Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Dure-Mansoor - Al-Israa : 5
فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَیْكُمْ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ وَ كَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا
فَاِذَا
: پس جب
جَآءَ
: آیا
وَعْدُ
: وعدہ
اُوْلٰىهُمَا
: دو میں سے پہلا
بَعَثْنَا
: ہم نے بھیجے
عَلَيْكُمْ
: تم پر
عِبَادًا لَّنَآ
: اپنے بندے
اُولِيْ بَاْسٍ
: لڑائی والے
شَدِيْدٍ
: سخت
فَجَاسُوْا
: تو وہ گھس پڑے
خِلٰلَ الدِّيَارِ
: شہروں کے اندر
وَكَانَ
: اور تھا
وَعْدًا
: ایک وعدہ
مَّفْعُوْلًا
: پورا ہونے والا
سو جب ان دونوں میں پہلی مرتبہ کی میعاد کا وقت آئے گا تو ہم تم پر اپنے ایسے بندے بھیج دیں گے جو سخت لڑائی لڑنے والے ہوں گے پھر وہ گھروں کے اندر گھس پڑیں گے اور یہ وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا
معراج جسم وروح کے ساتھ ہوا۔ 101۔ ابن ابی حاتم نے سدی کے طریق سے ابو مالک اور ابو صالح سے اور انہوں نے ابن عباس، مرہ ہمدانی اور ابن مسعود ؓ اللہ تعالیٰ سے اس قول (آیت) ” سبحن الذی اسری بعبدہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ جبرائیل مکہ مکرمہ میں تشریف لائے نبی کریم ﷺ کے پاس اور انکو براق پر سوار فرمایا اور ان کو لے کر رات میں بیت المقدس کی طرف گئے راستے میں ابوسفیان کے پاس سے گزرے وہ اونٹنی کا دودھ دوہ رہا تھا براق کو محسوس کرکے اونٹنی بدک گئی اور دودھ کو ڈول دیا ابوسفیان نے اس کے بدکنے پر اس کو برا بھلا کہا ان کا خاکستری اونٹ بھی بھاگ گیا وہ کسی پانی کی طرف چلا گیا لوگوں نے ان کو تلاش کیا اور ان کو پکڑ کرلے آئے اور ایسی وادی سے گزرے جس سے مشک کی خوشبو پھوٹ رہی تھی آپ نے جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا یہ خوشبو کیسی ہے ؟ انہوں نے فرمایا یہ لوگ مسلمانوں کے گھروں کے لوگ ہیں اللہ عزوجل کے راستے میں آگ سے جلادئے گئے (اس لئے ان کی وادی سے مشک کی خوشبو ہے) 102:۔ ابن ابی حاتم نے عبداللہ بن حوالہ ازدی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا معراج کی رات میں نے ایک سفید ستون دیکھا گویا کہ وہ ایک موتی تھا جس کو فرشتے اٹھائے ہوئے تھے میں نے پوچھا کہ یہ کس چیز کو اٹھائے ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ یہ اسلام کا ستون ہے ہم کو حکم دیا گیا ہے کہ ہم اس کو شام میں رکھیں گے۔ 103:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے (آیت) ” سبحن الذی اسری بعبدہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ شعب ابی طالب سے آپ کو معراج پر لے جایا گیا۔ 104:۔ ابن اسحاق اور ابن جریر نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے جسم کو گم نہیں پایا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح کو معراج کرائی۔ 105:۔ ابن اسحاق اور ابن جریر نے معاویہ بن ابی سفیان ؓ سے روایت کیا کہ جب ان سے رسول اللہ ﷺ کی سیر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سچا خواب تھا۔ 106۔ ابن نجار نے تاریخ میں انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جبرائیل میرے پاس براق لے کر آئے ابوبکر ؓ نے آپ ﷺ سے فرمایا کہ میں نے اس کو دیکھا تھا یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا کہ مجھے اس کی صفت بیان کرو ابوبکر نے فرمایا وہ ایک جانور تھا آپ نے فرمایا سچ کہا اے ابوبکر تو نے واقعی اس کو دیکھا ہے۔ 107:۔ خطیب نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب مجھے آسمانوں کی طرف رات کو لے جایا گیا تو میرے رب نے مجھے خاص اپنا قریب نصیب کیا یہاں تک میرے اور ان کے درمیان دو کمانوں کا فاصلہ تھا یا اس سے کم یا اس سے بھی کم اور مجھے اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء کی تعلیم دی فرمایا اے محمد ﷺ میں نے عرض کیا اے میرے رب میں حاضر ہوں فرمایا کیا تجھ کو امت کا غم ہوگا اگر میں تیری امت کو آخری امت بنادوں میں نے عرض کیا اے میرے رب یہ غم نہیں ہوگا فرمایا میری طرف سے اپنی امت کو سلام پہنچا دو اور ان کو خبر دو کہ میں نے ان کو آخری امت بنایا تاکہ میں پہلی امتوں کو اس کے سامنے رسوا کروں اور میں ان کو رسوا نہیں کروں گا دوسری امتوں کے سامنے۔ 108:۔ طبرانی نے ام ہانی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب مجھے معراج کرائی گئی تو میں نے ارادہ کیا کہ قریش کے پاس جاکر ان کو (اس واقعہ کی) خبر دوں مگر انہوں نے (یہ واقعہ سن کر) جھٹلایا ابوبکر ؓ نے آپ کی تصدیق کی اس لئے اس دن سے ان کا نام الصدیق رکھا گیا۔ 109:۔ ابن جریر نے ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ مجھے ابن المسیب اور ابواسامۃ بن عبدالرحمن نے یہ خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ کو براق پر معراج کرائی گئی اور یہاں ابراہیم (علیہ السلام) کی وہ سواری تھی جس پر وہ سوار ہو کر بیت الحرام کی زیارت کے لئے آتے تھے یہ براق حد نگاہ پر قدم رکھتا تھا۔ وہ براق قریش کے قافلوں میں سے ایک قافلے کے پاس گزرا جو ایک وادی میں تھا تو ان کا ایک اونٹ بھاگ گیا تھا جس پر دو بوریاں دھاری دار لدی ہوئی تھیں یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ ایلیا میں پہنچ گئے دو پیالے لائے گئے ایک پیالہ شراب کا تھا اور ایک پیالہ دودھ کا تھا رسول اللہ ﷺ نے دودھ کو لے لیا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا آپ کو فطرت کی طرف ہدایت دی گئی اگر آپ شراب کا پیالہ لے لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی۔ بعض انبیاء (علیہم السلام) کے ا وصاف کا ذکر : ابن شہاب (رح) نے فرمایا کہ مجھے ابن المسیب نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ وہاں ابراہیم، موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) سے ملے رسول اللہ ﷺ نے ان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) دراز قد کے تھے اور ان کے بال ایسے تھے گویا کہ وہ شنوأہ قبیلہ کے آدمیوں میں سے ہیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) ایک سرخ رنگ کے تھے گویا وہ کسی تہہ خانے سے نکلے ہیں اور وہ عروہ بن مسعود ثقفی کے مشابہ تھے لیکن ابراہیم (علیہ السلام) میں ان کی اولاد میں سے میں ان کے زیادہ مشابہ ہوں جب رسول اللہ ﷺ واپس لوٹے اور قریش کو بیان فرمایا کہ ان کو معراج کرائی گئی تو بہت سے لوگ مرتد ہوگئے اس کے بعد کے وہ اسلام لا چکے تھے ابوسلمہ ؓ نے ابوبکر ؓ آئے ان سے پوچھا گیا کیا اب بھی تم اپنے ساتھی (یعنی محمد ﷺ کی بات کو تسلیم کرو گے کہ وہ کہتا ہے کہ اس کو رات کو بیت المقدس لے جایا گیا پھر ایک رات میں واپس بھی لوٹ آئے ابوبکر ؓ نے فرمایا کیا آپ ﷺ نے اسی طرح فرمایا ہے ؟ لوگوں نے کہا ہاں ابوبکر ؓ نے فرمایا اگر انہوں نے ایسا فرمایا ہے۔ تو میں گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے سچ فرمایا ہے لوگوں نے کہا کہ کیا تو تسلیم کرتا ہے کہ وہ ایک ہی رات میں شام سے واپس آگئے ؟ ابوبکر ؓ نے فرمایا میں تو ان کی اس سے بھی عقل سے دور باتوں کی تصدیق کرتا ہوں میں ان کی آسمان کی خبر کو سچ مانتا ہوں۔ 110:۔ عبدالرزاق نے مصنف میں ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ نافع بن جبیر وغیرہ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کو جس رات معراج کرائی گئی تھی اس رات کی صبح کے بعد سورج ڈھلنے کے وقت جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ کے پاس تشریف لائے اسی وجہ سے ظہر کی نماز کو نماز اولی کہا جاتا ہے آپ ﷺ نے بلال کو لوگوں میں یہ اعلان کرنے کا حکم دیا ” الصلاۃ جامعہ “ پس لوگ جمع ہوگئے تو جبرائیل (علیہ السلام) نے نبی کریم ﷺ کو امامت کرائی اور لوگوں کی امامت کرائی کہ پہلی دو رکعتوں کو لمبا کیا اور آخری دو رکعتوں کو مختصر کیا پھر جبرائیل نے نبی کریم ﷺ پر سلام کیا اور نبی کریم ﷺ نے لوگوں پر سلام کیا پھر عصر کی نماز اسی طرح ادا کی گئی اور اسی طرح کیا جیسے ظہر کی نماز میں کیا تھا پھر (جبرائیل (علیہ السلام) پہلی رات میں نازل ہوئے پھر الصلاۃ جامعہ کی آواز لگائی جبرائیل (علیہ السلام) نے نبی کریم ﷺ کی امامت کرائی اور نبی کریم ﷺ نے لوگوں کی امامت کرائی پہلی دو رکعتوں کو لمبا کیا اور تیسری رکعت کو چھوٹا کیا پھر جبرائیل (علیہ السلام) نے نبی کریم ﷺ پر سلام کیا اور نبی کریم ﷺ نے لوگوں پر سلام کیا پھر جب ایک تہائی رات گزر گئی تو پھر جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور ” الصلاۃ جامعہ “ پس لوگ جمع ہوگئے تو جبرائیل (علیہ السلام) نے نبی کریم ﷺ کو امامت کرائی اور لوگوں کی امامت کرائی کہ پہلی دو رکعتوں میں زور سے قرأت کی فرمائی اور قرأت کو لمبا کیا اور آخری دو رکعتوں کو چھوٹا کیا پھر جبرائیل نے نبی کریم ﷺ پر سلام کیا اور نبی کریم ﷺ نے لوگوں پر سلام کیا جب صبح طلوع ہوئی تو ” الصلاۃ جامعہ “ کی آواز لگائی گئی جبرائیل (علیہ السلام) نے نبی کریم ﷺ کو امامت کرائی اور لوگوں کی امامت کرائی ان دونوں رکعتوں جہرا اور طویل قرأت کی اور اپنی آواز کو بلند فرمایا پھر جبرائیل نے نبی کریم ﷺ پر سلام کیا اور نبی کریم ﷺ نے لوگوں پر سلام کیا۔ 111:۔ ابوبکر واسطی نے فضائل بیت المقدس میں علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ زمین پانی تھی اللہ تعالیٰ نے ہوا بھیجی ہوا پانی کو لگی تو زمین پر جھاگ ظاہر ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کردیا ایک ٹکڑے سے مکہ معظمہ کو پیدا کیا گیا اور دوسرے سے مدینہ منورہ کو اور تیسرے سے بیت المقدس کو اور چوتھے سے کوفہ کو۔ واسطی وہب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ داود (علیہ السلام) نے ارادہ فرمایا کہ وہ بنی اسرائیل کی تعداد کو جان لیں کہ وہ کہتے تھے انہوں نے نقباء اور عرفاء کو بھیجا اور ان کو حکم دیا کہ ان کے پاس ان کی گنتی کرکے لے آئیں تو اللہ تعالیٰ نے اس وجہ سے اس پر عتاب فرمایا اور فرمایا کہ تو نے جان لیا کہ میں نے ابراہیم (علیہ السلام) سے وعدہ کیا تھا کہ میں برکت دوں گا تجھ میں اور تیری اولاد میں یہاں تک میں ان کو چیونٹیوں کی تعداد کی طرح بنا دوں گا۔ اور ان کو اتنی تعداد میں کردوں گا کہ ان کی تعداد نہیں گنی جاسکے گی اور تو نے ارادہ کیا کہ کہ تو انکی تعداد کو جان لے جبکہ ان کا گننا ممکن نہیں پس تم اپنے لئے دو چیزوں کو اختیار کرلو کہ میں تم کو تین سال بھوک میں مبتلا کروں گا یا تم پر تین مہینے دشمن کو مسلط کردوں گا یا تین دن موت دوں گا داود (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ بھوک پر تین سال صبر کرنا ہمارے پس میں نہیں اور نہ تین ماہ دشمن کا تسلط برداشت ہوگا اور ان کے لئے تقیہ کا مسئلہ نہ تھا اگر آزمائش ضروری ہے تو موت اللہ کے ہاتھ میں ہے کسی دوسرے کے ہاتھ میں نہیں ہے پس انہوں نے موت کو قبول کیا تو ایک ہی گھڑی میں ہزاروں مرگئے جن کی تعداد معلوم نہ ہوئی تھی جب اس بھیانک منظر کو داود (علیہ السلام) نے دیکھاتو ان پر کثرت موت کی وجہ سے بہت گرانی ہوئی اللہ تعالیٰ سے سوال فرمایا اور دعا فرمائی اے میرے رب میں کڑوا پھل کھاوں گا اور بنی اسرائیل روندے جائیں ؟ میں اس بات کو طلب کرتا ہوں اور میں اسی بات کا بنی اسرائیل کو حکم کروں گا پس جو کچھ ہوا میری طرف سے بنی اسرائیل سے موت کو اٹھا لیجئے اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول فرما لیا اور ان سے موت کو اٹھا لیا داود (علیہ السلام) نے فرشتوں کو دیکھا کہ وہ اپنی لٹکی ہوئی تلواروں کو نیام میں ڈال رہے ہیں۔ سونے کی ایک سیڑھی میں ایک چٹان سے آسمان کی طرف اوپر جا رہے ہیں داود (علیہ السلام) نے فرمایا اس جگہ پر اللہ کے لئے ایک مسجد بنانی چاہئے اور ارادہ فرمایا کہ اس کی بنیاد (رکھی) جائے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی یہ بیت المقدس ہے اور بلاشبہ تو نے پھیلادیا ہے اپنے ہاتھوں کو خون تو اس کا بانی نہیں ہے لیکن تیرے بعد تیرا بیٹا اس کو نام سلیمان ہوگا وہ اس کو خون سے محفوظ کرے گا جب سلیمان (علیہ السلام) بادشاہ بنے انہوں نے اس کی تعمیر کی جب سلیمان (علیہ السلام) نے ارادہ فرمایا کہ اس کی بنیاد رکھیں تو شیاطین سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں اس کے لئے ایک گھر بناؤ کہ اس میں لوہے سے کوئی پتھر نہ کاٹا جائے تو شیاطین نے کہا کہ اس پر قادر نہیں ہوگا مگر وہ شیطان جو سمندر میں رہتا ہے اس کا ایک پینے کا پیالہ ہے جس پر وہ اترتا ہے شیاطین اس کے پیالے کی طرف اور انہوں نے اس کے پانی کو نکالا اور اس کی جگہ شراب کو رکھ دیا وہ پینے لگا تو اس کی شراب کی بو محسوس کی اور کہا یہ کیا چیز ہے اور اس نے نہیں پی جب اس کو سخت پیاس لگی تو اس نے شراب کو پی لیا اور پکڑا گیا اس درمیان کے وہ راستے میں تھے اچانک ایک آدمی تھوم اور پیاز بیچ رہا تھا تو شیطان دیکھ کر ہنسا پھر وہ ایک عورت کے پاس سے گزرا جو ایک قوم میں غیب کی خبر بتلارہی تھی تو (دیکھ کر) ہنسا جب سلیمان (علیہ السلام) نے کے پاس پہنچا تو اپنے ہنسنے کی وجہ بتائی تو سلیمان (علیہ السلام) نے اس سے سوال فرمایا اس نے کہا میں ایک ایسے آدمی کے پاس سے گذرا تو دوا کو بیماری کے ساتھ بیچ رہا تھا اور میں ایک ایسی عورت کے پاس سے گذرا جو غیب کی خبریں بتارہی تھی اور اس کے نیچے خزانہ تھا جس کو وہ نہیں جانتی تھی حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کے سامنے بیت المقدس کی تعمیر کا مسئلہ رکھا اور اس نے حکم دیا کہ وہ تانبے کی ایسی ہنڈیا لے آئیں جس کو بیل نہ اٹھا لائے اور دوسرے شیطانوں نے وہ ہنڈیا گدھ کے بچوں پر رکھی اس کے پاس شیطان آیا اور وہ گدھ کے بچوں تک نہ پہنچ سکا (اس کے بعد) وہ آسمان کی فضاء میں بلند ہوا پھر نیچے اترا اپنی چونچ میں ایک ایک لکڑی لایا اور اس کو ہانڈی پر رکھ دیا تو وہ (ہانڈی) پھٹ گئی پس شیاطین نے اس لکڑی کو اٹھا لیا اور اس کے ذرلعے پتھروں کو تراشا۔ عہد فاروقی میں مسجد نبوی ﷺ کی توسیع : 112:۔ ابن سعد نے سالم ابوالنصر ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں جب مسلمان زیادہ ہوگئے تو ان کے لئے مسجد (نبوی) تنگ ہوگئی تو عمر ؓ نے مسجد کے اردگرد گھروں کو خرید فرمایا سوائے عباس بن عبدالمطلب کے گھر کے اور امہات المومنین کے حجروں کے (کہ ان کو نہ خریدا) عمر ؓ نے عباس ؓ سے فرمایا اے ابوالفضل مسلمانوں کی مسجد ان کے لئے تنگ ہوگئ ہے اور میں نے اردگرد کے گھروں کو خرید لیا ہے اس کے ذریعے ہم مسلمانوں پر ان کی مسجد کو کشادہ کریں گے سوائے آپ کے گھر اور امہات المومنین کے حجروں کے (کہ ان کو نہ خریدا گیا) (پھر) عمر ؓ نے فرمایا امہات المومنین کے حجروں (کو خریدنے) کے لئے کوئی راستہ نہیں اور رہا آپ کا گھرا اگر آپ چاہیں تو اس کو بیچ دیں مسلمانوں کے بیت المال سے تاکہ اس کے ذریعے ان کی مسجد میں توسیع کی جائے عباس ؓ نے فرمایا میں ایسا نہیں کروں گا عمر ؓ نے فرمایا میری طرف سے تین چیزوں میں سے ایک چیز کو اختیار کرلو یا تو یہ گھر مسلمانوں کے بیت المال کو قیمتا فروخت کردو میں تم کو مدینہ منورہ میں جہاں چاہوں بیت المال سے گھربنا دیتا ہوں یا یہ کہ آپ (گھر) کو مسلمانوں پر صدقہ کردیں تاکہ میں اس کے ذریعے مسلمانوں کی مسجد میں اضافہ کردوں عباس ؓ نے فرمایا میں نہیں دوں گا ان میں سے ایک بات بھی قبول نہیں عمر ؓ نے فرمایا میں اپنے اور تمہارے درمیان کوئی حاکم بنا دیتا ہوں جس کو آپ چاہیں (تاکہ وہ فیصلہ کرے) فرمایا ابی بن کعب ؓ کو حاکم بنا دو دونوں حضرت ابی ؓ کے پاس تشریف لے گئے اور ان کو اپنا قصہ بیان کیا ابی ؓ نے فرمایا اگر تم چاہو تو میں تم کو ایک حدیث بیان کروں جس کو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے دونوں نے کہا ہم کو بیان کیجئے تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے داود (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ میرے لئے ایک گھر بناؤ جس میں (مجھے) یاد کیا جائے حضرت داود (علیہ السلام) نے نے بیت المقدس کے لئے نشان لگائے اس زمین کا چوتھا حصہ بنی اسرائیل میں سے کسی کا گھر بنتا تھا داود (علیہ السلام) نے اس سے سوال کیا کہ وہ اس کو بیچ دے اس نے انکار کردیا داود (علیہ السلام) نے اپنی طرف سے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس سے (زبردستی) لے لیں گے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی اے داود (علیہ السلام) میں نے تجھ کو حکم دیا تھا کہ میرے لئے ایک گھربناؤ جس میں میرا ذکر کیا جائے اور تو نے ارادہ کیا کہ میرے گھر میں غصب (کے گھر) کو داخل کردے اور میری یہ شان نہیں کہ میں کسی کا مال غصب کروں اب تیر سزا یہ ہے کہ تو اس کو تعمیر نہیں کرے گا عرض کیا یا رب یہ شرف تعمیر میری اولاد کو عطاء کیا جائے فرمایا ہاں تیری اولاد میں سے ایک شخص اس کی تعمیر کرے گا راوی نے کہا کہ عمر ؓ نے ابی بن کعب ؓ کے کپڑے کو پکڑ کر فرمایا میں تیرے پاس ایک معا ملہ لایا تھا اور لیکن تو نے مجھے اس کے حل کے بجائے مزید مشکل میں ڈال دیا ہے جو تو نے کہا اس کی دلیل لاؤ پھر حضرت عمر ؓ سے (یعنی ابی کو) آگے کرتے ہوئے لئے آئے یہاں تک کہ ان کو مسجد میں داخل کردیا اور ان کو رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کے ایک حلقے میں ٹھہرادیا ان میں ابوذر ؓ بھی تھے ابی بن کعب ؓ نے کہا میں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کسی نے رسول اللہ ﷺ سے بیت المقدس کی تعمیر سنی ہو جس میں اللہ تعالیٰ نے داود (علیہ السلام) کو بیت المقدس کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ ابوذر ؓ نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ حدیث سنی ہے اور دوسرے آدمی نے کہا کہ میں نے بھی رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے اس وقت حضرت عمر ؓ نے حضرت ابی ؓ کو چھوڑ دیا حضرت ابی ؓ نے حضرت عمر ؓ سے کہا کیا تم مجھے رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے بارے میں متہم کرتے ہو ؟ عمر ؓ نے فرمایا اے ابوالمنذر (یہ ابی ؓ کی کنیت ہے) نہیں اللہ کی قسم مجھے تم پر کوئی جھوٹ کا اندیشہ نہیں تھا لیکن میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث کو ظاہر کرنا چاہتا تھا اور عمر ؓ نے عباس ؓ سے فرمایا تشریف لے جائے اس بارے میں آپ سے کوئی تعرض نہیں کرتا عباس ؓ نے فرمایا تم ایسا کرتے ہو تو میں اپنا گھر مسلمانوں پر صدقہ کردیتا ہوں اس کے ذریعے ان کی مسجد کو کشادہ کرلیجئے لیکن اگر تم مجھ سے جھگڑا کرو تو پھر نہیں حضرت عمر ؓ نے حضرت عباس ؓ کے لئے بیت المال سے گھر تعمیر کیا جو آج بھی قائم ہے۔ حضرت عباس ؓ کا گھر وقف کرنا : 113:۔ ابن سعد نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عباس ؓ کا ایک گھر مدینہ منورہ میں تھا عمر ؓ نے ان سے فرمایا (اپنا مکان) مجھے ہبہ کردیجئے یا اس کو بیچ دیجئے تاکہ میں اس کو مسجد میں داخل کردوں انہوں نے انکار کردیا حضرت عباس ؓ نے فرمایا میرے اور اپنے درمیان رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے ایک آدمی مقرر کردیجئے جو ہمارے درمیان فیصلہ کرے پس ابی بن کعب ؓ کے پاس مسئلہ پیش کیا گیا ابی ؓ نے عمر ؓ کے خلاف فیصلہ فرمایا تو عمر ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے کوئی شخص حضرت ابی ؓ سے زیادہ مجھ پر جرأت کرنے نہیں تھا ابی ؓ نے فرمایا تب تو میں آپ کو ایک نصیحت کروں گا اے امیر المومنین کیا عورت کا قصہ نہیں جانتے ؟ جب داود (علیہ السلام) نے بیت المقدس کو تعمیر فرمایا تو انہوں نے اس میں ایک عورت کا گھر اس کی اجازت کے بغیر اس میں داخل کردیا جب اس کی تعمیر اتنی ہوگئی کہ مردوں کے لئے اسے کر اس کرنا ممکن نہ تھا تو اس کی تعمیر سے روک دیا گیا انہوں نے عرض کیا اے میرے رب مجھ سے یہ خدمت روک لی ہے تو میرے بعد میری نسل کی عطاء فرما دے جب حضرت عباس ؓ کے متعلق میں فیصلہ کردیا تو حضرت عباس ؓ نے کہا کیا آپ نے میرے حق میں فیصلہ نہیں کیا ہے حضرت ابی ؓ نے کہا کیوں نہیں میں نے واقعی تمہارے حق میں فیصلہ کیا ہے تو عباس ؓ نے فرمایا میں تمہاری خاطر یہ گھر اللہ کی رضا کے لئے پیش کرتا ہوں۔ 114:۔ عبدالرزاق نے مصنف میں سعید بن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب ؓ نے عباس بن عبدالمطلب ؓ کا گھر لینے کا ارادہ کیا تاکہ اس سے مسجد کو اضافہ کردیں عباس ؓ نے اس کو دینے سے انکار کردیا عمر ؓ نے فرمایا میں اس کو (ضرور) لوں گا تو انہوں نے فرمایا کہ میرے اور اپنے درمیان ابی بن کعب ؓ کو (قاضی) بنادو عمر ؓ نے فرمایا ہاں دونوں حضرت ابی بن کعب ؓ کے پاس تشریف لائے اور ان سے (سارا معاملہ) ذکر فرمایا ابی بن کعب ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے سلیمان بن داود (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ بیت المقدس کی تعمیر کرو وہ ایک آدمی کی زمین تھی کہ اس سے انہوں نے خرید لی جب اس کو پیسے دئے تو اس آدمی نے پوچھا جو چیز آپ مجھے دے رہے ہیں وہ بہتر ہے یا وہ چیز جو آپ نے مجھ سے لی ہے فرمایا بلکہ وہ چیز جو میں نے تجھ سے لی ہے (وہ بہتر ہے) اس آدمی نے کہا پھر میں اس کی اجازت نہیں دیتا پھر انہوں نے اس سے وہ جگہ اس سے زائد قیمت میں خرید لی اس آدمی نے اسی طرح دو یا تین مرتبہ زائد قیمت وصول کی تو سلیمان (علیہ السلام) نے اس پر شرط لگا دی کہ میں یہ زمین تیرے فیصلہ کے مطابق خریدوں لیکن اب تو سوال نہیں کرے گا کہ کون سی چیز بہتر ہے (قیمت یا زمین) اس نے کہا ٹھیک ہے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس سے وہ زمین اس کے حکم کے مطابق خرید لی اس نے بارہ ہزار قنطار سونا وصول کیا حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اتنی قیمت ادا کرنے کو بھاری سمجھا اللہ تعالیٰ نے و حی فرمائی اگر تو اسے اپنے مال سے کچھ دے تو تو زیادہ جانتا ہے اور اگر اس کو تو نے ہماری عطاء و بخشش سے عطاء کرنا ہے تو اسے منہ مانگی قیمت دے دے تاکہ وہ خوش ہوجائے۔ راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے اس کو منہ مانگی قیمت ادا کردی ابی بن کعب ؓ نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ عباس ؓ کو زیادہ اپنے گھر کا حق دار سمجھتا ہوں یہاں تک کہ وہ خود دینے سے راضی ہوجائیں (یہ سن کر) عباس ؓ نے فرمایا جب تو نے میرے حق میں فیصلہ کردیا ہے کہ میں اپنے پاس اس گھر کو مسلمان پر صدقہ کرتا ہوں۔ حضرت عباس ؓ کا احترام : 115:۔ عبدالرزاق نے نقل کیا کہ زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ عباس بن عبدالمطلب ؓ کا گھر مدینہ کی مسجد کے پہلو میں تھا عمر ؓ نے ان سے فرمایا اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوں گے کہ تو اس کو بیچ دے اور عمر ؓ نے اس کو مسجد میں داخل کرنے کا ارادہ کیا تھا عباس ؓ نے اس کو بیچنے سے انکار فرما دیا عمر ؓ نے فرمایا اس کو میرے لئے ہبہ کردو انہوں نے فرمایا ان تین کاموں میں سے ایک تو آپ کو ضرور کرنا پڑے گا انہوں نے پھر بھی انکار کردیا عباس ؓ نے فرمایا میرے اور اپنے درمیان ایک آدمی کو (فیصلہ کرنے کے لئے) مقرر کیجئے تو دونوں نے ابی بن کعب ؓ کو مقرر کردیا دونوں اس کے سامنے جھگڑنے لگے ابی ؓ نے عمر ؓ سے فرمایا آپ ان کا گھر نہیں لے سکتے جب تک آپ ان کو راضی نہ کرلیں عمر ؓ نے ان سے فرمایا کیا آپ بتاسکتے ہیں کیا آپ یہ فیصلہ اللہ کی کتاب میں ہے یا رسول اللہ ﷺ کی سنت میں سے ہے ابی بن کعب ؓ نے فرمایا بلکہ یہ رسول اللہ ﷺ کی سنت میں سے ہے عمر ؓ نے فرمایا وہ کیا ہے انہوں نے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ سلیمان بن داود (علیہ السلام) نے جب بیت المقدس کی تعمیر کرنا شروع کیا اور جب بھی کوئی دیوار کھڑی کرتے تھے تو صبح کو وہ گری پڑی ہوتی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ اس آدمی کے حق میں تعمیر نہ کریں یہاں تک کہ اس کو راضی کرلیں تو عمر ؓ نے عباس ؓ کو چھوڑ دیا کوئی بات نہ کی اس کے عباس ؓ نے از خود مسجد کی توسیع کے لئے وہ گھر پیش کردیا۔ 116:۔ واسطی نے سعید بن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے داود (علیہ السلام) کو بیت المقدس تعمیر کرنے کا حکم فرمایا پوچھا اے میرے رب میں کہاں اس کو بناوں ؟ فرمایا جہاں تو دیکھے کے فرشتے تلوار سونتے ہوئے ہیں حضرت داود (علیہ السلام) نے اس جگہ فرشتے کو دیکھا حضرت داود (علیہ السلام) نے اس جگہ میں اس کی بنیاد رکھی اور اس کی دیواروں کو اونچا کیا جب (دیوار) بلند ہوئی تو گر پڑتی حضرت داود (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے رب مجھے حکم فرمایا کہ میرے لئے گھر بناؤ جب (تعمیر) بلند ہوتی ہے تو آپ اس کو گراد یتے ہیں فرمایا اے داود (علیہ السلام) میں نے تجھ کو اپنی مخلوق میں خلیفہ بنایا ہے تو نے بغیر قیمت کے اس کے مالک سے کیوں لی پس اب اس گھر کو تیری اولاد میں ایک آدمی بنائے گا جب سلیمان (علیہ السلام) نے زمین کے مالک سے بیع کی زمین مالک نے کہا کہ ایک قنطار لوں گا اس سے سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے قبول ہے زمین والے نے ان سے کہا یہ (رقم) بہتر ہے یا زمین فرمایا نہیں بلکہ وہ (زمین) بہتر ہے اس شخص نے کہا میرے دل میں اور خیال آیا ہے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بیع مکمل نہیں ہوچکی اس نے کہا نہیں بائع اور مشتری کو اختیار ہوتا ہے جب تک مجلس سے جدانہ ہو۔ ابن مبارک فرماتے ہیں کہ یہ خیار کی اصل ہے فرماتے ہیں مالک زمین قیمت میں متواتر اضافہ کرتا رہا اور ہر بات پہلی بات کی طرح کہتا رہا یہ ان تک کہ نوقناطیر قیمت واجب ہوگئی پھر سلیمان (علیہ السلام) نے بیت المقدس کو تعمیر کیا یہاں تک کہ اس سے فارغ ہوگئے دروازے اس کے بند ہوگئے تو سلیمان (علیہ السلام) نے ان کو کھولنا چاہا لیکن وہ نہ کھلے یہاں تک کہ انہوں نے اپنی دعا میں یوں فرمایا ابوداود (علیہ السلام) کی نمازوں کے واسطے سے دروازے کھل جائیں تو سب دروازے کھل گئے سلیمان (علیہ السلام) اس سے فارغ ہوئے تو بیت المقدس میں دس ہزار بنی اسرائیل کو مقرر فرمایا جس میں سے پانچ ہزار رات کو اور پانچ ہزار دن کو تلاوت کرتے تھے اور ہر لمحہ دن رات بیت المقدس میں تلاوت کی جاتی تھی۔ 117:۔ واسطی نے شیبانی (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ تبارک وتعالیٰ نے داود (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ تم بیت المقدس کی عمارت کو مکمل نہیں کرو گے عرض کیا اے میرے رب کیوں فرمایا بلاشبہ تو نے اپنے ہاتھ کو خون آلود کیا ہے عرض کیا اے میرے رب کیا یہ کام تیری اطاعت میں نہیں ہوا ؟ فرمایا کیوں نہیں اگرچہ وہ (میری اطاعت میں) ہے۔ 118۔ ابن حبان نے ضعفاء میں طبرانی، ابن مردویہ اور واسطی نے رافع بن عمیر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے داود (علیہ السلام) سے فرمایا میرے لئے زمین میں ایک گھر بناؤ تو داود (علیہ السلام) نے ایک گھر اپنی ذات کے لئے بنایا اس گھر سے پہلے جس کا حکم دئے گئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی اے داود (علیہ السلام) تو اپنا گھر بنایا میرے گھر سے پہلے فرمایا اے میرے رب تو نے اسی طرح فرمایا ہے کہ جو بادشاہ بنا اس نے اپنے آپ کو ترجیح دی پھر داود (علیہ السلام) نے تعمیر شروع کردی جب دیواریں مکمل یوئیں تو وہ تین مرتبہ گرپڑیں اس بات کی شکایت فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ تو میرے لئے گھر نہیں بنا سکتا عرض کیا اے میرے رب کیوں فرمایا جب کہ تیرے ہاتھوں پر خون جاری ہوئے ہیں فرمایا اے میرے رب یہ سب تیری محبت اور تیری خواہش نہ تھا ؟ فرمایا کیوں نہیں لیکن وہ میرے بندے ہیں اور میں ان پر رحم کرنے والا ہوں یہ بات (داود (علیہ السلام) پر) گراں گزری تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی تو غم نہ کر کہ میں عنقریب اس کی عمارت کو پورا کراوں گا تیرے بیٹے سلیمان کے ہاتھ پر جب داود (علیہ السلام) کو موت آگئی تو سلیمان (علیہ السلام) اس کی عمارت کو بنانا شروع کی جب قربان کرنے والے کا قرب اور ذبائح کی ذبح اور بنی اسرائیل کا اجماع مکمل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میں تجھے خوشی دکھاوں گا کیوں کہ تو نے میرا گھر تعمیر کیا ہے اب تو مجھ سے سوال کر میں تجھ کو عطاء کروں گا عرض کیا میں آپ سے تین چیزوں کا سوال کرتا ہوں ایسا حکم ہو مطابق ہو تیرے حکم کے اور ایسی بادشاہی جو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو اور جو شخص اس گھر میں آئے تو صرف اس میں نماز کا ارادہ کرے تو اپنے گناہوں سے ایسا صاف ہوجائے گا جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو چیزیں تو ان کو عطاء کردی گئیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ ان کی تیسری چیز بھی مل گئی ہوگی۔ حضرت داود (علیہ السلام) کا سجدئہ شکر : 119:۔ واسطی نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے داود (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ میرے لئے بیت المقدس بناؤ انہوں نے اپنے گھر کی تعمیر پہلے شروع کردی اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی اے داود (علیہ السلام) میں نے تجھ کو حکم دیا تھا کہ میرے لئے ایک گھر بناؤ لیکن تو نے پہلے اپنا گھر بنانا شروع کردیا کہ کہ اس لئے اب یہ شرف آپ کو نہیں ملے گا عرض کیا پھر یہ شرف میری اولاد کو بخشا جائے فرمایا ہاں تیری اولاد تعمیر کرے گی جب سلیمان (علیہ السلام) بادشاہ بنے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ بیت المقدس کی تعمیر کرو تو انہوں نے اس کو تعمیر فرمایا جب (عمارت) مکمل ہوگئی تو اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے سجدہ میں گرپڑے عرض کیا اے میرے رب جو شخص ڈرتا ہوا داخل ہو اس کو امن دیجئے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی میں نے آل داود (علیہ السلام) کو دعا کے لئے خاص کردیا ہے (اس پر) انہوں نے چار ہزار گائیں ذبح کیں اور سات ہزار بکریاں ذبح کیں کھانا تیار کرکے بنی اسرائیل کو (کھانے کے لئے) بلایا۔ 120:۔ احمد، حکیم ترمذی نے نوادرالاصول میں، نسائی، ابن ماجہ، حاکم اور بیہقی نے شعب میں (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) عبد اللہ بن عمر و ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سلیمان (علیہ السلام) نے بیت المقدس کو تعمیر فرمایا تو اپنے رب سے تین سوال فرمائے اللہ تعالیٰ نے ان کو دو عطاء فرما دیں اور میں امید کرتا ہوں کہ ان کو تیسری بھی ملے گی انہوں نے سوال کیا کہ ان کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق ہو اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ عطاء فرمادیا اور انہوں نے ایسی بادشاہی کا سوال کیا جو ان کے بعد کسی کو نہ ملے تو یہ سوال بھی ان کا پورا کردیا گیا اور یہ بھی سوال فرمایا کہ جو آدمی اپنے گھر سے نکلے بیت المقدس میں صرف نماز پڑھنے کے لئے تو وہ اپنے گناہوں سے ایسا صاف ہوجائے جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہم امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ سوال بھی پورا فرما دیا۔ 121:۔ ابن ابی شیبہ اور واسطی نے روایت کیا کہ عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ بلاشبہ (یہ) حرم البتہ ساتوں آسمانوں میں (ایسا ہی) حرم ہے اس مقدار کے مطابق جو زمین ہے اور بلاشبہ بیت المقدس البتہ ساتوں آسمانوں میں (ایسا ہی) بیت المقدس ہے اس مقدار کے مطابق جو زمین میں ہے۔ 122:۔ ابن ابی شیبہ، مسلم اور ابن ماجہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کجاوے نہ باندھنیں چاہئیں (یعنی سفر نہ کیا جائے) مگر تین مساجد کی طرف المسجد الحرام اور میری یہ مسجد اور مسجد اقصی۔ 123:۔ ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، ترمذی، اور ابن ماجہ نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کجاوے نہ باندھنے چاہئیں (یعنی سفر نہ کیا جائے) مگر تین مساجد کی طرف المسجد الحرام اور میری یہ مسجد اور مسجد اقصی۔ 124:۔ واسطی نے عطاء خراسانی (رح) سے روایت کیا کہ جب سلیمان (علیہ السلام) بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے باب الرحمت کے پاس ان کے لئے دو درختوں کو اگایا ان میں سے ایک سونے کو اگاتا تھا اور دوسرا چاندی کا اگاتا تھا ان میں سے ہر ایک درخت سے ہر دن میں دو سورطل سونا اور چاندی حاصل کرلی جاتی تھی مسجد کا فرش سونے کی اینٹوں کا تھا جب (ظالم) بخت نصر (بادشاہ) آیا اور اس نے اس فرش کو خراب کیا اسی میں سے اسی (80) ریڑھیاں سونے اور چاندی اٹھوا کر رومۃ دمیہ میں ڈال دیں۔ 125:۔ ابن عساکر یحی بن عمر وشیبانی (رح) سے روایت کیا کہ جب داود (علیہ السلام) نے بیت المقدس کی مسجد کو تعمیر فرمایا تو بیت المقدس میں سنگ مر مر کو داخل ہونے سے روک دیا کیوں کہ یہ ملعون پتھر ہے اس نے دوسرے پتھروں پر فخر کیا تھا اس لئے اس پر لعنت کی گئی۔ 126:۔ حاکم نے (حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ ہم آپس میں یہ تذکرہ کررہے تھے اور ہم نبی کریم ﷺ کے پاس تھے کہ ان دونوں میں کونسی (مسجد) افضل ہے ؟ رسول اللہ ﷺ کی مسجد یا بیت المقدس کی مسجد۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری مسجد میں ایک نماز بیت المقدس میں چار نمازوں سے افضل ہے اور وہ نمازی کتنا اچھا ہے جسے میری مسجد میں نماز پڑھنے کا شرف ملا امید ہے کہ ایک شخص کے لئے اس کے فرش کی مثل زمین ہو جس سے وہ بیت المقدس کو دیکھے تو اس کے لئے وہ تمام دنیا سے بہتر ہے یا فرمایا کہ وہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ان سب سے بہتر ہوگا۔ 127:۔ واسطی نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ بیت المقدس کی طرف ہر دن دو مرتبہ دیکھتے ہیں۔ 128:۔ واسطی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ آپ بیت المقدس میں موجود تھے فرمایا اے نافع ! اس گھربیت المقدس سے ہم کو (کہیں اور) لے چل کیونکہ اس میں گناہ کئی گناہ ہوجاتے ہیں جس طرح نیکیاں کئی گناہو جاتی ہیں۔ 129:۔ واسطی نے مکحول (رح) سے روایت کیا کہ میمونہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے بیت المقدس کے بارے میں سوال کیا آپ ﷺ نے فرمایا بیت المقدس اچھی رہنے کی جگہ ہے اس میں ایک نماز پڑھنا (ثواب کے اعتبار سے) ہزار نمازوں کے برابر ہے دوسری مسجدوں کے اعتبار سے جو اس کی طاقت نہ رکھے تو اس کو چاہئے کہ وہ اس کو تیل کا ھدیہ بھیج دے (وہاں جلانے کے لئے ) 130:۔ واسطی نے مکحول (رح) سے روایت کیا کہ جو شخص بیت المقدس میں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء اور صبح کی نماز پڑھے پھر دوسرے دن نماز پڑھی تو وہ اپنے گناہوں سے ایسا صاف ہو کر نکلے گا جسے آج ہی اس کی ماں نے اس کو جنا۔ 131:۔ واسطی نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ بیت المقدس نے اللہ عزوجل کی طرف ویران ہونے شکایت کی پوچھا گیا کیا مسجد بات کرتی ہے ؟ فرمایا کوئی مسجد ایسی نہیں ہے جس کی آنکھیں نہ ہوں کہ جن کے ذریعہ وہ دیکھتی ہے اور اس کی ایک زبان ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ بات کرتی ہے اور مسجد سکڑ جاتی ہے تھوک سے اور گندگی سے جیسے جانور سکڑ جاتا ہے کوڑے کی ضرب سے۔ 132:۔ واسطی نے کعب ؓ نے بیت المقدس کے بارے میں روایت کیا کہ ایک دن اس میں ایک ہزار دنوں کی طرح ہے اور ایک مہینہ اس میں ایک ہزار مہینوں کی طرح ہے اور ایک سال میں ایک ہزار سالوں کی طرح ہے اور جو شخص اس میں مراد گویا وہ آسمان دنیا میں مرا۔ 133:۔ واسطی نے شیبانی (رح) سے روایت کیا کہ کوئی شخص خلفاء میں شمار نہیں ہوتا مگر جو مالک ہوتا ہے دو مسجدوں کا یعنی مسجد حرام اور مسجد اقصی کا۔ 134:۔ ابن ابی حاتم نے سدیرحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الذی برکنا حولہ لنریہ “ سے مراد ہے کہ ہم نے اس کے اردگرد درخت اگائے۔ 135:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” واتینا موسیٰ الکتب وجعلنہ ھدی لبنی اسرآئیل “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے (تورات کو) ہدایت بناد یا جو ان کو نکالتی ہے اندھیروں سے روشنی کی طرف اور ان کے لئے رحمت بنایا۔ 136:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الا تتخذوا من دونی وکیلا “ میں وکیل سے مراد ہے شرک۔ 137:۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ذریۃ من حملنا مع نوح “ میں ہر نصب (ذریۃ یہ نصب منادی ہونے کی وجہ سے ہے) ندا کے اعتبار سے ہے یعنی اے اولاد (نوح) کہ جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا۔ 138:۔ ابن مردویہ نے عبداللہ بن انصاری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ اولاد جن کو ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ سوار کیا اور نوح (علیہ السلام) کے ساتھ چار لڑکے تھے حام، ہشام، یافث اور کوش یہ چار لڑکے تھے ساری انسانیت ان چار سے چلی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی شکر گذاری : 139:۔ ابن مردویہ نے ابوفاطمہ (رح) سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا نوح (علیہ السلام) کوئی چیز چھوٹی یا بڑی اٹھاتے تھے تو فرماتے بسم اللہ، الحمد للہ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا نام (آیت) ” عبداشکورا “ رکھا (یعنی شکر کرنے والا بندہ ) ۔ 140:۔ فریابی، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، حاکم اور بیہقی نے شعب میں (حاکم نے تصحیح بھی کی ہے) سلیمان ؓ سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) جب کوئی کپڑا پہنتے یا کھانا کھاتے تو فرماتے الحمد اللہ پس اللہ تعالیٰ نے ان کا نام عبداشکورا رکھا۔ 141:۔ ابن جریر، ابن ابی حاتم، اور طبرانی نے سعید بن مسعودثقفی صحابی ؓ سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) کو شکر کرنے والا بندہ اس لئے کہا گیا کیونکہ آپ جب کوئی چیز کھاتے یا پیتے یا کپڑا پہنتے تو الحمد للہ پڑھتے تھے۔ 142:۔ ابن ابن دنیا اور بیہقی نے شعب میں عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا نوح (علیہ السلام) جب بیت الخلا سے جب کبھی نکلتے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔ الحمد للہ الذی اذا قنی لذتہ وابقی فی منفعتہ واخرج عنی اذاہ : ترجمہ : سب تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے مجھے اپنی لذت چکھائی اور اس کے نفع کو میرے پیٹ میں باقی رکھا اور مجھے اس کی تکلیف سے باہر نکال دیا۔ 143:۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف میں عوام (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات بیان کی گئی کہ نوح (علیہ السلام) یہ دعا پڑھتے تھے : الحمد للہ الذی اذا قنی لذتہ وابقی فی منفعتہ واذھب عنی اذاہ : ترجمہ : سب تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے مجھے اپنی لذت چکھائی اور اس کے نفع کو میرے پیٹ میں باقی رکھا اور مجھے اس کی تکلیف کی تکلیف کو دور کردیا۔ 144:۔ ابن ابی دنیا اور بیہقی نے شعب میں اصبغ بن زید (رح) سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) جب بیت الخلا سے نکلتے تھے تو یہ دعا (اوپر والی) پڑھتے تھے اسی لئے ان کو شکر کرنے والا بندہ فرما دیا۔ 145:۔ ابن ابی شیبہ نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) جب بیت الخلا سے نکلتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے : الحمد للہ الذی اذھب عنی الاذی وعافانی : ترجمہ : سب تعریفیں اس ذات کے لئے جس نے مجھ سے تکلیف سے دور کردیا اور مجھ کو عافیت دی۔ 146:۔ عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ آپ کا شکر کرنا یہ تھا کہ جب بھی آپ کھاتے بسم اللہ پڑھتے اور جب فارغ ہوتے تو الحمد للہ پڑھتے۔ 147:۔ ابن ابی دنیا اور بیہقی نے شعب میں مجاہد (رح) سے (آیت) ” انہ کان عبداشکورا “ کے بارے میں روایت کیا کہ (نوح (علیہ السلام) نے کوئی چیز نہیں کھائی مگر اس پر الحمد للہ پڑھا اور کوئی چیز نہیں پی مگر اس پر الحمد للہ پڑھا اور اس پر (اللہ تعالیٰ ) کی تعریف کی اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” انہ کان عبداشکورا “ 148:۔ احمد نے زواہد میں، ابن ابی دنیا اور بیہقی نے شعب میں محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) جب کھاتے تھے تو الحمد للہ کہتے اور جب پیتے تھے تو الحمد للہ فرماتے تھے اور جب پہنتے تھے تو الحمد للہ فرماتے تھے اور جب سوار ہوتے تو الحمد للہ فرماتے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا نام (آیت) ” انہ کان عبداشکورا “ (یعنی شکر کرنے والا بندہ) رکھ دیا۔ 149:۔ ابن مردویہ نے معاذ بن انس جہنی ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو شکر کرنے والا بندہ فرمایا اس لئے کہ جب وہ شام کرتے یا صبح کرتے تو یہ آیت پڑھتے تھے (آیت) ” فسبحن اللہ حین تمسون وحین تصبحون (17) ولہ الحمد فی السموت والارض وعشیا وحین تظھرون “۔ 150:۔ ابن ابی شیبہ نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ کھانے کا حق یہ ہے کہ بندہ یہ دعا پڑھے : بسم اللہ اللہم بارک لنا فیما رزقتنا : ترجمہ : یعنی اللہ کے نام کے ساتھ میں شروع کرتا ہوں اے برکت دے ہمارے لئے اس کھانے میں جو تو نے ہم کو عطا فرمایا۔ اور اس کو شکر کرتے ہوئے یہ دعا پڑھے : الحمد للہ الذی اطعمنا وسقانا : ترجمہ : یعنی یہ سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہم کو کھلایا اور ہم کو پلایا۔ 151:۔ ابن ابی شیبہ نے تمیم بن سلمہ (رح) سے روایت کیا کہ مجھے یہ بات بیان کی گئی کہ ایک آدمی جب کھانے پر بسم اللہ پڑھے اور اس کے آخر میں اللہ کی حمد بیان کرے تو کھانے کی لذت کی نعمتوں کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ 152:۔ ابن ابی شیبہ، ترمذی ابن ماجہ، طبرانی نے دعا میں حاتم (رح) سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب ؓ جب نیا کپڑا پہنتے تو یہ دعا پڑھتے : الحمد للہ الذی کسانی ما اواری بہ عورتی واتجمل بہ فی حیاتی : ترجمہ : سب تعریفیں اللہ کے لئے ہے جس نے مجھے کپڑا پہنایا جس سے میں اپنی شرم گاہ کو چھپاتا ہوں اور اپنی زندگی میں اس کے ذریعے خوبصورتی حاصل کرتا ہوں۔ 153:۔ ابن ابی شیبہ نے عبدالرحمن بن ابی لیلی (رح) (اور یہ آپ نے تین مرتبہ فرمایا) سے روایت کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نیاکپڑا پہنے تو اس کو چاہئے کہ یوں کہے۔ الحمد للہ الذی کسانی ما اواری بہ عورتی واتجمل بہ فی الناس : ترجمہ : سب تعریفیں اللہ کے لئے ہے جس نے مجھے کپڑا پہنایا جس سے میں اپنی شرم گاہ کو چھپاتا ہوں اور لوگوں میں اس کے ذریعے خوبصورتی حاصل کرتا ہوں۔ 154:۔ ابن ابی شیبہ (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے نیا کپڑا پہنا اور اللہ کی حمد بیان کی تو اس کی جنت میں داخل کردیا گیا یا اس کو بخش دیا گیا۔ 155:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقضینا الی بنی اسرآئیل “ سے مراد ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل کو بتاد یا۔ 56ـ1:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقضینا الی بنی اسرآئیل “ سے مراد ہے کہ ہم نے ان کو خبر دی۔ 157ـ:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقضینا الی بنی اسرآئیل “ سے مراد ہے کہ ہم نے ان کے خلاف فیصلہ کیا۔ 158:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقضینا الی بنی اسرآئیل فی الکتب لتفسدن فی الارض مرتین “ سے سابقہ تفسیر نقل کی جو اس سے پہلے (اوپر) ہوئی ہے۔ 159:۔ ابن منذر اور حاکم نے طاوس (رح) سے روایت کیا کہ ہم ابن عباس ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارے ساتھ ایک آدمی قدریہ فرقہ میں سے تھا میں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ تقدیر نہیں ہے انہوں نے پوچھا کیا لوگوں میں ایسا بھی کوئی ہے ؟ میں نے عرض کی اگر موجود ہو تو میں اس کے سر کو پکڑ کر اس پر یہ آیت تلاوت کرتا (آیت) ” وقضینا الی بنی اسرآئیل فی الکتب لتفسدن فی الارض مرتین ولتعلن علوا کبیر “۔
Top