Dure-Mansoor - Al-Israa : 6
ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَیْهِمْ وَ اَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ جَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِیْرًا
ثُمَّ : پھر رَدَدْنَا : ہم نے پھیر دی لَكُمُ : تمہارے لیے الْكَرَّةَ : باری عَلَيْهِمْ : ان پر وَاَمْدَدْنٰكُمْ : اور ہم نے تمہیں مدد دی بِاَمْوَالٍ : مالوں سے وَّبَنِيْنَ : اور بیٹے وَجَعَلْنٰكُمْ : اور ہم نے تمہیں کردیا اَكْثَرَ : زیادہ نَفِيْرًا : جتھا (لشکر)
پھر ہم ان پر غلبہ واپس کردیں گے اور مالوں سے اور بیٹوں کے ذریعے تمہاری امداد کریں گے اور جماعت کے اعتبار سے تمہیں خوب زیادہ بڑھادیں گے
بنی اسرائیل کا زمین میں دو مرتبہ فساد پھیلانا : 160:۔ ابن جریر نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے تو رات میں یہ عہد لیا کہ (آیت) ” لتفسدن فی الارض مرتین ولتعلن علوا کبیر “ (کہ تم ضرور فساد کروگے زمین میں دو مرتبہ) ان کا پہلا فساد یہ تھا کہ انہوں نے زکریا (علیہ السلام) کو قتل کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر نبط بادشادہ کو مسلط کردیا پھر اس نے لشکر بھیجے اور اس کے ایک ہزار شہسوار تیر انداز تھے فرمایا (آیت) ” فھم اولی باس ‘ یعنی بنی اسرائیل قلعہ بند ہوگئے اور ان میں بخت نصر یتیم بن کر نکلا اور وہ کھانا مانگنے نکلا اور اس نے نرم گفتگو کی یہاں تک کہ وہ شہر میں داخل ہوگیا وہ ان کی مجلسوں آیا اور وہ لوگ کہہ رہے تھے اگر ہمارا دشمن جان لے کہ ہمارے دلوں میں کتنا خوف ڈال دیا گیا ہے ہمارے گناہوں کی وجہ سے تو ہمارا دشمن ہم سے جنگ کا ارادہ ترک کردیں بخت نصر باہر نکلا جب اس نے یہ بات سنی تو اس نے سخت لشکر تیار کئے پس وہ لوٹ آئے اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا قول ہے (آیت) ” فاذا جآء وعد اولھما بعثنا علیکم عبادا لنا اولی باس شدید “ (الآیۃ) پھر بنی اسرائیل نے تیاری کی اور نبط لوگوں سے جنگ کی کچھ ان میں سے مارے گئے اور جو کچھ سامان ان کے پاس تھا بنواسرائیل نے ان سے چھین لیا اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے (آیت) ” ثم رددنا لکم الکرۃ علیہم ”(الآیۃ) 161:۔ ابن عساکر نے تاریخ میں علی بن ابی طالب ؓ سے سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” لتفسدن فی الارض مرتین “ کے بارے میں روایت کیا کہ پہلا فساد ذکریا (علیہ السلام) کا قتل تھا اور دوسرا فساد یحی (علیہ السلام) کا قتل تھا۔ 162:۔ ابن ابی حاتم نے عطیہ عوفی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” لتفسدن فی الارض مرتین “ سے مراد ہے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ فساد کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر جالوت کو مسلط کردیا جس نے ان کو قتل کیا اور دوسری مرتبہ انہوں نے فساد کیا جبکہ انہوں نے یحی بن زکریا (علیہما السلام) کو قتل کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بخت نصر کو مسلط کیا۔ 163:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی مرتبہ ان پر جالوت کو مسلط کیا وہ ان کے شہر میں داخل ہوگیا اور ان پر خراج اور ذلت کو لازم کیا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف ایک بادشاہ بھیج دیں کہ وہ اس کے ساتھ مل کر اللہ کے راستے میں جہاد کریں تو اللہ تعالیٰ نے طالوت کو ان کا بادشاہ بنایا اس نے جالوت کو قتل کیا اور بنی اسرائیل کی مدد کی اور جالوت داود (علیہ السلام) کے ہاتھوں قتل ہوا اور وہ بنی اسرائیل کی طرف لوٹا اور ان کا بادشاہ بنا پھر جب بنی اسرائیل نے فساد کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر دوسری مرتبہ بخت نصر کو بھیج دیا اس نے مساجد کو ویران کیا اور جس پر قابوپایا اسے برباد کردیا اسی کو فرمایا (آیت) ” ما علوا تتبیرا ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی پہلی اور دوسری تباہی کے بعد (آیت) ” عسی ربکم ان یرحمکم، وان عدتم عدنا “ فرمایا پھر وہ (دوبارہ فساد کی طرف) لوٹے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ایمان والوں کو مسلط کردیا۔ 164:۔ ابن ابی حاتم نے ابو ہاشم العبدی کے طریق سے ابن عباس ؓ نے فرمایا مشرق اور مغرب کے چار بادشاہ گزرے ہیں دو مومن تھے اور دو کافر تھے دو کافر بادشاہ فرخان اور بخت نصر تھے ابوھاشم بیان کرتے تھے کہ شام کا ایک نیک آدمی تھا پھر یہ آیت پڑھی (آیت) ” وقضینا الی بنی اسرآئیل “ سے لے کر ” علوا کبیرا “ تک اس شخص نے عرض کیا اے میرے رب پہلی مرتبہ کا تسلط تو مجھ سے فوت ہوگیا (میں اس کو نہ دیکھ سکا) اب مجھے دوسرا تسلط دکھائیے وہ اپنی نماز پڑھنے کی جگہ پر بیٹھا ہوا تھا کہ اونگھ سے اپنے سر کو ہلایا اس سے کہا گیا جس کے بارے میں تو نے سوال کیا ہے وہ بابل شہر میں ہے اور اس کا بخت نصر ہے آدمی نے پہچان لیا کہ میری دعا قبول ہوگئی ہے اس نے دنانیر کا ایک تھیلا اٹھایا اور چل پڑا یہاں تک کہ بابل پہنچ گیا فرخان کے پاس گیا اور اس کو کہا میں اس کو مال لے کر آیا ہوں اس کو مساکین کے درمیان تقسیم کردو بادشاہ نے سب کو جمع کیا پھر اس نے ان کو دینا شروع کیا اور ان سے ان کے نام بھی پوچھتا جاتا تھا یہاں تک کہ جب ان لوگوں میں سے فارغ ہوگیا جو حاضر تھے تو اس کو بتایا گیا کہ ان میں سے کچھ لوگ رسا تیق شہر میں باقی ہیں اس نے ایک نوجوان کو وہاں بھیجا یہاں تک کہ جب رات ہوئی تو وہ نوجوان لوٹ آیا اور ایک ایک آدمی کا نام اس کے سامنے پڑھا جب وہ بخت نصر کے نام پر آیا تو اس نے کہا ٹھہر جا تو نے کیسے کہا اس نے کہا بخت نصر پوچھا یہ بخت نصر کیسا ہے نوجوان نے کہا سب سے زیادہ غریب اور نادار اور بھوکا ہے وہ بیٹھا رہتا ہے اس کے پاس سے مسافر گذرتے ہیں کوئی ان میں سے اس کی طرف ٹکڑا پھینک دیتا ہے وہ اس کو اٹھا لیتا ہے شامی آدمی نے کہا مجھے اس کے پاس جانا ہے ایک دوسرے شخص نے کہا وہ اپنے خیمے میں ہے وہاں ہی باتیں کرتا ہے میں اس کے پاس جاوں گا اسے بوسہ دوں گا اور اسے غسل دوں گا اس نے کہا یہ دنانیر لے لو اس کو جا کردیے دنیا اس نے اس کو دنیردے دیے پھر وہ اپنے ساتھی کی طرف لوٹا اور شامی آدمی کے ساتھ آیا خیمہ میں داخل ہو کر پوچھا تیرا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا بخت نصر اس نے کہا کس نے تیرا نام بخت نصر رکھا کہا میری ماں نے میرا نام رکھا پوچھا کیا تیرا کوئی ہے اس نے کہا نہیں اللہ کی قسم میں رات کو یہاں ڈرتا ہوں کہ مجھے بھیڑیا نہ کھاجائے پوچھا لوگوں میں سے سب سے زیادہ سخت مصیبت کون ہے ؟ اس نے کہا میں شامی نے کہا تو بتا اگر تو کسی دن بادشاہ بن گیا تو مجھے ایسا بنا دے گا میری نافرمانی نہ کرے بخت نصر نے کہا تو میرا مذاق نہ بنا پھر اس نے کہا کیا تو ایسا کرے گا بخت نصر نے کہا میں ایسا نہیں کروں گا لیکن میں عنقریب تیرا ایسا اکرام کروں گا کہ کسی نے ایسا اکرام نہیں کیا ہوگا اس نے کہا تو اپنے دنانیر لے جا اور اپنے شہر چلا جا دوسرا اپنے پاوں پر سیدھا کھڑا ہوا پھر وہ چلا اور اس نے گدھا اور گلے میں ڈالنے والی رسیاں خریدی پھر عجم کے علاقوں میں خریدو فروخت کرتا رہا پھر اس نے کہا کب تک یہ تکلیف رہے گی پھر اس نے اس گدھے اور اس رسی کو بیچ دیا اور ایک اچھا لباس پہن لیا پھر وہ بادشاہ کے دروازہ پر آیا اور ان کو اپنی رائے کے ساتھ مشورہ دینا شروع کیا بادشاہ نے اس کی بڑی قدرو منزلت کی یہاں تک کہ وہ فرخان کے دربان تک پہنچ گئے فرخان نے اس سے کہا میرے لئے ایک آدمی کا ذکر کیا گیا جو تیرے پاس ہے وہ کیسا ہے ؟ بادشاہ نے کہا میں نے اس کی مثل کوئی نہیں دیکھ فرخان نے کہا اس کو مجھے دے دو اس نے اس بات کی تو بہت خوش ہوا فرخان نے کہا کہ بیت المقدس اور یہ شہر ہم پر فتح کرنا مشکل ہوگئے ہیں اور ہم ان پر کئی لشکر بھیج چکے ہیں اب میں ان شہروں کی طرف کچھ ایسے لوگ بھیجنے والا ہوں جو ان کا معاملہ پہنچائیں گے۔ اس وقت نے چالاک لوگوں کی طرف دیکھا اور ان کو جاسوس بنا کر بھیجا۔ جب وہ لوگ جدا ہوئے تو اچانک بخت نصر اپنے خچر پر تھیلے لاد رہا تھا پوچھا تو کہاں کا ارادہ رکھتا ہے اس نے کہا ان لوگوں کے ساتھ بادشاہ نے کیا کہ مجھے تکلیف نہیں دے گا تو میں تجھ کو ان پر لشکر کشی کے لئے بھیجوں گا اس نے کہا نہیں (میں تکلیف نہ دوں گا) یہاں تک کہ جب وہ اس زمین میں داخل ہوگئے تو اس نے کہا جدا جدا ہوجاؤ اور بخت نصر نے شہر والوں سے افضل آدمی کے بارے میں پوچھا اس کو بتایا گیا تو اس نے اپنی تھیلی اپنی جگہ رکھ دی مالک مکان سے کہا گیا تو مجھے خبر نہیں دے گا اپنے شہر کے رہنے والوں کے بارے میں وہ لوگ ایسی قوم ہے کہ ان میں (اللہ کی) کتاب موجود ہے جس پر وہ عمل نہیں کرتے ان میں انبیاء ہیں کہ ان کی اطاعت نہیں کرتے اور وہ فرقوں میں بٹے ہیں بخت نصر نے اس سے موجود ہے جس پر وہ عمل نہیں کرتے ان میں انبیاء ہیں کہ ان کی اطاعت نہیں کرتے اور وہ فرقوں میں بٹے ہیں بخت نصر نے اس سے تعجب کرتے ہوئے پوچھا کہ ان کے پاس کتاب ہے جس پر عمل نہیں کرتے ان کے پاس انبیاء آئے کہ جن کی وہ اطاعت نہیں کرتے اور وہ آپس میں متفرق ہیں اس نے ان باتوں کو لکھ کر اپنے تھیلے میں ڈال لیا اور ساتھیوں سے کہا چلو وہ سب چل پڑے یہاں تک کہ فرخان کے پاس آگئے اس نے ان میں سے ہر آدمی سے پوچھنا شروع کیا ہر ایک نے بتایا ہم فلاں شہر میں گئے اس کے ا تنے قلعے ہیں اور ان کی اتنی نہریں فرخان نے کہا اے بخت نصر تو کیا کہتا ہے اس نے کہا ہم ایسی قوم کی زمین پر آئے ان کے لئے کتاب ہے جس پر وہ عمل نہیں کرتے اور انبیاء ہیں جن کی وہ اطاعت نہیں کرتے اور وہ آپس میں فرقہ بندی کا شکار ہیں اب آپ کا حکم ہے بادشاہ نے لوگوں کو بلایا گیا اور ان کی طرف ستر ہزار کا (لشکر) بھیجا اور ان پر بخت نصر کو امیر بنایا یہ لوگ رات کو چلے یہاں تک کہ وہ بنی اسرائیل کے علاقہ پر غالب آگئے پیچھے سے ان کو خط ملا کہ فرخان مرگیا ہے اور اس کا کوئی خلیفہ نہیں بنا بخت نصر نے لوگوں سے کہا کہ یہاں ٹھہرجاؤ پھر وہ قاصد پر متوجہ ہوا یہاں تک کہ بخت نصر لوگوں کے پاس آیا تم کیسے کرو گے ؟ انہوں نے کہا ہم کو یہ بات نہ پسند ہے کہ ہم آپ کے پیچھے اپنے معاملے کو طے کریں اس نے کہا کہ لوگ میری بیعت کرلیں تو سب نے اس کی بیعت کرلی۔ پھر وہ ان کو لے کر جلدی چلا یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا ان کو خط دکھایا تو لوگوں نے اس سے بیعت کرلی۔ پھر وہ ان کو لے کر جلدی چلا یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا ان کو خط دکھایا تو لوگوں نے اس سے بیعت کرلی اور ان لوگوں نے کہا ہم کو آپ سے کوئی انحراف نہیں پس یہ لوگ بھی بخت نصر کے ساتھ چل پڑے جب بیت المقدس کے لوگوں نے بخت نصر کی بیعت کے متعلق سنا تو وہ متفرق ہوگئے اور اپنا اپنا لیڈر بنا لیا وہاں جو کچھ تھا تباہ و برباد ہوگیا کچھ لوگ قتل ہوگئے اور بیت المقدس تباہ ہوگیا اور انبیاء کے بیٹوں کو غلام بنالیا گیا ان میں دانیال (علیہ السلام) بھی تھے جب وہ دنانیر والے کو بخت نصر کی بیت المقدس پر قبضہ کی خبر ملی تو وہ اس کے پاس آیا اور کہا کیا تو نے مجھے پہچانا ہے اس نے کہا ہاں اس نے اسے اپنے قریب کرلیا مگر کسی چیز کے بارے میں اس کی سفارش قبول نہیں کی یہاں تک کہ جب بابل کے میدان میں اترا تو اپنی حکمرانی کا جھنڈا لہراتا رہا جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ پھر اس نے ایک خواب دیکھا اور وہ اس سے ڈر گیا اور صبح کو بھول گیا کہ اس نے کیا خواب دیکھا تھا کہنے لگا اس نے کہا کہ جادوگروں اور کاہنوں کو میرے پاس لاؤ اس نے کہا مجھے تعبیر بتاؤ اس خواب کی جس کو میں نے رات کو دیکھا تھا اللہ کی قسم تم ضرور مجھے تعبیر بتاو ورنہ میں ضرور تم کو قتل کردوں گا انہوں نے کہا خواب کیا ہے ؟ اس نے کہا میں اس کو بھول گیا انہوں نے ہمیں اس چیز کا علم نہیں مگر یہ کہ تو انبیاء کے بیٹوں کو آزاد کردے تو اس نے کہا ان کو آزاد کردیا اور ان سے کہا مجھے بتاؤ اس خواب کے بارے میں جو میں نے آج رات کو دیکھا ہے اللہ کی قسم تم مجھے ضرور بتاؤ مگر میں تم کو قتل کر دوں گا انہوں نے کہا وہ کیا (خواب) ہے اس نے کہا میں اس کو بھول گیا انہوں نے کہا یہ غیب کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا اس نے کہا اللہ کی قسم تم مجھ کو ضرور بتاؤ ورنہ تمہاری گردنیں مار دوں گا انہوں نے کہا ہم کو چھوڑ دے یہاں تک کہ ہم وضو کریں گے اور نماز پڑھیں گے اور ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے اس نے کہا ایسا کرلو وہ لوگ گئے انہوں نے اچھی طرح وضو کیا اور ایک پاک جگہ پر آئے اور اللہ تعالیٰ سے (خوب) دعا مانگی اللہ تعالیٰ نے اس خواب پر ان کو مطلع کردیا پھر یہ لوگ بادشاہ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا تو نے دیکھا گویا تیرا سر سونے کا ہے اور تیرا سینہ مٹی کا ہے اور تیرا درمیانی حصہ تانبے کا ہے اور تیرے پاوں لوہے کے ہیں اس نے کہا ہاں (یہی خواب تھا) اس نے کہا مجھے اس کی تعبیر کے بارے میں بتاؤ یا میں تم کو ضرور قتل کردوں گا انہوں نے کہا ہم کو چھوڑ دے ہم اپنے رب سے دعا کریں گے اس نے کہا چلے جاؤ انہوں نے اپنے رب سے دعا کی اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور وہ لوگ اس کی طرف واپس آئے تو نے جو دیکھا ہے کہ گویا تیرا سر سونے میں سے ہے یہ تیری بادشاہی ہے جو اس سال کے مکمل ہونے تک اس رات سے چلی جائے گی بخت نصر نے کہا پھر کیا ہوگا پھر انہوں نے کہا پھر تیرے بعد ایسا بادشاہ ہوگا جو لوگوں پر فخر کرے گا پھر ایسا بادشاہ ہوگا کہ لوگ اس کی سختی کی وجہ سے ڈریں گے پھر ایسا بادشاہ ہوگا جس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکیں گے بلاشبہ وہ لوہے کی مثل ہے اس سے مراد اسلام ہے پھر بخت نصر نے ایک محل تیار کرنے کا حکم دیا کہ جو زمین اور آسمان کے درمیان ہو اس نے اپنے نگہبانوں اور چوکیداروں سے کہا آج کی رات کوئی شخص تم سے آگے گزر کر نہ جائے اگرچہ بخت نصر بھی اجازت دے مگر یہ کہ اس کی جگہ پر اس کو قتل کردو لوگوں میں سے جو بھی ہو ہر آدمی اپنی جگہ پر بیٹھ گیا جو اس کے لئے مقرر کی گئی تھی اس کے پیٹ میں رات کو درد ہوا اس نے اپنی یہاں موجودگی کو ظاہر کرنا ناپسند کیا اس نے قوم کے کانوں کے سوراخوں پر مارا تو وہ نیند میں بیخبر سوگئے پھر وہ ان کے پاس اس حال میں آیا کہ وہ سور ہے تھے پھر وہ ان کے پاس آیا تو ان میں سے بعض جاگ رہے تھے اس نے پوچھا یہ کون ہے ؟ اس نے کہا بخت نصر کہا یہ وہی ہے جو اس رات ہم سے پوشیدہ ہوگیا تھا اس چوکیدار نے اس کو مارا اور اس کو قتل کردیا تو صبح کے و قت یہ خبیث مقتول ہوچکا تھا۔ 165:۔ ابن جریر (رح) نے اس روایت کو سعید بن جبیر ؓ سے سدی سے اور وہب بن منبہ رحمہم اللہ سے اسی طرح روایت کیا۔ 66ـ1:۔ ابن جریر نے سعید بن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ بخت نصر شام پر غالب آیا اس نے بیت المقدس کر برباد کردیا اور لوگوں کو قتل کردیا پھر وہ دمشق آیا وہاں اس نے ایک خون کو دیکھا جو انگیٹھی پر جوش مار رہا تھا اس نے ان سے پوچھا یہ خون کیسا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے آبواجداد کو اسی پر پایا اور جب ان پر یہ دھونی دینے کی لکڑی غالب آتی ہے تو غلبہ پایا جاتا ہے پس اس نے اس خون پر ستر ہزار مسلمانوں وغیرہ کو قتل کیا پھر وہ خون ٹھنڈا ہوگیا۔ 167ـ:۔ ابن عساکر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (جب) بخت نصر نے بنی اسرائیل کو قتل کیا اور بیت المقدس کو گرا دیا اور بنی اسرائیل کو قیدی بنا کر رات کے وقت بابل کی زمین کی طرف لے گیا ان کو بہت بڑا عذاب دیا پھر اس نے ارادہ کیا کہ وہ آسمان کو پہنچ جائے اس نے آسمان پر چڑھنے کی ایک تدبیر سوچی کہ جس کے ذریعے وہ اوپر چڑھ جائے اللہ تعالیٰ نے اس پر ایک مچھر کو مسلط کردیا وہ اس کے ناک کے نتھنے میں داخل ہو کر اس کے دماغ میں واقع ہوگیا وہ برابر اس کا دماغ کاٹتا رہا اور اس کے سر کو پتھر سے مارا جاتا تھا یہاں تک کہ وہ مرگیا۔ نبی کی کثرت نافرمانی کی وجہ سے بخت نصر بادشاہ کا مسلط ہونا : 168:۔ ابن جریر نے حذیفہ بن یمان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب بنی اسرائیل نے ہفتہ کے دن میں زیادتی کی اور حد سے بڑھ گئے اور انبیاء (علیہم السلام) کو قتل کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر فارس کا بادشاہ بخت نصر کو ان پر مسلط کردیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بادشاہی کو سات سو سال تک قائم رکھاوہ بنی اسرائیل کی طرف چلا یہاں تک کہ بیت المقدس میں داخل ہوگیا اس نے اس کا محاصرہ کیا اور اس کو فتح کرلیا اور زکریا (علیہ السلام) کے خون پر ستر ہزار آدمیوں کو قتل کیا پھر ان کے رہنے والوں کو اور انبیاء کی اولاد کو قیدی بنالیا اور بیت المقدس کے زیورات بھی چھین لئے اور اس نے بیت المقدس سے ایک لاکھ ستر ہزار ریڑھیاں زیورات کی نکالیں یہاں تک کہ اس کو بابل لے آیا حذیفہ ؓ نے کہا کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ! کیا اللہ تعالیٰ نے نزدیک بیت المقدس عظیم نہیں تھا ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں اس کو سلیمان بن داود (علیہما السلام) نے بنایا سونے سے موتی سے یاقوت سے اور زبرجد سے اس کی ایک اینٹ سونے کی اور ایک چاندی کی تھی۔ اور اس کے ستون بھی سونے کے تھے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کو عطاء فرما دیا تھا اور شیاطین ان کے تابع کردئے تھے وہ سب کچھ پلک جھپکتے ہی ان کے اپس لادئے تھے۔ بخت نصر ان چیزوں کو لے کر بابل آگیا اس نے سو سال تک بنی اسرائیل پر حکومت کی اور مجوسیوں نے ان کو عذاب دئے تھے ان میں انبیاء اور انبیاء کے بیٹے بھی تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور فارس کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کی طرف وحی بھیجی۔ جس کو کو دس کہاں جاتا تھا اور وہ مومن تھا کہ وہ بنی اسرائیل کے پاس باقی ماندہ لوگوں کی طرف جائے یہاں تک کہ اس کو نجات دلا کو دس بنی اسرائیل کے پاس چلا اور بیت المقدس میں داخل ہوا ! یہاں تک کہ بیت المقدس واپس لے آیا بنو اسرائیل سو سال تک اللہ کی فرمانبردار رہے پھر گناہوں کی طرف لوٹ گئے پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر ابطنا نحوس کو مسلط کردیا اس نے دوبارہ ان لوگوں کے ساتھ جنگ کی جو بخت نصر کے ساتھ لڑے تھے پس بنی اسرائیل لڑتے رہے یہاں تک کے وہ بادشاہ بیت المقدس پہنچ گیا اس نے پھر بیت المقدس کے لوگوں کو قید کرلیا اور بیت المقدس کو جلا ڈالا اور اس نے ان سے کہا اے بنی اسرائیل ! اگر تم پھر گناہوں میں لوٹے گے تو ہم بھی تمہیں قیدی بنا لیں گے وہ دوبارہ گناہوں میں پڑگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو تیسری مرتبہ قید کرنے کا ارادہ فرمایا رومیہ کے بادشاہ تھا جس کو فاقس بن اسبایوس کہا جاتا تھا اس نے ان کے ساتھ خشکی اور سمندر میں جنگ کی اور انکو قیدی بنالیا اور وہ بیت المقدس کے زیورات لے گیا اور بیت المقدس کو آگ سے جلا دیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ بیت المقدس کے زیورات کی صفت ہے کہ ان زیورات کو مھدی (علیہ السلام) بیت المقدس کی طرف لائیں گے اور وہ ایک ہزار اور سات سو کشتیاں ہیں جو یہاں لنگر انداز ہیں۔ یہاں تک کہ وہ منتقل کریں گے (ان زیورات کو) بیت المقدس کی طرف اور ان کشتیوں کے ذریعے پہلے اور پچھلے لوگ اس کی طرف جمع ہوں گے۔ 169:۔ ابن جریر نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ بنی اسرائیل کا فساد جو انہوں نے زمین میں دو مرتبہ کیا اور وہ زکریا (علیہ السلام) اور یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) دونوں حضرات کو قتل کرنا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر سابورذوالا کتاف کو مسلط کردیا جو فارس کے بادشاہوں کے میں سے ایک بادشاہ تھا یہ زکریا (علیہ السلام) (کے قتل) کی وجہ سے ہوا اور یحی (علیہ السلام) (کے قتل) کی وجہ سے ان پر بخت نصر کو مسلط کردیا۔ 170:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” فاذا جاء وعد اولھما “ کے بارے میں فرمایا کہ جب پہلا وعدہ آگیا ان دونوں وعدوں میں سے جن سے بنی اسرائیل کو آگاہ کردیا تھا کہ تم ضرور فساد کروگے زمین میں دو مرتبہ۔ 171:۔ ابن جریر، ابن شیبہ، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ کا قول : (آیت) ” بعثنا علیکم عبادالنا اولی باس شدید “ سے مراد ہے کہ فارس سے لشکر آیا تھا جو ان کی خبروں کی جاسوسی کرتے تھے اور ان کی باتوں کو سنتے تھے ان کے ساتھ بخت نصر تھا وہ ان کی باتوں کو یاد رکھتا تھا اپنے ساتھیوں کے درمیان پھر وہ فارس کے لشکر لوٹا اور زیادہ جنگ نہ ہوئی اور بنی اسرائیل کے خلاف مدد کی گئی یہ پہلا وعدہ تھا (اور فرمایا) (آیت) ” فاذا جاء وعد الاخرۃ “ اور دوسرا وعدہ اس وقت پورا ہوا جب فارس کے بادشاہ بابل میں ایک لشکر بھیجا اور اس پر بخت نصر کو امیر بنایا تو اس لشکر نے ان کو تباہ و برباد کردیا اور یہ دوسرا وعدہ تھا۔ 172:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فجاسوا “ کا معنی ہے ” مشوا “ یعنی وہ چلے۔ 173:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی مرتبہ ان پر جاروت کو مسلط کردیا یہاں تک کہ طالوت کو بھیجا گیا اور ان کے ساتھ داود (علیہ السلام) تھے تو داود (علیہ السلام) نے طالوت کو قتل کردیا پھر اللہ تعالیٰ نے گردش زمانہ کو بنی اسرائیل کے حق میں پلٹا دیا اور فرمایا (آیت) ” وجعلنکم اکثرنفیرا “ یعنی ہم نے تم کو تعداد کے لحاظ سے کثرت میں بنادیا اور یہ داود (علیہ السلام) کے زمانہ میں ہوا (پھر فرمایا) (آیت) ” فاذا جاء وعد الاخرۃ “ یعنی جب دوسرا وعدہ آگیا (آیت) ” لیسوٓء وجوھکم “ تاکہ وہ تمہارے چہروں کو بدصورت کردے (آیت) ” ولیدخلوا المسجد کما دخلوہ اول مرۃ “ جیسے کہ ان کو دشمن اس سے پہلے داخل ہوا (آیت) ” ما علواتتبیرا “ تاکہ وہ تباہ و برباد کرکے رکھ دی جس پر قابو پائیں تو اللہ تعالیٰ نے ان پر دوسری مرتبہ میں بخت نصر الباہل مجوسی کو مسلط کیا جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ شخص تھا پس اس نے بنی اسرائیل کو قیدی بنایا اور قتل کیا اور بیت المقدس کو خراب کیا اور ان کو برا عذاب پہنچایا۔ 174:۔ ابن جریر نے ابن زید (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ دوسرا وعدہ (یعنی سزا کا) زیادہ سخت تھا پہلے کی نسبت (دشمن کے) کثیر ہونے کی وجہ سے کیونکہ پہلی سزا میں صرف شکست تھی اور دوسری سزا میں تباہی تھی بخت نصر نے تو رات کو جلادیا تھا یہاں تک کہ اس میں ایک حرف بھی نہ چھوڑا اور بیت المقدس کو ویران کیا۔ 175:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” تتبیرا “ سے مراد تباہ و برباد کرنا۔ 176:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ ” تبرنا “ یعنی ہم نے نبطیہ کو تباہ و برباد کردیا۔ 177۔ ابن حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” عسی ربکم ان یرحمکم “ سے مراد ہے کہ جس رحمت کا اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ فرمایا تھا وہ محمد ﷺ کی بعثت ہے۔ 178ـ:۔ عبدالرزاق، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا (آیت) ” وان عدتم عدنا “ جب وہ پھر نافرمانی کی طرف لوٹے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر محمد ﷺ کو مسلط کردیا اور وہ جزیہ یعنی ٹیکس ادا کرتے ہیں اسی کو فرمایا (آیت) ’ ’ الجزیۃ عن ید وھم صغرون “۔ 179:۔ عبدالرزاق، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وجعلنا جھنم للکفرین حصیرا “ یعنی قید خانہ بنا دیا (کافروں کے لئے) 180:۔ ابن نجار نے تاریخ میں ابوعمران الجونی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وجعلنا جھنم للکفرین حصیرا “ سے مراد ہے قید خانہ یعنی جیل۔ 181:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وجعلنا جھنم للکفرین حصیرا “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہنم میں کافروں کے لئے پناہ گاہ بنائی۔ 182:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” حصیرا “ سے مراد ہے کہ وہ جن ہم میں محصور ہوں گئے۔ 183:۔ عبدالرزاق، ابن جریر، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” حصیرا “ سے مراد ہے کہ ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے بچھونا بنا دیا۔
Top