Dure-Mansoor - An-Nahl : 9
وَ عَلَى اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَ مِنْهَا جَآئِرٌ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِیْنَ۠   ۧ
وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر قَصْدُ : سیدھی السَّبِيْلِ : راہ وَمِنْهَا : اور اس سے جَآئِرٌ : ٹیڑھی وَلَوْ شَآءَ : اور اگر وہ چاہے لَهَدٰىكُمْ : تو وہ تمہیں ہدایت دیتا اَجْمَعِيْنَ : سب
اور سیدھا راستہ اللہ تک پہنچتا ہے، اور بعض لوگ ایسے ہیں جو اس سے ہٹے ہوئے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا
1:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” وعلی اللہ قصد السبیل “ کے بارے میں روایت کیا کہ سیدھی راہ کو بیان کرنا (اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے) (آیت) ” ومنھا جآئر “ یعنی مختلف خواہشات ل۔ 2:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” وعلی اللہ قصد السبیل “ کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ پر لازم ہے کہ وہ ہدایت اور گمراہی کو بیان کرے (آیت ) ” ومنھا جآئر “ یعنی مختلف راستے۔ 3:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وعلی اللہ قصد السبیل “ سے مراد ہے حق کا راستہ (واضح کرنا) اللہ تعالیٰ پر (لازم) ہے (کہ وہ بیان کرے ) 4:۔ عبدبن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وعلی اللہ قصد السبیل “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ پر لازم ہے کہ اس کے حلال کو اور اس کے حرام کو اور اس کی اطاعت کو اور اس کی معصیت کو بیان کرے (اور فرمایا) (آیت ) ” ومنھا جآئر “ یعنی راستے پر ہٹانے والا حق ہے بیٹھا ہے اور ابن مسعود ؓ کی قرأت میں یوں ہے (آیت) ” ومنکم جآئر “ 5:۔ عبد ابن حمید، ابن منذر اور ابن انباری نے مصاحف میں (بیان کرتے ہیں کہ) حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ یوں پڑھتے تھے (آیت) ” وفمنکم جآئر “۔ 6:۔ ابن جریر نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وعلی اللہ قصد السبیل “ سے مراد ہے ہدایت کا راستہ (آیت ) ” ومنھا جآئر “ یعنی وہ راستے جو حق سے ہٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے (یہ آیتیں) ” ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ “ (الانعام آیت 153) اور (آیت) ” ولو شاء لھدکم اجمعین “ پڑھیں (اور فرمایا) سیدھا راستہ وہ ہے جو حق ہے اور (یہ آیت) ” ولو شآء ربک لامن من فی الارض کلہم جمیعا “ (یونس آیت 9) اور (یہ آیت) ” ولو شئنا لاتینا کل نفس ھدھا “ (السجدہ آیت 13) پڑھی (واللہ اعلم) 7:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فیہ تسیمون “ سے مراد ہے کہ تم اس میں اپنے جانوروں کو چراتے ہو۔ 8:۔ الطستی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے نافع ارزق نے پوچھا کہ مجھے عزوجل کے اس قول (آیت) ” فیہ تسیمون “ کے بارے میں بتائیے انہوں نے فرمایا کہ اس سے مراد ہے کہ تم اس میں مویشی چراتے ہو پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں ؟ فرمایا ہاں کیا تو نے اعشی کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا : ومشی القوم بالعماد الی الدو حاء اعماد المسیم بن المساق : اس شعر میں سام یسیم کا یہی مطلب بیان کیا گیا ہے۔ 9:۔ عبدبن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” وما ذرالکم فی الارض “ کے بارے میں روایت کیا کہ جو کچھ پیدا کیا تمہارے لئے زمین میں مختلف چیزیں پیدا فرمائیں جانوروں سے درختوں سے اور پھلوں سے یہ نعمتیں ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ظاہر ہیں اللہ تعالیٰ کے لئے ان کا شکر ادا کرو۔ واللہ اعلم۔
Top