Dure-Mansoor - Al-Israa : 12
وَ جَعَلْنَا الَّیْلَ وَ النَّهَارَ اٰیَتَیْنِ فَمَحَوْنَاۤ اٰیَةَ الَّیْلِ وَ جَعَلْنَاۤ اٰیَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَ١ؕ وَ كُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِیْلًا
وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا الَّيْلَ : رات وَالنَّهَارَ : اور دن اٰيَتَيْنِ : دو نشانیاں فَمَحَوْنَآ : پھر ہم نے مٹا دیا اٰيَةَ الَّيْلِ : رات کی نشانی وَجَعَلْنَآ : اور ہم نے بنایا اٰيَةَ النَّهَارِ : دن کی نشانی مُبْصِرَةً : دکھانے والی لِّتَبْتَغُوْا : تاکہ تم تلاش کرو فَضْلًا : فضل مِّنْ رَّبِّكُمْ : اپنے رب سے (کا) وَلِتَعْلَمُوْا : اور تاکہ تم معلوم کرو عَدَدَ : گنتی السِّنِيْنَ : برس (جمع) وَالْحِسَابَ : اور حساب وَ : اور كُلَّ شَيْءٍ : ہر چیز فَصَّلْنٰهُ : ہم نے بیان کیا ہے تَفْصِيْلًا : تفصیل کے ساتھ
اور ہم نے رات کو اور دن کو دو نشانیاں بنادیا، سو ہم نے رات کی نشانی کو محو کردیا اور دن کی نشانی کو روشن کردیا توا کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو، اور برسوں کی گنتی کو اور حساب کو جان لو، اور ہم نے ہر چیز کو خوب تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے۔
1:۔ ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے سند ہی کے ساتھ ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے نور کے عرش سے دو سورج پیدا فرمائے اور اللہ تعالیٰ کے سابق علم میں تھا کہ ایک سورج کو باقی رکھنا ہے پس اس نے اس دنیا اور جو کچھ اس کے مغرب اور مشرق کے درمیان ہے اس کی مثل پیدا فرمایا اور جو کچھ اس کے علم سابق میں تھا کہ اسے مٹانا ہے اور جلد بنانا ہے تو اس نے اس کو سورج سے کم پیدا فرمایا لیکن آسمان میں انتہائی بلند ہونے اور زمین سے زیادہ دور ہونے کی وجہ سے چھوٹا دیکھائی دیتا ہے اگر سورج کو اسی طرح رکھا جاتا جیسے کہ اسکو پیلی مرتبہ پیدا فرمایا تھا تو رات کو دن میں سے نہ پہچانا جاتا اور نہ دن کو رات میں سے پہچانا جاتا اور روزہ دار نہ جانتا کہ کب وہ رو وزہ رکھے گا اور کب افطار کرے گا اور مسلمان اپنے حج کے وقت کو نہ جانتے اور ان کو پتہ نہ چلتا کہ دنوں مہینوں اور سالوں اور (دیگر) حساب کی تعداد کیا ہے جبرائیل (علیہ السلام) کو بھیجا گیا اور اس کو حکم دیا گیا کہ اپنے پر کو چاند کے چہرے پر تین مرتبہ ماردے اور وہ (چاند) اس دن سورج تھا تو اس میں سے سورج کی روشنی ختم ہوگئی اور نور باقی رہ گیا اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وجعلنا الیل والنہار ایتین “۔ 2:۔ بیہقی نے دلائل میں اور ابن عساکر نے سعید المقبری (رح) سے روایت کیا کہ عبداللہ بن سلام ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس سیاہی کے بارے میں پوچھا جو چاند میں ہے آپ نے فرمایا یہ دونوں سورج تھے پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وجعلنا الیل والنہار ایتین “۔ وہ سیاہی جو تو دیکھ رہا ہے وہ محو ہے۔ 3:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن انباری نے المصاحف میں علی ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فمحونا ایۃ الیل “ سے وہ سیاہی مراد ہے جو چاند میں ہے۔ 4:۔ ابن مردویہ نے علی ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ رات اور دن برابر تھے تو اللہ تعالیٰ نے رات کی نشانی کو مٹا دیا اور اس کو اندھیرا بنا دیا اور دن کی نشانی کو باقی رکھا جیسے وہ پہلے تھی ، 5:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فمحونا ایۃ الیل “ سے رات کی تاریکی مراد ہے۔ 6:۔ ابن جریر اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” والنہار ایتین فمحونا ایۃ الیل “ کے بارے میں فرمایا کہ چاند ایسے چمکتا تھا جیسے سورج چمکتا ہے اور چاند رات کی نشانی ہے اور سورج دن کی نشانی ہے (پھر فرمایا) (آیت) ” فمحونا ایۃ الیل “ یعنی وہ سیاہی جو چاند میں ہے وہ محو کا اثر ہے۔ ہرقل بادشاہ کے تین سوالات : 7:۔ عبدالرزاق نے مصنف میں اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ہرقل بادشاہ نے معاویہ ؓ کی طرف تین سوال لکھے وہ کون سی جگہ ہے جہاں تو نماز پڑھے تو یہ گمان کرے کہ تو نے قبلہ کی طرف نمازیں نہیں پڑھی ؟ اور وہ کون سی جگہ ہے کہ جس میں سورج ایک مرتبہ طلوع ہوا اور اس جگہ میں اس سے پہلے اور اس کے بعد طلوع نہیں ہوا اور اس سیاہی کے بارے میں جو چاند میں ہے ؟ معاویہ ؓ نے ابن عباس ؓ سے (ان سوالات کے بارے میں) پوچھا تو انہوں نے ان کی طرف دیکھا کہ وہ پہلی جگہ کعبہ کی چھت سے اور دوسری جگہ وہ سمندر ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے اللہ تعالیٰ نے سمندر کو پھاڑ دیا تھا (اور خشک جگہ نکل آئی تھی) اور چاند کی تاریکی محو کا اثر ہے۔ 8:۔ عبدبن حمید اور ابن منذر نے عکرمہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے سورج کے نور کے ستر جزء پیدا فرمائے اور چاند کے نور کے بھی ستر جزء پیدا فرمائے پھر چاند کے نور سے انہتر جزء کو مٹا دیا اور ان کو سورج کے نور کے ساتھ ملا دیا پس سورج کے ایک سو انتالیس جزء ہوگئے اور چاند کا ایک جزء رہ گیا۔ 9:۔ ابن ابی حاتم نے محمد بن کعب القرظی (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ ایک سورج رات کا تھا اور ایک سورج دن کا تھا تو اللہ تعالیٰ نے رات کے سورج کو محو کردیا اور یہ وہی محو (یعنی سیاہی) ہے جو چاند میں ہے۔ 10:۔ ابن ابی شیبہ نے سعید بن جبیر ؓ سے (آیت) ” فمحونا ایۃ الیل “ کے بارے میں روایت کیا کہ تیرھویں یا چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھو تو اس میں تو ایک مرد کی شکل کو دیکھے گا کہ وہ دوسرے آدمی کے سر کو پکڑے ہوئے ہے۔ 11:۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فمحونا ایۃ الیل وجعلنا ایۃ النھار مبصرۃ “ سے مراد ہے رات کو اندھیرا اور دن کی روشنی (فرمایا) (آیت) ” لتبتغوا فضلا من ربکم “ کہ تمہارے لئے بنادیا گیا لمبامشغول ہونا۔ 12:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فضلنہ “ سے مراد ہے بینہ یعنی ہم نے بیان کردیا۔ 13:۔ ان ابی شیبہ نے عطاء بن سائب (رح) سے روایت کیا مجھے ایک سے زیادہ لوگوں نے خبر دی کہ شام کے قاضیوں میں سے ایک قاضی حضرت عمر ؓ سے پاس آئے اور عرض کیا اے امیر المومنین میں نے ایک خواب دیکھا ہے جس نے مجھے پریشان کر رکھا ہے انہوں نے فرمایا تو نے کیا دیکھا ہے ؟ اس نے کہا میں نے دیکھا کہ سورج اور چاند ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور ستارے آدھے سورج کے ساتھ ہیں اور آدھے چاند کے ساتھ ہیں پوچھا ان دونوں میں سے تو کس کے ساتھ تھا ؟ اور اس نے کہا چاند کے ساتھ اور سورج کے مخالف تھا عمر ؓ نے فرمایا (آیت) ” وجعلنا الیل والنہار ایتین فمحونا ایۃ الیل وجعلنا ایۃ النھار مبصرۃ “ (اب) تو چلا جا اللہ کی قسم اور کبھی میرے لئے کام نہ کر۔ 14:۔ ابن عساکر نے علی بن زید (رح) سے روایت کیا کہ ابن الکواء نے علی ؓ سے اس سیاہی کے بارے میں پوچھا جو چاند میں ہے فرمایا یہ محوکا اثر ہے وہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے (آیت) ” فمحونا ایۃ الیل “ 15:۔ احمد، عبد بن حمید اور ابن جریر نے سند حسن نے ساتھ جابر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہر انسان کا عمل اس کی گردن میں ہے۔ انسانی تخلیق کے مختلف ادوار : 16:۔ ابن مردویہ نے حذیفہ بن اسید ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ وہ نطفہ جس میں سے کسی انسان کو پیدا کیا جاتا ہے اڑتا رہتا ہے عورت کے بدن میں چالیس دن اور چالیس رات اور اس میں سے باقی نہیں رہتا کوئی بال کوئی کھال نہ کوئی پسینہ اور نہ ہڈی مگر یہ کہ وہ اس میں داخل ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ ناخن اور گوشت کے درمیان بھی داخل ہوجاتا ہے پھر جب وہ چالیس دن اور چالیس راتیں گزرجاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کو رحم کی طرف اڑا دیتے ہیں پھر وہ چالیس اور چالیس رات جماہو اخون رہتا ہے پھر وہ چالیس دن اور چالیس رات ایک گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے جب اس کے چار ماہ پورے ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف رحموں والا فرشتہ بھیج دیتے ہیں تو وہ اس کے ہاتھوں پر اس کا گوشت اور اس کا خون اور اس کے بال اور اس کی کھال کو پیدا کردیتا ہے پھر وہ فرماتے ہیں کہ اس کی صورت بنا دو وہ عرض کرتا ہے کہ اے میرے رب میں کیسی صورت بناوں زائد بناؤ یا ناقص ! مذکر بناؤ یا مونث خوبصورت بناؤ یا بدصورت گھنگھریالے بالوں والا یا سیدھے بالوں والا، لمبے قد والا یا چھوٹے قد والا، سفید رنگت والا یا گندم گون رنگ والا، ٹھیک اعضاء والا یا ناقص اعضاء والا تو ان سب کاموں کے بارے میں لکھ دیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں حکم فرماتے ہیں پھر وہ فرشتہ فرماتا ہے اے میرے رب ! یہ بدبخت ہے یا نیک بخت ہے اگر وہ نیک بخت لکھنے کا حکم ہوتا ہے فرشتہ اس کی آخری عمر میں سعادت کی روح پھونک دیتا ہے اگر وہ بدبخت ہوتا ہے فرشتہ اس کی آخری عمر میں بدبختی کی روح پھونک دیتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اسکی عمر کو اس کی رزق کو اس کی مصبیت کو اس کی اطاعت اور اس کی معصیت عمل کو لکھ دی پس اس کے بارے میں یہ سب لکھ دیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیا جاتا ہے پھر فرشتہ کہتا ہے اے میرے رب ! اس لکھے ہوئے کو کہاں کرو ؟ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اس کی گردن میں اس کو لٹکا دو اس کے متعلق میرے فیصلے تک اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ’ ’ وکل انسان الزمنہ طئرہ فی عنقہ “۔ 17:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ’ ’ الزمنہ طئرہ فی عنقہ “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے کہ انسان جہاں بھی ہوتا ہے اس کی سعادت مندی اور اس کی بدبختی اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے خیر اور شر کو لکھا ہوتا ہے سب اس کے ساتھ رہتا ہے۔ 18۔ ابن ابی حاتم نے جویبر کے طریق سے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ عبداللہ نے (آیت) ’ ’ الزمنہ طئرہ فی عنقہ “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے بدبختی، نیک بختی، رزق اور موت۔ 19:۔ ابن ابی شیبہ اور ابن منذر نے انس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ’ ’ طئرہ فی عنقہ “ سے مراد ہے اس کا اعمال نامہ۔ 20:۔ بیہقی نے شعب میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ’ ’ وکل انسان الزمنہ طئرہ فی عنقہ “ سے مراد ہے اس کا عمل۔ 21:۔ ابوداود نے کتاب القدر میں، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ’ ’ وکل انسان الزمنہ طئرہ فی عنقہ “ سے مراد ہے کہ جو بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی گردن میں ایک کاغذ لکھا ہوا ہوتا ہے جس میں بدبخت یا نیک بخت لکھا ہوتا ہے۔ 22:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ’ ’ وکل انسان الزمنہ طئرہ فی عنقہ “ سے مراد ہے اس کا عمل سے (آیت) ” و نخرج لہ یوم القیمۃ کتبا یلقہ منشورا “ مراد ہے جو انسان نے عمل کیا ہوگا وہ اس پر شمار کیا جائے گا پھر قیامت کے دن اس کے لئے وہ اعمال نامہ نکالا جائے گا جس پر اس کا عمل لکھا ہوا ہوگا اور وہ اس کو کھلا ہوا پڑھا لے گا۔ 23:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ کافر کے لئے قیامت کے دن ایک کتاب نکالی جائے گی وہ کہے گا اے میرے رب بلاشبہ آپ نے فرما دیا ہے اور بلاشبہ آپ بندوں پر ظلم کرنے والے نہیں ہیں مجھے ایسا بنادیجئے کہ میں اپنی جان کا (خود ہی) حساب کروں اس سے کہا جائے گا (آیت) ” اقرا کتبک، کفی بنفسک الیوم علیک حسیبا “ 24:۔ ابوعبید اور ابن منذر نے ہارون (رح) سے روایت کیا کہ ابی بن کعب ؓ کی قرأت میں یوں تھا (آیت) ’ ’ وکل انسان الزمنہ طئرہ فی عنقہ “ وہ اس کو قیامت کے دن پڑھے گا (آیت) ” کتبا یلقہ منشورا “ 25:۔ ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے یوں پڑھا۔ (آیت) ” ونخرج لہ یوم القیمۃ کتبایلقہ منشورا “ یا کی فتح کے ساتھ یعنی اس کا عمل لکھا ہوا نکالا جائے گا۔ 26:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” اقرا کتبک “ سے مراد ہے کہ عنقریب وہ اس دن پڑھ لے گا اگرچہ وہ دنیا میں پڑھا ہوا نہیں تھا۔ 27:۔ ابن جریر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ اے آدم کے بیٹے تیرے لئے اعمال نامہ کھولا گیا اور تیرے ساتھ مقرر کئے گئے ہیں دو عزت والے فرشتے ان میں سے ایک تیرے داہنی طرف ہے اور دوسرا تیرے بائیں طرف ہے یہاں تک کہ جب تو مرے گا تو تیرے اعمال نامہ لپیٹ دیا جائے گا اور تیرے ساتھ تیری گردن میں لٹکا دیا جائے گا تیری قبر میں یہاں تک کہ تو قیامت کے دن (قبر سے) نکلے گا اس وقت ارشاد ہوگا (آیت) ’ ’ وکل انسان الزمنہ طئرہ فی عنقہ “۔ مشرکین کی اولاد کا معاملہ : 28:۔ ابن عبد البر نے تمہید میں سند ضعیف کے ساتھ عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدیجہ سے مشرکین کی اولاد کے بارے میں پوچھا تو فرمایا وہ اپنے آباؤ اجداد کے ساتھ ہوں گے پھر اس کے بعد میں نے ان سے پوچھا تو فرمایا اللہ تعالیٰ خوب جاننے والے ہیں جو وہ (بچے) عمل کرنے والے تھے پھر میں نے ان سے پوچھا اسلام کے مستحکم ہونے کے بعد تو (یہ آیت) ” ولا تزر وازرۃ وزر اخری “ اور فرمایا وہ دین فطرت (یعنی دین اسلام) پر ہوں گے یا فرمایا جنت میں ہوں گے۔ 29:۔ عبدالرزاق نے مصنف میں، ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، ابوداود، ترمذی، نسائی، اور ابن ماجہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ کہ مجھے صعب بن جثامہ ؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا فیصلہ کیا گیا ہے ان لڑکیوں کے بارے میں جو میری مشرکین کی اولاد میں سے ہیں ؟ آپ نے فرمایا وہ لڑکیاں ان (مشرکین) میں سے ہیں۔ 30:۔ ابن سعد، احمد، قاسم بن اصبح اور ابن عبدالبر نے خنساء بنت معاویہ ضمیرہ ؓ اپنے چچا سے روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نبی جنت میں ہے شہید جنت میں ہے پیدا ہونے والا بچہ جنت میں ہے اور زندہ درگور کی ہوئی لڑکی جنت میں ہے۔ 31:۔ قاسم بن اصبغ اور ابن عبدالبر نے انس ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے مشرکین کی اولاد کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا وہ اہل جنت کے خادم ہوں گے۔ 32:۔ قاسم بن اصبغ اور ابن عبدالبر نے سلمان ؓ سے روایت کیا کہ مشرکین کے بچے اہل جنت کے خادم ہوں گے۔ 33:۔ حکیم ترمذی نے نوادرالاصول میں اور ابن عبدالبر نے (ابن عبدالبر نے ضعیف بھی ہے کہا) عائشہ ؓ سے روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مسلمانوں کی اولاد کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا جنت میں اور میں نے مشرکین کی اولاد کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا آگ میں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ انہوں نے نہ اعمال کئے اور نہ ان پر قلمیں جاری ہوئیں (یعنی ان کے اعمال نہیں لکھے گئے) آپ نے فرمایا تیرا رب خوب جانتا ہے جو کچھ وہ عمل کرنے والے تھے اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر تو چاہئے تو میں تجھ کو آگ میں ان کی چیخ و پکار سنادوں۔ 34:۔ احمد، قاسم بن اصبغ اور ابن عبدالبر نے ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ مشرکین کے بچوں کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ہوں گے یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک آدمی نے مجھ سے بیان فرمایا کہ انہوں نے ان کے بارے میں نبی کریم ﷺ سے سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا ان کو ان کا رب خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے تو میں اپنی بات سے رک گیا۔ 35:۔ قاسم بن اصبغ اور ابن عبدالبر نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے مشرکین کی اولاد کے بارے میں پوچھا گیا آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے۔ (واللہ اعلم )
Top