Dure-Mansoor - Al-Israa : 4
وَ قَضَیْنَاۤ اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ فِی الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِیْرًا
وَقَضَيْنَآ : اور صاف کہ دیا ہم نے اِلٰى : طرف۔ کو بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل فِي الْكِتٰبِ : کتاب لَتُفْسِدُنَّ : البتہ تم فساد کروگے ضرور فِي : میں الْاَرْضِ : زمین مَرَّتَيْنِ : دو مرتبہ وَلَتَعْلُنَّ : اور تم ضرور زور پکڑوگے عُلُوًّا كَبِيْرًا : بڑا زور
اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں یہ بتادیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں ضرور فساد کروگے اور بڑی بلندی تک پہنچ جاؤ گے
معراج پر جانے کا مقام : 93:۔ ابن سعد اور ابن عساکر نے واقدی سے اور واقدی نے ابوبکر بن عبداللہ ابن سبرہ وغیرہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب سے جنت اور دوزخ کے دیکھنے کا سوال کیا جب رمضان کی سترہویں رات تھی ہجرت سے اٹھارہ ماہ پہلے اور رسول اللہ ﷺ اپنے گھر کی چھت پر سوئے ہوئے تھے تو آپ کے پاس جبرائیل (علیہ السلام) اور میکائیل تشریف کے درمیان سے ایک سیڑھی لائی گئی جو بہت خوبصورت چیز تھی ایک ایک آسمان کرکے آپ کو آسمانوں پر لے جایا گیا اس میں انبیاء سے ملاقاتیں ہوئیں اور پھر آپ سدرۃ المنتہی تک پہنچے اور آپ نے جنت اور دوزخ کو دیکھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب ساتویں آسمان کی طرف پہنچا تو میں نے قلموں کے چلنے کی آوازیں سنیں اور آپ پر پانچ نمازیں فرض کی گئیں اور جبرئیل نازل ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کو اپنے اپنے وقتوں میں نمازیں پڑھائیں۔ 94:۔ ابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب سے معراج پر تشریف لے گئے تو آپ سے دلہن کی خوشبو کی طرح خوشبو آتی تھی اور وہ خوشبو سے زیادہ پاکیزہ تھی۔ 95:۔ ابن مردویہ نے جبیر (رح) سے روایت کیا کہ میں نے سیفان ثوری کو یہ فرماتے ہوئے سنا جب ان سے معراج کی رات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ کو اپنے بدن مبارک کے ساتھ معراج ہوئی۔ 96ـ:۔ ابونعیم نے دلائل میں محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے قیصر روم کی طرف دحیہ کلبی ؓ کو ایک خط دے کر بھیجا وہ اس سے حمص میں ملے اور اس نے (بات سمجھنے کے لئے) ایک ترجمان کو بلایا خط میں یہ لکھا تھا محمد رسول اللہ کی طرف سے قیصر بادشاہ روم کی طرف ( یہ دیکھ کر) اس کا بھائی غضبناک ہوگیا اور قیصر ہوگیا اور قیصر سے کہنے لگا دیکھو اس خط میں ایک آدمی نے تجھ سے پہلے اپنا نام لکھا ہے اور تجھے قیصر روم لکھا ہے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ تو بادشاہ ہے قیصر نے اپنے بھائی سے کہا اللہ کی قسم میں نے جان لیا کہ تو احمق، ذلیل، اور مجنون ہے کیا تو ارادہ کرتا ہے کہ ایک آدمی کے خط کو اس کے پڑھنے سے پہلے جلا دیا جائے میری عمر کی قسم اگر وہ اللہ کا رسول ہے جیسے وہ کہتا ہے تو اس کی ذات زیادہ حقدار ہے کہ مجھ سے پہلے اپنے نام کے ساتھ شروع کرے اگر اس نے مجھے صاحب الروم کہا ہے تو اس نے سچ کہا میں رومیوں کا ساتھی ہوں ان کا مالک نہیں ہوں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو میرے لئے تابع کردیا اور اگر وہ چاہئے وہ اس کو ہم پر مسلط کردے پھر قیصر نے خط پڑھا اور کہا اے رومیوں بلاشبہ میں گمان کرتا ہوں کہ یہ وہی نبی ہیں جن کی عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے خبر دی تھی اگر میں جان لیتا کہ میں اس تک پہنچ جاوں گا تو میں خود ان کی خدمت کرتا ان کا وضو کا پانی نہ گرنے دیتا مگر اپنے ہاتھوں پر۔ رومیوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اعراب کے ان پڑھ لوگوں میں (نبی) نہیں بنائے گا کہ وہ ہم کو فراموش کردے ہم اہل کتاب ہیں کہا کہ اصل ہدایت میرے اور تمہارے درمیان انجیل ہے ہم انجیل منگواتے ہیں کہ اس کو کھولتے ہیں اگر یہ وہی نبی ہیں تو اس کا اتباع کریں گے ورنہ ہم اس پر مہریں تیار کرتے ہیں جیسا کہ ایک مہرلگائی اس کے بعد ہر بادشاہ جو آنے والا تھا تو اس نے اس پر دوسری مہر لگائی یہاں تک کہ قیصر کے بادشاہ نے اس پر مہر لگائی انجیل پر بارہ مہریں تھیں ان میں سے ہر دوسرے کو یہ خبردیتا تھا کہ ان کے لئے جائز نہیں ہے ان کے دینی اعتبار سے انجیل کو کھولنا اور جس دن وہ اس کو کھولیں گے تو ان کا دین بدل جائے گا تو ان کا بادشاہ ہلاک ہوجائے گا قیصر نے انجیل کو منگوایا اور اسے گیارہ مہریں کھول دیں یہاں تک کہ اس پر ایک مہر باقی رہ گئی (یہ دیکھ کر) پادری علماء اور حواری کھڑے ہوگئے انہوں نے اپنے کپڑے پھاڑ دیے اور اپنے چہروں پر طمانچے مارے اور اپنے سروں کو نوچا قیصر نے کہا تم کو کیا ہوگیا ؟ کہنے لگے آج تمہارے گھر کا بادشاہ ہلاک ہوجائے گا اور تیری قوم کا دین تبدیل ہوجائے گا اس نے کہا اصل ہدایت میرے پاس ہے کہنے لگے جلدی نہ یہاں تک کہ ہم اس کے بارے میں پوچھ لیں اور ہم اس کے معاملے میں غوروفکر کرلیں قیصر نے کہا ہم اس کے بارے میں کس سے سوال کریں گے انہوں نے کہا ان کے علاقے کے لوگ شام میں آئے ہوئے ہیں قیصر نے شام میں ایسے لوگوں کی تلاش میں آدمی بھیجے جن سے وہ نبی کریم ﷺ نے بارے پوچھیں پس ابو سفیان اور اس کے ساتھی اس کام کے لئے جمع کئے گئے۔ اس نے ابوسفیان سے پوچھا اے ابوسفیان اس آدمی کے بارے میں بتاؤ جو تمہارے اندر بھیجا گیا ابوسفیان نے نبی کریم ﷺ کو حقیر پیش کرنے کی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اور کہا اے بادشاہ اس کی شان تیری شان سے بلند نہیں ہے ہم اس کو کہتے ہیں کہ وہ جادوگر ہے او ہم کہتے ہیں کہ وہ شاعر ہے اور ہم کہتے ہیں کہ وہ کاہن ہے قیصر نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اسی طرح اس سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) کو کہا گیا قیصر نے کہا مجھے بتاؤ تمہارے اندر اس کا مرتبہ کیا ہے ؟ اس نے کہا وہ ہمارے درمیان اوسط درجے کا آدمی ہے قیصر نے کہا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو اس کی قوم کے اوسط درجہ سے بھیجا اس کے اصحاب کے بارے میں بتاؤ ابوسفیان نے کہا ہمارے نوعمر اور نادان لوگ اس کے اصحاب ہیں ہمارے روسا میں سے کسی نے اس کی اتباع نہیں کی قیصر نے کہا اللہ کی قسم رسولوں کی اتباع کرنے والے یہی لوگ ہوتے ہیں بڑے بڑے جاگیرداروں اور سرداروں کو انکی غیرت روکے رکھتی ہے قیصر نے پوچھا مجھے اس کے اصحاب کے متعلق بتاؤ کیا ہو اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد مرتد ہوتے ہیں یا نہیں ابوسفیان نے کہا اس میں سے کسی بھی دین قبول کرنے بعد نہیں چھوڑا قیصر نے پوچھا اس کے دین میں تم میں سے لوگ داخل ہورہے ہیں ابوسفیان نے کہا ہاں قیصر نے کہا تم لوگوں نے میری بصیرت میں اضافہ کردیا ہے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ہوسکتا ہے کہ وہ میرے قدموں کے پنجے کی جگہ تک غالب آجائے اے رومیوں ! آؤ ہم اس شخص کی دعوت کو قبول کرلیں اور ہم اس سے کریں گے کہ وہ ہم پر کبھی بھی چڑھائی نہیں کرے کیونکہ انبیاء میں سے کسی نبی نے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ کو خط لکھا ہے اور وہ اسے اللہ کی طرف بلاتا ہے پھر بادشاہ اس کی دعوت کو قبول کرلیتا ہے تو بادشاہ جو سوال کرتا ہے نبی اس کو عطاء کردیتا ہے قیصر نے کہا کہ میری بات مان لو (جو کچھ میں نے کہا) کہنے لگے (پادری، علماء اور سردار وغیر ہ) کہ ہم اس بارے میں کبھی بھی تیرا کہنا نہیں مانیں گے ابوسفیان نے کہا اللہ کی قسم مجھے نبی ﷺ کے متعلق کوئی ایسی بات کہنے سے کسی چیز نے نہیں روکا جو قیصر کی نگاہ میں آپ کا مقام گرادے مگر میں نے پسند نہیں کیا کہ میں آپ کے بارے میں جھوٹ بولوں پھر میرے بارے میں یہ جھوٹی بات مشہور ہوجائے اس نے میری تصدیق نہ کی یہاں تک کہ میں آپ کی معراج کا واقعہ کا ذکر کیا میں نے کہا اے بادشاہ سلامت ! میں آپ کے متعلق ایک بات بتاتا ہوں کہ جس سے آپ اس کے جھوٹ کو پہچان لیں گے قیصر نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ میں نے کہا اس نے ہم کو بتایا کہ وہ ہماری حرم کی زمین سکے رات میں نکلا پھر تمہاری اس ایلیا کی مسجد میں آیا اور پھر اسی رات میں صبح سے پہلے ہماری طرف لوٹ آیا ایلیا کا مجاور قیصر کے پاس کھڑا تھا اس نے کہا مجھے وہ رات معلوم ہے قیصر نے اس کی طرف دیکھا تم کو اس کا کیسے علم ہے ؟ اس نے کہا کہ میں رات کو نہیں سوتا یہاں تک کہ میں مسجد کے دروازے بند کردیتا تھا جب وہ رات تھی میں نے سب دروازوں کو بند کردیا مگر ایک دروازہ بند نہ ہوا میں نے اس پر اپنے مزدوروں سے مدد طلب کی اور جو لوگ مسجد میں تھے (ان کی بھی مدد کی) مگر ہم دروازے کو حرکت نہ دے سکے گویا کہ اس پر پہاڑ گرگیا ہے میں نے بھئیوں کو بلایا انہوں نے اس کی طرف دیکھا اور دروازے پر ساری عمارت گرا دی گئی ہے ہم اس کو حرکت نہیں دے سکتے یہاں تک کہ ہم صبح کو دیکھیں گے کہ اس کو کیا ہوا میں لوٹ آیا اور اس کو کھلا چھوڑ دیا جب میں سویرے گیا کہ وہ پتھر جو دروازے کہ کونے میں تھا اس میں سوراخ ہوچکا تھا اور اس میں جانور کے باندھنے کا نشان تھا میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آج رات یہ دروازہ کسی نبی کی آمد کی وجہ سے بند نہیں ہوا اس نے ہماری مسجد میں نماز پڑھی ہے قیصر نے کہا اے محشر روم کیا تم نہیں جانتے ہو کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اور قیامت کے درمیان ایک نبی نے آنا ہے جس کی خوشخبری تم کو عیسیٰ (علیہ السلام) نے د ی تھی اور یہ وہی نبی ہیں جس کی عیسیٰ (علیہ السلام) نے خوشخبری دی تھی اس کی دعوت کو قبول کرو جس دین کی طرف وہ بلاتا ہے (یہ بات سن کر سب بھاگنے لگے) قیصر نے جب ان کو بھاگتے دیکھا تو کہنے لگا اے رومیوں ! تمہارے بادشاہ نے تم کو اس لئے بلایا تھا تاکہ تمہارا امتحان لے کہ کس قدر تمہاری پختگی ہے تمہارے دین میں پس تم نے اس کو برا بھلا کہا اور گالیاں دیں جب کہ وہ تمہارے سامنے موجود ہے پس تمام رومی اس کو سجدہ کرتے ہوئے زمین پر گرگئے۔ معراج کی رات براق پر سوار ہونے کا ذکر : 97:۔ واسطی نے فضائل بیت المقدس میں روایت کیا نقل کی کہ کعب ؓ نے بیان فرمایا کہ معراج کی رات آپ کی براق ایسی جگہ ٹھہر گئی جہاں انبیاء کی سواریں ٹھہرا کرتے تھے پھر آپ باب نبی سے داخل ہوئے اور جبرائیل آپ کے آگے تھے آپ کے لئے روشنی ہوئی جیسے سورج کی روشنی ہوتی ہے پھر جبرائیل (علیہ السلام) آگے بڑھے یہاں تک کہ شاہی چٹان کے قریب پہنچ گئے جبرائیل (علیہ السلام) نے اذان دی آسمان سے فرشتے ان پر نازل ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے (تمام) رسولوں کو جمع فرمادیا نماز کھڑی ہوئی تو جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ کو آگے کردیا نبی کریم ﷺ نے فرشتوں اور نبیوں کو نماز پڑھائی پھر آپ اس سے آگے بڑھے ایک جگہ کی طرف آپ کے لئے سیڑھی سونے کی اور ایک سیڑھی چاندی کی رکھی گئی یہی معراج تھی یہاں تک کہ جبرائیل (علیہ السلام) اور نبی کریم ﷺ آسمان کی طرف چڑھ گئے۔ 98:۔ واسطی نے ابوحذیفہ سے اور انہوں نے بیت المقدس کے موذن سے انہوں نے اپنی دادی سے انہوں نے صفیہ ؓ نبی کریم ﷺ کی بیوی اور کعب ؓ کو دیکھا کعب ؓ ام المومنین کو کہہ رہے تھے۔” اے مومنین کی ماں ! یہاں نماز پڑھو کیونکہ نبی کریم ﷺ نے معراج کی رات میں سب نبیوں کو یہاں نماز پڑھائی “ اور ابوحذیفہ ؓ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا صخرہ کے پیچھے قبلہ قصوی کی طرف۔ 99:۔ واسطی نے ولید بن مسلم (رح) سے روایت کیا کہ مجھے ہمارے بعض شیوخ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب معراج کی رات میں بیت المقدس پر چڑھے انکو مسجد کے داہنی جانب اور اس کے بائیں جانب دو اونچے لمبے نور نظر آئے جو پھیلے ہوئے تھے میں نے پوچھا اے جبرائیل یہ دونوں کیا ہیں ؟ انہوں نے فرمایا یہ نور جو مسجد کے داہنی طرف ہے یہ آپ کے بھائی داود (علیہ السلام) کا محراب ہے اور یہ جو آپ بائیں طرف ہے تو وہ آپ کی بہن مریم (علیہا السلام) کی قبر ہے۔ 100:۔ ابن اسحاق، ابن جریر اور ابن منذر نے حسن بن حسین ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں حطیم میں سو رہا تھا میرے پاس جبرائیل تشریف لائے اور مجھ کو اپنے پاوں سے دبایا میں اٹھ کر بیٹھ گیا مگر کوئی چیز میں نے نہیں دیکھی پھر میں سوگیا جبرائیل (علیہ السلام) دوبارہ میرے پاس آئے اور مجھ کو اپنے پاوں کے ساتھ دبایا پھر میرے بازوں کو پکڑا تو میں اس کے ساتھ کھڑا ہوگیا وہ مسجد کے دروازے کی طرف گئے اچانک ایک سفید جانور کھڑا تھا جس کا قد گدھے اور خچر کے درمیان تھا اور اس کی رانوں میں دو پر تھے جس کے ذریعے وہ اپنی ٹانگوں پر مار کر اڑتا تھا اپنے قدم انتہائے نظر تک رکھتا تھا جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے اس پر سوار کیا پھر وہ باہر نکلا پھر وہ مجھ سے جدا نہ ہوا اور نہ میں اس سے جدا ہوا۔
Top