Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Dure-Mansoor - Al-Israa : 2
وَ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَكِیْلًاؕ
وَ
: اور
اٰتَيْنَا
: ہم نے دی
مُوْسَي
: موسیٰ
الْكِتٰبَ
: کتاب
وَجَعَلْنٰهُ
: اور ہم نے بنایا اسے
هُدًى
: ہدایت
لِّبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ
: بنی اسرائیل
اَلَّا تَتَّخِذُوْا
: کہ نہ ٹھہراؤ تم
مِنْ دُوْنِيْ
: میرے سوا
وَكِيْلًا
: کارساز
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لئے ہدایت بنادیا کہ تم لوگ میرے علاوہ کسی کو کارساز نہ بناؤ۔
معراج کے موقعہ پر شق صدر : 11:۔ بخاری، مسلم، نسائی، ابن ماجہ اور ابن مردویہ نے یونس کے طریق سے ابن شہاب سے اور انہوں نے انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ابوذر ؓ بیان فرمایا کرتے تھے کہ رسول ﷺ نے فرمایا میرے گھر کی چھت کھولی گئی اور میں مکہ میں تھا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے میرے سینے کو شق کیا پھر اس کو زمزم کے پانی سے دھویا گیا۔ پھر سونے کا ایک طشت لایا گیا جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اس کو میرے سینے میں انڈیل دیا گیا۔ پھر اس کو بند کردیا گیا۔ پھر میرے ہاتھ کو پکڑ کر آسمان کی طرف چڑھے۔ جب ہم آسمان دنیا پر آئے تو جبرائیل (علیہ السلام) نے آسمان کے چوکیدار سے فرمایا۔ دروازہ کھول دو ۔ اس نے کہا کون ہے ؟ فرمایا جبرائیل ہوں۔ پھر اس نے کہا تیرے ساتھ کون ہے ؟ـفرمایا ہاں۔ میرے ساتھ محمد ہیں پھر پوچھا کیا ان کو بلایا گیا۔ فرمایا ہاں۔ پھر (دروازہ) کھول دیا گیا۔ جب ہم پر آسمان دنیا کے اوپر چڑھے اچانک ایک آدمی وہاں بیٹھا ہوا تھا اس کے داہنی طرف سیاہی تھی اور اس کے بائیں طرف بھی سیاہی تھی، جب اس نے اپنی داہنی طرف دیکھا تو ہنس دیا اور جب اپنی بائیں طرف دیکھا تو روپڑا۔ پھر اس نے کہا خوش آمدید اے صالح نبی اور صالح بیٹے۔ میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون ہیں ؟ فرمایا یہ آدم (علیہ السلام) ہیں۔ اور یہ ان کی دائیں طرف والے جنت والے ہیں اور ان کے بائیں طرف والے دوزخ والے ہیں۔ جب اپنی داہنی طرف دیکھتے ہیں تو ہنستے ہیں اور جب اپنی بائیں طرف دیکھتے ہیں روتے ہیں۔ پھر مجھے دوسرے آسمان پر لے جایا گیا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے اس کے چوکیدار سے فرمایا دروازہ کھولو اس کے چوکیدار نے اسی طرح کہا جیسے پہلے کہا تھا۔ اس نے دروازہ کھول دیا انس ؓ نے فرمایا کہ یہ بھی ذکر کیا گیا کہ انہوں نے آسمانوں میں آدم (علیہ السلام) کو ادریس (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) کو عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور ابراہیم (علیہ السلام) کو پایا اور یہ یاد نہیں رہا کہ ان کی منزلیں کیسی تھیں۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھ کو ابن حزم ؓ نے بتایا کہ ابن عباسؓ اور حبہ انصاری ؓ دونوں فرمایا کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا پھر مجھے اوپر لے جایا گیا یہاں تک کہ میں مستوی پر چڑھا تو میں نے کلموں کی آواز سنی ابن حزم ؓ اور انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں ہیں۔ اس حکم کے ساتھ واپس لوٹا یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر گزر ہوا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر اللہ تعالیٰ نے کیا فرض فرمایا میں نے کہا پچاس نمازیں کردی گئیں انہوں نے فرمایا اپنے رب کے پاس لوٹ جاؤ کیونکہ تیری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی میں واپس گیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آدھی نمازیں کم کردی گئیں میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس (دوبارہ) اور آیا اور انہوں نے بتایا تو انہوں نے فرمایا (دوبارہ) اپنے رب کے پاس لوٹ جاؤ کیونکہ تیری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی میں اپنے رب کے پاس واپس آیا تو (رب تعالیٰ نے) فرمایا اب پانچ نمازیں ہیں (مگر ثواب کے لحاظ سے وہ) پچاس ہوں گی میرے نزدیک تبدیل نہیں ہوتی میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس واپس آیا تو انہوں نے فرمایا اپنے رب کی طرف دوبارہ جاؤ (اور تخفیف کا سوال کرو) ۔ میں نے کہا اب مجھے اپنے رب سے شرم آتی ہے پھر مجھے لے کر چلے یہاں تک کہ میں سدرۃ المنتہی تک پہنچا اس (بیر کے درخت) کو ایسے رنگوں نے ڈھانک لیا تھا میں نہیں جانتا کہ وہ کیا تھے پھر مجھے جنت میں لیجایا گیا اس میں موتیوں کے ٹیلے تھے۔ اس کی مٹی کستوری کی تھی۔ 12:۔ ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، بیہقی نے دلائل میں اور ابن عساکر نے ابوسعیدؓ سے روایت کیا کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں بیان فرمایا اس رات کے بارے میں جس میں آپ کو لیجایا گیا، مکہ مسجد اقصی کی طرف فرمایا اس درمیان کہ میں عشاء وقت مسجد حرام میں سو رہا تھا اچانک ایک آنے والا میرے پاس آیا اور اس نے مجھے جگایا میں جاگا تو مجھے کچھ نظر نہ آیا اچانک میں ایک شیبہ سی دیکھی اور میں نے اپنی آنکھ (کو اس کے) پیچھے لگایا۔ یہاں تک کہ میں مسجد سے باہر نکل گیا اچانک میں ایک ایسا جانور کے پاس تھا جو تمہارے ان خچروں کے مشابہ تھا سوائے اس کے کہ وہ کانوں کو حرکت دیتا تھا جس کو براق کہا جاتا ہے۔ مجھ سے پہلے کئی نیبوں نے اس پر سواری کی تھی۔ وہ اپنی حدنظر ایک قدم رکھتا۔ میں اس پر سوار ہوا اس درمیان کہ میں اس پر سفر کررہا تھا۔ اچانک ایک بلانے والے نے مجھے اپنی داہنی طرف سے بلایا اے محمد ! میری طرف دیکھئے۔ میں آپ سے سوال کرتا ہوں۔ میں نے اس کا جواب نہ دیا۔ اس درمیان کہ میں سفر کررہا تھا۔ اچانک ایک عورت جو اپنے دونوں بازوں کو کھولے ہوئے کھڑی تھی اور اس پر ہر زینت موجود تھی کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا۔ کہنے لگی اے محمد ! میری طرف دیکھئے میں آپ سے سوال کرتی ہوں، میں نے اس کی طرف توجہ نہ کی، یہاں تک کہ میں بیت المقدس آگیا۔ میں نے اپنی سواری کو ایک حلقہ سے باندھا کہ جس سے انبیاء (علیہم السلام) اپنی سواریوں کو باندھا کرتے تھے۔ پھر میرے پاس وہ برتن لے لئے ان میں سے ایک شراب تھی اور دوسرے میں دودھ تھا۔ میں نے دودھ کو پی لیا اور شراب کو چھوڑ دیا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا۔ آپ نے فطرت کو اختیار فرمایا۔ اگر آپ شراب کو لی لیتے تو آپ کی امت (اس میں) بھٹک جاتی۔ میں نے کہا اللہ اکبر، اللہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے) میں کہا اللہ اکبر، اللہ اکبر ( اللہ سب سے بڑا ہے) جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا میں نے آپ کے چہرہ مبارک کی یہ کیفیت کیوں دیکھی ہے۔ میں نے کہا اس درمیان کہ میں سفر کررہا تھا۔ اچانک مجھ کو ایک بلانے والے نے داہنی طرف سے بلایا کہ اے محمد ﷺ کہ میری طرف دیکھئے میں آپ سے سوال کرتا ہوں مگر میں نے جواب نہ دیا، فرمایا وہ بلانے والا یہود تھا۔ اگر آپ اس کو جواب دے دیتے تو آپ کی امت یہودی ہوجاتی، پھر میں نے پوچھا اس درمیان کہ میں سفر کررہا تھا۔ اچانک مجھ کو ایک بلانے والے نے بائیں طرف سے بلایا اے محمد ﷺ میری طرف دیکھئے میں آپ سے سوال کروں گا۔ تو میں نے اس کا بھی جواب نہ دیا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا وہ بلانے والا انصاری تھا۔ اگر آپ اس کا جواب دیے دیتے تو آپ کی امت نصرانی ہوجاتی۔ اس درمیان کہ میں دیر کررہا تھا تو ایک عورت اپنے کھلے ہوئے کھڑی تھی اور اس پر ہر زینت موجود تھی وہ کہہ رہی تھی اے محمد ﷺ میری طرف دیکھئے میں آپ سے سوال کروں گا۔ مگر میں نے اس کو جواب نہ دیا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا یہ دنیا تھی اگر آپ اس کو جواب دے دیتے تو آپ کی امت آخرت پر دنیا کو ترجیح دیتی پھر میں اور جبرائیل (علیہ السلام) بیت المقدس میں داخل ہوئے ہم میں سے ہر ایک نے دو رکعت (نفل) نماز پڑھی۔ پھر میرے پاس ایک سیڑھی لائی گئی جس پر آدم (علیہ السلام) کی اولاد کی روحیں ہیں۔ میں نے کوئی مخلوق اس سیڑھی سے خوبصورت نہیں دیکھی کیا تو نے میت دیکھی ؟ جب اس نے اپنی نگاہ جو آسمان کی طرف اٹھایا تو اسے سیڑھی کے ذریعہ روکا گیا۔ میں اور جبرائیل (علیہ السلام) اوپر چڑھے اچانک میں ایک فرشتے کے ساتھ تھا۔ جس کو اسماعیل کہا جاتا ہے اور وہ دنیا کے آسمان کا نگران تھا۔ اور اس کے آگے ستر ہزار فرشتے تھے۔ ہر فرشتہ کے ساتھ ایک لاکھ کا لشکر تھا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے آسمان کا دروازہ کھولنے کو فرمایا۔ تو پوچھا گیا کون ہے ؟ فرمایا جبرائیل ہوں۔ کہا گیا تیرے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا محمد ﷺ ہیں۔ کہا گیا کیا ان کو بلایا گیا ہے ؟ فرمایا ہاں ! وہاں آدم (علیہ السلام) تشریف فرما تھے۔ بالکل اسی صورت پر جس دن اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا فرمایا ان میں کچھ بھی تبدیلی نہ ہوئی تھی۔ اور جب ان پر ان کی مومن اولاد کی روحیں پیش کی گئیں تو آپ نے فرمایا کہ یہ پاکیزہ روحیں اور پاکیزہ نفس ہے۔ ان کو علیین میں رکھ دو ۔ پھر آپ کی کافر اور فاجر اولاد کی روحوں کو پیش کیا گیا۔ تو فرمایا کہ یہ ناپاک روحیں ہیں۔ اور ناپاک نفس ہیں اس کو سجین میں رکھ دو ۔ میں نے کہا اے جبرائیل ! یہ کون ہیں ؟ فرمایا یہ آپ کے باپ آدم (علیہ السلام) ہیں۔ انہوں نے مجھے سلام کیا اور مجھے خوش آمدید کہا اور فرمایا خوش آمدید اے صالح بیٹے۔ پھر تھوڑی دیر میں چلا۔ تو ایک دسترخوان تھا اس پر گوشت تھا جو انتہائی بدبودار تھا۔ اس کے پاس لوگ بیٹھے تھے۔ جو اس میں سے کھا رہے تھے۔ میں نے کہا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا آپ کے امت میں یہ وہ لوگ ہیں۔ جو حلال کو چھوڑ دیتے تھے اور حرام پر آتے تھے۔ اور دوسرے لفظ میں یوں ہے کہ میں ایک قوم کے پاس آیا جو ایک دسترخوان پر بیٹھی ہوئی تھی جس پر بھنا ہوا گوشت تھا۔ اتنا اچھا میں نے گوشت نہیں دیکھا۔ جبکہ اس کے اردگرد مردار گوشت تھا۔ اور انہوں نے اس مردار گوشت میں سے کھانا شروع کیا۔ اور حلال گوشت کو چھوڑ دیا۔ میں کہا اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ زانی لوگ تھے۔ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے ان پر حرام قرار دیا تو انہوں نے اس کے (کھانے کا) ارادہ کیا اور جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے حلال قرار دیا۔ اس کو چھوڑ دیا۔ پھر میں تھوڑی دیر چلا۔ اچانک میں ایسی قوم کے ساتھ تھا۔ جن کے پیٹ گھڑوں (یعنی کمروں) کی طرح تھے۔ جب بھی کوئی اٹھتا تھا تو یہ کہتے ہوئے گرپڑتا تھا۔ اے اللہ ! قیامت کو قائم نہ کرنا۔ فرعون والوں کے راستے پر تھا۔ پس ایک گروہ آتا اور اس کو روندتا تھا۔ پھر میں نے ان کو اللہ کی بارگاہ میں چلانے کی آواز سنی۔ میں نے کہا اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ آپ کی امت میں سے وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے ہیں۔ وہ نہیں کھڑے ہوں گے مگر جب کہ وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جس کو شیطان نے چھو کر حواس باختہ بنادیا ہو۔ پھر میں تھوڑی دیر چلا۔ اچانک میں ایک قوم کے ساتھ تھا کہ ان کے ہونٹ، اونٹ کے ہونٹوں کی طرح تھے۔ ان پر ایسے فرشتے مقرر کیے گئے تھے جو ان کے ہونٹوں کو کاٹتے تھے۔ پھر انکے مونہوں میں آگ کے پتھر بھرتے تھے۔ پھر ان کو نیچے سے نکالتے تھے۔ میں نے ان کو سنا کہ وہ چیخ و پکار کررہے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف، میں نے پوچھا اے جبرائیل یہ کون ہیں ؟ فرمایا آپ کی امت میں یہ وہ لوگ ہیں۔ (آیت) ” ان الذین یاکلون اموال الیتمی ظلما انما یاکلون فی بطونہم نارا وسیصلون سعیرا (10) یعنی جو یتیموں کا مال ظلما کھاتے تھے۔ پھر میں تھوڑی دیر چلا۔ اچانک میں ایسی عورتوں کے ساتھ تھا جو اپنی چھاتیوں کے ساتھ لٹکی ہوئی تھیں۔ اور وہ عورتیں اپنے پاوں کے ساتھ اوندھی لٹکی ہوئی تھیں۔ میں نے ان کو سنا کہ وہ چیخ و پکار کررہی تھیں اللہ تعالیٰ کی طرف۔ میں نے کہا اے جبرائیل یہ کون عورتیں ہیں ؟ فرمایا یہ وہ عورتیں ہیں جو زنا کراتی تھیں۔ اور اپنے بچوں کو قتل کر ڈالتی تھیں، پھر میں تھوڑی دیر چلا۔ اچانک میں ایک ایسی قوم کے ساتھ تھا۔ کہ انکے پہلوں سے گوشت کاٹا جارہا تھا۔ پھر ان کے مونہوں میں ٹھونسا جارہا تھا۔ اور وہ فرشتہ کہتا ہے کہ کھاؤ ان کے چیزوں میں سے جو تم (لوگوں کا گوشت) کھاتے تھے۔ جبکہ وہ اس (گوشت) کو ناپسند کرتے تھے۔ جو اللہ تعالیٰ نے انکے لئے پیدا فرمایا۔ میں نے کہا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کون لوگ ہیں۔ کہا یہ لوگ ہیں عیب لگانے والے اور طعن کرنے والے آپ کی امت میں سے (جو غیبتیں کرکے) لوگوں کے گوشت کھاتے تھے۔ پھر ہم دوسرے آسمان پر چڑھے۔ اچانک میں ایک خوبصورت آدمی کے ساتھ تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں میں سے حسن کے ساتھ فضیلت دی۔ جیسے چودھویں رات کے چاند کی فضیلت ہے سارے ستاروں پر۔ میں نے کہا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کون ہیں ؟ فرمایا یہ آپ کے بھائی یوسف (علیہ السلام) ہیں۔ اور ان کے ساتھ ان کی قوم میں سے ایک جماعت ہے۔ میں نے ان کو سلام کیا انہوں نے مجھے سلام کا جواب دیا اور مجھ کو خوش آمدید فرمایا۔ پھر ہم تیسرے آسمان کی طرف چڑھے۔ اچانک میں اپنے خالہ زاد بھائیوں کے ساتھ تھا۔ یعنی یحییٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام) اور ان دونوں کے ساتھ ان کی قوم میں سے ایک جماعت تھی ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کی ہم شکل تھا اپنے کپڑوں میں اور اپنے بالوں میں میں ان دونوں کو سلام کیا۔ انہوں نے مجھے سلام کا جواب دیا۔ اور مجھے خوش آمدید بھی فرمایا۔ پھر ہم چوتھے آسمان پر چڑھے۔ اچانک میں ادریس (علیہ السلام) کے ساتھ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اونچے مکان پر پہنچا دیا۔ میں نے ان کو سلام کیا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا۔ پھر ہم پانچویں آسمان کی طرف چڑھے۔ اچانک میں ہارون (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی آدھی داڑھی سفید اور آدھی داڑھی کالی تھی اور لمبی اتنی تھی کہ ناف تک پہنچتی تھی۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل یہ کون ہیں ؟ فرمایا یہ المجیب تھے اپنی قوم میں۔ یہ ہارون بن عمران (علیہ السلام) ہیں۔ اور ان کے ساتھ اس کی قوم میں کثیر جماعت ہے۔ میں ان کو سلام کیا انہوں نے مجھ پر سلام کیا۔ اور مجھے خوش آمدید کہا۔ پھر ہم چھٹے آسمان کی طرف چڑھے۔ اچانک میں موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) کے ساتھ تھا۔ یہ گندمی رنگ کے کثیر بالوں والے آدمی تھے، اگر ان پر دو قمیصیں ہوں تو ان میں سے ان کے بال باہر نکل آئیں۔ اور وہ فرما رہے تھے۔ لوگ گمان کرتے ہیں کہ میں اللہ کے نزدیک مخلوق میں سے زیادہ عزت والا ہوں۔ حالانکہ یہ (یعنی محمد ﷺ مجھ سے زیادہ عزت والے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک۔ اگر یہ اکیلے ہوتے تو مجھے کوئی پرواہ نہ تھی لیکن ہر نبی اور جو ان کی تابعداری کرے اس کی امت میں سے ہے۔ میں نے کہا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کون ہیں ؟ فرمایا یہ آپ کے بھائی موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) ہیں۔ اور ان کے ساتھ ان کی قوم میں سے ایک جماعت ہے۔ میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے سلام کا جواب دیا۔ اور مجھے خوش آمدید کہا۔ پھر ہم ساتویں آسمان کی طرف چڑھے۔ اچانک میں ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ تھا۔ اور وہ بیٹھے ہوئے تھے۔ بیت المعمور کے ساتھ اپنے پشت کو ٹیک لگائے ہوئے اور ان کے ساتھ ان کی قوم میں سے ایک جماعت تھی۔ میں نے ان کو سلام کیا انہوں نے مجھے سلام کا جواب دیا۔ اور فرمایا مرحبا اے صالح بیٹے۔ مجھ سے کہا گیا یہ آپ کا اور آپ کی امت کی مکان ہے۔ پھر یہ آیت ” ان اولی الناس بابراھیم للذین اتبعوہ وھذا النبی والذین امنوا واللہ ولی المومنین “ تلاوت کی اور میری امت کے دو حصے ہوں گے۔ ایک حصہ والوں پر سفید کپڑے ہوں گے گویا کہ وہ کاغذ ہیں اور ایک حصہ وہ ہوگا کہ جن پر کپڑے ہوں گے راکھ کے۔ بیت معمور میں داخل ہوا۔ اور میرے ساتھ وہ لوگ داخل ہوئے جن پر سفید کپڑے تھے۔ اور دوسروں کو روک لیا گیا۔ جن پر راکھ کے کپڑے تھے۔ اور وہ بھی خیر پر تھے۔ میں نے اور جو لوگ میرے ساتھ تھے بیت المعمور میں نماز پڑھی۔ پھر میں اور جو میرے ساتھ تھے وہ باہر نکلے۔ فرمایا اور بیت المعمور وہ جگہ ہے کہ جس میں ہر دن ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں (جو ایک مرتبہ چلے جاتے ہیں) پھر وہ قیامت کے دن تک واپس نہیں لوٹیں گے۔ پھر مجھے سدرۃ المنتہی کی طرف لے جایا گیا۔ اس کا ہر پتہ اس امت کو ڈھانکنے والا تھا۔ اس کی جڑ میں ایک جاری چشمہ ہے جس کو سلسبیل کہا جاتا ہے۔ اس میں دو نہریں نکلتی ہیں۔ میں نے کہا جبرائیل (علیہ السلام) یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ رحمت کی نہر ہیں۔ اور وہ کوثر کی نہر ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطاء فرمائی ہے۔ میں نے رحمت کی نہر میں غسل کیا۔ تو میرے اگلے پچھلے سب گناہوں کو بخش دیا گیا۔ پھر میں نہر کوثر پر آیا۔ یہاں تک کہ میں جنت میں داخل ہوگیا۔ اس میں ایسی نعمتیں دیکھیں جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھیں نہ کسی کان نے سنیں اور نہ کسی کے دل میں اس کا خیال گزرا۔ اور میں اس نہر کے پاس تھا۔ جن کا پانی خراب نہیں ہوتا۔ اور دودھ کی نہریں تھیں جن کا ذائقہ (کبھی) تبدیل نہیں ہوتا۔ اور شراب کی نہریں تھیں۔ جو پینے والوں کے لئے لذت بخشتی تھیں۔ اور خالص شہد کی نہریں تھیں۔ اور اس میں ایسے نار تھے گویا کہ وہ پالان بندھے ہوئے اونٹوں کے چمڑے ہیں۔ اور اس میں ایسے پرندے تھے گویا وہ بختی اونٹ ہیں۔ ابوبکر ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ! کیا وہ پرندے نرم ہوں گے ؟ فرمایا ان کے کھانے والے ان سے بھی نرم ہیں۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ تم اس میں سے کھاؤ گے (پھر) فرمایا میں جنت میں سیاہی مائل سرخ رنگ والی عورت دیکھی میں نے اس سے پوچھا تو کس کے لئے ہے ؟ اس نے کہا میں زید بن حارثہ کے لئے ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی خوشخبری زید ؓ کو دی پھر مجھ پر آگ کو پیش کیا گیا۔ اس میں اللہ کا غضب، ڈانٹ اور سزا تھی۔ اگر اس میں پتھر اور لوہے کو ڈالا جائے تو اس کو کھاجائے۔ پھر مجھ سے آگ بند کردی گئی۔ پھر مجھے سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا۔ (اور) اس کو (کسی چیز نے) ڈھانک لیا۔ (اب) میرے اور اس کے یعنی اللہ تعالیٰ کے) درمیان کمان یا اس سے کم کا فاصلہ تھا۔ ہر پتے پر فرشتوں میں ایک فرشتہ اترا ہوا تھا۔ پھر مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم فرماتے ہوئے مجھ پر پچاس نمازیں فرض فرمائیں۔ اور فرمایا تیرے لئے ہر نیکی کے بدلے میں دس نیکیاں ہیں۔ جب تو ایک نیکی کا ارادہ کرے گا اور اس پر (ابھی عمل نہیں کرے گا تو میرے لئے ایک نیکی لکھ دی جائے گی۔ اور جب تو اس پر عمل کرے گا تو تیرے لئے دس (نیکیاں) لکھی جائیں گی۔ اور جب تو کسی برائی ارادہ کرے گا اور اس پر عمل نہیں کرے گا تو تیرے اوپر کچھ بھی نہ لکھا جائے گا۔ اور اگر تو اس پر عمل کرے گا تو تیرے اوپر صرف ایک برائی لکھی جائے گی۔ پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف آیا انہوں نے پوچھا تیرے رب نے کسی چیز کا حکم فرمایا ؟ میں نے کہا پچاس نمازوں کا۔ فرمایا اپنے رب کی طرف لوٹ جاؤ اور اپنی امت کے لئے ان سے تخفیف کا سوال کرو، کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ میں اپنے رب کے کے پاس لوٹا اور عرض کیا اے میرے رب میری امت سے تخفیف کیجئے۔ کیونکہ میری امتوں میں سب سے زیادہ ضعیف ہے۔ تو مجھ سے دس (نمازیں) کم کردی گئیں۔ میں بار بار موسیٰ (علیہ السلام) اور اپنے رب کے درمیان آتا جاتا رہا یہاں تک کہ پانچ (نمازیں) کردی گئیں۔ مجھے ایک فرشتے نے آواز دی (کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) کہ اس وقت میرا فریضہ پورا ہوگیا۔ اور میں نے اپنے بندوں سے تخفیف کردی کہ ان کو میں ہر نیکی کے بدلے میں دس (کے برابر) ثواب دوں گا۔ پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف لوٹا پوچھا کیا حکم دیا گیا ؟ میں نے کہا پانچ نمازوں کا۔ فرمایا اپنے رب کے پاس (دوبارہ) لوٹ جاؤ اور اس سے اپنی امت کے لئے تخفیف کا سوال کرو، میں نے کہا میں اپنے رب کے پاس (بار بار) لوٹ کر گیا ہوں اب مجھے شرم آتی ہے۔ کفار مکہ اسراء کا بھی انکار کیا : پھر میں نے مکہ میں صبح کی اور ان (مکہ والوں) کو ان عجائبات کے بارے میں بتایا کہ میں نے گذشتہ رات بیت المقدس کو دیکھا اور مجھے آسمانوں کی طرف لے جایا گیا پھر میں نے اس طرح اور اس طرح دیکھا۔ ابوجہل نے کہا کیا تم تعجب نہیں کرتے ہو ان باتوں سے جو محمد ﷺ فرماتے ہیں۔ پھر فرمایا میں نے ان کو قریش کے قافلہ کے بارے میں بتایا کہ میں نے جاتے ہوئے اس کو فلاں جگہ میں اس طرح اور اس طرح دیکھا ہے۔ جب میں لوٹا تو میں نے اس کو عتبہ کے پاس دیکھا اور میں نے ان کو ہر آدمی کے بارے میں بتایا اور اس کا اونٹ اس طرح تھا اور اس طرح تھا اور اس کا سامان اس طرح تھا۔ ایک آدمی نے کہا میں بیت المقدس کو لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں۔ اس کی عمارت کیسی ہے اس کی ہیئت کیسی ہے۔ اور پہاڑ کس طرح اس کی قربت ہے تو ( اس پر) رسول اللہ ﷺ (کے سامنے) بیت المقدس بلند کردیا گیا۔ آپ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا اس کی عمارت اس طرح ہے اس کی شکل و صورت اس طرح سے ہے۔ اور پہاڑ سے اس کی قربت اس طرح سے ہے، اس نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔ 13:۔ بزار، ابن جریر، محمد بن نصر المروزی نے کتاب الصلاۃ میں، ابن ابی حاتم، ابن عدی، ابن مردویہ اور بیہقی نے دلائل میں ابوہریرہ ؓ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصا الذی برکنا حولہ لنریہ من ایتنا انہ ھو السمیع البصیر “ کے بارے میں فرمایا کہ جبرائیل (علیہ السلام) نبی کریم ﷺ کے پاس آئے نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور ان کے ساتھ میکائیل (علیہ السلام) تھے۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے میکائیل سے کہا میرے پاس زمزم کے پانی کا ایک طشت لے آؤ، تاکہ میں ان کے دل کو پاک کردوں اور آپ کے سینے کو کھول دوں۔ پھر جبرئیل (علیہ السلام) نے آپ کے سینے کو چاک کیا۔ اور اس کو تین مرتبہ دھویا۔ میکائل (علیہ السلام) تین طشت زمزم کے بھر کرلے آئے۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ کے سینے کو کھولا اور جو اس میں کدورت تھی اس کو نکال دیا اور اس میں حلم کو، علم کو، ایمان کو، یقین کو اور سلام کو بھر دیا، اور آپ کے کندہوں کے درمیان نبوت کی مہر لگا دی، پھر آپ کے پاس ایک گھوڑا لے آئے اور اس پر آپ کو سوار کردیا وہ اتنا تیز رفتار تھا کہ اس کا ہر قدم حد نگاہ تک پڑتا تھا۔ آپ ﷺ چلے اور آپ کے ساتھ جبرائیل (علیہ السلام) بھی چلے آپ ایک قوم پر آئے جو ایک ہی دن میں کھیتی بوتی تھی اور ایک ہی دن میں کاٹتی تھی۔ جن کو بھی وہ کاٹتی تھی تو وہ اسی طرح ہوجاتی ہے جیسے تھی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کون ہیں۔ فرمایا یہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لئے ایک نیکی سات سو گنا تک کردیتے ہیں۔ جو انہوں نے خرچ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کا بدلہ دیا۔ پھر ایک قوم پر آئے کہ جن کے سر پتھر کے ساتھ کچلے جارہے تھے، جب (سر کو) کچلا جاتا تو وہ پھر ویسے ہی ہوجاتا انمیں سے کسی چیز کی کمی نہ ہوتی۔ پوچھا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے سر نماز سے بوجھل ہوتے تھے۔ پھر ایک قوم پر آئے جن کے آگے اور پیچھے چیھتڑے تھے وہ اس چر رہے تھے۔ جیسے اونٹ اور بکریاں چرتی ہیں۔ وہ خار دار جھاڑیاں اور جہنم کے پتھر کھا رہے تھے۔ پوچھا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کون ہیں فرمایا یہ وہ لوگ تھے جو اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا۔ پھر ایک قوم پر آئے کہ جن کے آگے پکا ہوا گوشت تھا ایک ہانڈی میں اور دوسرا کچا اور خراب گوشت تھا۔ وہ کچا اور خراب گوشت کھا رہے تھے۔ اور پکے ہوئے صاف گوشت نہیں کھا رہے تھے۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا آپ کی امت میں سے یہ وہ افراد ہیں کہ جن کے پاس حلال عورتیں ہوتی تھیں مگر یہ بدکار عورتوں کے پاس رات گذراتے تھے، یہاں تک کہ صبح ہوجاتی۔ ان میں سے وہ عورتیں بھی ہیں جس کا اپنا پاک اور حلال شوہر ہوتا ہے۔ مگر وہ ناپاک حرام مرد کے ساتھ صبح تک رات گذارتی تھی حتی کہ صبح ہوجاتی ہے پھر آپ راستہ میں ایک لکڑی کے پاس سے گزرے جو راستہ پر تھی جو کپڑا بھی اس کے پاس سے گذرتا تو وہ اس میں سوارخ کردیتی یا اس کو پھاڑ دیتی تھی۔ پوچھا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ آپ کی امت میں سے ان لوگوں کی مثال ہے جو راستے میں بیٹھ کر ڈاکہ ڈالتے ہیں پھر ایک ایسے آدمی پر آئے جس نے ایک لکڑیوں کا بڑا گٹھا جمع کیا ہوا تھا اور وہ اس کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا تھا مگر پھر بھی اس کو اور زیادہ بڑھا رہا تھا۔ پوچھا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ آپ کی امت میں سے وہ آدمی ہے کہ جس کے پاس لوگوں کی اتنی امانتیں ہیں کہ ان کی ادائیگی کی طاقت نہیں رکھتا مگر پھر بھی اور زیادہ (امانتوں کا بوجھ لادنے کا) ارادہ رکھتا ہے۔ پھر ایک ایسی قوم پر آئے کہ ان کی زبانیں اور ان کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جارہے ہیں۔ جو آگ کی ہیں جب بھی کاٹی جاتی ہیں پھر وہ اسی طرح ہوجاتی ہیں جیسے تھیں۔ جب ان کو کاٹ دیا جاتا تو پھر ٹھیک ہوجاتے۔ انہیں کچھ کمی نہیں ہوتی۔ پوچھا جبرائیل (علیہ السلام) یہ کون ہیں ؟ فرمایا یہ فتنہ پھیلانے والے خطیب ہیں، پھر آپ ایک چھوٹے پتھر پر آئے (دیکھا کہ) اس میں سے بڑا بیل نکل رہا ہے۔ اور وہ بیل اس جگہ میں (دوبارہ) لوٹ کر جانا چاہتا ہے۔ جہاں سے وہ نکلا تھا۔ مگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔ پھر ایک وادی پر آئے تو وہاں آپ نے ٹھنڈی اور پاکیزہ ٹھنڈی کستوری کی خوشبو کو پایا۔ آپ نے ایک آواز سنی۔ تو پوچھا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ جنت کی آواز ہے۔ وہ کہتی ہے اے میرے رب ! میرے پاس ان (لوگوں) کو لے آئیے جن کا آپ مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ میرے کمرے، میرا موٹا ریشم اور میری استبرق حریر سندس، طبھر، موتی، مرجان، چاندی اور سونا، گلاس، پیالے، لوٹے، سواریاں، شہد، پانی، دودھ، شراب سب زیادہ ہوچکے ہیں، فرمایا یہ چیزیں مسلمان مرد مسلمان عورتوں، مومن مرد اور مومن عورتوں کے لئے ہیں، جنت نے کہا میں راضی ہوں، پھر آپ ایک وادی میں پر آئیے۔ اور اس کی آواز سنی۔ اور بدبو کو پایا پوچھا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ جن ہم کی آواز ہے وہ کہتی ہے اے میرے رب۔ ان لوگوں کو لے آئیے جن کا آپ نے وعدہ فرمایا۔ میری زنجیریں، میری طوق، میری بھڑکتی ہوئی آگ، میرا ابلتا ہوا پانی، میری خاردار جھاڑیاں، میری پیپ اور میرا عذاب زیادہ ہوچکا ہے۔ میری گہرائی بہت دور چلی گئی ہے اور میری گرمی شدید ہوگئی ہے۔ میرے پاس ان لوگوں کو لے آئے جن کا آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تیرے لئے ہر مشرک مرد، مشرک عورت، کافر مرد، کافر عورت، اور ہر خبیث مرد اور خبیث عورت اور ہر سرکش جو حساب کے دن پر ایمان نہیں لاتا۔ دوزخ نے کہا میں راضی ہوں، پھر چلے یہاں تک کہ بیت المقدس کے پاس آئے۔ ہم اترے تو ایک پتھر کے ساتھ اس گھوڑے کو باندھ دیا ہے۔ پھر داخل ہوئے (بیت المقدس میں) اور فرشتوں کے ساتھ نماز پڑھی جب نماز پوری ہوئی تو فرشتوں نے پوچھا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ تیرے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا یہ محمد ﷺ ہیں فرشتوں نے کہا کیا ان کو بلایا گیا ہے ؟ فرمایا ہاں ! فرشتوں نے کہا اللہ تعالیٰ آپ پر سلام بھیجے بھائی اور خلیفہ کی طرف سے۔ اچھا بھائی ہے اور اچھا خلیفہ ہے اور ان کا آنا مبارک اور اچھا ہے۔ پھر انبیاء (علیہم السلام) کی روحوں سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اپنے رب کی ثناء بیان کی۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے خلیل بنایا۔ اور مجھے عظیم بادشاہی عطا فرمائی۔ اور مجھے اطاعت شعار اور قائد بنایا کہ میری اقتدا کی جاتی ہے۔ اور مجھے آگ سے بچایا اور مجھ پر (آگ کو) ٹھنڈا اور سلامتی والا بنا دیا۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کی ثناء کرتے ہوئے فرمایا سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھ سے کلام فرمایا اور فرعون والوں کو ہلاک کیا اور میرے وسیلہ سے بنی اسرائیل کو نجات دی۔ اور میری امت ایسے لوگ پیدا فرمائے۔ ”(ترجمہ) یعنی اسے لوگوں کو بنایا جو حق کے ساتھ تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے عظیم بادشاہی عطا فرمائی اور مجھے زبور سکھائی۔ اور میرے لوہے کو نرم کردیا اور میرے لئے پہاڑوں کو مسخر کردیا وہ تسبیح بیان کرتے تھے اور ساتھ پرندے بھی تسبیح بیان کرتے تھے۔ اور مجھ کو حکمت اور فصل الخطاب عطا فرمایا۔ پھر سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے رب کی ثنا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہواوں کو میرے تابع کردیا اور شیاطین کو میرے تابع کردیا جو میری مرضی کے مطابق محرابوں تماثیل اور بڑے حوضوں کی طرح لگن اور جمی رہنے والی دیگیں تیار کرتے تھے۔ اور مجھ کو پرندوں کی بولی سکھائی اور مجھے ہر چیز میں سے بہت چیز عطا فرمائی اور شیطانوں کے لشکر، انسانوں کے لشکر اور پرندوں کے لشکر میرے تابع کردئیے۔ اور اپنے ایمان والے بندوں میں سے بہت بندوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ اور مجھے ایسی عظیم بادشاہی عطا فرمائی کہ میرے بعد کہ میرے بعد کسی کے لئے مناسب نہ رکھی گئی۔ اور میری بادشاہی کو پاکیزہ بادشاہی بنایا۔ جس میں کوئی حساب نہیں۔ پھر عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں کہ جس نے مجھے اپنا کلمہ بنایا۔ اور میری مثل کو آدم (علیہ السلام) کی مثل بنایا کہ جن کو مٹی سے پیدا فرمایا تھا پھر فرمایا ہوجا تو وہ ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے کتاب، حکمت تورات اور انجیل عطا فرمائی اور مجھے ایسا بنایا کہ میں مٹی سے پرندے کی شکل بناتا تھا پھر اس میں پھونک دیتا تھا تو وہ اللہ کے حکم سے (زندہ) پرندہ بن جاتا تھا اور میں اللہ کے حکم سے مادر زاد اندھے کو بینا، اور برص کی بیماری والے کو اچھا اور مردوں کو زندہ کردیتا ہوں۔ اور اس نے مجھ کو اوپر اٹھایا اور مجھ کو پاک کیا اور مجھے اور میری والدہ کو شیطان مردود سے پناہ دی شیطان کو ہم پر گرفت کی طاقت نہیں پھر محمد ﷺ نے اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہر ایک نے تم میں سے اپنے رب کی تعریف کی، اور میں بھی اپنے رب کی تعریف کرنے والا ہوں۔ پھر فرمایا سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے سارے جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ اور سارے لوگوں کے لئے خوشخبری دینے والے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔ اور مجھ پر فرقان (یعنی قرآن مجید) کو نازل فرمایا جس میں ہر چیز کا بیان ہے اور میری امت کو خیر امت بنایا جو لوگوں کے لئے نکالی گئی۔ اور میری امت کو در میانی امت بنایا اور میری امت کو اس طرح بنایا کہ وہ (جنت کے داخلے میں) پہلے ہوں گے اور (دنیا میں آنے کے لحاظ سے) سب سے آخر میں ہونگے اور میرے سینے کو کھولا گیا۔ اور میرے گناہوں کو مجھ سے مٹا دیا گیا اور میرے ذکر کو بلند کردیا گیا۔ اور مجھے شروع کرنے والا اور ختم کرنے والا بنا دیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ محمد ﷺ کو ان (باتوں) کے ـذریعہ فضیلت عطا فرمائی۔ پھر میرے پاس تین برتن لائے گئے، جن کے منہ ڈھکے ہوئے تھے۔ اس میں سے ایک برتن لایا گیا جس میں پانی تھا کہا گیا اس کو پی لو میں نے اس میں سے تھوڑا سا پیا پھر ان کی طرف ایک اور برتن لایا گیا جس میں دودھ تھا کہا گیا اس کو پی لو میں نے اس میں سے پیا یہاں تک کہ میں سیر ہوگیا پھر ان کی طرف ایک اور برتن لایا گیا جس میں شراب تھی کہا گیا اس کو پی لو فرمایا کہ میں اسے پسند نہیں کرتا اور میں سیر ہوجاوں گا جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ سے فرمایا عنقریب شراب آپ کی امت پر حرام کردی جائے گی اگر آپ اس میں سے پی لیتے تو آپ کی امت میں سے کوئی تابعداری نہ کرتا مگر تھوڑے لوگ پھر مجھے آسمان کی طرف لے جایا گیا اور دروازہ کھولنے کو فرمایا کہاں گیا یہ کون ہیں ؟ فرمایا یہ محمد ﷺ ہیں فرشتوں نے کہا ان کو بلایا گیا ہے ؟ فرمایا ہاں فرشتوں نے کہا اللہ تعالیٰ اسے سلامت رکھے بھائی اور خلیفہ کو اچھے بھائی اور اچھے خلیفہ ہیں۔ ان کا آنا مبارک ہے آپ آسمان میں داخل ہوئے وہاں پوری پیدائش والا ایک آدمی جس کی پیدائش میں ذرا بھی کمی نہیں تھی۔ جیسے کہ لوگوں کی پیدائش میں کمی ہوتی ہے اس کی داہنی طرف ایک دروازہ تھا اس سے پاکیزہ ہوا نکل رہی تھی اور اس کی بائیں طرف ایک دروازہ تھا اس سے بری ہوا آرہی تھی جب اس نے اپنے بائیں والے دروازے کی طرف دیکھا تو خوش ہوا اور ہنسا اور جب اس نے اپنے بائیں طرف والے دروازے کی طرف دیکھا تو رویا اور غمگین ہوا۔ میں نے کہا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کون (آدمی) ہیں ؟ فرمایا یہ آپ کے باپ آدم (علیہ السلام) ہیں اور یہ دروازہ اس کی داہنی طرف والا جنت کا دروازہ ہے جب اپنی اولاد میں سے اس میں داخل ہوتا دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اور مسکراتے ہیں۔ اور جب اپنی بائیں دروازے کی طرف دیکھتے ہیں جو جہنم کا دروازہ ہے جب اس میں کسی کو داخل ہوتے دیکھتے ہیں تو روتے ہیں اور غمگین ہوتے ہیں پھر جبرائیل (علیہ السلام) دوسرے آسمان کی طرف لے گئے دروازہ کھولنے کو فرمایا پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ کون ہیں ؟ یہ محمد ﷺ ہیں فرشتوں نے کہا ان کو بلایا گیا ہے فرمایا ہاں۔ فرشتوں نے کہا اللہ تعالیٰ سلامت رکھے بھائی کو اور خلیفہ کو اچھا بھائی اور اچھا خلیفہ ہے ان کا آنا مبارک ہے وہاں دو نوجوان تھے اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ دونوں کون ہیں ؟ فرمایا عیسیٰ بن مریم اور یحی بن ذکریا (علیہم السلام) پھر مجھے تیسرے آسمان کی طرف لے گئے کھولنے کو فرمایا فرشتوں نے کہا یہ کون ہیں ؟ فرمایا جبرائیل ہوں فرشتوں نے کہا تیرے ساتھ کون ہیں ؟ یہ محمد ﷺ ہیں فرشتوں نے کہا ان کو بلایا گیا ہے فرمایا ہاں۔ فرشتوں نے کہا اللہ تعالیٰ سلامت رکھے بھائی کو اور خلیفہ کو اچھا بھائی اور اچھا خلیفہ ہے ان کا آنا مبارک ہے۔ آسمان میں داخل ہوئے وہاں ایک آدمی تھا جو حسن کے لحاظ سے لوگوں پر ایسی فضیلت رکھتا تھا جیسے چودھویں کا چاند اپنے سارے ستاروں پر فضیلت رکھتا ہے پوچھا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کون ہیں ؟ فرمایا آپ کے بھائی یوسف (علیہ السلام) ہیں۔ پھر چوتھے آسمان پر مجھے لے جایا گیا دروازہ کھولنے کو فرمایا کہا گیا یہ تیرے ساتھ کون ہیں ؟ محمد ﷺ ہیں فرشتوں نے کہا ان کو بلایا گیا ہے فرمایا ہاں۔ فرشتوں نے کہا اللہ تعالیٰ سلامت رکھے بھائی کو اور خلیفہ کو اچھا بھائی اور اچھا خلیفہ ہے ان کا آنا مبارک ہے۔ آسمان میں داخل ہوئے وہاں ایک آدمی تھا پوچھا اے جبرائیل یہ کون ہے ؟ فرمایا ادریس (علیہ السلام) ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اونچے مقام پر اٹھا لیا پھر پانچویں آسمان پر مجھے لے جایا گیا دروازہ کھولنے کو فرمایا کہا گیا یہ تیرے ساتھ کون ہیں ؟ محمد ﷺ ہیں فرشتوں نے کہا ان کو بلایا گیا ہے فرمایا ہاں۔ فرشتوں نے کہا خوش آمدید اللہ تعالیٰ سلامت رکھے بھائی کو اور خلیفہ کو اچھا بھائی اور اچھا خلیفہ ہے ان کا آنا مبارک ہے۔ آسمان میں داخل ہوئے تو وہاں ایک آدمی بیٹھے ہوا ہے اس کے اردگرد لوگ ہیں کہ جن کو وہ بیان کررہا ہے پوچھا اے جبرائیل یہ کون ہیں ؟ اور ان کے اردگرد کون لوگ ہیں ؟ یہ ہارون المجیب ہیں۔ اور یہ لوگ (جو اردگرد ہیں) بنواسرائیل ہیں پھر مجھے چھٹے آسمان کی طرف لے جایا گیا جبرائل (علیہ السلام) نے دروازہ کھولنے کو فرمایا کہا گیا یہ کون ہیں تیرے ساتھ ؟ محمد (ٔ) ہیں فرشتوں نے کہا ان کو بلایا گیا ہے فرمایا ہاں۔ فرشتوں نے کہا خوش آمدید اللہ تعالیٰ سلامت رکھے بھائی کو اور خلیفہ کو اچھا بھائی اور اچھا خلیفہ ہے ان کا آنا مبارک ہے۔ آسمان میں داخل ہوئے وہاں ایک آدمی بیٹھ ہوا تھا جب اس سے آگے بڑھے تو وہ آدمی رونے لگا پوچھا اے جبرائیل یہ کون ہے ؟ فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) ہیں پوچھا وہ کس لئے روتے ہیں بنو اسرائیل گمان کرتے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام بنی آدم سے زیادہ عزت والا ہوں اور یہ آدمی (یعنی محمد ﷺ یہ میرے پیچھے آنے والا ہے۔ دنیا میں جب کہ میں دوسرے جہاں میں ہوں یہ خوداتنا بلند مرتبہ ہے تو مجھے کوئی پروانہ نہ تھی لیکن ہر نبی اپنی امت کے ساتھ اس کی امت میں ہے پھر مجھے ساتویں آسمان پر مجھے لے جایا گیا دروازہ کھولنے کو فرمایا کہا گیا یہ کون ہیں تیرے ساتھ ؟ محمد ﷺ ہیں فرشتوں نے کہا ان کو بلایا گیا ہے فرمایا ہاں۔ فرشتوں نے کہا اللہ تعالیٰ سلامت رکھے بھائی کو اور خلیفہ کو اچھا بھائی اور اچھا خلیفہ ہے اور آپ کا آنا مبارک ہے۔ آسمان میں داخل ہوئے وہاں ایک آدمی سیاہ سفید بالوں والا جنت کے دروازے کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ایک کرسی پر اور اس کے پاس ایک قوم بیٹھی ہوئی تھی سفید چہروں والی کاغذ کے پرزوں والی اور ایک قوم تھی کہ ان کے رنگوں میں کوئی چیز نہ تھی یہ لوگ کھڑے ہوئے جن کے رنگوں میں کوئی چیز (یعنی سیاہی) تھی ایک نہر میں داخل ہو کر انہوں نے اس میں غسل کیا وہ باہر نکلے تو وہ خالص (یعنی صاف ہوچکے تھے) اور ان کے بدنوں میں کوئی چیز نہ تھی (یعنی کوئی سیاہ نشان نہ تھا) پھر دوسری نہر میں داخل ہوئے اس میں ان لوگوں نے غسل کیا وہ باہر نکلے تو ان کے رنگ خالص (یعنی صاف) ہوچکے تھے اور وہ اپنے ساتھی کے رنگوں کی طرح ہوگئے وہ آئے اور اپنے ساتھیوں کے سات بیٹھ گیا آپ نے پوچھا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ سیاہ سفید بالوں والا کون ہے ؟ اور یہ لوگ سفید چہروں والے کون ہیں ؟ اور وہ لوگ کون ہیں جن کے رنگوں میں کوئی چیز تھی ؟ اور یہ نہریں کیا ہیں۔ جن پر یہ داخل ہوئے فرمایا یہ آپ کے والد ابراہیم (علیہ السلام) اور یہ پہلے آدمی ہیں جن کے بال زمین پر سفید اور سیاہ ہوئے اور یہ سفید چہروں والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ایمان کو گناہوں میں نہیں جلایا اور وہ لوگ جن کے رنگوں میں کوئی چیز تھی یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نیک عملوں کو دوسرے بڑے عملوں کے ساتھ جلا دیا انہوں نے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور وہ نہریں : ان میں سے پہلی نہر رحمت ہے اور دوسری اللہ کی نعمت اور تیسری ان کے رب نے ان کو پاکیزہ شراب پلائی ہے، پھر آخر میں سدرہ (یعنی بیری کا درخت) تک پہنچا گئے آپ کو بتایا گیا یہ ایک درخت ہے کہ اس کی جڑ میں ایسے پانی کی نہریں نکلتی ہیں جن کا پانی خراب نہیں ہوتا اور ایسے دودھ کی نہریں ہیں کہ جس کا ذائقہ نہیں بدلتا ایسی شراب کی نہریں ہیں کہ جو پینے والوں کو لذت دینے والی ہے صاف شفاف شہد کی نہریں ہیں اور یہ وہ درخت ہے کہ ایک شہسوار اس کے سایہ میں ستر سال تک چلتا رہے تو اس کا سایہ ختم نہیں ہوگا۔ اور اس میں سے ایک پتہ ساری امت کو ڈھانک لیتا ہے۔ مگر خلاق عزوجل نور چھایا ہوا ہے اور اس پر فرشتے چھائے ہوئے ہیں اور فرشتے اس پر کو وں کی طرح اترتے ہیں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ سے کلام فرمایا اور آپ سے فرمایا سوال کرو (جو چاہو) تو آپ نے فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) کو آپ نے خلیل بنایا اور ان کو بڑا ملک عطا فرمایا اور موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمایا اور داود (علیہ السلام) کو بڑا ملک عطا فرمایا اور ان کے لیے لوہے کو نرم کردیا اور ان کے لئے پہاڑوں کو مسخر کردیا۔ اور سلیمان (علیہ السلام) کو بڑا ملک عطا فرمایا اور ان کے لئے جنات کو انسانوں کو اور شیاطین کو مسخر کردیا اور ان کے لئے ہوا کو تابع کردیا اور ان کو بادشاہی عطا فرمائی ایسی بادشاہی کہ ان کے بعد کسی کو لائق نہیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو تورات اور انجیل سکھائی اور ان کو ایسا بنایا کہ مادر زاد اندھے کو اور برص کی بیماری والے کو اچھا کردیتے تھے اور آپ کے حکم سے مردوں کو زندہ کردیتے تھے اور پھر ان کو اور ان کی والدہ کو شیطان مردود سے پناہ فرمائی کہ شیطان کو ان پر غلبہ کا کوئی راستہ نہ تھا ان کے رب عزوجل سے فرمایا اے محبوب میں نے تجھ کو اپنا خلیل بنا لیا ہے۔ اور آپ تورات میں حبیب الرحمان لکھے ہوئے ہیں، اور میں نے تجھ کو سارے لوگوں کے لئے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔ اور تیرے سینے کو میں نے کھول دیا۔ تیرا بوجھ تجھ سے اتاردیا ہے۔ اور تیرے ذکر کو میں نے بلند کردیا ہے۔ جو بھی ذکر کرے گا تو میرے ساتھ تیرا ذکر بھی ہوگا۔ اور میں نے تیری امت کو تمام امتوں سے بہتر بنایا کہ جو لوگوں (کی ہدایت) کے لئے نکالے گئے۔ اور تیری امت کو اس طرح بنایا کہ وہ ہر خطبہ جس کو گواہی دیتے ہیں کہ تو میرا بندہ اور میرا رسول ہے۔ اور تیری امت میں سے ایسے لوگ بنائے کہ انکے دل ان کے اناجیل میں ہیں۔ اور میں نے تجھ کو پیدائش کے لحاظ سے نبیوں میں سب سے پہلا نبی بنایا۔ اور (دنیا میں) بھیجنے کے لحاظ سے سب سے آخری بنایا۔ سب سے پہلے آپ کا فیصلہ ہوگا۔ اور میں نے آپ کو ( سورة ) سبع مثانی عطا فرمائی اور تجھ سے پہلے کبھی کسی نبی کو عطا نہیں فرمائی اور میں نے تجھ کو سورة بقرہ کی آخری آیات عطا فرمائی جو عرش کے نیچے والے خزانہ میں سے ہیں۔ تجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی اور میں تجھ کو کوثر عطا فرمائی۔ اور میں نے تجھ کو آٹھ چیزیں عطا فرمائیں۔ اسلام، ہجرت، جہاد، نماز، صدقہ، رمضان کے روزے، نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا۔ اور میں نے تجھ کو فاتح اور خاتم بنایا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میرے رب نے مجھے فضیلت دی اور مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا اور سب لوگوں کے لئے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔ اور میرے دشمنوں کے دلوں میں ایک ماہ کی مسافت تک بڑا رعب ڈال دیا۔ اور میرے لئے غنیمت کے مال کو حلال کردیا گیا کہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں ہوا۔ اور میرے لئے ساری زمین کو سجدہ گاہ اور پاک بنادیا گیا۔ مجھے فواتح الکلام اور خواتم الکلام اور جوامع الکلام عطا فرمایا اور میری امت کو مجھ پر پیش کیا گیا حتی کہ مجھ پر تابع اور متبوع کوئی مخفی نہ رہا۔ اور میں نے ان کو دیکھا کہ وہ فرشتے ایک ایسی قوم پر حملہ آور ہوئے ہیں جو بالوں کے جوتے پہنے ہوئے تھے۔ اور میں نے ان کو دیکھا کہ وہ ایسی قوم پر حملہ کررہے ہیں جن کے چہرے چوڑے ہیں اور آنکھیں چھوٹی ہیں گویا کہ انکی آنکھوں سوئی سے چھیدی گئی ہیں۔ اور مجھ پر وہ حادثات بھی مخفی نہ رہے جس سے انہوں نے دو چار ہونا تھا۔ اور مجھے پچاس نمازوں کا حکم دیا گیا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس لوٹا تو انہوں نے پوچھا آپ کو کیا حکم دیا گیا۔ فرمایا پچاس نمازوں کا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اپنے رب کی طرف لوٹ جاؤ اور ان سے تخفیف کا سوال کرو، کیونکہ تیری امت ساری امتوں میں زیادہ کمزور ہے۔ اور میں نے بنی اسرائیل کو بڑی سختی سے آزمایا ہے، (اس پر) نبی کریم ﷺ اپنے رب کی طرف لوٹ گئے اور ان سے تخفیف کا سوال فرمایا تودس نمازوں کو کم کردیا گیا۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف لوٹے پوچھا کتنی نمازوں کا حکم ہوا فرمایا چالیس نمازوں کا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اپنے رب کی طرف لوٹ جاؤ اور ان سے تخفیف کا سوال کرو، پھر آپ (اپنے رب کے پاس) لوٹے تو دس مزید کم کردی گئیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ پانچ نمازیں کردی گئیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر فرمایا اپنے رب کی طرف لوٹ جاؤ اور ان سے مزیدتخفیف کا سوال کرو، نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں اپنے رب کے پاس باربار حاضر ہوتا رہا یہاں تک کہ (اب) مجھے انکے پاس جاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ اس لئے اب میں نہیں جاوں گا۔ ان سے کہا گیا۔ اگر آپ نے ان پانچ نمازوں پر صبر کیا ہے۔ تو ہم تجھ کو پچاس نمازوں کا اجر دیں گے۔ کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ دس نیکیاں ہوں گی، تو محمد ﷺ (اللہ تعالیٰ کی) ہر رضا پر راضی ہوگئے راوی نے کہا کہ جب آپ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گزرے تو موسیٰ (علیہ السلام) پر سخت تھے۔ اور جب آپ واپس آئے تو موسیٰ (علیہ السلام) سب انبیاء میں سے زیادہ خیر کے باعث تھے۔ 14:۔ طبرانی نے الاوسط میں اور ابن مردویہ نے محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلی ؓ سے انہوں نے اپنے بھائی عیسیٰ (علیہ السلام) سے اور انہوں نے اپنے والد عبدالرحمن سے اور انہوں نے اپنے والد ابی لیلی سے روایت کی کہ جبرائیل (علیہ السلام) نبی کریم ﷺ کے پاس براق لے کر آئے۔ آپ کو اس پر اپنے آگے سوار کیا۔ پھر چل پڑے جب براق ایسی جگہ پہنچتا جو نیچے ہوتی تو اس کے اگلے پاوں لمبے ہوجاتے اور پچھلے چھوٹے ہوجاتے۔ یہاں تک کہ وہ ایسی جگہ پیٹھ برابر رکھتا جب وہ کسی بلند جگہ پہنچتا۔ تو اس کے اگلے پاوں چھوٹے ہوجاتے اور پچھلے پاوں بڑے ہوجاتے۔ یہاں تک کہ وہ برابر رہتا۔ پھر آپ کو ایک آدمی ملا راستہ کے دائیں طرف سے اس نے آواز دینی شروع کی اے محمد ﷺ راستہ میری طرف ہے۔ دو مرتبہ اس نے کہا جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ سے فرمایا آپ چلتے رہئے کسی سے بات نہ کریں، پھر ایک آدمی راستہ کے بائیں طرف سے آیا۔ اس نے کہا راستہ میری طرف ہے۔ اے محمد ﷺ جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ سے فرمایا آپ چلتے رہیے کسی سے بات نہ کریں۔ پھر ایک خوبصورت عورت سامنے آئی۔ پھر آپ سے جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا آپ جانتے ہیں وہ آدمی کون تھا۔ جس نے آپ کو راستہ کے دائیں طرف بلایا تھا۔ فرمایا نہیں (میں نہیں جانتا) جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا یہ یہودی تھا جو آپ کو اپنے دین کی طرف بلارہا تھا۔ پھر پوچھا کیا آپ اس آدمی کو جانتے ہیں جو آپ کو راستہ کے بائیں طرف بلارہا تھا۔ فرمایا نہیں جانتا پھر جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا یہ نصرانی تھا جو آپ کو اپنے دین کی طرف بلا رہا تھا پھر پوچھا کیا آپ جانتے ہیں وہ خوبصورت عورت کون تھی ؟ فرمایا میں نہیں جانتا جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا وہ دنیا تھی جو آپ کو اپنی ذات کی طرف بلا رہی تھی۔ پھر دونوں چلتے رہے یہاں تک کہ بیت المقدس میں آئے۔ وہاں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے، ان لوگوں نے کہا خوش آمدید اے امی ان لوگوں میں ایک شیخ تھے، پوچھا اے جبرائیل یہ کون ہیں ؟ فرمایا یہ آپ کے والد ابراہیم (علیہ السلام) ہیں اور یہ موسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ اور یہ عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ پھر نماز کھڑی ہوگئی۔ انہوں نے (امامت کے لئے) ایک دوسرے کو دھکیلا، یہاں تک کہ محمد ﷺ آگے تشریف لائے، پھر پینے کی چیزیں لائی گئیں، نبی کریم ﷺ نے دودھ کو اختیار فرمایا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ سے فرمایا کہ آپ نے فطرت کو پالیا۔ پھر آپ سے کہا گیا اپنے رب کی طرف چلیں۔ آپ کھڑے ہوئے اور اندر داخل ہوگئے۔ پھر آپ واپس تشریف لائے تو آپ سے پوچھا گیا آپ سے کیا معاملہ ہوا۔ آپ نے فرمایا میری امت پر پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے آپ سے فرمایا اپنے رب کی طرف لوٹ کر جائیں اور اپنے رب سے اپنی امت کے لئے تخفیف کا سوال کریں، کیونکہ آپکی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ آپ دوبارہ (اپنے رب کے پاس) لوٹے پھر واپس تشریف لائے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے پوچھا کیا ہوا ؟ فرمایا پچیس نمازیں کردی گئیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اپنے رب کی طرف دوبارہ لوٹ جاؤ اور ان سے تخفیف کا سوال کرو۔ آپ دوبارہ (اپنے رب کے پاس) لوٹے تو بارہ نمازی کردی گئیں موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر فرمایا دوبارہ اپنے رب کے پاس جائیں اور ان سے تخفیف کا سوال کرو، آپ دوبارہ تشریف لائے پھر واپس آئے تو فرمایا (اب) پانچ نمازیں کردی گئیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا دوبارہ جائے اور ان سے تخفیف کا سوال کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا مجھے (اب) اپنے رب کے پاس جاتے ہوئے شرم آتی ہے میں اب نہیں جاوں گا اور میرے رب نے مجھ سے فرمایا بیشک تو نے جو مجھ سے سوال کیا میں نے تجھے عطا فرمایا۔ 15:۔ ابن عرفہ نے اپنے جزء مشہور میں، ابو نعیم نے دلائل میں اور ابن عساکر نے تاریخ میں ابوعبیدہ بن عبداللہ مسعود ؓ سے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) ایک جانور لے کر آئے جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا۔ مجھ کو اس پر سوار کیا۔ وہ مجھے لے کر چل پڑا جب کسی بلند جگہ پر چڑھتا تو اس کے پاوں ہاتھوں کے برابر ہوجاتے۔ اور جب نیچے اترتا تو اس کے ہاتھ پاوں کے برابر ہوجاتے یہاں تک کہ ہم ایک آدمی کے پاس سے گزرے جس کے بال لمبے تھے اور سیدھے تھے رنگ گندمی تھا۔ گویا کہ وہ سنوأہ قبلہ کا مرد ہے۔ اور وہ اپنی آواز کو اونچا کرتے ہوئے کہہ رہا تھا تو نے اس کا اکرام کیا اور تو نے اس کو فضیلت دی۔ ہم اس شخص کی طرف گئے ہم نے اس کو سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دیا۔ اور پوچھا اے جبرائیل یہ تیرے ساتھ کون ہے ؟ فرمایا یہ محمد ﷺ ہیں۔ فرمایا خوش آمدید اے نبی امی عربی جس نے اپنے رب کا پیغام پہنچایا اور اپنی امت کی خیر خواہی کی۔ پھر ہم چلے میں نے پوچھا اے جبرائیل یہ کون ہیں ؟ فرمایا یہ موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) ہیں۔ میں نے پوچھا یہ جھگڑ رہے تھے پھر جبرائیل نے کہا یہ آپ کے بارے اپنے رب سے جھگڑ رہے تھے۔ میں نے پوچھا وہ اپنی آواز کو اپنے رب تعالیٰ پر بلند کررہے تھے، فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اس کی طبیعت کی تیزی کو پہنچان لیا ہے پھر ہم چلے یہاں تک کہ ایک درخت کے پاس سے گزرے گویا کہ اس کا پھل گھر کا صحن تھا اس کے نیچے ایک شیخ اور اس کے گھروالے تھے۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھ سے فرمایا اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جائیے۔ ہم ان کے پاس گئے ہم نے ان کو سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے پوچھا اے جبرائیل (علیہ السلام) تیرے ساتھ یہ کون ہیں ؟ـ فرمایا یہ آپ کے بیٹے احمد کیا انہوں نے سلام کا جواب دیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا خوش آمدید اے نبی امی جنہوں نے اپنے رب کا پیغام پہنچایا۔ اور اپنی امت کو نصیحت کی۔ اے نبی ! آج رات آپ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ اور آپ کی امت آخری امت ہے۔ اور سب سے کمزور امت ہیں۔ اگر آپ طاقت رکھتے ہیں تو تیری حاجت یا اس کا کام تیری امت میں سے بھی رہے۔ تو ایسا کرلے۔ پھر ہم چلے یہاں تک کہ ہم مسجد اقصی کی طرف پہنچے۔ جبرائیل (علیہ السلام) اترے اور اپنے جانور کو ایک کڑے سے باندھ دیا۔ جو مسجد کے دروازہ پر تھا جس سے انبیاء (علیہم السلام) اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے۔ پھر میں مسجد میں داخل ہوا۔ میں نے نبیوں کو پہچان لیا۔ اس درمیان کے کوئی قیام میں تھا، کوئی رکوع میں تھا اور کوئی سجدہ میں تھا، پھر میرے پاس دو گلاس لائے گئے شہد اور دودھ کا، میں نے دودھ کو لے کر پی لیا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے میرے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے فطرت کو پالیا۔ پھر نماز کھڑی کردی گئی میں نے انکی امامت کرائی۔ پھر ہم واپس آگئے۔ 16:۔ حارث بن ابی اسامہ، بزار، طبرانی، ابن مردویہ، ابونعیم نے دلائل میں اور ابن عساکر نے علقمہ کے طریق سے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے پاس براق لایا گیا میں اس پر سوار ہوا جب (براق) کسی پہاڑ پر چڑھتا تو اس کے پاوں بلند ہوجاتے۔ اور جب نیچے اترتا تو اس کے ہاتھ لمبے ہوجاتے۔ وہ براق ہم کو لے کر ایک ایسی زمین پر آیا جو تاریک اور بدبودار تھی۔ پھر ہم ایسی زمین پر پہنچے جہاں سے پاکیزہ خوشبو آرہی تھی۔ میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ آگ والی زمین تھی اور یہ جنت کی زمین ہے۔ پھر میں ایک ایسے آدمی کے پاس آیا جو کھڑاہو کر نماز پڑھ رہا تھا۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل یہ کون ہیں ؟ یہ آپ کے بھائی عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں ہم (آگے) چلے تو ہم نے ایک آواز سنی کہ کوئی جھگڑا کر رہا ہے۔ پھر ہم ایک کے پاس آئے۔ اس نے پوچھا یہ تیرے ساتھ کون ہیں ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا یہ کے بھائی محمد ﷺ ہیں۔ انہوں نے سلام کیا اور برکت کی دعا دی۔ اور فرمایا اپنی امت کے لئے آسانی کا سوال کرو۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل یہ کون ہیں ؟ یہ آپ کے بھائی موسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ میں نے کہ کس سے جھگڑا کررہے تھے ؟ فرمایا اپنے رب عزوجل سے جھگڑ رہے تھے میں کہا اپنے رب سے جھگڑ رہے تھے فرمایا ہاں ! ان کی طبیعت کی تیزی معروف ہے۔ پھر ہم چلے میں نے چراغ اور روشنی دیکھی۔ میں کہا یہ اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ درخت ہے آپ کے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا۔ اس سے قریب ہوجاؤ۔ میں اس سے قریب ہوگیا تو انہوں نے خوش آمدید کہا اور میرے لئے برکت کی دعا فرمائی۔ پھر چلے یہاں تک کہ ہم بیت المقدس پہنچے میں نے جانور کو اس حلقہ میں باندھ دیا کہ جس کے سابقہ انبیاء (علیہم السلام) باندھا کرتے تھے۔ پھر میں مسجد میں داخل ہوا میرے لئے انبیاء (علیہم السلام) کو پیش کیا گیا۔ ان میں سے اللہ تعالیٰ نے (بعض کے) نام بتائے اور (بعض کے) نام نہیں بتائے۔ میں نے ان کو نماز پڑھائی سوائے ان تین انبیاء کے۔ ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) ۔ 17:۔ ابن مردویہ نے مغیرہ بن عبدالرحمن کے طریق سے اور انہوں نے اپنے والد سے اور ان کے والد نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے معراج کی رات میں مسجد کے اگلے حصہ میں جماعت کرائی پھر میں صخرہ (ایک گنبد کا نام) کی طرف گیا۔ وہاں ایک فرشتہ تین برتن لئے کھڑا تھا۔ میں نے شہد کو لے لیا۔ اور اس میں سے تھوڑا پی لیا۔ پھر میں نے دوسرا برتن لیا اور اس سے بھی پیا۔ یہاں تک کہ میں سیر ہوگیا۔ اس کو دیکھا تو اس میں دودھ تھا پھر اس فرشتے نے کہا کہ تیسرے برتن سے بھی پیو۔ اس میں شراب تھی۔ میں کہا کہ میں سیر ہوچکا ہوں (اس لئے اس میں نہیں پیوں گا) اس فرشتہ نے کہا اگر آپ اس میں سے پی لیتے۔ تو آپ کی امت کبھی فطرت پر جمع نہ ہوتی۔ پھر مجھے آسمان کی طرف لے جایا گیا۔ اور مجھ پر نماز فرض کردی گئی۔ پھر میں حضرت خدیجہ ؓ کی طرف واپس آیا (آسمانوں کی سیر کرنے کے بعد) تو انہوں نے دوسری جانب اپنی کروٹ نہیں بدلی تھی۔ (کہ اتنی دیر میں واپس آگیا) 18۔ طبرانی اور ابن مردویہ نے ام ہانی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ معراج کی رات میرے گھر میں تھے۔ میں نے رات کو ان کو گم پایا۔ مجھ سے نینداڑ گئی۔ اس خوف سے کہ کہیں قریش آپ کو تکلیف نہ پہنچا دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس آئے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے باہر لے گئے۔ دروازہ پر ایک جانور تھا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا۔ مجھے اس پر سوار کیا پھر وہ چلا یہاں تک کہ مجھے بیت المقدس لے آیا۔ مجھے ابراہیم (علیہ السلام) کو دکھایا گیا (اس حال میں) کہ جن کی شکل میری شکل کے مشابہ تھی۔ اور میری شکل ان کی شکل کے مشابہ تھی اور مجھے موسیٰ کو دکھایا گیا جن کا رنگ گندمی تھا اور قد لمبا تھا کہ ان کے بال نرم اور سیدھے تھے وہ از دشنوأہ قبیلہ کے مشابہ تھے اور مجھے عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) دکھائے گئے۔ جو درمیانے قد کے تھے اور رنگ سفید سرخی مائل تھا ان کی شکل عروہ بن مسعود ثقفی جیسی تھی۔ اور مجھے دجال دکھایا گیا۔ اس کی داہنی آنکھ بالکل صاف کردی گئی تھی۔ اس کی شکل قطن بن عبدالعزی جیسی تھی۔ فرمایا (اس کے بعد) میں نے ارادہ کیا کہ میں قریش کی طرف جاوں اور ان کو بتاوں جو کچھ میں نے دیکھا۔ ام ھانی ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے ان کے کپڑے کو پکر لیا اور میں نے کہا میں آپ کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیتی ہوں آپ قوم (قریش) کے پاس جائیں گے تو وہ آپ کو جھٹلائیں گے۔ اور آپ کی بات کا انکار کریں گے۔ اور میں خوف کرتی ہوں کہ وہ آپ پر حملہ نہ کردیں۔ ام ہانی ؓ نے فرمایا کہ انہوں نے میرے ہاتھ سے کپڑا چھڑا لیا اور قریش کی طرف چلے گئے اور ان کے پاس اس حال میں آئے کہ وہ لوگ اپنی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کو (ساری باتیں) بتائیں تو مطعم بن عدی کھڑے ہو کر کہنے لگے اے محمد ﷺ اگر میں جوان ہوتا تو آپ کبھی ایسی باتیں نہ کرتے جو آپ نے کی ہیں جب کہ آپ ہمارے اندر موجود ہیں۔ (پھر) قوم میں سے ایک آدمی نے کہا اے محمد ﷺ کیا تو گزرا ہے ہمارے اونٹ کے ساتھ فلاں جگہ سے فرمایا ہاں ! اللہ کی قسم ! میں نے ان کو (اس حال میں) پایا کہ ان کا اونٹ گم ہوچکا تھا جس کو ہو ڈھونڈ رہے تھے۔ (پھر) اس نے کہا تو بنی فلاں کے اونٹوں کے پاس سے گزرا ہے ؟ فرمایا ہاں ! میں نے ان کو فلاں مقام پر پایا ہے ان کی سرخ اونٹنی کا پاوں ٹوٹ چکا تھا۔ میں نے ان کو پایا کہ ان کے پاس پانی کا ایک پیالہ تھا۔ اور میں نے اس میں سے پیا (پھر) کہنے لگے ان کی تعداد کے بارے میں ہم کو بتاؤ اور جو ان میں چرواہے ہیں (ان کے بارے میں بھی) فرمایا مجھے ان کے اونٹوں کی تعداد معلوم نہ تھی میں کھڑا ہوا تو اونٹ میرے سامنے کردئیے گئے میں ان کو شمار کیا اور جتنے ان میں چرواہے تھے وہ بھی شمار کرلیے۔ پھر آپ قریش کے پاس آئے۔ اور ان کو فرمایا کہ تم نے مجھ سے فلاں کے اونٹوں کے بارے میں پوچھا تھا وہ اتنے ہیں اور ان میں فلاں فلاں چرواہے ہیں اور تم نے مجھ سے بنی فلاں کے اونٹوں کے متعلق پوچھا تھا۔ وہ اتنے ہیں اور ان کے چرواہوں میں ابن ابی قحافہ اور فلاں فلاں ہے۔ وہ صبح وادی میں پہنچے گا۔ وہ لوگ گھاٹی کے راستے پر بیٹھ گئے۔ اور اس بات کا انتظار کرنے لگے کہ آپ نے ان سے جو کچھ فرمایا تھا وہ سچ تھا۔ پس انہوں نے اونٹوں کے قافلہ کو پایا تو قافلہ والوں سے پوچھا کیا تمہارا اونٹ گم ہوگیا تھا۔ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر دوسرے قافلہ والوں سے پوچھا کیا تمہاری سرخ اونٹنی کا پاوں ٹوٹ گیا تھا ؟ انہوں نے کہا ہاں پھر پوچھا کیا تمہارے پاس پانی کا پیالہ تھا ابوبکر ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم میں نے اس کو رکھا تھا لیکن ہم میں سے کسی نے اس کو نہ پیا اور زمین میں اس کو بہایا۔ ابوبکر ؓ نے اس واقعہ کی تصدیق کی اور آپ پر ایمان لے آئے۔ اس دن سے آپ کو صدیق کا نام دیا گیا۔ 19:۔ ابویعلی اور ابن عساکر نے ام ہانی ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ میرے پاس اندھیرے میں تشریف لائے اور میں اپنے پستر پر تھی (مگر) آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ خیال ہے کہ میں مسجد حرام میں رات کو سویا ہوا تھا۔ میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے۔ اور مجھے مسجد کے دروازے کی طرف لے گئے وہاں ایک سفید جانور تھا جو گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا۔ وہ اپنے کانوں کو حرکت دیتا تھا۔ میں اس پر سوار ہوگیا وہ اتنا تیز رفتار تھا کہ اس کا ایک قدم حد نگاہ تک پڑتا تھا۔ جب مجھے کسی نیچی جگہ میں میں لے جاتا تو اس کے ہاتھ لمبے ہوجاتے اور اس کے پاوں چھوٹے ہوجاتے۔ اور جب مجھے کسی اونچی جگہ پر لے جاتا تھا تو اس کے پاوں لمبے ہوجاتے اور ہاتھ چھوٹے ہوجاتے۔ اور جبرائیل (علیہ السلام) میرے ساتھ رہے یہاں تک کہ ہم بیت المقدس تک پہنچ گئے میں نے براق کو اس کڑے سے باندھ دیا جس سے انبیاء باندھا کرتے تھے۔ پھر میرے لئے انبیاء کی ایک جماعت کو پیش کیا گیا ان میں سے ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) بھی تھے۔ میں نے ان کو نماز پڑھائی اور ان سے بات بھی کی (اور) میرے پاس دو برتن لائے گئے۔ میں نے سفید کو پیا۔ جبرائیل نے مجھ سے فرمایا آپ نے دودھ کو پیا اور شراب کو چھوڑ دیا۔ اگر آپ شراب کو پی لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی۔ پھر میں اس (جانور) پر سوار ہو کر مسجد حرام آیا۔ اور وہاں صبح کی نماز پڑھی۔ ام ہانی ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے آپ کی چادر کو پکڑ لیا اور کہا میں آپ کو قسم دیتی ہوں اے میرے چچا کے بیٹے اگر آپ نے قریش کو یہ معراج کا سفر بیان کیا تو وہ آپ کو جھٹلائیں گے۔ آپ ﷺ نے میرے ہاتھ کو جھٹکا دیا اور میرے ہاتھ سے اس کو چھڑا لیا، آپ ﷺ کے پیٹ سے کپڑا اٹھ گیا تو میں نے ازار کے اوپر سے آپ کی ابھری ہوئی جگہ دیکھی گویا کہ وہ لپٹے ہوئے کاغذ ہیں۔ اور ایک روشنی چھائی ہوئی تھی آپ کے دل کے پاس قریب تھا کہ اچک لے میرے آنکھ کو، میں سجدہ میں گرگئی۔ جس میں نے اپنا سراٹھایا تو آپ جا چکے تھے۔ میں اپنی لونڈی سے کہا افسوس ہے تجھ پر ان کے پیچھے جا اور دیکھ وہ کیا کہتے ہیں اور پھر ان کے لئے کیا کہا جاتا ہے۔ جب وہ واپس آئی تو اس نے مجھے بتایا کہ آپ قریش کی ایک جماعت کے پاس تشریف لے گئے۔ ان میں مطعم بن عدی جاتا ہے۔ جب عمر بن ہشام اور ولید بن مغیرہ بھی تھا۔ آپ نے فرمای میں نے عشاء کی نماز اس مسجد میں پڑھی اور پھر میں نے صبح کی نماز بھی پڑھی۔ اس درمیان میں بیت المقدس آیا۔ میرے لئے انبیاء کی ایک جماعت کو پیش کیا گیا۔ ان میں ابراہیم، موسیٰ ، اور عیسیٰ (علیہم السلام) بھی شامل تھے۔ میں نے ان کو نماز پڑھائی اور ان سے بات کی۔ عمر بن ہشام نے مذاق کرتے ہو کہا ہمارے لئے ان کی صفات بیان فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) درمیانہ قد تھے نہ زیادہ لمبے تھے نہ زیادہ پست قد سینہ چوڑا تھا، گھنگھریالے بال تھے۔ ان پر سفیدی غالب تھی گویا کہ وہ عروہ بن مسعود ثقفی ہیں۔ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) بھاری بھر کم، گندمی رنگ اور لمبے قد کے تھے، گویا کہ وہ از دشنوأہ کے مردوں میں سے ہیں بہت بالوں والے تھے اور آنکھیں گہری تھیں، دانت ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ ہونٹ باریک تھے۔ اور سخت مزاج تھے۔ لیکن ابراہیم اللہ کی قسم میں شکل وشباہت کے لحاظ سے ان سے زیادہ مشابہ ہوں (یہ باتیں سن کر) ان لوگوں نے شور مچایا اور ان باتوں کو بڑا سمجھا۔ معطم نے کہا تیرا سارا کام دن سے پہلے ہوگیا آج سے پہلے آپ نے جو کچھ کہا تھا وہ قابل تقلید تھا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو جھوٹا ہے۔ ہم اونٹوں کو بیت المقدس کی طرف لے جاتے ہیں، جاتے ہوئے ایک ماہ اور آتے ہوئے ایک ماہ (لگتا ہے) اور تو خیال کرتا ہے کہ تو ایک ہی رات میں (بیت المقدس ہوکر) آگیا۔ لات اور عزی کی قسم ہرگز تیری تصدیق نہیں کروں گا۔ ابوبکر ؓ نے فرمایا اے مطعم ! برا ہے جو تو نے اپنے بھتیجا کو کہا اس کی پیشانی جھوٹی نہیں ہوسکتی۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ سچے ہیں۔ ان لوگوں نے کہا اے محمد ! ہم کو بیت المقدس کا وصف بیان کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں رات کو داخل ہوا اور رات ہی کو (وہاں سے) نکل آیا۔ جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور انہوں نے اپنے پروں پر اس کی صورت بنادی۔ اور آپ نے فرمانا شروع کیا کہ اس میں سے فلاں دروازہ فلاں جگہ پر ہے اور فلاں دروازہ فلاں جگہ پر ہے۔ اور ابوبکر ؓ نے فرمایا آپ ﷺ نے سچ فرمایا آپ نے سچ فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس دن فرمایا اے ابوبکر ؓ اللہ تعالیٰ نے تیرا نام صدیق رکھا ہے۔ لوگوں نے کہا اے محمد ! ہم کو ہمارے قافلے کے بارے میں بتائیے۔ فرمایا میں بنو فلاں کے قافلہ کو (مقام) روحا پر ملا۔ ان کی ایک اونٹنی گم ہوگئی تھی۔ وہ اس کی تلاش میں گئے ہوئے تھے۔ میں نے انکی سواریوں کے پاس پہنچا۔ انکے پاس کوئی آدمی موجود نہیں تھا۔ وہاں پانی کا ایک پیالہ تھا جس میں سے میں پانی پیا۔ پھر میں بنوفلاں کے قافلہ کے پاس پہنچا تو میری وجہ سے ان ایک اونٹ بھاگ گیا۔ اور اس میں سرخ اونٹ بیٹھا ہوا تھا جس پر سفید دھاری دار بورے لدے ہوئے تھے۔ میں نہیں جانتا کہ اونٹ کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی یا نہیں۔ پھر میں بنوفلاں کے قافلہ سے ملا۔ تنعیم کے مقام پر۔ ان کے آگے خاکستری رنگ کا اونٹ تھا۔ اور وہ وادی کے راستے سے تمہارے پاس آنے والا ہے۔ ولید بن مغیرہ نے کہا (کہ محمد) جادوگر ہے۔ وہ لوگ قافلہ کو دیکھنے کے لئے گئے۔ تو انہوں نے ایسے ہی پایا جیسے آپ نے فرمایا تھا۔ مگر ان لوگوں نے آپ پر جادو کی تہمت لگائی۔ اور کہنے لگے ولید نے سچ کہا۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری ” وما جعلنا الرء یا التی ارینک الا فتنۃ للناس ‘ (الاسرا آیت نمبر 60) 20:۔ ابن اسحاق اور ابن جریر ام ہانی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ رات کو (آسمانوں) پر تشریف لے گئے تو آپ اس رات میرے گھر میں سو رہے تھے۔ آپ نے عشاء کی نماز پڑھی۔ پھر آپ نے فرمایا اے ام ہانی ! میں نے تمہارے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی پھر آپ سوگئے اور ہم بھی سوگئے۔ جب فجر سے تھوڑا پہلے کا وقت تھا تو ہم نے رسول اللہ ﷺ کو تیار کیا، جب آپ نے صبح کی نماز پڑھی اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے فرمایا اے ام ھانی ! میں نے تمہارے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی تھی جیسے تم نے دیکھا، پھر میں بیت المقدس گیا اور وہاں میں نے نماز پڑھی پھر اب میں نے صبح کی نماز تمہارے ساتھ پڑھی۔ جیسا تم نے دیکھا ہے۔ 21:۔ ابن سعد اور ابن عساکر نے عبداللہ بن عمر، ام سلمہ، عائشہ، ام ھانی اور ابن عباس ؓ سے روایت کیا اور ان کی بعض حدیث، بعض میں داخل ہے کہ ان سب حضرات نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کو ربیع الاول کی سترویں رات کو ہجرت سے ایک سال پہلے شعب ابی طالب سے بیت المقدس کی سیر کرائی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے ایک سفید جانور پر سوار کیا گیا۔ جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا۔ اس کی ران میں دو پر تھے کہ جن کے ذریعہ وہ اپنی ٹانگوں کو چھپاتا تھا۔ جب میں اس کے قریب آیا تاکہ اس پر سوار ہوں تو وہ بدکنے لگا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے اس کی گردن کے بالوں پر اپنا ہاتھ پھیرا پھر (اس سے) فرمایا اے براق ! کیا تو شرم نہیں کرتا ان کاموں سے جو تو کررہا ہے۔ اللہ کی قسم ! کوئی اللہ کا بندہ تجھ پر سوار نہیں ہوا محمد ﷺ سے پہلے جو اللہ کے نزدیک زیادہ عزت والا ہو۔ براق شرمایا اور اسے پسینہ آگیا۔ پھر وہ ٹھہر گیا یہاں تک کہ میں اس پر سوار ہوگیا۔ اس نے اپنے کان کھڑے کئے اور زمین پر چلنے لگا کہ اس کا قدم اس کی حد نگاہ تک پڑھا تھا۔ اور لمبی کمر اور لمبے کانوں والا تھا۔ اور میرے ساتھ جبرائیل (علیہ السلام) بھی چلتے رہے یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچ گیا براق بھی اپنے ٹہرنے کی جگہ تک پہنچا اور اس کو باندھ دیا گیا۔ اور یہ انبیاء (علیہم السلام) کے باندھنے کی جگہ تھی اور میں نے انبیاء کو دیکھا جو میرے لئے جمع کیا گئے تھے۔ میں نے ابراہیم کو اور موسیٰ (علیہ السلام) کو اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا میں نے گمان کیا کہ ضرور ان کے لئے کوئی امام ہوگا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے آگے کردیا یہاں تک کہ میں نے سب کو نماز پڑھائی۔ اور میں نے پوچھا تو سب نے فرمایا ہم کو توحید کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ اور بعض نے فرمایا اس رات نبی کریم ﷺ گم ہوگئے بنو عبدالمطلب آپ کی تلاش میں نکلے تھے۔ اور عباس بھی نکلے یہاں تک کہ دو آدمی زمین طوی پہنچے اور زور سے آواز دینا شروع کیا اے محمد ! محمد ﷺ نے جواب دیا لبیک (میں حاضر ہوں) عباس ؓ نے فرمایا اے میرے بھتیجے ! آپ نے آج رات اپنی قوم کو تھکا دیا ہے تم کہاں تھے ؟ آپ نے فرمایا میں بیت المقدس گیا تھا۔ پوچھا اسی رات میں۔ فرمایا ہاں ! عباس ؓ نے کہا آپ کو خیر تو ہے ؟ آپ نے فرمایا خیر ہے۔ اور ام ہانی ؓ نے فرمایا آپ کو سیر میرے گھر سے کرائی گئی۔ آپ ہمارے پاس سو رہے تھے۔ کہ آپ نے عشاء کی نماز پڑھی اور سو گئے۔ فجر کے طلوع ہونے سے پہلے ہم بیدار ہوئے اور آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور صبح کی نماز پڑھی۔ پھر فرمایا اے ام ہانی ! میں نے تمہارے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی جیسے تو نے دیکھا تھا اس وادی میں۔ پھر میں بیت المقدس آیا اور اس میں نماز پڑھی۔ پھر (اب) میں نے صبح کی نماز بھی تمہارے ساتھ پڑھی ہے۔ پھر آپ باہر جانے کے لئے کھڑے ہوئے تو ام ہانی نے فرمایا یہ بات لوگوں کو نہ بتلانا وہ آپ کو جھٹلائیں گے اور تکلیف دیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم میں ضرور ان کو بیان کروں گا۔ اور ان کو خبر دوں گا (یہ باتیں سن کر) انہوں نے تعجب کیا او کہنے لگے ہم نے کبھی اس طرح کی باتیں نہیں سنیں رسول اللہ ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) سے فرمایا اے جبرائیل (علیہ السلام) میری قوم میری تصدیق نہیں کرے گی ،۔ جبرائیل نے فرمایا ابوبکر صدیق تصدیق کریں گے اور سچ بولنے والے ہیں (یہ باتیں سن کر) بہت لوگ فتنہ میں پڑگئے اور گمراہ ہوگئے جو مسلمان ہوچکے تھے۔ پھر میں حطیم میں کھڑا ہوا میرے لئے اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو سامنے کردیا۔ اور میں ان کو اس کو نشانیوں کو بتانا شروع کیا اور میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا ان کے بعض لوگوں نے پوچھا مسجد کے کتنے دروازے ہیں۔ اور میں نے ان کے دروازوں کو شمار نہیں کیا تھا میں اس کی طرف دیکھتا جاتا تھا اور اس کے دروازوں کو گن کر ان کو بتارہا تھا اور میں نے ان کو ان کے قافلوں کے بارے میں بھی بتلایا جو مجھے راستہ میں ملا تھا انہوں نے اس میں وہ تمام نشانیاں پائیں جیسے میں نے ان کو بتایا۔ اور اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری ” وما جعلنا الرء یا التی ارینک الا فتنۃ للناس ‘ (الاسرا آیت نمبر 60) فرمایا اس خواب سے مراد آنکھ سے دیکھنا ہے جس کو آپ ﷺ نے اپنی آنکھ سے دیکھا تھا۔ 22:۔ احمد، عبد بن حمید، ترمذی، ابن جریر، ابن مردویہ، ابو نعیم اور بیہقی دونوں نے دلائل میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ کے لئے اس رات ایک براق لایا گیا کہ جس رات میں آپ کو لے جایا گیا۔ زین چھڑا ہوا اور لگام لگایا ہوا تھا۔ تاکہ آپ اس پر سوار ہوں مگر وہ آپ پر شوخی کرنے لگا جبرائیل (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا کیا محمد ﷺ کے ساتھ تو ایسا کررہا ہے اللہ کی قسم مخلوق میں سے کسی نے تجھ پر سواری نہیں کی کبھی بھی۔ جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والے ہیں (یہ بات سن کر) اس کو پسینہ آگیا۔ 23:۔ ابن مردویہ نے عمرو بن شعیب احمد سے اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو ربیع الاول کے سترہویں رات کو معراج نصیب ہوا ہجرت کے سال سے پہلے۔ 24:۔ بیہقی نے دلائل میں ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو رات کے وقت بیت المقدس کی طرف لے جایا گیا۔ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے سے سولہ ماہ پہلے۔ 25:۔ بیہقی نے عروہ سے اسی طرح روایت کیا کہ سدی (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو رات کے وقت بیت المقدس کی طرف لے جایا گیا۔ ہجرت سے سولہ ماہ پہلے۔ 26:۔ ابن ابی شیبہ، مسلم، نسائی، ابن مردویہ اور بیہقی نے کتاب الانبیاء میں انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں معراج کی رات میں موسیٰ (علیہ السلام) پر گزرا جو کھڑے ہوئے اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے سرخ ٹیلہ کے پاس۔ 27:۔ ابویعلی، ابن مردویہ، اور بیہقی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ معراج کی رات میں موسیٰ (علیہ السلام) پر گزرے وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے اور مجھ سے یہ بھی ذکر کیا کہ آپ کو ایک براق پر سوار کیا گیا اور فرمایا کہ میں نے گھوڑے (یعنی براق) کو باندھ دیا یا فرمایا اس جانور کو حلقہ سے باندھ دیا ابوبکر ؓ نے پوچھا یا رسول اللہ ! مجھے (بیت المقدس کی) شکل و صورت کو بیان کیجئے (آپ نے بیان فرمایا) تو ابوبکر صدیق نے فرمایا وہ ایسا تھا راوی نے کہا کہ ابوبکر ؓ نے اس کو دیکھا تھا۔
Top