ ہر راستہ پر نکل پڑے جب کوئی آدمی اپنی قوم کی طرف سے آتا محمد ﷺ کے حالات اور پیغامات کو جاننے کے لئے وہ ان کے پاس آتا تو وہ قریشی سردار اس سے کہتا کہ میں فلاں بن فلاں ہوں اپنے نسب کے ساتھ ان کو اپنا تعارف کراتا اور کہتا کہ میں تجھ کو محمد ﷺ کے بارے میں بتاتا ہوں کہ وہ توجہ کے قابل نہیں وہ ایک جھوٹا آدمی ہے اس کے کام (یعنی اس کے دین) کی کوئی تابعدای نہیں کررہے مگر بیوقوف اور غلام اور وہ آدمی جس میں کوئی خیر نہ ہو لیکن اس کی قوم کی عزت والے اور اچھے لوگوں نے اس سے جدائی اختیار کرلی ہے اس طرح وہ اسے واپس لوٹا دیتا اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” واذا قیل لہم ما ذا انزل ربکم قالوا اساطیر الاولین “ لیکن اللہ تعالیٰ نے جس آنے والے کی قسمت میں ہدایت لکھی ہوتی تو قریش اسے محمد ﷺ کے بارے میں ایسی باتیں کرتے تو وہ آنے والا کہتا ہے کہ اگر میں بغیرملاقات کئے اور بغیر حالات معلوم کئے اپنی قوم کے پاس چلا گیا تو میں ایک برا آنے والا ہوں گا تو وہ مکہ میں داخل ہوجاتا ایمان والوں سے ملاقات کرتا اور ان سے پوچھتا کہ محمد ﷺ کیا پیغام لائے ہیں تو مسلمان اس کو بتاتے کہ وہ خیر کا پیغام لایا ہے یعنی (آیت) ” للذین احسنوا فی ھذہ الدنیا حسنۃ “ النحل آیت 30) یہ پیغام لایا ہے (آیت) ” ولدارالاخرۃ خیر “ اور وہ آخرت کا گھر (یعنی جنت) ان کے لئے بہتر ہے۔ 2:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ عرب کے مشرکین میں سے کچھ لوگ راستوں پر بیٹھ جاتے جب وہ ان کے پاس سے گذرتے تو مشرکین ان سے وہ کلام سنتے جو انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہوا تھا پھر کہتے تھے (نعوذ باللہ) وہ پہلے لوگوں کے قصے ہیں۔
Top