Dure-Mansoor - Al-Israa : 3
ذُرِّیَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا
ذُرِّيَّةَ : اولاد مَنْ : جو۔ جس حَمَلْنَا : ہم نے سوار کیا مَعَ نُوْحٍ : نوح کے ساتھ اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا عَبْدًا : بندہ شَكُوْرًا : شکر گزار
اے ان لوگوں کی نسل جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا، بیشک وہ شکر گزار بندہ تھے
28:۔ ابن مردویہ نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب مجھے آسمان کی طرف رات کو لے جایا گیا تو میں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے۔ 29:۔ طبرانی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گزرے اور وہ اپنی قبر میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔ 30:۔ ابن مردویہ نے ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب مجھے رات کو لے جایا گیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گزرا اور وہ اپنی قبر میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔ 31:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب نبی کریم ﷺ کو رات کو لے جایا گیا تو انبیاء (علیہم السلام) کے پاس سے گزرے جن کے ساتھ لوگوں کے گروہ تھے اور (بعض) کے ساتھ قوم تھی اور (بعض) کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا یہاں تک کہ آپ ایک سواداعظم (یعنی تعداد) کے پاس سے گزرے میں نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ کہا گیا یہ موسیٰ اور ان کی قوم ہے۔ لیکن آپ نے اپنے سر کو اٹھایا اور دیکھا تو ایک بڑی تعداد تھی جس نے اس جانب اور اس جانب کناروں کو بھر رکھا تھا۔ مجھ سے کہا گیا یہ لوگ اور ان کے علاوہ ( اور لوگ بھی) آپ کی امت میں سے ہیں (اور) ستر ہزار جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے فرمایا آپ اپنے حجرہ میں چلے گئے اور آپ نے ان کے بارے میں بتایا اور نہ صحابہ کرام نے سوال کیا کہنے والوں نے کہا ہم وہ (ہوں) گے (یعنی صحابہ کرام) اور کہنے والوں نے کہا کہ وہ ہمارے بیٹے ہیں جو اسلام میں پیدا ہوئے اور آپ باہر تشریف لائے اور فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو نہ داغ دیتے ہیں نہ فتنہ کرتے ہیں اور نہ بدشگونی لیتے ہیں۔ عکاشہ بن محض ؓ کھڑے ہوئے اور فرمایا میں ان میں سے ہوں ؟ یا رسول اللہ ﷺ ! آپ نے فرمایا تو ان میں سے ہے۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اس نے کہا میں بھی ان میں سے (ہوں) آپ نے فرمایا عکاشہ تم سے آگے بڑھ گیا۔ 32:۔ احمد، نسائی، بزار، طبرانی، ابن مردویہ اور بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب مجھے آسمانوں پر لے جایا گیا تو میں ایک خوشبو دار ہوا کے پاس سے گزرا۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ خوشبودار ہوا کیسی ہے ؟ انہوں نے فرمایا فرعون کی بیٹی کو کنگھی کرنے والی اور اس کی اولاد (کی خوشبو) ہے۔ وہ کنگھی کررہی تھی اس کے ہاتھ سے کنگھی گرپڑی۔ اس نے کہاں بسم اللہ فرعون کی بیٹی نے کہاں میرا باپ (اللہ ہے) ؟ عورت نے کہا نہیں بلکہ میرا رب، تیرا رب اور تیرے باپ کا رب ہے بیٹی نے کہا میرے باپ کے علاوہ تیرا کوئی اور رب ہے ؟ عورت نے کہاں بیٹی نے کہا میں اس بات کی خبر اپنے باپ کو کردوں عورت نے کہا ہاں اس نے خبر کردی فرعون نے اس کو بلوایا اور کہا میرے علاوہ کیا تیرا کوئی اور رب ہے ؟ عورت نے کہا ہاں میرا رب اور تیرا رب اللہ ہے جو آسمانوں میں ہے۔ اس نے تانبے کا ایک کڑھیا بنانے کا حکم دیا۔ پھر اس کو گرم کیا گیا پھر اس نے حکم دیا کہ اس عورت کو اور اس کی اولاد کو اس میں ڈال دو ۔ عورت نے کہا تیری طرف میری ایک حاجت ہے اس نے کہا کیا ہے ؟ عورت نے کہا کہ میری اور میری اولاد کی ہڈیوں کو جمع کرکے ان کو اکٹھائے دفن کردینا۔ اس نے کہا یہ ہمارے ہے کیونکہ ہم پر تیرا حق ہے۔ ان کو ایک ایک کرکے اس میں ڈال دیا گیا۔ یہاں تک کہ جب ان میں سے دودھ پیتے ہوئے بچے کو ڈالا گیا تو اس نے (ماں سے) کہا جلدی کر اے میری ماں ! اور پیچھے نہ ہٹ کیونکہ تو حق پر ہے۔ (پھر) اس عورت کو اور اس کی اولاد کو ڈال دیا گیا ابن عباس ؓ نے فرمایا چار آدمیوں نے بچے ہو کر بات کی اس (عورت کے) بچہ نے یوسف پر گواہی دینے والے، جریج والے نے اور عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے۔ 33:۔ ابن ماجہ اور ابن مردویہ نے ابی بن کعب ؓ اور ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس رات (آسمانوں پر) میں ایک عمدہ خوشبو کو پایا۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل ! یہ کیا ہے ؟ یہ وہ کنگھی کرنے والی عورت ہے اس کا خاوند ہے اور اس کا بیٹا ہے ؟ اس درمیان کہ وہ عورت فرعون کی بیٹی کو کنگھی کررہی تھی۔ اچانک کنگھی اس کے ہاتھ سے نیچے گرگئی عورت نے بےساختہ کہا کہ فرعون ہلاک ہوجائے اس نے اپنے باپ کو خبر دی۔ اس عورت کے دو بیٹے اور ایک شوہر تھا۔ ان کو (فرعون نے) بلوایا عورت اور اس کے شوہر سے بات چیت کی کہ وہ دونوں (میرے دین میں) لوٹ آئیں انہوں نے انکار کیا فرعون نے کہا میں تم دونوں کو قتل کردوں گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تیری طرف سے ہماری طرف احسان ہوگا۔ اگر تو ہم کو قتل کرے اور ایک کمرے میں ڈال دے اس نے ایسا ہی کیا۔ جب رسول اللہ ﷺ رات کو (آسمانوں پر) تشریف لے گئے تو آپ نے ایک عمدہ خوشبو محسوس کی تو آپ نے جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا تو انہوں نے آپ کو اس کی حقیقت بتائی۔ غیبت کرنے والوں کی وحشت ناک شکل و صورت : 34:۔ احمد اور ابوداود نے ا نس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب مجھے اوپر لے جایا گیا۔ ایک قوم کے پاس سے میں گزرا کہ جن کے ناخن تانبے کے تھے۔ اور وہ اس اسے اپنے چہروں اور سینوں کو کھرچ رہے تھے۔ میں نے کہا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کون ہیں ؟ فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں۔ اور ان کی عزتوں کے پیچھے پڑتے ہیں۔ 35:۔ ابن مردویہ نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس رات مجھ کو اوپر لے جایا گیا میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا کہ انکے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے۔ جب بھی کاٹے جاتے تھے وہ اس طرح ہوجاتے جیسے تھے، میں پوچھا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کون ہیں ؟ فرمایا یہ آپ کی امت کے ہو خطیب ہیں جو کہتے تھے خود اس پر (عمل) نہیں کرتے تھے۔ 36:۔ ابن مردویہ نے سمرہ بن جندب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس رات مجھ کو لے جایا گیا میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو نہر میں تیر رہا تھا اور نگل رہا تھا۔ میں نے اس کے بارے میں پوچھا مجھے کہا گیا یہ سود کھانے والا ہے۔ 37:۔ ترمذی، بزار، حاکم، ابن مردویہ اور ابو نعیم نے دلائل میں (حاکم نے تصیح بھی کی ہے) بریدہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب مجھے رات کو لے جایا گیا تھا۔ جبرائیل اس صخرہ (یعنی چٹان) کے پاس آئے جو بیت المقدس میں ہے۔ انہوں نے اس میں اپنی انگلی رکھی اور اس میں سوراخ کیا اور اس کے ساتھ براق کو باندھ دیا۔ 38:۔ طبرانی اور ابن مردویہ نے صہیب بن سنان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو معراج کی رات پانی پیش کیا گیا۔ پھر شراب پھر دودھ تو آپ نے ﷺ نے دودھ کو لے لیا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا آپ نے فطرت کو پایا ہے اور اسی کے ذریعے ہر جانور کو غذا دی جاتی ہے۔ اگر آپ شراب کو لے لیتے تو آپ بھٹک جاتے اور آپ کی امت بھی بھٹک جاتی (یعنی راہ راست سے ہٹ جاتی) اور آپ ان لوگوں میں سے ہوتے۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے اس وادی کی طرف اشارہ کیا جس کو وادی جہنم کیا جاتا ہے۔ آپ نے اس کی طرف دیکھا تو اچانک وہ آگ شعلے مار رہی تھی۔ 39:۔ احمد اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس رات مجھ کو لے جایا گیا میں نے بیت المقدس میں اپنے قدم وہاں رکھے جہاں انبیاء نے اپنے قدم رکھے تھے مجھ پر عیسیٰ (علیہ السلام) پیش کئے گئے۔ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ عروہ بن مسعود ثقفی کے مشابہ تھے۔ اور مجھ پر موسیٰ (علیہ السلام) کو پیش کیے گئے جو گھنگھریالے بالوں والے مردوں میں سے ایک مرد تھے۔ اور مجھ پر ابراہیم (علیہ السلام) پیش کیے گئے۔ اور وہ لوگوں میں سب سے زیادہ تمہارے ساتھی (یعنی محمد ﷺ کے مشابہ تھے۔ 40:۔ بخاری، مسلم اور ابراہیم ابن جریر نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب مجھے آسمانوں پر لے جایا گیا۔ میں موسیٰ (علیہ السلام) سے ملا۔ ان کی تعریف یہ ہے کہ وہ کم گوشت اور لمبے آدمی تھے اور ان کے سر کے بال نہ بالکل سیدھے تھے نہ گھنگھریالے تھے۔ گویا کہ وہ شنوأہ قبیلہ کے لوگوں میں سے تھے اور میں عیسیٰ (علیہ السلام) سے ملا۔ ان کی تعریف یہ ہے کہ وہ درمیانے قد کے سرخ رنگ کے آدمی تھے گویا کہ وہ کسی سرنگ سے نکلے ہیں۔ اور میں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھا اور ان کے کی اولاد میں سے میں ان کے زیادہ مشابہ ہوں۔ اور میرے لئے پاس دو برتن لائے گئے۔ اور ان میں سے ایک میں دودھ تھا اور دوسرے میں شراب تھی۔ مجھ سے کہا گیا کہ ان میں سے جس کو چاہو لے لو۔ میں نے دودھ کو لیا اور اس کو پی لیا۔ مجھ سے کہا گیا کہ آپ کو فطرت کی ہدایت دی گئی ہے۔ اور اگر شراب کو لے لیتے تو آپکی امت گمراہ ہوجاتی۔ 41:۔ مسلم، نسائی اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو نے مجھ کو حجر (مقام) میں دیکھا ہے اور قریش مجھ سے اس کے کو اڑھوں کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ اور مجھ سے بیت المقدس کی چیزوں کے بارے میں پوچھ رہے تھے (جن کو) میں نہیں جانتا تھا (اس لئے) مجھے غم ہوا کہ ایسا غم میں نے کبھی نہیں اٹھایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے بیت المقدس کو) اوپر اٹھادیا کہ میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جو وہ مجھ سے کسی چیز کے بارے میں پوچھتے تھے میں ان کو بتاتا جاتا تھا۔ اور انبیاء (علیہم السلام) میں سے میں نے ایک جماعت کو دیکھا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو لئے ہوئے ہیں جو گھنگھریالے بالوں والے ہیں گویا کہ وہ شنوأہ کے قبیلے کے مردوں میں سے ہیں۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ جو لوگوں میں سے زیادہ عروہ بن مسعود ثقفی کے مشابہ تھے۔ اور ابراہیم کھڑے نماز پڑھ رہے تھے اور وہ لوگوں میں سب سے زیادہ تمہارے ساتھی (یعنی محمد ﷺ کے مشابہ تھے۔ نماز کا وقت ہوگیا تو میں نے ان کی امامت کروائی۔ جب فارغ ہوا تو ایک کہنے والے نے کہا اے محمد ﷺ یہ جہنم کے چوکیدار مالک ہیں میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو انہوں نے مجھے سلام کیا۔ 42:۔ ابن مردویہ نے عمر ؓ سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تو آپ نے جہنم کے داروغہ مالک کو دیکھا تو وہ ایک سخت طبیعت تھے ان کے چہرے غصہ سے پہنچانا جاتا تھا۔ 43:۔ احمد نے عبید بنآدم ؓ سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب ؓ جانبہ (مقام) پر تھے۔ بیت المقدس کی فتح کا ذکر کیا گیا۔ عمر ؓ نے کعب ؓ سے فرمایا تیری کیا رائے ہے میں کہاں نماز پڑھوں کعب ؓ نے کہا صخرہ کے پیچھے۔ عمر ؓ نے فرمایا نہیں لیکن میں وہاں نماز پڑھوں کا جہاں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی اور آپ قبلہ کی طرف آگے بڑھ گئے اور نماز پڑھی جنت میں حضرت بلال ؓ : 44:۔ احمد، ابن مردویہ، ابو نعیم نے دلائل میں اور ضیاء نے مختارہ میں سند صحیح ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جس رات نبی کریم ﷺ کو آسمانوں پر لے جایا گیا تو آپ جنت میں داخل ہوئے تو وہاں آپ نے ایک جانب میں ایک آہٹ کو سنا۔ پوچھا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کیا ہے ؟ فرمایا موذن بلال کے قدموں کی آہٹ ہے ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ جب نبی کریم ﷺ معراج سے واپس تشریف لائے تو فرمایا بلال ؓ کامیاب ہوگئے۔ میں نے اس کو اس طرح اور اس طرح دیکھا ہے۔ پھر آپ موسیٰ (علیہ السلام) سے ملے انہوں نے آپ کو خوش آمدید کہتے ہوئے فرمایا اے نبی امی خوش آمدید پھر فرمایا کہ وہ گندمی رنگ طویل القامت اور سیدھے بالوں والے تھے ان کے بال ان کے کانوں تک یا اس سے اوپر تھے آپ نے پوچھا کہا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کون ہیں ؟ فرمایا یہ موسیٰ (علیہ السلام) ہیں آگے بڑھے تو ایک اور آدمی سے ملے انہوں نے آپ کو خوش آمدید کہا اور کہا آپ نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ یہ عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ پھر آگے بڑھے راستہ میں ایک جلیل القدر شخصیت سے ملاقات ہوئی انہوں نے ان کو خوش آمدید کہا اور سلام فرمایا اور تمام انبیاء کرام نے آپ کو سلام کیا پوچھا اے جبرئیل (علیہ السلام) یہ کون ہیں فرمایا یہ آپ کے بابا ابراہیم (علیہ السلام) ہیں فرماتے ہیں کہ پھر آپ نے جہنم کے اندر دیکھا وہاں ایک قوم مردار لاش کو کھا رہی تھی۔ پوچھا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کون ہیں ؟ فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے۔ پھر ایک اور شخص کو دیکھا جس کا رنگ سفید اور آنکھیں انتہائی نیلی تھیں پوچھا اے جبرائیل یہ کون ہے ؟ فرمایا یہ صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کے پاوں کاٹنے والا ہے پھر جب نبی کریم مسجد اقصی میں تشریف لائے تو کھڑے ہو کر نماز پڑھی پھر متوجہ ہوئے تو وہاں نبیوں کے آپ کے ساتھ نماز پڑھی تھی جب نماز سے فارغ ہوئے تو دو پیالے لائے گئے ان میں میں ایک دائیں طرف سے اور دوسرا بائیں طرف سے۔ ایک میں دودھ تھا اور دوسرے میں شہد تھا آپ نے ددودھ کو لے کر پی لیا جو پیالے لایا تھا اس نے کہا کہ آپ نے فطرت کو پالیا۔ معراج میں دجال کو بھی دیکھا : 45:۔ احمد، ابویعلی، ابن مردویہ اور ابو نعیم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ کو رات کے وقت بیت المقدس کی طرف لے جایا گیا پھر اسی رات میں آپ واپس تشریف لائے تو اس صبح کو لوگوں کے سامنے اپنی سیر اور بیت المقدس کی نشانیاں اور ان کے قافلوں کا حال سنایا کچھ لوگوں نے کہا محمد ﷺ جو کچھ فرماتے ہیں ہم ان کی تصدیق نہیں کرتے اور وہ کفر کی طرف لوٹ گئے اللہ تعالیٰ نے ان کی گردنوں کو ابوجہل کے ساتھ ماردیا۔ اور ابوجہل نے کہا محمد ﷺ ہم کو زقوم کے درخت سے دراتے ہیں۔ لے آو میرے پاس کھجور اور مکھن او 3 ر اس کے ساتھ خوب لقمے لگاؤ۔ اور آپ نے دجال کو اس کی اصلی صورت میں دیکھا یہ آنکھ سے دیکھنا تھا نہ کہ نیند میں دیکھنا۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی دیکھا۔ نبی کریم ﷺ سے دجال کے بارے میں پوچھا آپ ﷺ نے فرمایا میں نے اس کو قیلمان اقمرھجان دیکھا ہے۔ اس کی ایک آنکھ قائم ہے (یعنی ابھری ہوئی ہے) گویا وہ چمکتا ہوا ستارہ ہے۔ اس کے بال گویا کہ درخت کی ٹہنیاں ہیں۔ اور میں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا ایک سفید جوان گھنگھریالے بال، تیز نظر اور باریک پیٹ والا۔ اور میں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا وہ گندمی رنگ بڑے بڑے بال اور مضبوط جسم والے تھے۔ اور میں نے ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف دیکھا میں نے ان سے زیادہ عقل مند نہیں دیکھا مگر میں اس کو اپنے جیسا دیکھتا ہوں گویا کہ وہ تمہارا ساتھی ہے۔ جبرائیل نے فرمایا اپنے باپ کو سلام کیجئے تو میں نے ان کو سلام کیا۔ 46:۔ بخاری، مسلم، طبرانی اور ابن مردویہ نے قتادہ کے طریق سے ابو العالیہ سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا معراج کی رات میں نے موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) کو دیکھا لمبے قد اور گھنگھریالے بالوں والے تھے گویا کہ وہ شنوأہ قبیلہ کے مردوں میں سے ہیں اور میں عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو دیکھا وہ درمیانے قد اور سرخ وسفید رنگ والے تھے اور میں نے جہنم کے داروغہ مالک کو دیکھا اور بھی دیکھا جو ان نشانیوں میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دکھائیں فرمایا (آیت) ” فلاتکن فی مریۃ من لقائہ “ (سجدہ آیت 23) اور قتادہ ؓ اس کی تفسیر فرماتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے ملاقات کی۔ 47:۔ سعید بن منصور، احمد، ابن ابی شیبہ، ابن ماجہ، ابن جریر، ابن منذر، حاکم، ابن مردویہ، اور بیہقی نے البعث والنشور میں (حاکم نے تصحیح بھی کی ہے) ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ معراج کی رات میں، میری ملاقات ابراہیم (علیہ السلام) ، موسیٰ (علیہ السلام) ، اور عیسیٰ (علیہ السلام) ، سے ہوئی۔ انہوں نے آپس میں قیامت کے معاملے کا ذکر فرمایا پھر انہوں نے اپنے معاملے کو ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف لوٹا دیا۔ انہوں نے فرمایا اس کا مجھے کوئی علم نہیں۔ پھر انہوں نے اپنے معاملے کو عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف لوٹایا تو انہوں نے فرمایا اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور اس میں وعدہ ہے میرے رب کی طرف سے کہ دجال نکلے گا اور میرے پاس دو چھریاں ہوگی جب وہ مجھے دیکھے گا تو ایسے پگھلے گا جیسے تانبا پگلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ہلاک فرما دیں گے جب وہ مجھ کو دیکھے گا یہاں تک کہ پتھر اور درخت کہے اے مسلمان ! میرے نیچے کافر ہے ادھر آو اور اسے قتل کرو پس اللہ تعالیٰ کفار کو ہلاک کردے گا پھر لوگ لوٹ جائیں گے۔ اپنے شہروں اور اپنے وطنوں کی طرف اس وقت یاجوج ماجوج نکلے گیں اور وہ ہر بلندی پھسلتے ہوئے آئیں گے اور وہ ان شہروں کو روند ڈالیں گے جس چیز پر آئیں گے اس کو تباہ کردیں گے پانی پر گزریں گے تو اس کو پی جائیں گے پھر لوگ میرے پاس آئیں گے یاجوج ماجوج کی شکایت کریں گے تو میں ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بدعا کروں گا تو ان کو ہلاک کردیں گے۔ اور ان کو ماردے گا یہاں تک زمین ان کی بدبو سے بدبودار ہوجائے گی پھر اللہ تعالیٰ بارش کو نازل فرمائیں گے وہ ان کے جسموں کو بہائے کرلے جائے گی یہاں تک کہ ان کو سمندر میں پھینک دے گی اور میرے ساتھ میرے رب نے عہد فرمایا ہے اگر ایسا ہوگا تو قیامت واقع ہوجائے گی قیامت حاملہ عورت کی طرح جس کے دن مکمل ہوچکے ہوں اس کے گھر والوں کو علم نہٰن ہوتا کہ یہ دن رات میں کسی وقت اچانک بچہ جن دے گی۔ 48:۔ ابن ابی شیبہ، احمد، ترمذی، نسائی، ابن جریر، حاکم، ابن مردویہ اور بیہقی نے دلائل میں (ترمذی اور حاکم نے تصیح بھی کی ہے) حذیفہ ؓ سے روایت کیا کہ حضور ﷺ کے واقعہ معراج کو بیان کرتے ہوئے فرماتے کہ آپ ﷺ برابر براق پر بیٹھے رہے یہاں تک کہ آسمانوں کے دروازے کھول دئے گئے تو آپ ﷺ نے جنت اور دوزخ اور آخرت کے وعدہ کا مشاہدہ کیا پھر آپ ﷺ واپس لوٹ آئے۔ ابن مردویہ کے الفاط یوں ہیں کہ آپ ﷺ کو (سب کچھ) دکھایا گیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں تھا۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ براق کیسا جانور تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا لمبا جانور تھا کہ اس کا ایک قدم حد نگاہ تک تھا۔ 49:۔ ابویعلی، طبرانی نے الاوسط میں اور ابن عساکر نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس رات مجھے آسمان پر لے جایا گیا تو میں جس آسمان سے گزرتا تھا تو اس میں اپنا نام لکھا ہوا پاتا تھا کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور ابوبکر صدیق ؓ میرے پیچھے تھے۔ 50:۔ بزار نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس آسمان کے پاس سے میں گزرتا تھا تو اس میں اپنا نام ” محمد رسول اللہ “ لکھا ہوا پاتا تھا۔ 51:۔ طبرانی نے الاوسط میں اور ابن مردویہ نے سند صحیح کے ساتھ جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا معراج والی رات کو میں اوپر والے معزز فرشتوں پر میرا گزر ہوا اچانک جبرائیل کو دیکھا وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے پرانی کملی کی طرح تھے۔ اور ابن مردویہ کے الفاظ ہیں کہ میں چوتھے آسمان میں جبرائیل (علیہ السلام) کے پاس سے گزرا اچانک وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے پرانی کملی کی طرح تھے۔ 52:۔ سعید بن منصور، طبرانی، ابن مردویہ اور ابو نعیم نے المعرفہ میں عبدالرحمن بن قرط ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا معراج کی رات میں مجھے بیت المقدس کی طرف لے جایا گیا تو میں (اس وقت) مقام ابراہیم (علیہ السلام) اور زمزم کے درمیان تھا کہ جبرائیل (علیہ السلام) میرے داہنی طرف اور میکائیل (علیہ السلام) میرے بائیں طرف ہو کر مجھے ساتھ لے کر اڑے یہاں تک کہ اوپر آسمانوں پر پہنچ گئے جب آپ واپس تشریف لائے تو فرمایا میں نے بلند وبالا آسمانوں میں تسبیح کو سنا کثیر تسبیح کے ساتھ بلند وبالا آسمان ہیبت کی وجہ سے صاحب علو سے ڈرتے ہوئے تسبیح بیان کررہے تھے اس وجہ سے کہ وہ بلند وبالا ہے۔ ا وروہ تسبیح یہ تھی ” سبحان العلی الاعلی سبحانہ وتعالیٰ “ 53:۔ ابن عساکر نے سہل بن سعد ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب مجھے جبرائیل اوپر لے کرگئے تو میں نے بلند آسمانوں میں تسبیح کو سنا تو میرا دل کانپ گیا مجھ سے جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا اے محمد ﷺ آگے بڑھئے خوف نہ کرے کیونکہ آپ کا نام عرش پر لکھا ہوا ہے کہ ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ 54:۔ ابن ابی شیبہ، احمد، ابن ماجہ، ابن ابی حاتم اور مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا معراج کی رات جب ہم ساتویں آسمان کی طرف پہنچے میں نے اوپر دیکھا تو اچانک (وہاں) بادلوں کی گرج بجلی اور کڑک (کی آواز) تھی اور میں نے ایک ایسی قوم کے پاس آیا کہ ان کے پیٹ گھڑوں کی طرح (بڑے بڑے) تھے اس میں سانپ اور بچھو تھے جو انکے پیٹوں کے باہر سے دیکھے جاتے تھے۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ کون لوگ ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا یہ لوگ سود کھانے والے ہیں۔ جب میں آسمان کیطرف نیچے آیا دیکھا تو وہاں غبار دھواں اور آوازیں تھیں میں نے پوچھا اے جبرائیل یہ کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا یہ شیطاطین ہیں جو بنو آدم کی آنکھوں پر گھومتے ہیں۔ (یہ ایسے لوگ ہیں) جو آسمانوں اور زمین کی ملکوت میں غور کرتے اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ لوگ بڑے عجائبات کو دیکھتے۔ 55:۔ ابن مردویہ نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب مجھے معراج کرائی گئی تو میں کوثر کے پاس سے گزرا جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا یہ کوثر ہے جو آپ ﷺ کے رب نے آپ کو عطا فرمائی ہے میں نے اپنا ہاتھ اس کی مٹی پر مارا تو وہ کستوری تھی۔ 56ـ:۔ ابن مردویہ نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جب مجھے آسمان کی طرف لے جایا گیا تو میں نے ایک نہر کو دیکھا جو نیزے کی مثل دھواں اڑا رہی تھی (اس کا پانی) دودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ میٹھا تھا اس کے کناروں پر ایسے موتیوں کے خیمے تھے جو اندر سے خالی تھے میں نے اپنا ہاتھ اس کی ایک جانب مارا تو وہ ایک عمدہ مشک تھی پھر میں اس کے کنکریوں کی طرف اپنا ہاتھ مارا تو وہ موتی تھے میں نے پوچھا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ نہر کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا یہ نہر کوثر ہے جو آپ کے رب نے آپ کو عطاء کی۔ 57ـ:۔ ابن مردویہ نے ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے معراج کی رات میں ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھا جن لوگوں کو میں نے دیکھا ان میں سے وہ تمہارے اس ساتھی ( یعنی محمد ﷺ کے زیادہ مشابہ تھے۔ 58:۔ احمد، ابن ابی حاتم، ابن حبان اور ابن مردویہ نے ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مجھے آسمان کی طرف لے جایا گیا تو میں نے ابراہیم خلیل الرحمن کو دیکھا ابراہیم (علیہ السلام) نے پوچھا اے جبرائیل یہ تیرے ساتھ کون ہیں ؟ جبرائیل نے فرمایا یہ محمد ﷺ تو انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور فرمایا کہ اپنی امت کو حکم کرو کہ وہ جنت کے درخت لگانے میں کثرت کریں (یعنی جنت میں کثرت سے پودے لگائیں) کہ اس کی مٹی پاکیزہ ہے۔ اور اس کی زمین وسیع ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے پوچھا کہ جنت میں درخت لگانے سے کیا مراد ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا وہ ہے ؛ لاحول ولا قوۃ الا باللہ “ 59:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا معراج کی رات میں ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آیا انہوں نے فرمایا اے محمد ﷺ اپنی امت کو یہ خبر دیجئے کہ جنت چٹیل میدان ہے اور اس کے پودے ” سبحان اللہ الحمد للہ لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر ہیں۔ 60:۔ ترمذی، طبرانی اور ابن مردویہ نے (ترمذی نے تحسین بھی کی ہے) ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا معراج کی رات میں ابراہیم (علیہ السلام) سے ملا انہوں نے فرمایا اے محمد ﷺ اپنی امت کو میرا سلام کہئے اور ان کو خبر دیجئے کہ جنت کی مٹی پاکیزہ ہے پانی میٹھا ہے اور وہ چٹیل میدان ہے اور اس کے پودے ہیں ” سبحان اللہ الحمد للہ لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر “ اور لاحول ولا قوۃ الا باللہ “ 61:۔ ابن مردویہ ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا معراج کی رات میں نے جنت کو سفید موتیوں سے بنا ہوا دیکھا میں نے کہا اے جبرائیل (علیہ السلام) کہ لوگ میں سے جنت کے بارے میں پوچھیں گے فرمایا ان کو بتا دیجئے اس کی زمین چٹیل میدان ہے اور اس کی مٹی مشک کی ہے۔ 62:۔ ابن ماجہ، حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں، ان حاتم، اور ابن مردویہ اور بیہقی نے البعث والنشور میں انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا معراج کی رات میں، میں نے جنت کے دروازے پر لکھا ہوا دیکھا کہ صدقہ کا ثواب دس گنا ہے اور قرضہ کا ثواب اٹھارہ گنا ہے میں نے پوچھا اے جبرائیل (علیہ السلام) قرض صدقہ سے افضل ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ سائل (اس حال میں) سوال کرتا ہے اور اس کے پاس کچھ نہ کچھ ہوتا ہے اور قرض مانگنے والا قرض نہیں مانگتا مگر حاجت کے وقت۔ 63:۔ طبرانی نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب میں معراج کی رات آسمان کی طرف کیا اور میں نے جنت میں جنت میں داخل ہوا تو میں جنت کے درختوں سے ایک درخت کے پاس پہنچا جنت میں اس سے خوبصورت درخت میں نے نہیں دیکھا سفید پتے اور پاکیزہ پھل میں نے اس کے پھلوں میں سے ایک پھل کو کھایا تو وہ میری صلب میں نطفہ بن گیا جب میں زمین کی طرف نیچے اترا تو (اپنی بیوی) خدیجہ ؓ سے میں نے جماع کیا تو فاطمہ ؓ کا حمل ٹھہر گیا (اب) جب بھی میں جنت کی خوشبو کا مشتاق ہوتا ہوں تو فاطمہ ؓ کی خوشبو کو سونگھ لیتا ہوں۔ 64:۔ حاکم نے (حاکم نے اس کو ضعیف بھی کہا ہے) سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) سفر جل (ایک پھل) لے کر آئے میں نے اس کو معراج کی رات میں کھایا (پھر میں نے واپس آکر اپنی بیوی خدیجہ ؓ سے ہم بستری کی) تو خدیجہ ؓ حاملہ ہوگئیں فاطمہ ؓ کے ساتھ۔ (اب) جب بھی میں جنت کی خوشبو کا مشتاق ہوتا ہوں تو فاطمہ ؓ کی گردن سونگھ لیتا ہوں۔ 65:۔ بزار، ابو القاسم البغوی، ابن قانع دونوں نے معجم الصحابہ میں، ابن عدی اور ابن عساکر نے عبداللہ بن اسعد بن زرارہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا معراج کی رات میں ایک موتی کے محل کی طرف پہنچا۔ امام بغوی (رح) کے الفاظ یوں ہیں معراج کی رات مجھے ایک موتیوں کے پنجرے کی سیر کرائی گئی اس کا فرش سونے کا تھا اس سے نور چمک رہا تھا۔ اور مجھے تین لقب عطاء کئے گئے کہ بلاشبہ آپ رسولوں کے سردار ہیں متقین کے امام ہیں۔ اور سفید منہ اور سفید ہاتھ پاوں والوں کے قائد ہیں۔ 66ـ:۔ ابن قانع، طبرانی اور ابن مردویہ نے ابو الحمراء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا معراج کی رات جب میں ساتویں آسمان کی طرف گیا تو عرش کے دائیں پائے پر یہ لکھا ہوا تھا ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ 67ـ:۔ ابن عد اور ابن عساکر نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب مجھے اوپر لے جایا گیا تو میں نے عرش کے پائے پر یہ لکھا ہوا دیکھا ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ کہ میں نے اس کی مدد کی علی ؓ کے ساتھ۔ 68:۔ ابن عساکر نے علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا معراج کی رات میں نے عرش پر لکھا ہوا دیکھا ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ ، ابوبکر الصدیق، عمر الفاروق، عثمان ذوالنورین۔ 69:۔ دارقطنی نے الافراد میں خطیب اور ابن عساکر نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا معراج کی رات میں میں نے عرش میں سفید موتی لگا ہوا دیکھا جس پر سفید نور کے ساتھ یہ لکھا ہوا تھا ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ ابوبکر الصدیق، عمر الفاروق۔ 70:۔ بزار نے علی ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اذان کی تعلیم دینے کا ارادہ فرمایا تو آپ کے پاس جبرائیل (علیہ السلام) ایک جانور لے کر آئے جس کو براق کہا جاتا تھا آپ اس پر سوار ہونے لگے تو وہ بدکنے لگا جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا ٹھہر جا اللہ کی قسم تجھ پر کوئی ایسا بندہ سوار نہیں ہوا جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک محمد ﷺ سے زیادہ عزت والا ہو پھر آپ سوار ہوگئے یہاں تک کہ اس پردہ کی طرف پہنچ گئے جور حمان کے ساتھ متصل ہے آپ اسی حال میں تھے اچانک ایک فرشتہ پردہ میں سے باہر نکلا فرشتے نے کہا اللہ تعالیٰ سب سے بڑے ہیں اللہ سب سے بڑے ہیں پردے کے پیچھے سے آواز آئی کہ میرے بندے نے سچ کہا میں سب سے بڑا ہوں میں سب سے بڑا ہوں پھر فرشتے نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پردے کے پیچھے سے آواز آئی میرے بندے نے سچ کہا میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں فرشتے نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں پردے کے پیچھے سے کہا گیا میرے بندے نے سچ کہا میں نے محمد ﷺ کو بھیجا فرشتے نے کہا حی الصلاہ، حی الفلاح، قدقامت الصلاہ۔ پھر اس نے اللہ اکبر اللہ اکبر پردے کے پیچھے سے آواز آئی میرے بندے نے سچ کہا میں سب سے بڑا ہوں میں سب سے بڑا ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں پردے کے پیچھے سے آواز آئی میرے بندے نے سچ کہا میرے سوا کوئی معبود نہیں پھر فرشتے نے محمد ﷺ کا ہاتھ پکڑا اور ان کو آگے کردیا۔ آپ نے آسمان والوں کی امامت کروائی ان میں آدم (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) بھی تھے اس دن اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو تمام آسمانوں اور زمین والوں پر عزت میں کامل کردیا (یعنی آسمانوں اور زمین کی ساری مخلوق پر ان کو کامل عزت عطا فرمائی) 71:۔ ابونعیم نے دلائل میں محمد بن حنفیہ ؓ سے روایت کیا ہے رسول اللہ ﷺ جب آسمان کی طرف اوپر تشریف لے گئے تو آسمان کی ایک جگہ ٹھہرے اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کو بھیجا جو آسمان میں اسی جگہ پر کھڑا ہوا کہ اس سے پہلے کوئی اس مقام پر کھڑا نہیں ہوا تھا اس سے کہا گیا ان کو اذان سکھاؤ تو اس فرشتے نے کہا اللہ اکبر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے سچ کہا میں اللہ سب سے بڑا ہوں پھر فرشتے نے کہا اشھد ان لا الہ الا اللہ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے بندے نے سچ کہا میں اللہ ہوں اور میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ پھر فرشتے نے اشھد ان محمد رسول اللہ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے سچ کہا میں نے بھیجا ہے اور میں نے چنا ہے اور میں نے ان کو امین بنایا پر فرشتے نے کہا حی الصلاۃ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے سچ کہا اور میرے فریضہ اور میرے حق کی طرف بلایا جو نماز ادا کرے گا ثواب کی امید رکھتے ہوئے تو یہ ہر گناہ کے لئے کفارہ ہوگا پھر فرشتے نے کہا حی الفلاح اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے سچ کہا میں نے اس (نماز) کو فرض کیا ہے اور اس کو اور اس کے وقتوں کو شمار کیا ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ سے فرمایا گیا آگے بڑھئے آپ آگے بڑھئے آسمان والوں نے آپ امام بنے (اسی طرح اللہ تعالیٰ نے) ساری مخلوق پر آپ کی شرف کو پورا کیا۔ 72:۔ ابن مردویہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب مجھے آسمان کی طرف لے جایا گیا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے اذن دی تو فرشتوں نے یہ گمان کیا کہ انکو نماز پڑھائیں گے لیکن جبرائیل نے مجھے آگے کردیا اور میں نے فرشتوں کو نماز پڑھائی۔ 73:۔ طبرانی نے الاوسط میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ کو جب آسمان پر لے جایا گیا تو آپ کی طرف اذان وحی کی گئی پس آپ وہ لے کر آئے تو پھر جبرائیل نے آپ کو وہ اذان سکھائی۔ 74:۔ ابن مردویہ نے علی ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ کو معراج کی رات اذان سکھائی گئی اور آپ پر نماز فرض کی گئی۔ معراج کی رات نماز فرض ہوئی : 75:۔ ابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ پر معراج کی رات نماز فرض کی گئی۔ 76ـ:۔ احمد نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر پچاس نمازیں فرض کیں پھر آپ نے اپنے رب سے تخفیف کا سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے پانچ کردیں۔ 77ـ:۔ ابوداود اور بیہقی نے ابن عمر ؓ سے بیان فرمایا کہ نمازیں پچاس تھیں اور جنابت کا غسل سات مرتبہ تھا اور کپڑے سے پیشاب کا دھونا سات مرتبہ تھا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ سے تخفیف کا سوال کرتے رہے یہاں تک کہ پانچ نمازیں کردی گئیں اور جنابت کا غسل اور کپڑے سے پیشاب کا دھونا ایک مرتبہ کردیا گیا۔ 78:۔ مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ نے بیان فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تو آپ سدرۃ المنتہی پر پہنچے اور جو چیزیں بھی جاتی ہے وہ سدرۃ المنتہی تک پہنچتی ہے اور دوسرے الفاظ میں یوں ہے اور جس اور جب اوپر کو چڑھتی ہیں پھر ان کو وصول کیا جاتا ہے اور جو چیز سدرۃ کے اوپر سے نیچے آتی ہے وہ بھی سدرۃ پر رک جاتی ہے یہاں تک کہ وصول کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” اذ یغشی السدرۃ ما یغشی “ (النجم آیت 16) (یعنی سدرۃ کو دھانپ لیا جس چیز نے بھی ڈھانپ لیا) یعنی سونے کے پروانوں نے اسے ڈھانپ لیا اور رسول اللہ ﷺ کو پانچ نمازیں دگئیں اور سورة البقرہ کا آخری (حصہ) بھی دیا گیا اور شراب کے علاوہ آپ کی امت کے لئے تمام گناہوں کی مغفرت۔ 79:۔ طبرانی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا جب مجھے اوپر لے جایا گیا تو میں سدرۃ المنتہی پہنچا اس کا پھل مٹکوں کی طرح ہے۔ 80:۔ ابن مردویہ نے انس ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب سدرۃ المنتہی پر پہنچے تو سونے کا ایک پروانہ دیکھا جو اس کی پناہ لیتا تھا۔ 81:۔ ابن مردویہ نے اسماء بنت ابوبکر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آپ نے سدرۃ المنتہی کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا اس میں سونے کے پروانے ہیں اور اس کا پھل مٹکوں کی طرح ہے اور اس کے لئے ہاتھی کے کانوں کی طرح ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ نے اس کے پاس کیا دیکھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا میں نے اس کے پاس اپنے رب عزوجل کو دیکھا۔ 82:۔ ابن ماجہ اور ابن مردویہ نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا معراج کی رات میں فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتا تھا تو انہوں نے کہا یا محمد ! اپنی امت کو پچھنے لگوانے کا حکم فرمائیے۔ 83:۔ احمد ماجہ اور ابن مردویہ نے (حاکم نے تصیح بھی کی ہے) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا معراج کی رات میں فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتا تھا تو انہوں نے کہا تم پر پچھوانا تم پر پچھنے لگوانا لازم ہے اور دوسرے الفاظ میں یوں ہے کہ اپنی امت کو پچھنے لگوانے کا حکم فرمائیے۔ معراج کی رات یاجوج وماجوج کو تبلیغ : 84:۔ ابن مردویہ نے علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ معراج کی رات میں جن فرشتوں کے ساتھ گزرتا تھا تو سب نے مجھے پچھنے لگانے کا حکم دیا۔ 85:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا معراج کی رات اللہ تعالیٰ نے مجھے یاجوج ماجوج کی طرف بھیجا کہ میں ان کو اللہ کے دین اور عبادت کی طرف بلاوں اور ان کو حکم دیا گیا کی وہ میری بات کو قبول کریں اور وہ دوزخ میں ہیں ساتھ اس بت کے کہ وہ آدم کی اولاد ہیں اور ابلیس کی اولاد ہیں کو شمار کئے گئے ہیں۔ 86ـ:۔ سعید بن منصور، ابن سعد، طبرانی نے الاوسط میں اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب معراج سے واپس تشریف لے آئے تو آپ وادی طوی میں تھے اور آپ نے فرمایا اے جبرائیل (علیہ السلام) میری قوم میری تصدیق نہیں کرے گی تو انہوں نے فرمایا تو ابوبکر تصدیق کریں گے اور وہ صدیق ہیں۔ 87ـ:۔ حاکم، ابن مردویہ اور بیہقی نے دلائل میں (حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے) حضرت عائشہ ؓ سے روایت فرمایا کہ جب نبی کریم ﷺ کو مسجد اقصی کی طرف لے جایا گیا اور صبح کو یہ بات لوگوں کو بیان فرمائی تو (یہ سن کر) کچھ لوگ مرتد ہوگئے جو ایمان لا چکے تھے اور آپ کی تصدیق کرچکے تھے اس بات کو لے کر وہ لوگ ابوبکر کے پاس دوڑے آئے اور کیا اپنے ساتھی بارے میں علم ہے وہ کہتا ہے کہ آج رات اسے بیت المقدس کی سیر کرائی گئی۔ ابوبکر ؓ نے فرمایا کیا انہوں نے ایسا فرمایا ہے ؟ لوگوں نے کہا : ہاں ابوبکر نے فرمایا اگر انہوں نے ایسا فرمایا ہے تو میں نے اس کو سچ مان لیا۔ کہنے لگے تو اس کو سچ مانتا ہے کہ وہ آج رات میں بیت المقدس کی طرف گئے ہیں اور صبح سے پہلے (واپس) آگئے ہیں ؟ ابوبکر ؓ نے فرمایا ہاں (میں اس کو مانتا ہوں) اور میں ان کی اس سے بعید العقل باتوں کو مانتا ہوں، صبح وشام ان پر جو آسمان کی خبریں آتی ہیں میں ان کو بھی سچ مانتا ہوں اس لئے ان کا نام ابوبکر صدیق رکھا گیا۔ 88:۔ ابن ابی شیبہ، احمد، نسائی، بزار، طبرانی، ابن مردویہ اور ابو نعیم نے دلائل میں ضیاء نے مختارہ میں، اور ابن عساکر نے سند صحیح کے ساتھ ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب رات مجھے معراج کرائی گئی تو میں نے صبح مکہ میں کی مجھے یقین تھا کہ لوگ مجھ کو جھٹلائیں گے میں الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گیا اللہ کا دشمن ابو جہل وہاں سے گزرا۔ اور آپ کے پاس آکر بیٹھ گیا مذاق کرتے ہوئے پوچھنے لگا کیا کوئی نئی بات ہے ؟ آپ نے فرمایا پوچھا وہ کیا ؟ آپ نے فرمایا رات کو مجھے لے جایا گیا پوچھا کس طرف ؟ فرمایا بیت المقدس کی طرف کہنے لگا پھر آپ صبح کو ہمارے درمیان (موجود) ہیں فرمایا ہاں ! اس نے اس بات کو نہ جھٹلایا ڈرتے ہوئے اس بات سے کہ آپ اپنی بات کا انکار نہ فرما دیں اس نے قوم کو آپ کی طرف بلایا ابوجہل نے کہا آپ بتائیے اگر میں آپ کی قوم کو بلاوں کیا تم یہ بات ان کو بیان کروگے تو تم نے مجھے بیان کی آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ! اس نے کہا اے بنوکعب بن لوئی کی جماعت ادھر آجاؤ انہوں نے اپنی مجلسوں کو ختم کرکے ان کے پاس آکر بیٹھ گئے ابوجہل نے کہا اپنی قوم کو وہ بات بیان کرو جو تم نے مجھے بیان کی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں رات کو لے جایا گیا پوچھا کس طرف ؟ فرمایا بیت المقدس کی طرف پوچھا ایلیا کی طرف (یہ بیت المقدس کے شہر کا نام ہے) آپ نے فرمایا ہاں کہنے لگے پھر تم صبح کو ہمارے درمیان ہو ؟ فرمایا ہاں ! راوی نے کہا بعض تعجب سے تالی بجانے لگے اور بعض نے تعجب کے طور پر اپنے ہاتھ کو اپنے سر پر رکھ لیا پھر وہ لوگ کہنے لگے کیا تم مسجد (یعنی بیت المقدس) کی صفات بیان کرسکتے ہو ؟ اور قوم میں کون آدمی جس نے اس کی طرف سفر کیا ہو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے بیت المقدس کی ہئیت کو بیان کرنا شروع کردیا میں برابر حال بیان کرتا رہا یہاں تک کہ مجھ پر مسجد کے بعض حصے کو بیان کرنا دشوار ہوگیا تو مسجد (یعنی بیت المقدس) میرے سامنے لایا گیا کہ (گویا) میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا یہاں تک کہ (یعنی بیت المقدس کو) عقیل کے گھر کے قریب رکھ دیا گیا (اب) میں اس کا حال بیان کررہا تھا اس حال میں کہ میں اس کو دیکھ رہا تھا (یہ سن کر) قریش نے کہا کہ اللہ کی قسم بالکل ٹھیک صفات بیان بتائی ہیں (یہ وہاں پہنچے ہیں ) ۔ بیت المقدس کا آپ (علیہ السلام) کے سامنے ہونا : 89:۔ بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، اور ابن جریر نے جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے بیت المقدس کی طرف رات کے جانے کو قریش نے جھٹلادیا تو میں حطیم میں کھڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے میرے لئے بیت المقدس کو سامنے کردیا تو میں نے ان کو ان کی نشانیوں کے بارے میں بتلانا شروع کیا (اس حال میں) کہ میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ 90:۔ ابونعیم نے دلائل میں عروہ (رح) سے روایت کیا کہ قریش نے رسول اللہ ﷺ سے کہا جب آپ نے انکو بیت المقدس کی سیر کے متعلق بتایا کہ آپ ہم کو بتائیں کہ ہماری کونسی چیز گم ہوگئی تھی یا ہمارے پاس کوئی نشانی لے آئے جو آپ کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم سے اونٹنی ورقاء گم ہوگئی تھی۔ اس پر تمہاری گندم لدی ہوئی تھی جب میں ان کے پاس آیا تو کہنے لگے ہم کو اس کا حال بیان کیجئے جو کچھ اس پر لدا ہوا ہے تو جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ کے لئے کھول دیا جو ان پر لدا ہوا تھا آپ دیکھ کر سب کچھ بتائے گے جو کچھ ان پر لدا ہوا تھا اور وہ لوگ کھڑے ہو کر اس کو دیکھ رہے تھے مگر اس بات نے اس کو شک اور جھٹلانے میں اور زیادہ کردیا۔ 91:۔ بیہقی نے دلائل میں سدی (رح) سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ کو رات کے وقت لے جایا گیا اور آپ اپنی قوم کو ان کے قافلہ کے نشانی بتائی تو انہوں نے کہا کہ یہ (قافلہ) کب آئے گا آپ نے فرمایا بدھ کے دن آئے گا جب یہ دن آیا تو قریش نے دیکھنا شروع کیا دن ختم ہوا مگر قافلہ نہ آیا نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی تو آپ کے لئے دن میں کچھ وقت کو زیادہ کردیا گیا اور آپ کے لئے سورج کو روک لیا گیا نبی کریم ﷺ کے علاوہ سورج کسی پر نہیں لوٹا اور یوشع بن نون (علیہ السلام) پر لوٹا تھا جب انہوں نے جبارین کو قتل کیا۔ 92:۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور ابن جریر نے عبداللہ بن شداد ؓ سے روایت کیا کہ جب نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تو ایک جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا اس کا ایک قدم منتہائے نظر پر پڑتا تھا اس کو براق کہا جاتا تھا رسول اللہ ﷺ قریش کے ایک اونٹ پر گزرے تو وہ بدک گیا اور کہنے لگے اے ساتھیویہ کیا ہوا ہے ؟ (آپس میں) کہنے لگے ہم نے تو کسی چیز کو نہیں دیکھا یہ صرف ایک ہوا ہی ہے یہاں تک کہ آپ بیت المقدس تشریف لے آئے آپ کو دو برتن لائے گئے ان میں سے ایک میں شراب تھی اور دوسرے میں دودھ تھا آپ نے دودھ کو لے لیا تو جبرائیل نے فرمایا آپ نے ہدایت پائی آپ کی امت نے بھی ہدایت پائی۔
Top