Dure-Mansoor - Al-Kahf : 103
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاؕ
قُلْ : فرمادیں هَلْ : کیا نُنَبِّئُكُمْ : ہم تمہیں بتلائیں بِالْاَخْسَرِيْنَ : بدترین گھاٹے میں اَعْمَالًا : اعمال کے لحاظ سے
آپ فرما دیجئے کیا ہم تمہیں ایسے لوگ بتادیں جو اعمال کے اعتبار سے بالکل خسارہ میں ہیں
خوارج یہود و نصاری کے اعمال : 1:۔ عبدالرزاق، بخاری، نسائی، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم نے، حاکم اور ابن مردویہ نے مصعب بن سعد (رح) کے طریق سے روایت کیا کہ میں نے اپنے والد سے (آیت) ” قل ھل ننبئکم بالاخسرین اعمالا “ کے بارے میں پوچھا کیا (اس آیت میں) حروریہ (خوارج) مراد ہیں انہوں نے فرمایا نہیں وہ یہود و نصاری مراد ہیں یہودیوں نے محمد ﷺ کو جھٹلادیا اور نصاری نے جنت کو جھٹلادیا اور کہا نہ اس میں کھانا ہے نہ اس میں پینا ہے اور حرور یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ پکا وعدہ کرنے کے بعد اس کو توڑ دیتے ہیں، اور حضرت سعدؓ ان کو فاسقین کا نام دیتے تھے۔ 2:۔ عبدالرزاق، فریابی سعید بن منصور، ابن منذر، ابن ابی حاتم، حاکم اور ابن مردویہ نے (حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) مصعب ؓ سے روایت کیا کہ میں نے اپنے والد سے (آیت) ” قل ھل ننبئکم بالاخسرین اعمالا “ کے بارے میں پوچھا کیا اس سے حرور یہ مراد ہیں ؟ انہوں نے فرمایا نہیں لیکن اس سے مراد گرجا گھر والے ہیں اور حروریہ ایسی قوم تھی جو (دین حق سے) ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔ 3:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابوخمیصہ عبداللہ بن قیس (رح) سے روایت کیا کہ میں علی بن ابی طالب ؓ کو اس آیت کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا کہ (آیت) ” قل ھل ننبئکم بالاخسرین اعمالا “ سے راہب مراد ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو ستونوں کے ساتھ روک رکھا تھا یعنی۔ 4:۔ ابن مردویہ نے ابو الطفیل (رح) سے روایت کیا کہ میں نے علی بن ابی طالب ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اور ابن الکواء نے ان سے پوچھا کہ (آیت) ” قل ھل ننبئکم بالاخسرین اعمالا “ سے کون مراد ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ اس سے قریش کے بدکار لوگ مراد ہیں۔ 5:۔ عبد الرزاق، فریابی، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ ان سے اس آیت (آیت) ” قل ھل ننبئکم بالاخسرین اعمالا “ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا میں خیال نہیں کرتا مگر یہ کہ خوارج انمیں سے ہیں۔ 6:۔ بخاری، مسلم، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بڑا موٹا آدمی قیامت کے دن لایا جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسکا کوئی وزن نہ ہوگا مچھر کے پر کے برابر بھی اور فرمایا اگر چاہوتو پڑھ لو (آیت) ” فلا نقیم لہم یوم القیمۃ وزنا “ 7:۔ ابن عدی اور بیہقی نے شعب میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ایک بہت بڑے شخص کو لایا جائے گا جو بہت زیادہ کھانے اور پینے والا ہوگا جس کا اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر وزن نہ ہوگا اگر تم چاہو تو پڑھ لو (آیت) ” فلا نقیم لہم یوم القیمۃ وزنا “ قرآن پر عمل کرنے والے خوش نصیب : 8:۔ ابن ابی شیبہ اور ابن ضریس نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ جو شخص دنیا میں قروں پر عمل کرتا ہے اس کے لئے قیامت کے دن قرآن کو بہت خوبصورت شکل میں بنادیا جائے گا اس کا چہرہ خوبصورت اور اس کی خوشبو پاکیز ہوگی جو وہ اپنے ساتھی کے پہلو میں کھڑا ہوگا جب بھی وہ گھبرائے گا تو اس کے گھبراہٹ کو دور کرے گا اور اسے سکون دے گا اور اس کی امیدوں کو کشادہ کرے گا اور وہ شخص اسے کہے گا اللہ تعالیٰ تجھ کو اپنے ساتھی کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے (تو کون ہے ؟ ) کیا ہی اچھی تیری صورت ہے اور کیا ہی اچھی تیری خوشبو ہے وہ اس سے کہتا ہے کیا تو مجھے نہیں پہچانتا ؟ تو آجا اور مجھ پر سوار ہوجا میں نے تجھ پر دنیا میں بہت لمبا عرصہ سواری کی میں تیرا عمل ہوں اگر تیرا عمل حسین تھا تو نے میری صورت بھی حسین دیکھی اگر تیرے عمل کی خوشبو پاکیزہ تھی تو میری خوشبو بھی پاکیزہ دیکھے گا وہ عمل اسے اٹھا کر رب تبارک وتعالیٰ کے پاس پہنچا دے گا اور وہ عمل عرض کرے گا اے میرے رب یہ فلاں ہے اور میں اس کو اس سے زیادہ جاننے والا ہوں میں نے اس کو زندگی کے دنوں میں مشغول رکھا دنیا میں کبھی میں نے اس کو دن میں پیاسا رکھا اور اس کو راتوں میں جگائے رکھا پھر آپ اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرمائیے اس کو بادشاہ والا تاج پہنایا جائے گا اور بادشاہ والا جوڑا پہنایا جائے گا وہ کہے گا اے میرے رب ! میں اس کی خاطر دنیا کی چیزوں سے منہ موڑے رہا کے لئے تجھ سے اس کے لئے افضل کی امید رکھتا ہوں اور (اس کے بعد) پس اس کی دائیں جانب سے جنت اور بائیں جانب سے نعمتیں عطا کی جائیں گی وہ عرض کرے گا اے میرے رب ہر تاجر داخل ہوتا ہے اپنے اہل و عیال پر اپنی تجارت کے ساتھ اور اس کی سفارش قبول کی جائے گی اس کے اقارب کے حق میں اور جب وہ کافر تھا تو اس کے عمل کو بہت بری صورت میں بنادیا جائے گا وہ اس کو دیکھے گا اور اس کی بدبو محسوس کرے گا جب بھی اس کے پاس کوئی خوف لاحق ہوگا تو وہ اس کے خوف میں اضافہ کرے گا اور وہ کہے گا اللہ تجھے اپنے ساتھی کی طرف سے برا بدلہ دے کتنی بری تیری صورت ہے اور تیری بدبو پریشان کن ہے پوچھے گا تو کون ہے ؟ عمل کہے گا کیا تو نے مجھے نہیں پہچانا میں تیرا عمل ہوں تیرا عمل برا تھا تو تو نے میری بری صورت دیکھی تیرا عمل بدبودار تھا تو تو نے میری بدبو محسوس وہ عمل کہے گا آجا میں تجھ کو سوار کروں گا کہ میں دنیا میں تجھ پر سوار تھا پس وہ اسے سوار کرکے اللہ کے اپس لے جائے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے میزان بھی قائم نہیں فرمائے گا۔ 9:۔ ابن ابی شیبہ اور عبد بن حمیدنے عمیر (رح) سے روایت کیا کہ قیامت کے دن ایک بڑے آدمی کو لایا جائے گا اس کو ترازو میں رکھا جائے گا تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی اس کا وزن نہ ہوگا پھر یہ آیت پڑھی (آیت) ” فلا نقیم لہم یوم القیمۃ وزنا “۔ 10:۔ ھناد نے کعب بن عجرہ (رح) سے (آیت) ” فلا نقیم لہم یوم القیمۃ وزنا “ کے بارے میں روایت کیا کہ ایک آدمی کو قیامت کے دن لایا جائے گا اس کا وزن کیا جائے گا تو ایک گیہوں کے دانے کے برابر بھی وزن نہ ہوگا پھر وزن کیا جائے گا اور ایک جو کے برابر بھی وزن نہ ہوگا پھر یہ آیت (آیت) ” فلا نقیم لہم یوم القیمۃ وزنا “ تلاوت کی کہ ان کا کوئی وزن نہ ہوگا۔ 11:۔ عبد ابن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، طبرانی، ابن مردویہ، حاکم نے اور (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے فردوس کا سوال کرو کیونکہ وہ جنت کا اعلی مقام ہے فردوس والے عرش کے چڑچڑانے کو سنتے ہیں۔ 12:۔ بخاری، مسلم اور ابن ابی حاتم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو تم اس سے فردوس کا سوال کرو کیونکہ وہ جنت کا درمیانی اور جنت کا اعلی مقام ہے اور اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے اور اس سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔ 13:۔ احمد، ابن ابی شیبہ، عبدبن حمید، ترمذی، ابن جریر، حاکم اور بیہقی نے بعث میں اور ابن مردویہ نے عبادہ بن صامت ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جنت میں سودرجے ہیں اور ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جیسے آسمان اور زمین کے درمیان اور فردوس جنت کا اعلی درجہ ہے اور اس کے اوپر عرش ہے اور اس میں سے جنت کی چار نہریں نکل رہی ہیں جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو تم اس سے فردوس کا سوال کرو۔ جنت کے سودرجات : 14:۔ احمد، ترمذی، ابن ماجہ، ابن جریر، ابن مردویہ اور بیہقی نے بعث میں معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جنت میں سودرجے ہیں ان میں سے ہر ایک درجہ کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے اور اس کا بلند ترین درجہ فردوس ہے اور اس کے اوپر عرش ہے اور یہ جنت کا اعلی مقام ہے اور اسی سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو اس سے فردوس کا سوال کرو۔ 15:۔ ابن جریر، ابن ابی حاتم، بزار اور طبرانی نے سمرہ بن جندب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت الفردوس جنت کی بلند اٹھی ہوئی جگہ ہے اور یہ اس کا درمیانی اور خوبصورت حصہ ہے۔ 16:۔ بزار نے عرباض بن ساریہ ؓ سے روایت کیا کہ جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو اس سے جنت فردوس کا سوال کرو کیونکہ وہ اعلی جنت ہے۔ 17:۔ ابن جریر اور ابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جنت میں اعلی درجہ اور اس میں رحمن کا عرش ہے اور اس میں جنت کی چار نہریں نکلتی ہیں اور جنت عدن جنت کا وسط ہے اور اس میں رحمن کا وسیع مکان ہے اور اس سے عرش کے چڑچڑانے کی آواز سنی جاتی ہے جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو اس سے فردوس کا سوال کرو۔ 18۔ ابن ابی حاتم نے ابوموسی اشعری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فردوس رحمن کا مقصورہ (یعنی محفوظ جگہ) ہے اس میں بہترین نہریں اور پھل ہیں۔ 19:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ فردوس رومی زبان میں باغ کو کہتے ہیں۔ 20:۔ ابن ابی شیبہ اور ابن منذر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ فردوس نبطی زبان میں انگور کو کہتے ہیں اور اس کی اصل فرداسا ہے۔ 21:۔ ابن ابی حاتم نے عبداللہ بن حارث (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ نے کعب ؓ سے فردوس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سریانی زبان میں انگوروں کے باغات کو کہتے ہیں۔ 22:۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر ؓ سے جنت الفردوس کے بارے میں روایت کیا کہ رومی زبان میں جنت فردوس کو کہتے ہیں۔ 23:۔ نجاد نے جزء التزاحم میں ابوعبیدہ بن جراح ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت کے سو درجے ہیں ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان فاصلہ ہے اور فردوس جنت کا اعلی درجہ ہے جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو اس سے فردوس کا سوال کرو۔ 24:۔ ابن ابی شیبہ، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” لا یبغون عنھا حولا “ یعنی وہاں سے کہیں جانا نہ چاہیں گے چاہیں گے (یعنی اس میں سے نکلنا نہیں چاہیں گے )
Top