Dure-Mansoor - Al-Israa : 23
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا١ؕ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا
وَقَضٰى : اور حکم فرمادیا رَبُّكَ : تیرا رب اَلَّا تَعْبُدُوْٓا : کہ نہ عبادت کرو اِلَّآ اِيَّاهُ : اس کے سوا وَبِالْوَالِدَيْنِ : اور ماں باپ سے اِحْسَانًا : حسن سلوک اِمَّا يَبْلُغَنَّ : اگر وہ پہنچ جائیں عِنْدَكَ : تیرے سامنے الْكِبَرَ : بڑھاپا اَحَدُهُمَآ : ان میں سے ایک اَوْ : یا كِلٰهُمَا : وہ دونوں فَلَا تَقُلْ : تو نہ کہہ لَّهُمَآ : انہیں اُفٍّ : اف وَّلَا تَنْهَرْهُمَا : اور نہ جھڑکو انہیں وَقُلْ : اور کہو لَّهُمَا : ان دونوں سے قَوْلًا : بات كَرِيْمًا : ادب کے ساتھ
اور آپ کے رب نے حکم دیا ہے کہ عبادت نہ کرو مگر اسی کی، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اے مخاطب اگر تیرے پاس ان دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف بھی نہ کہنا، اور ان کو مت جھڑکنا، اور ان سے اچھے طریقے سے بات کرنا۔
1:۔ فریابی، سعید بن منصور، ابن جریر، ابن منذر اور ابن انباری نے مصاحف میں سعید بن جبیر کے طریق سے ابن عباس ؓ نے (آیت) ” وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ “ کے بارے میں فرمایا کہ واو مل گیا صاد کے ساتھ حالانکہ تم اس کو پڑھتے ہو (آیت) ” وقضی ربک “ (اصل میں ووصی تھا) (ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) کے طریق سے ابن عباس ؓ سے اسی طرح روایت کیا) 2:۔ ابوعبید، ابن منیع، ابن منذر اور ابن مردویہ نے میمون بن مہران کے طریق سے ابن عباس ؓ سے فرمایا کہا اللہ تعالیٰ نے یہ حرف نازل فرمایا تمہارے نبی کریم ﷺ کی زبان پر (آیت) ” وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ “ نازل فرمائی دو واؤ میں سے ایک واؤ صاد کے ساتھ مل گئی مگر لوگوں نے یوں پڑھا (آیت) ” وقضی ربک “ اگر یہ قضی نازل ہوتا تو کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہ کرتا (کیونکہ اس کے فیصلے کو رد نہیں کیا جاسکتا) 3:۔ طبرانی نے اعمش (رح) سے روایت کیا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ یوں پڑھتے تھے (آیت) ” ووصی ربک الا تعبدوا الا ایاہ ‘ ‘ 4:۔ ابن جریر نے حبیب بن ابی ثابت (رح) سے روایت کیا کہ مجھے ابن عباس ؓ نے ایک مصحف عطا فرمایا اور فرمایا کہ یہ ابی بن کعب کی قرأۃ پر ہے میں نے اس میں لکھا ہوادیکھا (آیت) ” وقضی ربک “ 5:۔ عبدالرزاق اور ابن منذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ابن مسعود ؓ کے حرف میں یوں ہے (آیت) ” وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ ‘ ‘۔ 6:۔ ابوعبید، ابن جریر اور ابن منذر نے ضحاک بن مزاحم (رح) سے روایت کیا کہ وہ (آیت) ” وقضی ربک “ پڑھتے تھے اور فرمایا کہ انہوں نے دو واؤ میں سے ایک کو صاد کے ساتھ ملا دیا تو وہ قاف بن گیا۔ 7:۔ ابن جریر اور ابن منذر نے علی بن ابی طلحہ کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ “ یعنی امر (حکم کیا) 8:۔ ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ “ سے مراد ہے کہ تیرے رب نے وعدہ لیا ہے کہ تم خاص اسی کی عبادت کرو۔ 9:۔ ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وبالوالدین احسانا “ سے مراد ہے کہ اپنے والدین سے حسن سلوک کرو، 10:۔ ابن ابی حاتم ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” اما یبلغن عندک الکبر احدھما اوکلھما فلا تقل لھما اف “ سے مراد ہے کہ والدین سے پیشاب پاخانہ کو صاف کرتے تھے جیسا کہ وہ دونوں تمہارا پیشاب پاخانہ صاف کرتے تھے (جب تو چھوٹا سا بچہ تھا) ماں باپ کو تکلیف پہنچانا حرام ہے : 11:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے اس آیت ” فلا تقل لھما اف “ (کہ والدین کو) اس کے برابر کوئی ایسا کلمہ نہ کہو کہ جس سے ان کے دل کو رنج پہنچے۔ 12:۔ دیلمی نے حسن بن علی ؓ سے مرفوعا روایت کیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اف سے ادنی نافر مانی کا کوئی حکم جانتا تو اسے بھی حرام کردیتا۔ 13:۔ سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے عروہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقل لھما قولا کریما “ کہ ان سے کسی چیز کو نہ روکو جس کا والدین ارادہ کریں۔ 14:۔ عبدالرزاق نے مصنف میں حسن (رح) سے روایت کیا کہ ان سے سوال کیا گیا والدین کے حسن سلوک کے بارے میں تو انہوں نے فرمایا کہ تو ان کے لئے ہر چیز کو خرچ کردے جس کا تو مالک ہے اور تو انکی اطاعت کر ان کاموں میں جن کا انہوں نے تجھ کو حکم دیا مگر یہ کہ اس میں گناہ یا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو تو پھر ان کی اطاعت نہ کرو۔ 15:۔ ابن ابی شیبہ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ نافرمانیاں کہاں ختم ہوتی ہیں ؟ فرمایا انسان والدین کو محروم کردے انکو چھوڑ دے اور ان کو تیزنظروں سے دیکھے۔ 16:۔ ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقل لھما قولا کریما “ سے مراد ہے کہ ان کو اس طرح سے پکارے اے اباجان اور امی جان اور ان کے ناموں کے ساتھ ان کو نہ پکارے۔ 17:۔ ابن مردویہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اس کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی بھی تھا آپ نے اس سے پوچھا تیرے ساتھ یہ کون آدمی ہے اس نے کہا میرا باپ ہے آپ نے فرمایا کہ اس کے آگے مت چل اور اس سے پہلے مت بیٹھ اور اس کو اسکے نام کے ساتھ نہ پکار اور اس کو گالی مت دلوا (یعنی تو کسی کے باپ کو گالی دے تو وہ پلٹ کر تیرے باپ کو گالی دے) 18۔ ابن ابی حاتم نے زہد بن محمد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقل لھما قولا کریما “ سے مراد ہے کہ وہ تجھ کو بلائیں تو یوں کہو، لبیک وسعدیک 19:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقل لھما قولا کریما “ سے مراد ہے کہ ان سے نرم لہجہ میں گفتگو کرو۔ ماں باپ سے نرم لہجہ میں اختیار کرنا ؛ 20:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابو الہداج تجیبی (رح) سے روایت کیا کہ میں سعید بن المسیب (رح) سے پوچھا قرآن مجید میں والدین کے حسن سلوک کے بارے میں جو ذکر ہے میں نے اس کو پہچان لیا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” وقل لھما قولا کریما “ سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ اپنے والدین کے ساتھ اس لہجہ میں بات کرو جو ایک مجرم غلام سخت دل اور بد مزاج آقا کے سامنے اختیار کرتا ہے۔ 21:۔ بخاری نے الادب المفر میں ابن جریر ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے عروہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ “ سے مراد ہے کہ تو والدین کے لئے نرم ہوجا یہاں تک کہ تو ان سے کسی ایسی چیز کو نہ روک دے جس چیز کو وہ پسند کریں۔ 22:۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا (آیت) ” واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ “ سے مراد ہے کہ اپنے والدین کے لئے اس طرح عاجزی اختیار کر جیسے کہ کوئی غلام اپنے سخت اور ترش خو آقا کے سامنے عاجزی اختیار کرتا ہے۔ 23:۔ ابن جریرابن منذر اور ابن ابی حاتم نے عطاء بن ابی رباح (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ “ سے مراد ہے کہ جب تو ان سے بات کرے تو اپنے ہاتھوں کو اوپر مت اٹھا۔ 24:۔ ابن ابی حاتم نے عروہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ “ سے مراد ہے اگر وہ دونوں تجھ سے کسی بات پر ناراض ہوں تو ان کی طرف ترچھی نگاہ سے نہ دیکھ کیونکہ سب سے پہلے آدمی کا غصہ پہچانا جاتا ہے تیز نظروں سے۔ 25:۔ ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب میں عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس شخص نے اپنے والد کے ساتھ حسن سلوک نہیں کیا جس نے اس کی طرف گھور کر دیکھا۔ 26:۔ ابن ابی حاتم نے زھیر بن محمد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ “ سے مراد ہے کہ اگر والدین تجھ کو برابھلا کہیں یا تجھ کو لعنت کریں تو ان کو یوں دعا دے اللہ تعالیٰ تم دونوں پر رحم کرے اور تم دونوں کو بخش دے۔ 27:۔ ابن جریر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس طرح پڑھا (آیت) ” واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ “ ذال کے کسرہ (زیر) کے ساتھ۔ عاصم جحدری سے اس طرح مروی ہے۔ 28:۔ بخاری نے الادب المفرد میں روایت کی ہے کہ ابو مرہ جو عقیل کے آزاد کردہ غلام تھے وہ فرماتے تھے کہ ابوہریرہ ؓ کی والدہ ایک گھر میں رہتی تھیں اور یہ خود دوسرے گھر میں رہتے تھے وہ (والدہ کے) دروازہ پر کھڑے ہو کر یوں فرماتے تھے اے میری ماں ! آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت ہو اور اس کی برکت ہو وہ کہتی تھیں اے میرے بیٹے تجھ پر بھی سلام ہو پھر وہ فرماتے تھے اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے جیسے آپ نے مجھے بچپن میں پالا تو والدہ کہتی تھیں اللہ تعالیٰ تجھ پر رحمت فرمائے جیسے تو نے بڑے ہو کر میرے ساتھ حسن سلوک کیا۔ 29:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے علی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقل رب ارحمھما کما ربینی صغیرا “ کے بارے میں فرمایا کہ اس آیت کو سورة برأت کی اس آیت ” ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین ولو کانوا اولی قربی “ توبہ آیت نمبر 113 نے منسوخ فرما دیا۔ 30:۔ بخاری نے الادب المفرد میں اور ابوداود، ابن جریر اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” اما یبلغن عندک الکبر “ سے لے کر (آیت) ” کما ربینی صغیرا “ تک کے بارے میں روایت کیا کہ اس کو منسوخ کردیا ہے اس آیت نے جو سورة برأۃ میں ہے (آیت) ” ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین “۔ مشرک والدین سے بھی حسن سلوک کرے : 31:۔ ابن منذر، نحاس اور ابن الانباری نے مصاحف میں قتادہ قتادہ (رح) سے روایت کیا کہا ایک حرف اس آیت میں منسوخ کردیا گیا کسی مسلمان کو یہ نہیں چاہئے کہ وہ والدین کے لئے استغفار کرے جب کہ وہ مشرک ہوں اور (ان کے لئے) یوں نہ کہے (آیت) ” وقل رب ارحمھما کما ربینی صغیرا “ لیکن ان کے لئے عاجزی اور تواضع کا اظہار کرو اور ان سے نرم لہجے میں بات کرے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین “۔ 32:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ربکم اعلم بما فی نفوسکم “ (یعنی تمہارا رب خوب جانتا ہے) جو بیٹے کے دل میں والد کے متعلق سرد مہری ہوتی ہے پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ان تکونوا صلحین “ یعنی اگر ان کے ساتھ حسن سلوک کی سچی نیت ہوگی (تو اللہ تعالیٰ اس کو بھی جانتے ہیں) (آیت) ” فانہ کان للاوابین غفورا “ یعنی اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردے گا جو سرد مہری دل میں پیدا ہوئی۔ 33:۔ ابن ابی الدنیا بیہقی نے شعب میں سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ (آیت) ” فانہ کان للاوابین غفورا “ سے مراد ہے (غلطی کے بعد) رجوع کرنے والے خیر کی طرف۔ 34:۔ سعید بن منصور، ھناد بن ابی حاتم اور بیہقی نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فانہ کان للاوابین غفورا “ سے مراد ہے رجوع کرنے والے گناہ سے توبہ کی طرف اور برائیوں سے نیکوں کی طرف۔ 35:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فانہ کان للاوابین غفورا “ سے مراد ہے کہ اطاعت کرنے والے اور احسان کرنے والے۔ 36:۔ ابن منذر ابن ابی حاتم اور بیہقی نے شعب میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” للاوابین “ سے مراد ہے توبہ کرنے والے۔ 37:۔ سعید بن منصور اور ابن منذر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ” الاواب “ سے مراد ہے توبہ کرنے والا۔ 38:۔ ابن ابی شیبہ، احمد، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ میں نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ کون سا عمل اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے ؟ آپ نے فرمایا نماز اپنے وقت پر ادا کرنا پھر میں نے پوچھا اس کے بعد (کون سا عمل افضل ہے) فرمایا والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا پھر میں نے پوچھا اس کے بعد (کون سا عمل افضل ہے) فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ 39:۔ بخاری نے الادب المفرد میں عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ اللہ کی رضا مندی والد کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔ 40:۔ احمد، بخاری نے الادب المفرد میں ابوداود، ترمذی، حاکم اور بیہقی نے شعب میں (ترمذی نے تحسین اور حاکم نے تصحیح بھی کی ہے) بھزبن حکیم (رح) سے اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ کس کے ساتھ حسن سلوک کروں ؟ فرمایا اپنی ماں کے ساتھ (پھر) میں نے پوچھا اس کے بعد کس کے ساتھ حسن سلوک کروں ؟ فرمایا اپنی ماں کے ساتھ (پھر) میں نے پوچھا اس کے بعد کس کے ساتھ حسن سلوک کروں ؟ فرمایا اپنی ماں کے ساتھ (پھر) میں نے پوچھا اس کے بعد کس کے ساتھ حسن سلوک کروں ؟ فرمایا اپنے باپ کے ساتھ پھر جو زیادہ قریبی ہو۔ 41:۔ بخاری نے الادب المفرد میں میں اور بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام دیا اس نے مجھ سے نکاح کرنے سے انکار کردیا پھر اس کو میرے علاوہ ایک اور آدمی نے نکاح کا پیغام دیا تو اس نے اس آدمی کے ساتھ نکاح کرنے کو پسند کیا میں اس عورت پر غیرت کھاتے ہوئے اسے قتل کردیا کیا میرے لئے توبہ ہے ؟ انہوں نے فرمایا کیا تیری ماں زندہ ہے ؟ میں نے کہا نہیں پھر انہوں نے فرمایا اللہ کی طرف توبہ کر اور جتنا ہو سکے اس کی طرف قربت حاصل کر۔ راوی نے کہا میں چلا گیا پھر میں نے (کچھ دنوں بعد) ابن عباس ؓ سے پوچھا تو انہوں نے میری ماں کے زندہ ہونے کے بارے میں کیوں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ والدہ کی ساتھ حسن سلوک کونے سے بڑھ کر کوئی عمل اللہ کی طرف زیادہ قریب نہیں جانتا۔ 42:۔ ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، ابن ماجہ، اور بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ہے کہ ایک آدمی اللہ کے نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ آپ مجھے کس عمل کا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کا پھر اس نے اپنا سوال دھرایا تو آپ فرمایا کہ اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کر پھر اس نے اپنا سوال دھرایا تو آپ نے فرمایا کہ اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کر پھر اس نے اپنا سول چوتھی مرتبہ دھرایا تو آپ نے فرمایا کہ اپنے باپ کے ساتھ حسن سلوک کر۔ 43:۔ بخاری نے الادب المفرد میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جس مسلمان کے والدین زندہ ہوں اور وہ ان کے ساتھ بھلائی (یعنی نیک سلوک) کرتے ہوئے صبح کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں سے دو دروازے کھول دیتا ہے اور اگر ایک زندہ ہو اور وہ اس کے ساتھ حسن سلوک کرئے تو ایک دروازہ کھول دیتے ہیں اور اگر ان میں سے ایک کو ناراض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی نہیں ہوتے حتی کہ والدین میں سے جو ناراض تھا وہ راضی ہوجائے پوچھا گیا اگرچہ والدین نے اس پر ظلم کیا ہو ؟ فرمایا ہاں اگرچہ انہوں نے ظلم کیا ہو (پھر بھی ان کو راضی رکھنا ضروری ہے ) ۔ 44:۔ ابن ابی شیبہ، بخاری مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن منذر اور بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کوئی لڑکا اپنے والد کو اس سے زیادہ (بہترین) بدلہ نہیں دے سکتا مگر یہ کہ اس کو (کسی کا) غلام پائے تو اس کو خرید کر آزاد کردے۔ 45:۔ عبدالرزاق نے مصنف میں بخاری نے ادب میں حاکم نے اور بیہقی (حاکم نے تصحیح بھی کی) عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آکر ہجرت پر بیعت کررہا تھا اور اپنے والدین کو روتے ہوئے چھوڑ آیا تھا آپ نے فرمایا تو ان کے پاس واپس جا اور ان کو خوش کر جیسے تو نے ان کو رلایا ہے۔ 46:۔ عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ، بخاری اور مسلم نے عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس جہاد کا ارادہ لے کر آیا آپ نے اس سے پوچھا کیا تیرے والدین ہیں ؟ اس نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا ان دونوں کی خدمت میں پوری کوشش کر (یعنی تیرا جہاد یہی ہے کہ تو ان کی خدمت کر) 47:۔ بخاری نے الادب میں مسلم اور بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اس کی ناک مٹی سے ملے (یعنی وہ رسوا ہو) (تین مرتبہ فرمایا) صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ کس کی ناک مٹی میں ملے ؟ فرمایا جس شخص نے اپنے والدین کو یا ان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا (اور ان کی خدمت نہ کی) اور پھر بھی آگ میں داخل ہوا۔ 48:۔ بخاری نے ادب میں حاکم اور بیہقی نے شعب الایمان میں معاذ بن انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اپنے والدین کی خدمت کی اس کے لئے خوشخبری ہے اللہ تعالیٰ اس کی عمر زیادہ کردیں گے۔ 49:۔ عبدالرزاق نے مصنف میں بخاری نے ادب میں اور بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے دو آدمیوں کو دیکھا ان میں سے ایک سے پوچھا یہ دوسرا آدمی تیرا کیا لگتا ہے ؟ اس نے کہا میرا باپ ہے تو انہوں نے فرمایا اس کو اس کے نام سے نہ پکارا کرو اور دوسرے لفظوں میں یوں ہے کہ اس کو اس کے نام سے نہ بلایا کرو اس کے آگے مت چلو اور اس سے پہلے مت بیٹھو یہاں تک کہ وہ بیٹھ جائے اور اس کو گالیاں مت دلواؤ۔ 50:۔ حاکم نے اور بیہقی (حاکم نے تصحیح بھی کی ہے) عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کی رضا والدین کی رضا میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔ 51:۔ سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، احمد نسائی، ابن ماجہ، حاکم اور بیہقی نے (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) معاویہ بن جابر (رح) سے روایت کیا ہے کہ کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس جہاد کے بارے میں مشورہ طلب کرنے آیا آپ نے پوچھا کیا والدہ زندہ ہے ؟ میں نے عرض کیا ہاں پھر فرمایا تو چلا جا اور اس کی خدمت کر کیونکہ جنت اس کے قدموں کے پاس ہے۔ 52:۔ عبدالرزاق نے طلحہ ؓ سے روایت کیا کہ کہا ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہوں میں آپ کے پاس آپ سے مشورہ لینے آیا ہوں آپ نے پوچھا کیا تیری ماں ہے ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا اس کی خدمت کو لازم پکڑ کیونکہ جنت اس کے پاوں کے پاس ہے اس نے دوسری اور تیسری بار عرض کیا تو آپ ﷺ نے وہی جواب دیا۔ ماں کے ساتھ حسن سلوک جہاد ہے : 53:۔ ابن مردویہ اور بیہقی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا میں جہاد کی خواہش رکھتا ہوں لیکن اس پر قادر نہیں ہوں آپ نے پوچھا کیا تیرے والدین میں سے کوئی باقی ہے ؟ اس نے کہا میری ماں زندہ ہے آپ نے فرمایا اس کے بارے میں اللہ سے ڈر اس کے حقوق ادا کرے گا پھر تو حج کرنے والا عمرہ کرنے والا اور جہاد کرنے والا شمار ہوگا جب تجھ کو تیری ماں بلائے تو اللہ سے ڈر اور اس سے حسن سلوک کر۔ 54:۔ بیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تیرا نیند کرنا چارپائی پر اپنے والدین کے درمیان اس طرح پر کہ تو ان کو ہنسائے اور وہ دونوں تجھ کو ہنسائیں تو تیرا یہ عمل تیرے تلوار کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے افضل ہے۔ 55:۔ ابن ابی شیبہ، حاکم اور بیہقی نے خداش بن سلامہ (رح) سے روایت کیا کہ میں کسی شخص کو اس کی ماں کے بارے میں تین مرتبہ حسن سلوک کا حکم دیتا ہوں اور دو مرتبہ اپنے باپ سے حسن سلوک کا حکم دیتا ہوں اور انسان کو اپنے قریبی (یعنی ساتھی سے حسن سلوک کا حکم دیتا ہوں اگرچہ اس کی طرف سے اس کو تکلیف پہنچتی ہو۔ 56ـ:۔ ابن ابی شیبہ، حاکم اور بیہقی نے (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) ابودرداء ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ والد جنت کے دروازوں میں درمیانی دروازہ ہے پس تو اسی دروازہ کی حفاظت کر یا اس کو ضائع کردے (یہ تیری مرضی ہے) 57ـ:۔ بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ میں (خواب میں) جنت کو دیکھا اس درمیان کہ میں اس میں تھا اچانک میں نے ایک آدمی کے قرآن پڑھنے کی آواز سنی میں نے پوچھا یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا حارثہ بن نعمان ؓ ہے اسی طرح (والدہ سے) حسن سلوک کا اجر ملتا ہے۔ 58:۔ حاکم اور بیہقی نے (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں سوگیا تو میں نے خواب میں اپنے آپ کو جنت میں دیکھا اور ایک پڑھنے والے کو سنا کہ وہ قرآن پڑھ رہا ہے میں نے پوچھا یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ حارثہ بن نعمان ؓ ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسی طرح والدہ سے حسن سلوک کا اجر ملتا ہے اور فرمایا حضرت حارثہ اپنی ماں کے ساتھ بہت حسن سلوک کرنے والا تھا۔ 59:۔ بیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی گزرا جو بہت بڑا جسیم تھا لوگوں نے کہا کاش یہ اللہ کے راستے میں جہاد کرتا (تو کیا ہی اچھا ہوتا) نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا شاید کہ یہ محنت کرتا ہوا اپنے بوڑھے والدین کے لئے پس یہ اللہ کے راستہ میں ہے شاید کہ اپنے چھوٹے بچوں کے لئے محنت کرتاہو پس یہ اللہ کے راستہ میں ہے شاید کے یہ اپنی ذات کے لئے محنت کرتا ہوتا کہ وہ لوگوں سے بےپرواہ ہوجائے پس یہ اللہ کے راستہ میں ہے۔ 60:۔ بیہقی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر کو لمبا کردیں اور اس کے رزق کو زیادہ کردیں تو اس کو چاہئے کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ 61:۔ بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو نیک بیٹا اپنے والدین کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر نظر کے بدلے میں ایک حج مقبول کا ثواب عطا فرماتے ہیں صحابہ ؓ نے عرض کیا اگر وہ ہر دن سو مرتبہ دیکھے فرمایا ہاں اللہ ہر چیز سے بڑا اور پاک ہے۔ 62:۔ بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب لڑکا اپنے والد کو دیکھتا ہے اور خوش ہوتا ہے تو لڑکے کے لئے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ہوگا پوچھا گیا یا رسول اللہ ﷺ اگر وہ لڑکا تین سو ساٹھ مرتبہ بھی دیکھے فرمایا اللہ تعالیٰ اس سے بڑے ہیں (یعنی اس سے بھی زیادہ ثواب دینے پر قادر ہیں) 63:۔ بیہقی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ والد کی طرف دیکھنا عبادت ہے کعبہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے مصحف کی طرف دیکھنا عبادت ہے اپنے بھائی کی طرف دیکھنا عبادت ہے اس سے اللہ کے لئے محبت کرتے ہوئے۔ 64:۔ بیہقی نے (آپ نے ضعیف بھی کہا) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اپنی ماں کی آنکھوں کے درمیان بوسہ لیا تو یہ عمل اس کے لئے آگ سے حجاب ہوگا۔ 65:۔ حاکم اور بیہقی نے (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا یارسول اللہ ﷺ میں نے بڑا گناہ کیا کیا میرے لئے توبہ ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تیرے والدین (زندہ) ہیں اس نے کہا نہیں فرمایا کیا تیری خالہ (زندہ) ہے اس نے کہا ہاں فرمایا اس کے ساتھ حسن سلوک کر۔ 66ـ:۔ بیہقی نے ام ایمن ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ اپنے بعض گھروالوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا اگرچہ مجھے عذاب دیا جائے یا تجھ کو جلا دیا جائے اور اپنے رب کی اطاعت کر اور اپنے والدین کی اطاعت کر اگرچہ وہ تجھ کو حکم دیں کہ تو ہر چیز سے نکل جاتو (ان کا حکم مانتے ہوئے) نکل جا اور جان بوجھ کر نماز نہ چھوڑنا کیونکہ جو شخص جان بوجھ کر نماز کو چھوڑتا ہے تو اس سے اللہ کا ذمہ بری ہوجاتا ہے اور شراب سے بچ کیونکہ یہ ہر برائی کی چابی ہے اور گناہ سے بچ کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ غصہ ہوتے ہیں اور اپنے اہل و عیال کے کسی معاملہ میں باہم جھگڑا نہ کرنا اگرچہ تجھے معلوم ہو کہ تو حق پر ہے اور میدان سے نہ بھاگنا اگرچہ لوگوں کو موت پہنچ جائے اور تو ان کے درمیان ہو تو ثابت قدم رہنا اور اپنے اہل و عیال پر اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرتا رہے اور اپنی لاٹھی کو ان سے نہ ہٹانا۔ (یعنی ان کو تنبیہ کرتا رہنا) اور ان کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں خوف دلا تا رہے۔ 67ـ:۔ احمد، بخاری نے ادب میں ابوداود، ابن ماجہ، حاکم اور بیہقی نے (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) ابو اسید ساعدی ؓ سے روایت کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے پاس تھے ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا میرے والدین کے مرنے کے بعد مجھ پر حسن سلوک میں کوئی صورت باقی ہے کہ میں ان سے حسن سلوک کروں آپ نے فرمایا ہاں چار چیزیں (باقی رہ جاتی ہیں) ان کے لئے دعا کرنا ان کے لئے استغفار کرنا اور ان کے عہد کو پورا کرنا ان کے دوستوں کا اکرام کرنا اور (رشتہ داروں سے) صلہ رحمی (کامعاملہ) کرنا کیونکہ تیری رشتہ داری ان کی طرف سے ہے۔ 68:۔ بخاری نے ادب میں مسلم، ابوداود، ترمذی، ابن حبان، اور بیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ ایک آدمی اپنے والد کے مرنے کے بعد اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ 69:۔ بخاری نے ادب میں عبداللہ بن سلام ؓ سے روایت کیا کہ اس ذات کی قسم جس نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا کہ یہ بات اللہ کی کتاب میں موجود ہے کہ اس شخص سے قطع تعلق نہ کر کہ جس کے ساتھ تیرے باپ نے تعلق جوڑا ہے ورنہ تیرا نور اس عمل سے بجھ جائے گا۔ 70:۔ حاکم اور بیہقی نے محمد بن طلحہ کے طریق سے عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ سے روایت کیا کہ ابوبکر صدیق ؓ نے عرب میں سے ایک ساتھی سے فرمایا جو آپ کے پاس بیٹھا کرتا تھا جس کا نام عفیر تھا فرمایا اے عفیر تو نے نبی کریم ﷺ کہ (کسی سے) محبت کرنے کے بارے میں کیسے سنا ؟ تو اس نے کہا کہ میں آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ محبت میں بھی ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں۔ 71:۔ ابن ابی شیبہ، بخاری حاکم اور بیہقی نے ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا زنا سے پیدا ہونے والا لڑکا شراب کا عادی اور احسان جتانے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔ 72:۔ عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ، نسائی اور بیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جنت میں داخل نہ ہوگا اپنے والدین کی نافرمانی کرنے والا احسان جتانے والا زنا کی اولاد شراب کا عادی، رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والا اور جو کسی محرم عورت سے زنا کرے۔ 73:۔ بیہقی نے (آپ نے ضعیف بھی کہا ہے) طلق بن علی ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر میں اپنے والدین میں دونوں یا ان میں سے ایک کو پاوں (کہ مجھے بلا رہے ہیں) اور میں عشاء کی نماز میں سورة فاتحہ پڑھ چکا ہوں اور مجھے آواز دی اے محمد تو میں ان کو لبیک کے ساتھ جواب دوں۔ 74:۔ بیہقی نے (اور ضعیف بھی کہا ہے) لیث بن سعد کے طریق سے یزید بن حوشب فہری (رح) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر جریج راہب فقیہ اور عالم ہوتا تو اس بات جان لیتا کہ ماں کو جواب دینا اس کے رب کی عبادت سے افضل ہے۔ 75:۔ بیہقی نے مکحول (رح) سے روایت کیا کہ جب تجھ کو والدہ اس حال میں بلائیں کہ تو نماز پڑھ رہا ہو تو اس کو جواب دے اور اگر تجھ کو تیرے والد بلائیں تو اسے جواب نہ دے یہاں تک کہ تو اپنی نماز سے فارغ ہوجائے۔ 76ـ:۔ ابن ابی شیبہ نے محمد بن المنکدر (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تجھ کو تیری ماں نماز میں بلائے تو اس کی بات کا جواب دو اور جب تجھ کو تیرا باپ (نماز کی حالت میں) بلائے تو جواب نہ دو ۔ 77ـ:۔ احمد اور بیہقی نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اپنے والدین کو یا ان میں سے ایک کو پایا اس کے بعد پھر بھی وہ (ان کی نافرمانی کی وجہ سے) آگ میں داخل ہوا تو اللہ تعالیٰ اس کو (اپنی رحمت سے) بہت دور کردیں گے۔ 78:۔ احمد اور بیہقی نے سہل بن معاذ (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بندوں میں سے کچھ بندے ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ ان سے بات کریں گے اور نہ ان کی طرف دیکھیں گے اور نہ ان کو (گناہوں سے) پاک کریں گے پوچھا گیا یا رسول اللہ ﷺ یہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا اپنے والدین سے برأت کا اظہار کرنے والا (یعنی ان سے لاتعلق ہونے والا) اور ان سے بےرغبت ہونے والے اور برأت کا اظہار کرنے والا وہ شخص جس پر کسی قوم نے احسان کیا ہو پھر اس نے ان کی نعمتوں کی ناشکری کی اور ان سے بری (یعنی لاتعلق) ہوگیا۔ 79:۔ بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن لوگوں میں سخت عذاب والا وہ ہوگا جس نے کسی نبی کو قتل کیا ہو اور اس کو کسی نبی نے قتل کیا ہو یا اس نے والدین میں سے کسی ایک کو قتل کیا ہو اور تصویر بنانے والے اور وہ عالم کہ جس کے علم سے نفع نہ اٹھایا گیا ہو۔ 80:۔ حاکم، بیہقی، طبرانی، خرائطی نے مساوی الاخلاق میں (حاکم نے اس کو صحیح کہا اور ذہبی نے حاکم کی موافقت کی) بکاربن عبدالعزیز بن ابی بکر (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے باپ دادا ابوبکرہ سے روایت کرتے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہر گناہ کی سزا اللہ تعالیٰ موخر فرمادیتے ہیں جس کو چاہتے ہیں قیامت کے دن تک سوائے والدین کی نافرمانی کے کیونکہ اس کی سزا اللہ تعالیٰ موت سے پہلے زندگی میں ہی اس کو دے دیتے ہیں۔ جس نے ریاکاری کی تو اللہ تعالیٰ اس کی ریا کاری (قیامت کے دن) لوگوں کے سامنے ظاہر کرے گا اور جو شخص شہرت کی خاطر عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی شہرت کرے گا (یعنی قیامت کے دن رسوا کرے گا) 81:۔ عبدالرزاق نے مصنف میں اور بیہقی نے طاوس (رح) سے روایت کیا کہ سنت طریقہ میں سے یہ ہے کہ چار آدمیوں کی عزت کر بوڑھا آدمی اور بادشاہ اور والد اور کہا کہ بےمروتی میں سے یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کو اس کے نام سے پکارے۔ 82:۔ عبدالرزاق اور بیہقی نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ ان سے عقوق کے بارے میں پوچھا گیا کیا تم اس کو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں پاتے ہو عقوق الوالدین کے بارے میں فرمایا جب وہ اس پر قسم کھائے تو اس کو پورا نہ کرے جب وہ سوال کرے تو وہ اس کو نہ دے اور جب والدین اس کو امین بنائیں تو خیانت کرے یہ والدین کی نافرمانی ہے۔ 83:۔ بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین آدمیوں کی دعا قبول ہوتی ہے باپ کی بیٹے کے خلاف دعامظلوم کی بددعا، اور مسافر کی دعا۔ 84:۔ ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے محمد بن نعمان سے روایت کیا کہ وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جو شخص اپنے والدین کی قبر یا ان میں سے کسی ایک کی قبر کی ہر جمعہ زیارت کرے اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے اور فرمانبردار لکھ دیا جائے گا۔ 85:۔ بیہقی نے محمد بن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک آدمی کے والدین اس حال میں مرجاتے ہیں کہ وہ ان کا نافرمان تھا تو ان کے (مرنے کے بعد) ان کے لئے دعا کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کو فرمانبرداروں میں سے لکھ دیں گے۔ 86ـ:۔ بیہقی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی بندے کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک اس حال میں مرجاتے ہیں کہ وہ ان کا نافرمان ہوتا ہے تو ان کے (مرنے کے بعد) برابر ان کے لئے دعا اور استغفار کرتا رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو فرمانبردار لکھ دیں گے۔ 87ـ:۔ بیہقی نے اوزاعی (رح) سے فرمایا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ جس شخص نے اپنے والدین کی ان کی زندگی میں نافرمانی کی پھر ان کا قرضہ ادا کیا جو ان پر تھا اور ان کے لئے بخشش کی دعا کی اور ان کو برا بھلا نہیں کہا تو اللہ تعالیٰ اس کو فرمانبردار لکھ دیتے ہیں اور جس شخص نے اپنے والدین کی ان کی زندگی میں فرمانبرداری کی پھر ان کا قرضہ ادا نہیں کیا جو ان پر تھا اور ان کے لئے بخشش کی دعا نہیں کی اور ان کو برا بھلا کہا تو اس کو نافرمان لکھا جائے گا۔ 88:۔ ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ کے لئے اپنے والدین کا مطیع ہوتا ہے تو اس کے لئے دو دروازے جنت کے کھولے جاتے ہیں اور اگر (والدین میں سے) کسی ایک کا مطیع ہوتا ہے تو ایک دروازہ کھولا جاتا ہے اور جو شخص اپنے والدین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہوتا ہے اس کے لئے دو دروازے جہنم میں سے کھول دئیے جاتے ہیں اور اگر ایک کا نافرمان ہوتا ہے تو ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے ایک آدمی نے پوچھا اگرچہ والدین بیٹے پر ظلم کریں آپ نے فرمایا اگرچہ وہ ظلم بھی کریں (تین مرتبہ فرمایا) 89:۔ بیہقی نے المنکدر بن محمد بن المنکدر (رح) سے روایت کیا کہ میرا باپ چھت پر رات گذارتا تھا جبکہ اپنی والدہ کو آرام پہنچاتا تھا اور میرا چچا صبح تک نماز پڑھتا تھا میرے باپ نے اس سے کہا مجھے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ میری رات کا عمل تیری رات کے بدلے میں ہو۔ ماں کی خدمت نوافل سے افضل ہے : 90:۔ ابن سعد، احمد نے زہد میں اور بیہقی نے عبداللہ بن مبارک (رح) سے روایت کیا کہ محمد بن المنکدر نے فرمایا میرے بھائی عمر نے نماز پڑھتے ہوئے رات گذاری اور میں نے اپنی ماں کے پاوں دباتے ہوئے رات گذاری اور میں نہیں پسند کرتا کہ میری رات اس کی رات کے بدلے ہوجائے (یعنی نماز پڑھنے والے کی طرح) 91:۔ ابن سعد نے محمد بن المنکدر (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے رخسار زمین پر رکھتے ہوئے اپنی والدہ سے فرماتے تھے اے میری ماں ! کھڑی ہوجا اور اپنے پاوں مبارک میرے رخسار پر رکھ دے۔ 92:۔ عبدالرزاق نے منصف میں اور بیہقی نے طاوس (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی کے چار بیٹے تھے اور وہ بیمار ہوگیا ان میں ایک بیٹے نے کہا (اپنے بھائیوں سے) اگر تم والد کی تیمارداری کرو گے تمہارے لئے اس کی میراث میں سے کوئی حصہ نہ ہوگا اور اگر میں اس کی تیمارداری کروں گا تو میرے لئے بھی اس کی میراث میں سے کوئی حصہ نہ ہوگا بھائیوں نے کہا بلکہ تو اس کی تیمارداری کر اور تیرے لئے اس کی میراث میں سے کوئی حصہ نہ ہوگا اس بیٹے نے اپنے والد کی تیمارداری کی یہاں تک اس کا باپ مرگیا اور اس نے اپنے باپ کی میراث میں کچھ حصہ نہ لیا اس بیٹے نے خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص کہہ رہا ہے کہ فلاں جگہ جاؤ وہاں سے سودینار لے لو اس نے اپنی نیند میں پوچھا کیا اس میں برکت ہے ؟ کہا گیا نہیں صبح ہوئی تو اس نے اپنی بیوی سے یہ بات ذکر کی بیوی نے کہا وہ دینار لے لو کیونکہ اس کی برکت سے یہ ہوگا کہ تو کپڑا پہنے گا اور اس کے ذریعے اپنی معیشت درست کرے گا اس نے انکار کردیا جب اگلی رات ہوئی تو اسے خواب میں کہا گیا کہ فلاں جگہ جاؤ وہاں سے دس دنانیر لے لو اس نے پوچھا کیا اس میں برکت ہے ؟ کہا گیا نہیں صبح کو اس نے یہ خواب اپنی بیوی کو سنایا بیوی نے پھر اسی طرح کہا ( کہ ان کو لے لو) اس نے وہ دینار لینے سے انکار کردیا پھر تیسری رات اس نے خواب دیکھا تو اس سے کہا گیا کہ فلاں جگہ جاؤ اور ایک دینار لے لو اس نے پوچھا کیا اس میں برکت ہے کہا ہاں وہ گیا اور ایک دینار کو لے لیا پھر وہ اس کو لے کر بازار کی طرف نکلا ایک آدمی سے ملا جو دو مچھلیاں اٹھائے ہوئے تھا پوچھا یہ کتنے کی ہیں اس نے کہا ایک دینار میں اس نے دونوں مچھلیاں ایک دینار کے بدلے میں لے لیں پھر ان کو لے کر چلا جب اپنے گھر میں داخل ہوا دونوں مچھلیوں کا پیٹ چیرا ان میں سے ایک کے پیٹ میں ایک ایسا موتی کو پایا جو لوگوں نے اس طرح نہ دیکھا تھا بادشاہ نے ایسا خوبصورت موتی خریدنے کے لئے آدمی بھیجے تو وہ موتی صرف اس شخص کے پاس ہی پایا گیا اس نے اس (موتی) کو تیس خچر سونے کے بدلہ میں فروخت کردیا جب اس کو بادشاہ نے دیکھا تو کہا کہ یہ اکیلا موتی اچھا نہیں لگے گا یہ جوڑا ہونا چاہئے اس نے دوسرا موتی تلاش کرنے کا حکم دیا اگرچہ تمہیں دوگنی رقم دینی پڑے وہ آئے اور انہوں نے فرمائش کی کیا تیرے پاس اس جیسا اور موتی ہے ؟ ہم تجھے اس سے دگنی رقم دیں گے جو ہم نے پہلے تجھ کو دی اس نے پوچھا کیا تم واقعی دگنی قیمت دو گے ؟ انہوں نے کہا ہاں پس انہوں نے دگنی قیمت دے کر وہ موتی لے لیا۔ ماں کی خدمت کی وجہ سے ایک عورت کی نجات : 93:۔ عبدالرزاق نے مصنف میں اور بیہقی نے یحی بن ابی کثیر (رح) سے روایت کیا کہ جب ابوموسی اور ابوعامر ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے آپ سے بیعت کی اور مسلمان ہوگئے آپ نے پوچھا تم میں سے فلاں عورت کون ہے ؟ جس کو اس کے نام سے پکارا جاتا ہے انہوں نے عرض کیا اس کو ہم اپنے گھر چھوڑ آئے ہیں آپ نے فرمایا اس کو بخش دیا گیا ہے انہوں نے کہا یارسول اللہ ﷺ کس لئے ؟ آپ نے فرمایا اس نے اپنی ماں کی ساتھ جو اچھا سلوک کیا ہے اس کی وجہ سے اس کی بخشش کردی گئی فرمایا اس کی ایک بوڑھی والدہ تھی اس کے پاس ڈرانے والا آیا اور بتایا کہ دشمن تم پر آج رات حملہ کرنا چاہتا ہے تم یہاں سے چلی جاؤ اور اپنی قوم کے بڑے گروہ کے ساتھ مل جاؤ لیکن اس عورت کے پاس کوئی سواری نہ تھی جو اس پر (اپنی ماں) کو سوار کرسکے اس عورت نے اپنی ماں کو اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا جب تھک جاتی تو اس کو اتار دیتی پھر اس نے اپنے پیٹ کو اپنی ماں کے پیٹ کے ساتھ ملا دیا اور اپنے پاوں اپنی ماں کے پاوں کے نیچے رکھ دیا سخت گرمی کی وجہ سے یہاں تک کہ وہ نجات پاگئی۔ 94:۔ بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اچانک ایک نوجوان نمودار ہوا ہم نے کہا کاش یہ نوجوان اپنی جوانی کو اور اپنی چستی کو اور اپنی قوت کو اللہ کے راستے میں خرچ کردیتا نبی کریم ﷺ نے ہماری بات کو سن لیا اور فرمایا صرف وہ شخص جہاد میں نہیں ہوتا جو جنگ کرتا ہے بلکہ جو اپنے والدین کی خدمت کی کوشش کرتا ہے وہ بھی اللہ کے راستے میں ہے اور جو اپنے اہل و عیال کے لئے محنت کرتا ہے تاکہ (لوگوں سے) بےنیاز ہوجائے وہ بھی اللہ کے راستے میں ہے۔ 95:۔ حاکم نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ عورت پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے ؟ (کہ اس کی خدمت کرے) آپ ﷺ نے فرمایا اس کے خاوند کا میں نے پھر عرض کیا مرد پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے ؟ آپ نے فرمایا اس کی ماں کا۔ 96ـ:۔ حاکم نے علی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اس شخص پر اللہ کی لعنت کرے جو غیر اللہ کے لئے ذبح کرے پھر اللہ کی لعنت ہے اس شخص پر جو اپنے مولی کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کرے اور اس شخص پر اللہ کی لعنت ہے جو زمین کے نشانات مٹائے۔ 97:۔ حاکم نے (حاکم نے اس کو صحیح اور ذہبی نے ضعیف کہا ہے) ابوہریرہ ؓ سے مرفوعا روایت کیا کہ تم لوگوں کی عورتوں سے پاک دامن رہو تمہاری عورتوں بھی پاک دامن رہیں گی اور اپنے ماں باپ سے حسن سلوک کرو تمہارے بیٹے بھی تم سے حسن سلوک کریں گے اور جس کے پاس اس کا بھائی آئے تو اسے اس کی بات قبول کرنی چاہئے چاہے وہ سچا ہو یا جھوٹا ہو اور اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو حوض کوثر پر نہیں آئے گا۔ 98:۔ حاکم نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے والدین سے اچھا حسن سلوک کرو ! 99:۔ احمد اور حاکم نے (حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا) ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ ایک شخص یمن سے رسول اللہ ﷺ کی طرف ہجرت کرکے آیا رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا تو نے شرک سے ہجرت کی لیکن جہاد باقی ہے۔ کہا یمن میں تیرا کوئی ہے ؟ اس نے کہا میرے ماں باپ ہیں پوچھا کیا انہوں نے تجھ کو اجازت دی ہے ؟ اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا لوٹ جا اور ان دونوں سے اجازت طلب کر اگر وہ تجھے اجازت دیں تو جہاد کرو ورنہ ان کی خدمت کر (یہی تیرا جہاد ہے) 100:۔ احمد نے زہد میں وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے سوال کیا اے میرے رب مجھے آپ کیا حکم فرماتے ہیں فرمایا کہ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ پھر پوچھا اس کے بعد میرے لئے کیا حکم ہے ؟ فرمایا اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک کر پھر پوچھا اور کس کے ساتھ اچھا سلوک کروں فرمایا اپنی والدہ کے ساتھ وھب (رح) نے فرمایا والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا عمر میں زیادتی کرتا ہے اور والدہ کے ساتھ نیکی کرنا اصل (یعنی نسب) اگاتی ہے۔ ماں باپ کو گالیاں سنانا بڑا جرم ہے : 101۔ احمد نے زہد میں عمرو بن میمون (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک آدمی کو عرش کے پاس دیکھا اور اس کے مقام اور مرتبہ پر رشک کیا اس کے بارے میں پوچھا تو فرشتوں نے کہا ہم آپ کو اس کے عمل کے بارے میں بتاتے ہیں کہ لوگوں پر حسد نہ کرتا تھا ان چیزوں کے بارے میں پر جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمائی ہیں اور چغلی نہ کھاتا تھا اور اپنے والدین کی نافرمانی نہ کرتا تھا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میرے رب کی قسم کون شخص اپنے والدین کی نافرمانی کرتا ہے ؟ فرمایا جو انکو گالیاں دلواتا ہے یہاں تک کہ ان کو گالی دی جاتی ہے۔ 102:۔ احمد، ترمذی نے اور ابن ماجہ (ترمذی نے صحیح بھی کہا ہے) ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ ان کے پاس ایک آدمی اور کہا کہ میری بیوی میرے چچا کی لڑکی ہے اور میں اس سے محبت کرتا ہوں اور میری والدہ مجھے حکم دے رہی ہیں کہ اس کو طلاق دے دو ابو درداء ؓ نے فرمایا نہ میں تجھ کو حکم دیتا ہوں کہ اس کو طلاق دو اور نہ میں تجھ کو حکم دیتا ہوں کہ اپنی والدہ کی نافرمانی کر لیکن میں تجھ کو ایک حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کو سنا ہے میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ والدہ جنت کے دروازوں میں سے درمیانی دروازہ ہے اگر تو چاہے تو اس کو پکڑ لے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے۔ 103:۔ ابن ابی شیبہ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ماں کے ساتھ حسن سلوک کا حق تین بار ہے اور باپ کا حق ایک بار ہے۔ 104:۔ احمد اور ابن ماجہ نے ابودرداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں داخل نہ ہوگا والدین کی نافرمانی کرنے والا شراب کا عادی اور تقدیر کو جھٹلانے والا۔ 105:۔ ابن ابی شیبہ نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا کافی ہوجاتا ہے جہاد سے (یعنی جہاد کے قائم مقام ہے) 106:۔ ابن ابی شیبہ نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ والد کا حق بیٹے پر کیا ہے ؟ اگر تو چھوڑ کے نکل جائے ان کے حکم سے اپنے اہل سے اور اپنے حال سے تو (پھر بھی) ان کا حق ادا نہیں کیا۔ 107:۔ ابن ابی شیبہ اور ھناد نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ کہ جب سائے مائل ہوجائیں اور روحوں کو آرام مل جائے اور تو اپنی ضرورتوں کو اللہ سے طلب کرو کیونکہ وہ اوابین کی گھڑی ہے پھر یہ آیت پڑھی (آیت) ” فانہ کان للاوابین غفورا “ 108:۔ ھناد نے سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فانہ کان للاوابین غفورا “ میں الاواب سے مراد ہے جو گناہ کرتا ہے پھر استغفار کرتا ہے پھر گناہ کرتا ہے پھر استغفار کرتا ہے پھر گناہ کرتا ہے پھر استغفار کرتا ہے۔ 109:۔ ھناد نے عبید بن عمیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فانہ کان للاوابین غفورا “ میں الاواب سے مراد ہے جو شخص اپنے گناہوں کو خلوت میں یاد کرتا ہے پھر ان سے استغفار (یعنی توبہ) کرتا ہے۔
Top