Dure-Mansoor - Al-Kahf : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنْ : سے (بابت) ذِي الْقَرْنَيْنِ : ذوالقرنین قُلْ : فرمادیں سَاَتْلُوْا : ابھی پڑھتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر۔ سامنے مِّنْهُ : اس سے۔ کا ذِكْرًا : کچھ حال
اور یہ لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ فرما دیجئے کہ میں ابھی تمہارے سامنے اس کا ذکر کرتا ہوں۔
1:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ یہود نے نبی کریم ﷺ سے کہا اے محمد ﷺ بلاشبہ تم ذکر کرتے ہو ابراہیم کا موسیٰ کا عیسیٰ کا اور (دوسرے) نبیوں کا آپ نے ان کا ذکر ہم سے سنا اور تم ہم کو بتاؤ اس نبی کے بارے میں جس کو اللہ نے ذکر نہیں فرمایا تورات میں مگر ایک جگہ پوچھا وہ کون سا نبی ہے ؟ انہوں نے کہا وہ ذوالقرنین ہے حضور ﷺ نے فرمایا اس کے بارے میں مجھے کوئی خبر نہیں پہنچی یہود خوش ہر کر باہر نکلے اور وہ آپ پر غالب آگئے ہیں اور وہ نہ پہنچے تھے گھر کے دروازے پر کہ جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوگئے ان آیات کے ساتھ (آیت) ” ویسئلونک عن ذی القرنین، قل ساتلوا علیکم منہ ذکرا “۔ 2:۔ ابن ابی حاتم نے عمر مولی غفرہ (رح) سے روایت کیا کہ بعض اہل کتاب رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے پوچھا اے ابوالقاسم تم ایسے آدمی کے بارے میں کیا کہتے ہو جو زمین میں پھرتا تھا آپ نے فرمایا مجھے اس کا کوئی علم نہیں ابھی وہ وہاں بیٹھے ہی تھے اچانک انہوں نے چھت توڑنے کی آواز سنی اور رسول اللہ ﷺ پر وحی کی کیفیت طاری ہوگئی جب یہ کیفیت دور ہوئی تو آپ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں (آیت) ” ویسئلونک عن ذی القرنین “ (الآیۃ) جب دیوار کا ذکر فرمایا تو انہوں نے کہا آپ کے پاس خبر آگئی اے ابوالقاسم آپ کے لئے کافی ہے۔ ذوا القرنین کا ذکر : 3:۔ عبدالرزاق، ابن منذر، ابن ابی حاتم، حاکم اور ابن مردویہ نے (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نہیں جانتا کیا اتبع (بادشاہ) لعین تھا یا نہیں ؟ میں نہیں جانتا کیا ذوالقرنین نبی تھا یا نہیں ؟ اور میں نہیں جانتا کہ حدود حدود والوں کے لئے کفارہ ہیں یا نہیں ؟۔ 4:۔ ابن مردویہ نے سالم بن ابی الجعد (رح) سے روایت کیا کہ حضرت علی ؓ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ نبی تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے تمہارے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ وہ ایک بندے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے نصیحت کی تھی تو اس نے اس کو قبول کیا۔ 5:۔ ابن عبدالحکم نے فتوح مصر میں ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن انباری نے مصاحف میں اور ابن مردویہ نے ابو الطفیل (رح) سے روایت کیا کہ ابن الکواء (رح) نے علی بن ابی طالب ؓ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھا کیا وہ نبی تھے یا بادشاہ تھے ؟ فرمایا نہ وہ نبی تھے نہ بادشاہ تھے لیکن وہ ایک نیک بندے تھے اس نے اللہ سے محبت کی تو اللہ تعالیٰ نے اس سے محبت کی اور انہوں نے اللہ کے لئے نصیحت کی تو اس کی نصیحت کو قبول کیا گیا اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک قوم کی طرف بھیجا انہوں نے ان کے سر پر چوٹیں لگائیں تو وہ مرگئے پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ کردیا ان کے مقابلے کے لئے پھر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے ان کے سر کی دوسری طرف چوٹیں لگائیں تو وہ مرگئے پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ کردیا ان کا مقابلہ کرنے کے لئے اس لئجے ان کو ذوالقرنین کہا جاتا ہے اور بلاشبہ تمہارے درمیان اس کی مثال ہے۔ 6:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ذوالقرنین نبی تھے۔ 7:۔ ابن ابی حاتم نے احوص بن حکیم (رح) سے روایت کیا کہ اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا وہ ایک بادشاہ تھا جس نے (ساری) زمین میں احسان فرمایا تھا۔ 8:۔ ابن عبدالحکم نے فتوح مصر میں ابن منذر ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے عظمہ میں خالد بن معدان الکلاعی (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ ایک بادشاہ تھا جس نے (ساری) زمین کی پیمائش کی تھی اس کے نیچے سے اسباب کے زریعہ سے۔ 9:۔ ابن عبدالحکم، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن انباری نے کتاب الاضداد میں اور ابوالشیخ نے عمر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے ایک آدمی کو منی میں آواز دیتے ہوئے سنا اے ذوالقرنین عمر ؓ نے اس سے فرمایا پہلے تم نے انبیاء کے نام رکھے اس پر اکتفا نہ کیا حتی کہ تم نے فرشتوں کے ناموں سے نام رکھنا شروع کردیئے۔ 10:۔ ابن ابی حاتم نے جبیر بن نفیر (رح) سے روایت کیا کہ ذوالقرنین فرشتوں میں سے ایک فرشتہ تھا جن کو اللہ تعالیٰ نے زمین کی طرف اتار دیا تھا اور ان کو ہر چیز کا سبب عطا فرمایا تھا۔ ذوالقرنین ایک بادشاہ تھا : 11:۔ شیرازی نے القاب میں جبیر بن نفیر (رح) سے روایت کیا کہ یہود کے علماء نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ ہم کو ذوالقرنین کے بارے میں بیان کیجئے کیا وہ نبی تھے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ ایک بادشاہ تھا جس نے اسباب کے ذریعہ (ساری) زمین کی پیمائش کی تھی۔ 12:۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ وہ ایک ڈرانے والے تھے جو مشرق اور مغرب کے درمیان جو کچھ ہے اسے اس نے پایا تھا ذوالقرنین دو بندوں کے درمیان پہنچے اور وہ ڈرانے والے تھے اور میں نے یقین کے ساتھ نہیں سنا کہ وہ نبی تھے۔ 13:۔ ابوالشیخ نے عظمہ میں ابو الورقاء (رح) سے روایت کیا کہ میں حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے پوچھا کہ ذوالقرنین کے سینگ کس چیز کے بنے ہوئے تھے ؟ انہوں نے فرمایا شاید تو خیال کرتا ہے کہ اس کے سینگ سونے یا چاندی کے تھے وہ نبی تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو لوگوں کی طرف بھیجا انہوں نے ان کو اللہ کی طرف بلایا تو ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس کے سر کی بائیں جانب مارا تو آپ مرگئے پڑھ اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ کردیا پھر ان لوگوں کی طرف بھیجا ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے ان کے دائیں جانب مارا تو آپ مرگئے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کا نام ذوالقرنین رکھ دیا۔ 14:۔ ابوالشیخ نے ابراہیم بن علی بن عبداللہ بن جعفر (رح) سے روایت کیا کہ ذوالقرنین کو دو سینگوں والا اس لئے نام دیا جاتا ہے کہ ان کے دونوں سینگوں پر زخم آئے تھے اللہ کے راستے میں اور وہ کالے رنگ کے تھے۔ 15:۔ ابوالشیخ نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ ذوالقرنین سب سے پہلے وہ آدمی تھے جنہوں نے سب سے پہلے پگڑی پہنی اور وہ اس طرح کہ ان کے سر میں دو سینگ تھے گھروں کی طرح جو حرکت کرتے رہتے تھے اس وجہ سے انہوں نے پگڑی پہنی وہ حمام میں داخل ہوئے تو اس کے ساتھ اس کا کاتب بھی داخل ہوا ذوالقرنین نے پگڑی کو رکھا اور اپنے کاتب سے کہا یہ وہ معاملہ ہے جو تیرے علاوہ مخلوق میں سے کوئی نہیں جانتا اگر میں اس کے بارے میں کسی سے سن لیا تو میں تجھ کو قتل کردوں گا کاتب حمام سے نکلا اس کو موت کی کیفیت طاری ہوگئی وہ ایک صحرا میں آیا اور اپنے منہ زمین پر رکھا پھر آواز لگائی غور سے سنو بادشاہ کے دو سینگ ہیں اللہ تعالیٰ نے اس کی اس بات سے دو بانس اگادیئے ایک بکری چرانے والا ان کے پاس سے گذارا تو وہ اسے بہت اچھے لگے اس نے دونوں کو کاٹ کر بانسریاں بنالیں جب بھی وہ بانسری بجاتا تو ان سے یہ آواز نکلتی تھی بادشاہ کے دو سنیگ ہیں یہ بات شہر تک پھیل گئی ذوالقرنین نے کاتب کی طرف پیغام بھیجا اور کہا تو مجھ سے سچی بات کہہ یا میں تجھ کو قتل کردوں گا تو کاتب نے اپنا واقعہ بیان کیا تو ذوالقرنین نے کہا یہ وہ معاملہ ہے کہ جس کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس کو ظاہر کرے تو اس نے اپنے سر پر پگڑی کو اتار دیا۔ 16:۔ ابن عبدالحکم نے فتوح مصر میں ابن ابی حاتم ابوالشیخ اور بیہقی نے دلائل میں عقبہ بن عامر جہنی ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا ایک دن میں باہر نکلا میں اہل کتاب میں سے کچھ لوگوں کو دروازہ پر دیکھا ان کے ساتھ مصاحف تھے انہوں نے کہا کون ہمارے لئے نبی کریم ﷺ سے اجازت لے گا میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کو خبر دی آپ نے فرمایا مجھے ان سے کوئی کام نہیں وہ مجھ سے ایسی بات پوچھیں گے جس کو میں نہیں جانتا میں ایک بندہ ہوں میں نہیں جانتا مگر جو میرے رب عزوجل نے سکھایا ہے پھر فرمایا میں وضو کرنا چاہتا ہوں تو میں وضو کا پانی لے آیا آپ نے وضو فرمایا پھر آپ نے دو رکعتیں پڑھ کر نماز سے فارغ ہوگئے فرمایا لوگوں کو میرے پاس بلاؤ راوی نے کہا کہ میں نے خوشی اور بشاشت آپ کے چہرہ مبارک میں دیکھی تھی قوم (یعنی ان اہل کتاب) کو میرے پاس بلاؤ اور جو میرے اصحاب موجود ہیں انہیں بھی میرے پاس بلاؤ میں نے ان کو اجازت دی تو وہ اندر داخل ہوگئے آپ نے فرمایا اگر تم چاہو تو میں تم کو خبر دوں اس بات کی جو تم مجھ سے پوچھنے آئے ہو اور اگر تم چاہو تو میرے کہنے سے پہلے تم خود اپنا مدعا بیان کرو انہوں نے کہا بلکہ آپ ہی ہم کو بتائیے آپ نے فرمایا تم مجھ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھنے آئے ہو وہ ابتداء میں رومی غلام تھے اس کو بادشاہی دی گئی تو وہ چلا یہاں تک کہ مصر کی زمین کے ساحل پر آیا اور اس نے ایک شہر بنایا جس کو اسکندریہ کہا جاتا ہے جب اس کام سے فارغ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا اس کے ساتھ وہ اوپر چڑھا اور آسمان کے درمیان تک بلند ہوا پھر فرشتے نے اس سے کہا تو دیکھ تیرے نیچے کیا ہے اس نے کا ہ میں اپنا شہر اور اس کے ساتھ دوسرے شہر دیکھے ہیں وہ فرشتہ ان کو مزید اوپر لے گیا اور کہا اب نیچے دیکھو اس نے کہا میں اکیلا اپنے شہر کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے کوئی شہر نظر نہیں آرہا فرشتے نے اس سے کہا یہ ساری زمین ہے اور جو تو دیکھ رہا ہے جو اس نے زمین کو گھیرا ہوا ہے وہ سمندر ہے اور بلاشبہ تیرے رب نے ارادہ کیا ہے کہ وہ تجھ کو زمین دکھائے جبکہ اس نے تجھ کو اس میں بادشاہ بنا دیا ہے تو اس میں چل پھر وہ جاہل کو تعلیم دے اور عالم کو علم پر مضبوط کر پھر وہ چلا یہاں تک کہ سورج غروب ہونے کی جگہ تک پہنچا پھر چلا یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کی جگہ پر پہنچا پھر دو بندوں پر آیا اور وہ دو نرم پہاڑ ہیں جن سے ہر چیز پھسل جاتی ہے اس نے ایک دیوار بنائی پھر وہ پار کرگیا یاجوج ماجوج کو اور وہاں ایک قوم کو پایا کہ ان کے چہرے کتوں کے چہرے تھے جو یاجوج ماجوج سے لڑتے تھے پھر اس نے ان کو علیحدہ کردیا وہاں ایک چھوٹی قوم کو پایا جو اس قوم سے لڑتے تھے جن کے چہرے کتوں والے تھے پھر اس نے ایک آبی پرندوں کی مثل ایک قوم کو دیکھا جو اس چھوٹی قوم سے لڑتے تھی پھر وہ چلے تو ایک امت سانپوں کی دیکھی اس میں سے ایک سانپ ایک بڑے پتھر کو لقمہ لقمہ کرکے کھا رہا تھا پھر (آگے) چلے سمندر کی طرف جو گھیرے ہوئے تھا زمین کو اور اہل کتاب نے کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ معاملہ اسی طرح ہے جیسے کہ آپ نے ذکر کیا اور ہم اس کو اسی طرح کتاب میں پاتے ہیں۔ 17:۔ ابن عساکر نے سلیمان بن اشج صاحب احبار (رح) سے روایت کیا کہ ذوالقرنین ایک گھومنے والا نیک آدمی تھا جب آدم (علیہ السلام) کے پہاڑ پر کھڑا ہوا جس پر اتارے گئے تھے اور ان کے نشانات کی طرف دیکھا تو پریشان ہوگیا اس کو خضر (علیہ السلام) نے فرمایا اور وہ بڑے جھنڈے والے تھے اے بادشاہ تجھ کو کیا ہے ؟ اس نے کہا یہ انسانوں کے نشانات ہیں میں دیکھ رہا ہوں۔ ہاتھوں اور قدموں کے نشانات کو اور یہ سفید زمین ہے اور اس کے اردگرد سوکھے درختوں کو دیکھ رہا ہوں اس میں سے لال پانی بہہ رہا ہے اس کی کوئی بڑی شان ہے خضر (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا اور ان کو علم اور فہم دیا گیا تھا اے بادشاہ کیا تو نے بڑی کھجور میں سے اس لٹکے ہوئے ورقہ کو نہیں دیکھا اس نے کہا کیوں نہیں فرمایا یہ تجھ کو اس کی شان کی خبر دے رہا ہے اور خضر (علیہ السلام) ہر کتاب پڑھتے تھے اور فرمایا اے بادشاہ کیا تو نے اس میں لکھا ہوا دیکھا ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ یہ خط ہجے آدم ابوالبشر کی طرف سے میں اپنی اولاد اور اپنی بیٹیوں کو وصیت کرتا ہوں کہ تم ابلیس کو میرا اور اپنا دشمن بناؤ جو اپنے کلام اور غلط خواہشات کو بڑے نرم لہجہ میں پیش کرتا ہے اس نے مجھ کو فردوس سے اتارا دنیا کی مٹی کی طرف اور مجھ کو اس جگہ پر ڈال دیا میری طرف کسی نے دو سو سال تک توجہ نہیں کی میری ایک غلطی کی وجہ سے یہاں تک کہ میں نے زمین کو روندا اور یہ میرا نشان ہے اور یہ درخت میری آنکھوں کے آنسووں سے (آگے) ہیں اس مٹی میں مجھ پر توبہ نازل ہوئی پس تم شرمندہ ہونے پہلے توبہ کرلو اور نیک اعمال میں جلدی کرلو پہلے اس سے کہ تمہارے ساتھ جلدی کی جائے (یعنی موت آجائے) اور اعمال پیش کرو پہلے اس سے کہ تم کو پیش کیا جائے ذوالقرنین نازل ہوئے اور انہوں نے آدم (علیہ السلام) کے بیٹھنے کی جگہ کو چھوا اور وہ ایک سوا سی میل کا علاقہ تھا جب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تو وہ خشک ہوگئے اور وہ سرخ خون سے رو رہے ہیں۔ ذوالقرنین نے خضر (علیہ السلام) سے فرمایا ہمارے پاس لوٹ آؤ اور اس کے بعد دنیا کو طلب کیا جائے گا۔ 18۔ ابن عبدالحکم نے فتوح مصر میں سدی (رح) سے روایت کیا کہ اسکندریہ کی ناک (یعنی اگلاحصہ) تین ذراع تھا۔ 19:۔ ابن عبدالحکم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ اسکندریہ کی ناک (یعنی اگلا حصہ) تین زراع کا تھا۔ 20:۔ ابن عبدالحکم ابن ابی حاتم اور شیرازی نے القاب میں عبیدہ بن یعلی (رح) سے روایت کیا کہ ذوالقرنین کا یہ نام اس لئے رکھا گیا کہ اس کے دو چھوٹے سینگ تھے جن کو وہ پگڑی کے ساتھ چھپائے رکھتے تھے۔ 21:۔ احمد نے زہد میں ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے عظمہ میں وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ ان سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا ان کی طرف وحی نہیں کی گئی اور وہ بادشاہ تھا کہا گیا ذوالقرنین ان کو نام کیوں دیا گیا ؟ فرمایا اہل کتاب نے اس میں اختلاف کیا بعض کہتے ہیں کہ وہ روم اور فارس کا بادشاہ تھا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کے سر میں دو سینگوں کے نشان تھے اس لئے اسے ذوالقرنین کہا جاتا تھا۔ ذوالقرنین کے چار فضائل : 22:۔ ابن ابی حاتم نے بکر بن مضر (رح) سے روایت کیا کہ ہشام بن عبدالملک نے ذوالقرنین کے بارے میں ان سے سوال کیا کیا وہ نبی تھے ؟ انہوں نے کہا نہیں لیکن ان کو چار فضائل کی وجہ سے عطا کیا گیا تھا جو کچھ عطا کیا گیا تھا جب وہ (کسی کو سزا دینے پر) قادر ہوتے تھے تو معاف کردیتے تھے اور جب وعدہ کرتے تھے تو پورا کرتے تھے اور جب بات کرتے تھے تو سچ بولتے تھے اور کل کے لئے جمع نہیں رکھتے تھے۔ 23:۔ ابن عبدالحکم نے یونس بن عبید (رح) سے روایت کیا کہ وہ ذوالقرنین کا نام اس لئے دیئے گئے کہ ان کے سر میں بالوں کی دو مینڈھیاں تھیں۔ 24:۔ ابن منذر اور ابوالشیخ نے ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا کہ ان کو ذوالقرنین کا نام اس لئے دیا گیا کہ انہوں نے سورج کے طلوع اور غروب کے درمیان جو جگہ تھی اس کو اس نے ملادیا تھا۔ 25:۔ ابن عبدالحکم نے فتوح مصر میں ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ کہ ان کو ذوالقرنین کا نام اس لئے دیا گیا کیونکہ وہ پہنچے تھے قرن الشمس کو اس کے مغرب سے اور قرن الشمس کو اس کے مطلع سے۔ 26:۔ ابن عبدالحکم نے فتوح مصر میں قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ اسکندریہ وہی ذوالقرنین ہے۔ 27:۔ ابن منذر ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے ابن اسحاق (رح) سے روایت کیا کہ کہ وہ اہل کتاب سے روایت کرتے ہیں ان لوگوں سے جو اعاجم کی احادیث کو اہل کتاب سے روایت کرتے ہیں ان لوگوں سے جو اسلام لائے اور اپنے علم میں سے ایک دوسرے کے وارث بنتے رہے کہ ذوالقرنین اہل مصر میں سے ایک نیک آدمی تھے اس کا نام مرزیابن مرزیۃ الیونانی تھا اور یہ یونن بن یافث بن نوح کی اولاد میں سے تھے۔ 28:۔ ابوالشیخ اور ابن مردویہ نے عبید بن عمیر (رح) سے روایت کیا کہ ذوالقرنین نے پیدل حج کیا ابراہیم (علیہ السلام) نے اس سے سنا اور اس سے ملاقات کی۔ 29:۔ شیرازی نے القاب میں قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ ذوالقرنین اس لئے نام رکھا گیا کہ ان کے (سر میں) دو بالوں کے جوڑے تھے۔ 30:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ ذوالقرنین روم کے سیاستدانوں میں سے تھا وہ ان کے کام کی دیکھ بھال کرتا تھا ان کو اختیار دیا گیا بادل کے تابع ہونے اور اس کے سرکش ہونے میں تو انہوں نے بادل کے تابع ہونے کو اختیار فرمایا تو وہ اس پر سوار ہوجاتے تھے۔ ذوالقرنین کا نام اسکندر تھا : 31:۔ ابن اسحاق، ابن منذر، ابن ابی حاتم، شیرازی نے القاب میں اور ابوالشیخ نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ جو پہلی باتوں کا علم رکھتے تھے وہ فرمایا کرتے تھے کہ ذوالقرنین روم میں سے ایک آدمی تھا روم کی بوڑھی عورتوں میں سے ایک بوڑھی کا لڑکا تھا اس بوڑھی کا اس کے علاوہ اور کوئی بیٹا نہ تھا اس کا نام اسکندر تھا اس کو ذوالقرنین اس لئے نام دیا گیا کیونکہ اس کے سر کے دونوں اطراف تانبے کی تھیں جب بالغ ہوا تو وہ ایک نیک آدمی تھا اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا اے ذوالقرنین میں تجھ کو زمین کی امتوں کی طرف بھیجوں گا دو امتیں ایسی ہیں انکے درمیان ساری زمین کی لمبائی کا فاصلہ ہے اور ان میں سے دو امتیں ایسی ہیں جن کے درمیان ساری زمین کی چوڑائی ہے ان میں سے زمین کے درمیان میں انسان جن اور یاجوج ماجوج ہیں اور وہ امتیں ایسی ہیں جن کے درمیان زمین کی لمبائی کا فاصلہ ہے ایک امت زمین کے دائیں قطر میں رہتی ہے جس کو ھاویل کہا جاتا ہے دوسری امت زمین کے بائیں قطر میں رہتی ہے جس کو قاویل کہا جاتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ فرمایا تو ذوالقرنین نے عرض کیا اے میرے خدا آپ نے مجھے ایک بڑے کام کئے لئے بلایا ہے آپ کے علاوہ اس کی کوئی قدرت نہیں رکھتا مجھے ان امتوں کے بارے میں بتائیے کہ جن کی طرف آپ مجھے بھیج رہے ہیں کس قوت کے ساتھ میں ان کا مقابلہ کرسکتا ہوں اور کتنی نفری کے ساتھ میں ان سے زیادہ ہوسکتا ہوں کس حیلے سے میں انکے تدبیر کرسکتا ہوں کس زبان سے میں اس سے بات کروں اور میرے لئے کیسے (ممکن) ہوگا کہ میں ان سے جنت کروں اور کن سے کان ان کی بات کو زیادہ یاد کرنے والے ہیں ؟ کونسی آنکھیں ان کو دیکھنے والی ہیں ؟ کون سی دلیل سے میں ان سے جھگڑا کرسکتا ہوں ؟ کون سا دل ان کی بات کو زیادہ سمجھ سکتا ہے ؟ کون سی حکمت سے انکجے کام کی تدبیر کرسکتا ہوں ؟ کون سے انصاف سے میں ان کے درمیان انصاف کروں ؟ کون سے حلم کے ساتھ میں ان پر صبر کروں گا ؟ کون سی قوت کے ساتھ میں ان کے درمیان فیصلہ کروں ؟ کس علم کے ساتھ میں ان کے معاملہ کو پختہ کروں ؟ کس طاقت کے ساتھ میں ان پر چھا جاوں روند ڈالوں ؟ کون سے لشکر کے ساتھ میں ان سے قتال کروں ؟ کون سی نرمی کے ساتھ میں ان کی الفت حاصل کروں ؟ اے میرے خدا میرے پاس کوئی چیز نہیں ان چیزوں میں سے جو میں نے ذکر کیں تاکہ ان پر غلبہ حاصل کیا جائے اور ان کو مطیع کیا جائے اور آپ رب الرحیم ہیں وہ جو نہیں تکلیف دیتے ہیں کسی جان کو اور اس پر (بوجھ) نہیں اٹھواتے مگر اس کی طاقت کے مطابق اس کو مشقت میں نہیں ڈالتے بلکہ اس سے نرمی اور رحمت کا مظاہرہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا عن قریب میں تجھ کو طاقت دوں گا میں نے تجھے جس کام پر مامور کیا ہے میں تیرے لئے سینے کو کھول دوں گا تو وہ کشادہ ہوجائے گا ہر چیز کے لئے اور میں کھول دوں گا تیرے لئے سمجھ کو تو ہر چیز کو سمجھ لے گا اور میں کشادہ کردوں گا تیرے لئے تیری زبان کو تو ہر چیز کے ساتھ بولنے لگے گا میں تیرے سینے کو تیرے لئے کھول دوں گا وہ ہر چیز کو یاد رکھیں گے اور میں بڑھاکر دوں گا تیرے لئے تیری نگاہ کو تو آگے بڑھ جائے گا ہر چیز کے اور میں خود ہی تیرے لئے تیرے معاملات کی تدبیر کروں گا میں تیرے لئے ایسا شمار کروں گا ہر چیز کو کوئی چیز تجھ سے فوت نہیں ہوگی اور میں تجھ کو ایسا یاد کراوں گا کہ تجھ سے کوئی چیز غائب نہ ہوگی اور میں مضبوط کردوں گا تیری پیٹھ کو تو کوئی چیز تجھ پر غلبہ نہیں کرے گی اور میں مضبوط کردوں گا تیرے لئے تیرے دل کو پس تجھ کو کوئی چیز نہیں ڈرا سکے گی اور میں مضبوط کردوں تیرے لئے تیرے عقل کو پس تجھ کو کوئی چیز گرا نہیں سکے گی اور میں کشادہ کردوں گا تیرے لئے تیرے ہاتھوں کو پس وہ بلند ہوجائیں گے ہر چیز سے اور میں تجھ کو ایسا رعب عطا کروں گا پس کوئی چیز تجھ کو نہ ڈر اسکے گی اور میں مسخر کردوں گا تیرے لئے دن کو اور تاریکی کو اور میں اس کو بنا دوں گا ایک لشکر تیرے لشکروں میں وہ نور تجھ کو راستہ دکھائے گا تیرے آگے سے اور تیرے پیچھے اور تاریکی کو اور میں اس کو بنا دوں گا ایک لشکر تیرے لشکروں میں وہ نور تجھ کو راستہ دکھائے گا تیرے آگے سے اور تیرے پیچھے اور تاریکی تجھے گھیرے میں لئے ہوئی ہوگی جب ذوالقرنین سے یہ باتیں کہی گئی تو وہ چلے ایک امت کا ارادہ کرتے ہوئے جو سورج کے غروب ہونے کی جگہ میں رہتی تھی جب ان کے پاس تو ایک کثیر مجمع کو پایا اور جن کا شمار اللہ تعالیٰ ہی کرسکتا ہے اور ان کے پاس ایسی قوت اور شدت تھی کہ اللہ کے سوا کسی کی طاقت نہیں تھی اور زبانیں مختلف تھی اور (ان کے) امور مشتبہ تھے اور خواہشات مختلف تھیں اور دل متفرق تھے جب انہوں نے دیکھا تو ان کا مقابلہ کیا تاریکی کے ساتھ ان کے ارد گرد تین لشکر بنا دیئے جنہوں نے ہر طرف سے ان کا گھیراؤ کرلیا کہ ان کو ایک جگہ جمع کرلیا پھر ان پر نور کو داخل کیا ان کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی عبادت کی طرف بلایا بعض ان میں سے ایمان لے آئ اور بعض ان میں سے رکے رہے (پھر) ان لوگوں کی طرف ارادہ کیا جنہوں نے اعراض کیا ان پر تاریکی کو داخل کیا وہ تاریکی میں داخل ہوگئے ان کے مونہوں میں ان ناکوں میں ان کے کانوں میں اور ان کے پیٹوں میں ان کے گھروں میں اور ان پر ان کے اوپر سے ان کے نیچے سے اور ان میں سے ہر جانب سے وہ اس میں چلنے لگے اور حیران رہ گئے جب وہ ڈرے کہ وہ اس میں ہلاک ہوجائیں گے تو وہ اس میں ایک آواز سے چلائے اس نے ان سے تاریکی کو دور کردیا اور ان کو سختی سے پکڑ لیا اور ان کو اپنی دعوت میں داخل کرلیا پھر اس نے اہل مغرب میں سے ایک عظیم امت سے لشکر بنایا اور ان کو ایک ہی لشکر بنادیا پھر ان کو لے کر چلے ان کو آگے سے چلا رہے تھے اور تاریکی ان کو پیچھے سے ہانک رہی تھی اور ان کے اردگرد ان کی حفاظت کررہی تھی اور نور ان کے آگئے سے قیادت کررہا تھا اور وہ ذوالقرنین کے دائیں جانب میں چلا اور وہ اس امت ارادہ رکھتے تھے جو زمین کے دائیں قطر میں رہنے والی تھی جس کو ھاویل کہا جاتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے مسخر کردیا ذوالقرنین کے ہاتھ اس کے دل کو اس کی عقل کو اور اس کی نظر کو وہ حکم دیتا تو غلط نہ ہوتا اور جب وہ کوئی عمل کرتا تو اس کو پختہ کرتا وہ ان امتوں کے آگے آگے تھا اور امتیں اس کے پیچھے پیچھے چل رہی تھیں جب ذوالقرنین سمندر کی طرف پہنچے یا اس کی گہرائی کی طرف انہوں نے چھوٹی چھوٹی کشتیاں بنائیں خچروں کی طرح ان کی ایک گھڑی میں جوڑ دیا پھر اس میں سوار کرلیا سب کو جو ان کے ساتھ تھے ان امتیوں اور ان لشکروں میں سے جب اس نے نہروں اور دریاوں کو عبور کیا تو ان کشتیوں کو توڑ دیا پھر ہر انسان کو تختی دی اور مشکل نہ تھا اس کا اٹھانا اس کا سفر جاری رہا یہاں تک کہ ھاویل کی طرف پہنچے اس نے اس پر بھی اسی طرح حملہ کیا جیسا ان کا عمل ناسک کے بارے قوم پر کیا تھا جب ان سے فارغ ہوئے تو وہ سیدھا چلا داہنی زمین کی جانب میں یہاں تک کہ منسک قوم تک پہنچ گئے جو سورج کے طلوع ہونے کے پاس کی جگہ میں رہتے تھے ان پر بھی اس نے لشکر کشی کی اس کے ساتھ ایسا ہی کیا جیسے ان دو امتوں کے بارے میں کیا تھا جو ان سے پہلے تھیں جب وہاں سے فارغ ہوا تو ان امتوں کی طرف لوٹا جو زمین کے وسط میں رہتی تھیں اور یہ وہ امت تھی جو ھاویل کے مقابل تھی اور وہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل تھیں ان کے درمیان ساری زمین کی چوڑائی کا فاصلہ تھا جب ذوالقرنین وہاں پہنچا اس نے ان پر بھی لشکر کشی کی اور ایسا ہی کیا جیسا پہلی قوموں کے ساتھ کیا جب اس سے فارغ ہوئے تو اس سے پھرگئے ان امتوں کی طرف جو زمین کے درمیان میں رہتی تھیں یعنی جنات سارے انسانوں اور یاجوج ماجوج جب وہ بعض راستے میں تھے ان راستوں میں سے جو مشرق کی جانب ترک زمین ختم ہوتی ہے تو ذوالقرنین کو نیک انسانوں میں سے ایک جماعت نے مشورہ دیا اور کہا اے ذوالقرنین ان دو پہاڑوں کے درمیان ایک مخلوق ہے اللہ کی مخلوق میں سے جو بہت زیادہ ہیں اور انسان سے مشابہ ہیں اور کچھ جانوروں کی طرح ہیں کہ وہ سبز گھاس کھاتے ہیں اور پالتو جانوروں اور وحشی جانوروں کی چیڑپھاڑ کرتے ہیں جیسے ان کی درندے چیڑ پھاڑ کرتے ہیں اور زمین کے تمام حشرات سانپ بچھو اور ہر روح والی چیز کو کھاتے ہیں ان چیزوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے زمین میں پیدا فرمائیں (سب کو کھاجاتے ہیں) اور اللہ تعالیٰ کی ایسی کوئی مخلوق نہیں جو بڑتھی ہو (جیسے) ان کا بڑھنا ایک سال میں اور یہ ان کی طرح اور زیادہ کثیر ہوتی رہتی ہے اگر ان کی کثرت اور زیادتی اسی طرح ہوتی رہی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ عنقریب زمین کو بھر دیں گے اور اہل زمین پر غالب آجائیں گے اور اس میں فساد کریں گے اور کوئی سال نہیں گذرتا جب سے ہم ان کے پڑوسی بنے ہیں اور ہم نے دیکھا ہے اور ہم اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ ہماری طرف ان کے اگلے لوگ چڑھ آئیں گے ان پہاڑوں پر کی ہم لوگ آپ کے لئے کچھ خراج پیش کریں تاکہ آپ ہمارے اور انکے درمیان ایک بلند دیوار بنا دیں ذوالقرنین نے کہا جس مال میں میرے رب نے مجھے اختیار دیا ہے وہ بہتر ہے (اس لئے مجھے مال کی ضرورت نہیں) البتہ ہاتھ پاوں سے تم لوگ میری مدد کرو میں تمہارے ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنادوں گا میرے پاس پتھر لوہا اور تانبا لے آؤ یہاں تک کہ میں ان کے شہروں کو مطیع کرلو اور ان کے علم پر فوقیت حاصل کرلوں اور میں اندازہ لگا لوں جو ان پہاڑوں کے درمیانی فاصلہ کا پھر چلے ان کا ارادہ کرتے ہوئے یہاں تک کہ ان کو دھکیل کر ان کے شہروں کے درمیان پہنچ گیا اب وہ تمام لوگ مذکر ومونث ایک جیسے قد کے تھے اور ان کا قد ہمارے درمیانی قد کے آدمی کے نصف کے برابر تھا ہمارے ہاتھوں کے ناخنوں کی جگہ ان کے پنجے تھے اور ان کی کیچلیاں اور لمبی داڑھیں درندوں کی داڑھوں اور کیچلیوں کی طرح تھیں اور ان کے جبڑے قوت میں اونٹوں کے جبڑوں کی طرح تھے۔ جب وہ کھاتے تھے تو اس کی حرکت سنی جاتی تھی اونٹ کی جگالی کی حرکت کی طرح یا طاقتور نر یا طاقتور گھوڑے کی طرح کاٹنے کی حرکت سنائی دیتی تھی وہ بہت سخت ہیں اور جسموں پر بال ہیں جو ان کو چھپالیتے ہیں اور ان کو گرمی سردی سے بچاتے ہیں اور ان میں ہر ایک کے دو بڑے کان ہیں ان میں سے ایک کان وبرہ ہے اس کا ظاہر بھی ہے اور اس کا باطن بھی ہے اور دوسرا کان رغبہ ہے اس کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ہے یعنی وہ کان اتنے بڑے ہیں کہ وہ ایک کو بچھونا بناتے ہیں اور دوسرے کو اوڑھ لیتے ہیں ان میں سے ایک میں گرمی کا موسم گذارتے ہیں اور دوسرے میں سردی کا موسم گذارتے ہیں ان میں سے ان میں نہ کوئی نر ہے اور نہ مادہ ہے لیکن وہ پہنچانتا ہے اپنی عمر کو کہ جس میں وہ مرتا ہے اور وہ اس طرح کے ان کے مذکروں میں سے کوئی مذکر نہیں ہوتا مگر یہ کہ اس صلب میں سے ہزار بچے پیدا ہوجائیں اور کوئی مونث نہیں ہوتا مگر یہ کہ اس کے رحم سے ہزار بچے پیدا ہوجائیں جب یہ تعداد پوری ہوجاتی ہے تو اسے موت کا یقین ہوجاتا ہے اور اس کی تیاری کرنے والا ہوجاتا ہے اور ان کو بڑی مچھلی کا رزق دیا جاتا ہے موسم بہار کے زمانے میں اور وہ اسے بارش کی طرح طلب کرتے ہیں جب وہ وقت آتا ہے ہر سال ان کو اتنی خوراک دی جاتی ہے کہ وہ ان کے آئندہ سال تک کافی ہوجاتی ہے اور ان کی کثیر تعداد کے لئے بھی کافی اور مددگار ہوتی ہے جب ان پر بارش ہوتی ہے تو سرسبز و شاداب ہوجاتے ہیں اور بےخوف زندگی گذارتے ہیں اور اس کا اثر ان پر دیکھا جاتا ہے ان کی عورتیں تروتازہ ہوجاتی ہیں اور ان کے مردوں کی شہوت بڑھ جاتی ہے اور جب ان پر بارش نہیں ہوتی تو دبلے ہوجاتے ہیں اور ان کے مرد خالی ہوجاتے ہیں اور عورتیں بدل جاتی ہیں اور ان پر اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے کو بلاتے ہیں کبوتروں کی طرح بھیڑیوں کی طرح غراتے ہیں جب آپس میں ملتے ہیں تو جانوروں کی طرح جفتی کرتے ہیں پھر جب ذوالقرنین نے ان کے حالات کو دیکھا تو ان دونوں پہاڑوں کے درمیان میں آیا اور اندازہ لگایا یہ وہ جگہ ہے جہاں مشرق کی جانب ترکوں کا علاقہ ختم ہوتا ہے ان دونوں پہاڑوں کے درمیان سو فرسخ کا فاصلہ پایا جب اس نے دیوار کا کام شروع کیا تو اس کی گہری بنیاد کھدوائی یہاں تک کہ پانی پر پہنچے پھر اس کی چوڑائی کو پچاس فرسخ کردیا اور اس کے اندر پتھر ڈلوائے اور تانبے سے مصالحہ تیار کیا جو پگھلایا گیا تھا پھر ان پتھروں پر ڈال دیا تو وہ ایسا ہوگیا گویا کہ وہ پہاڑوں میں سے ایک چھوٹا پہاڑ زمین کے نیچے سے نکل آیا پھر اس نے اس کے اوپر لوہے کی چادریں اور پگھلا ہوا تانبا ڈالا اور اس کے اندر اس نے زرد تانبے کو ڈالا وہ ایسے ہوگیا گویا کہ وہ خوشنما دھاری دار چادر ہے جس میں تانبے کی زردی اور اس کی سرخی اور لوہے کی سیاہی نظر آتی ہے جب اس سے فارغ ہوئے اور اس کو مضبوط تیار کرلیا تو چلے ارادہ کرتے ہوئے انسانوں اور جنات کی ایک جماعت کی طرف اس درمیان کہ وہ چل رہے تھے اچانک ان کی نظر ایک ایسی نیک امت کی طرف اٹھی جو حق کے ساتھ ہدایت کرتے تھے اور حق کے ساتھ انصاف کرتے تھے اور اس نے ایک عادل امت کو پایا جو آپس میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کرتے تھے، اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرتے تھے، ان کا حال ایک تھا ان کی بات ایک تھی، ان کے اخلاق ایک جیسے تھے، ان کا طریقہ سیدھا تھا، ان کے دل ایک دوسرے سے محبت کرنے والے تھے، ان کی سیرت اعتدال والی تھی ان کی قبریں ان کے دروازوں پر تھی اور ان کے گھروں پر کوئی دروازہ نہ تھا، اور ان پر کوئی حکمران نہ تھا، ان کے درمیان کوئی قاضی نہ تھا ان میں کوئی مالدار نہ تھے نہ ان میں کوئی بادشاہ تھا اور نہ ان میں کوئی رئیس تھا نہ وہ ایک دوسرے سے اختلاف کرتے تھے، نہ وہ ایک دوسرے پر بڑائی جتاتے تھے، نہ وہ ایک دوسرے سے جھگڑتے تھے، نہ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے تھے، نہ جنگ کرتے تھے، نہ وہ قحط زدہ ہوتے تھے، نہ ان پر ناراضگی کا اظہار کیا جاتا، نہ ان کو کوئی اذیت پہنچتی تھی جو لوگوں کو پہنچتی ہیں، اور وہ لوگ لوگوں سے سب سے لمبی عمروں والے تھے، نہ ان میں کوئی مسکین تھا، نہ فقیر تھا، اور نہ کوئی بدخلق اور نہ بدخو جب ذوالقرنین نے ان کے حالات دیکھے تو بہت تعجب کیا اور ان سے کہا اے قوم مجھ کو اپنی خبر بتاؤ میں نے ساری زمین چھانی ہے (یعنی ساری زمین کا چکر لگا چکا ہوں) زمین کا بروبحر شرق وغرب نور و ظلمت سب کچھ دیکھا ہے میں نے اس میں تمہاری طرح کسی کو نہیں پایا مجھے تم اپنی حقیقت سے آگاہ کرو انہوں نے کہا تو جو چاہتا ہے ہم سے پوچھ لے جس کا تو ارادہ رکھتا ہے ذوالقرنین نے کہا مجھے بتاؤ تم نے اپنی قبروں کو اپنے دروازوں پر کیوں بنایا ہوا ہے ؟ انہوں نے کہا جان بوجھ کر ہم نے ایسا کیا ہے تاکہ ہم موت کو نہ بھول جائیں اور اس کی یاد ہمارے دلوں سے نہ نکل جائے پھر پوچھا تمہارے گھروں پر دروازے کیوں نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا ہمارے درمیان کوئی تہمت لگایا ہوا نہیں ہے اور ہمارے اندر صرف امین لوگ ہیں پوچھا تمہارے اوپرحکمران کیوں نہیں ہیں ؟ کہا ہمارے اندر مظالم نہیں پوچھا تمہارے اندر حکام نہیں ہیں کہا ہم جھگڑا نہیں کرتے ہیں پوچھا تمہارے اندر مالدار لوگ نہیں ہیں کہا ہم مال جمع ہی نہیں کرتے پوچھا تمہارے اندر اشراف نہیں کہا کہ ہم آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے پوچھا تم میں تفاوت نہیں ہے اور نہ باہم فضیلت کا دعوی کرتے ہو ؟ کہا ہمارے دلوں میں الفت و محبت ہے اور آپس میں جو اصلاح کا مادہ ہے اس وجہ سے آپس میں نہیں لڑتے۔ پوچھا تم باہم قتل نہیں کرتے اور نہ باہم گالی گلوچ کرتے ہو ؟ کہا ہم اپنی طبیعتوں پر پورے عزم کے ساتھ غالب ہونے کی وجہ سے اور اپنے نفسوں کو حلم کے ساتھ مزین کرنے کی وجہ سے۔ پوچھا کیا وجہ ہے تمہاری بات ایک ہے اور تمہارا طریقہ سیدھا ہے ؟ انہوں نے کہا اس وجہ سے کہ ہم جھوٹ نہیں بولتے اور ہم دھوکہ نہیں دیتے اور بعض بعض کی غیبت نہیں کرتا پوچھا مجھے بتاؤ کس طرح تمہارے دل ایک جیسے ہیں اور تمہاری سیرت معتدل کیوں ہے ؟ انہوں نے کہا ہمارے سینے درست ہیں اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حسد اور کینے کو ہمارے دلوں سے نکال دیا پوچھا کیا وجہ ہے تمہارے اندر نہ مسکین ہے اور نہ فقیر ہے ؟ کہا اس وجہ سے کہ ہم برابر تقسیم کرتے ہیں۔ پوچھا کیا وجہ ہے تمہارے اندر بدخلقی اور سخت گیری نہیں ہے ؟ انہوں نے کہا ہماری انکساری کی وجہ سے۔ ؛ پوچھا کیا وجہ ہے تمہاری عمریں لوگوں سے لمبی کردی گئی ہیں ؟ کہا اس وجہ سے کہ ہم حق کو ادا کرتے ہیں۔ اور ہم انصاف کے ساتھ حکم کرتے ہیں پوچھا کیا وجہ ہے تم قحط زدہ نہیں ہوتے ؟ کہا ہم استغفار سے غافل نہیں ہوتے پوچھا تم پر ناراضگی کا اظہار کیوں نہیں کیا جاتا ؟ کہا اس وجہ سے کہ ہم نے اپنے نفسوں کو تیار کر رکھا ہے کسی مصیبت کے لئے جب سے ہم ہیں، اور ہم مصیبت کو پسند کرتے ہیں اور ہم اس کے حریص ہیں اس لئے ہم اس سے محفوظ ہیں پوچھا کیا وجہ ہے تم کو آفات نہیں پہنچتیں جیسے لوگوں کو پہنچتی ہیں ؟ کہا ہم اللہ کے علاوہ کسی پر بھروسہ نہیں کرتے اور ہم ستاروں کے طلوع و غروب پر عمل نہیں کرتے پوچھا مجھ کو بتاؤ اسی طرح تم نے اپنے آباء و اجداد کو پایا کہ وہ اپنے مسکینوں پر رحم کرتے تھے انہوں نے کہا ہاں ہم نے آباء و اجداد کو پایا کہ وہ اپنے مسکینوں پر رحم کرتے تھے اور اپنے فقیروں پر ہمدردی کرتے تھے اور اپنے ظلم کرنے والوں کو معاف کردیتے تھے اور ان کے ساتھ نیکی کا معاملہ کرتے تھے جو ان کی طرف برائی کا مقابلہ کرتے تھا اور اس کے ساتھ احسان کرتے تھے جو ان سے جہالت کا مظاہرہ کرتا تھا اور جو ان کو گالیاں دیتا تھا اس کے لیے استغفار کرتے تھے اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرتے تھے اور ان کی امانتیں لوٹا دیتے تھے اور اپنی نمازوں کے اوقات کی حفاظت کرتے تھے اور اپنے عہد کو پورا کرتے تھے اور اپنے وعدوں میں سچے تھے اور اپنے رشتہ داروں سے ملنے کو عار نہیں سمجھتے تھے اور اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو اصلاح فرما دی اور ان کی حفاظت فرمائی جب تک وہ زندہ رہے اور اللہ پر حق تھا کہ ان کے ترکہ میں ان کا اچھا خلیفہ چھوڑے ذوالقرنین نے ان سے فرمایا اگر میں ٹھہر گیا تو میں تم میں ٹھہرتا لیکن مجھے اقامت کا حکم نہیں دیا گیا۔ 32:۔ ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے ابو جعفر محمد بن حسین بن علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ ذوالقرنین کا فرشتوں میں سے ایک دوست تھا جس کو زرافیل کہا جاتا تھا اور وہ ان کو پابندی کے ساتھ سلام کرتا تھا ذوالقرنین نے اس سے کہا اے زرافیل کیا تو کوئی چیز ایسی جانتا ہے جو عمر میں زیادتی کردئے تاکہ ہم شکر اور عبادت کو زیادہ کرسکیں اس نے کہا مجھے اس کا علم نہیں لیکن میں عنقریب آپ کے لئے آسمان میں اس بارے میں سوال کروں گا زرافیل آسمان کی طرف چڑھ گیا وہ وہاں رہا جب تک اللہ نے چاہا پھر وہ نیچے اترا اور کہا کہ میں نے اس بارے میں سوال کیا جو آپ نے مجھ سے پوچھا تھا تو مجھے خبر دی گئی کہ اللہ کا ایک چشمہ ہے تاریکی میں وہ دودھ سے زیادہ سفید ہے اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے جو اس میں ایک گھونٹ پیے گا تو نہیں مرے گا یہاں تک کہ حتی کہ وہ خود اللہ تعالیٰ سے موت کا سوال کرے گا ذوالقرنین نے زمین کے علماء کو جمع کیا اور کہا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا ایک چشمہ ہے تاریکی میں ؟ انہوں نے کہا ہم اس کو نہیں جانتے ایک نوجوان اٹھا اور اس نے کہا آپ کو اس کی طرف کیا حاجت ہے اے بادشاہ ؟ ذوالقرنین نے کہا میری ایک حاجت ہے اس نے کہا میں اس کی جگہ کو جانتا ہوں پوچھا تم اس کی جگہ کو کیسے جانتے ہو ؟ اس نے کہا میں نے آدم (علیہ السلام) کی وصیت میں پڑھا ہے اور اس میں میں نے پایا کہ اللہ تعالیٰ کا ایک چشمہ ہے سورج کے طلوع ہونے کی جگہ کے پیچھے تاریکی میں اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے جو اس میں سے پیئے گا ایک گھونٹ تو وہ نہ مرے گا یہاں تک کہ وہ خود اللہ تعالیٰ سے موت کا سوال کرے گا ذوالقرنین اپنی جگہ سے چلے جہاں اس نے بارہ سال گذارے تھے یہاں تک کہ مطلع الشمس کی طرف پہنچے لوگوں اور علماء کو جمع کیا اور کہا میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں تمہارے ساتھ اس تاریکی کی طرف چلوں انہوں نے کہا ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ تو ایسے راستے پر چلے کہ تجھ سے پہلے کوئی بنی آدم اس راستے پر نہیں چلا ذوالقرنین نے کہا میں اس راستے پر ضرور چلوں گا انہوں نے کہا ہم تجھے اللہ کی پناہ میں دیتے ہیں کہ آپ ہم کو اس تاریکی کی طرف لے چلیں کیونکہ ہم اس بات سے امن میں نہیں ہیں کہ تو ہم پر کوئی ایسا معاملہ کھل جائے جس میں زمین پر فساد ہو ذوالقرنین نے کہا میں وہ راستہ ضرور چلوں گا انہوں نے کہا تیری مرضی پھر ان سے سوال کیا جانوروں میں سے سب سے تیز نگاہ کس کی ہے ؟ انہوں نے کہا گھوڑے کی، پوچھا گھوڑوں میں تیزنگاہ کون سی صنف ہے ؟ انہیں نے کہا مادہ، پوچھا پھر ان میں سے کون سی صنف تیز نگاہ ہے انہوں نے کہا جس سے ابھی جفتی نہ ہوئی ہو پھر انہوں نے چھ ہزار جوان گھوڑیاں چن لیں پھر اپنے لشکر میں سے چھ ہزار آدمیوں کو چنا اور ہر ایک آدمی کو ان میں سے ایک گھوڑی دے دی اس میں سے خضر (علیہ السلام) کو دو ہزار گھوڑیوں پر مقرر فرمایا پھر ان کو اپنے آگے کردیا پھر فرمایا میرے آگے چلتے رہو خضر (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا اے بادشاہ ! میں نے اس امت کے گمراہ ہونے سے امن میں نہیں ہوں لوگ مجھ سے جدا ہوجائیں گے انہوں نے ان کو قیمتی سرخ موتی دیا اور کہا جب لوگ متفرق ہوں یہ موتی پھینک دینا کیونکہ یہ عنقریب تجھ کو روشنی دے گا اور آواز نکالے گا یہاں تک کہ تیرے پاس گمراہ لوگوں کو جمع کردے گا ذوالقرنین نے لوگوں پر ایک خلیفہ بنایا اور اس کو حکم دیا کہ وہ اس لشکر میں بارہ سال رہے اگر بادشاہ لوٹ آیا تو ٹھیک ورنہ لوگوں کو حکم دینا وہ اپنے شہروں کی طرف چلے جائیں پھر خضر (علیہ السلام) کو حکم فرمایا کہ وہ ان کے آگے چلیں اور جس منزل پر ذوالقرنین پہنچتا تو خضر (علیہ السلام) اپنی منزل سے کوچ کرجاتے تھے اور ذوالقرنین خضر (علیہ السلام) کی جگہ میں اتر جاتے جس میں وہ ہوتے تھے اس درمیان کہ خضر (علیہ السلام) تاریکی میں چل رہے تھے اچانک لوگ اس سے جدا ہوگئے خضر (علیہ السلام) نے وہ موتی اپنے ہاتھ سے پھینک دیا تو وہ اسی چشمہ کے کنارے پر گرا اور وہ چشمہ وادی میں تھا اس موتی نے ان کے لئے روشنی کردی جو کنوئیں کے اردگرد تھا خضر (علیہ السلام) اترے اور اپنے کپڑے اتارے اور چشمہ میں داخل ہو کر اس میں سے پانی پی لیا پھر غسل کیا اور باہر نکل آئے اپنے کپڑوں کو جمع کیا پھر موتی اٹھا یا اور سوار ہوگئے ذوالقرنین دوسرے راستے پر مڑ گیا جو خضر (علیہ السلام) کے راستے سے مختلف تھا اور وہ اس تاریکی میں چھ رات دن کی مقدار چلتے رہے اور وہ تاریکی رات کی تاریکی کی طرح نہیں تھی وہ تاریکی کہر کی طرح تھی یہاں تک کہ وہ ایسی زمین کی طرف نکل آئے جو روشنی والی تھی اس میں نہ سورج تھا نہ چاند تھا نہ ستارے تھے اس نے لشکر کو ٹھہرایا اور لوگ اترآئے پھر ذوالقرنین اکیلے سوار ہو کر چلا گیا یہاں تک کہ ایک محل کی طرف پہنچا جس کی لمبائی اور چوڑائی ایک فرسخ تھی وہ محل میں داخل ہوا اچانک محل کے کناروں پر مینار ہیں وہاں ایک مذموم پرندہ تھا اس ناک میں ایک زنجیر تھی جو اس مینار سے لٹکی ہوئی تھی وہ پرندہ خطافہ کی طرح یا خطاف کی (شکل میں) قریب تھا پرندہ نے اس سے کہا تو کون ہے ـ؟ کہا میں ذوالقرنین ہوں پرندہ نے کہا اے ذوالقرنین وہ تیرے پیچھے تھا وہ تجھ کو کافی نہیں تھا یہاں تک کہ تو نے تاریکی کا سفر کیا پرندہ نے کہا اے ذوالقرنین مجھے بتائیے کہا پوچھ لو اس نے کہا کیا چونے گچ اور پختہ اینٹوں کی عمارتیں بہت ہوگئی ہیں ؟ کہا ہاں پرندہ نے پر پھیلائے یہاں تک کہ دودیواروں کے درمیان کا ایک تہائی حصہ ڈھک گیا پھر اس نے کہا اے ذوالقرنین مجھے بتاؤ ! کہا پوچھو کہا کیا لوگوں میں باجے بہت ہیں ؟ کہا ہاں تو اس پرندے نے پرکھولے یہاں تک دو دیواروں کے درمیان دو تہائی حصے اس نے بند کردیا پھر پوچھا ذوالقرنین مجھے بتاؤ کہا پوچھا کہا کیا لوگوں میں جھوٹی گواہی کی کثرت ہے ؟ کہا ہاں ! تو پرندے نے پھر پر پھیلائے یہاں تک دود دیواروں کے درمیان سارا حصہ بندہو گیا (یہ دیکھ کر) ذوالقرنین اس سے خوف زدہ ہوگئے اس نے کہا اے ذوالقرنین مجھ سے خوف نہ کرو مجھے بتاؤ، کہا، پوچھو کہا، کیا لوگوں نے لا الہ الا اللہ کی گواہی دینا ترک کردی ہے ؟ کہا نہیں پوچھا کیا لوگوں نے جنابت سے غسل کو چھوڑدیا ہے ؟ کہا نہیں تو (یہ سن کر) اس پرندے نے اپنے دو تہائی پر ملا لئے پھر پوچھا اے ذوالقرنین مجھے بتائیے ! کہا پوچھو، کہا کیا لوگوں نے فرض نماز چھوڑ دی ہے ؟ کہا نہیں تو وہ پرندے نے اپنے پر ملا لئے یہاں تک ( اس شکل پر) لوٹ آیا جیسے وہ تھا پر کہا اے ذوالقرنین اس درجہ تک اوپر چڑھ جاؤ کیونکہ عنقریب تو ایسے آدمی سے ملاقات کرے گا کہ تو اس سے سوال کرے گا تو وہ تجھے جواب دے گا ذوالقرنین چلے یہاں تک کہ اس درجہ پر چڑھے اس پر چڑھے تو ایک لمبی ہموار سطح تھی کہ اس کے کنارے نہ دیکھے جاتے تھے اچانک وہاں ایک آدمی کھڑا ہوا تھا جو آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھے ہوئے تھا اپنے پاتھ کو اپنے منہ پر رکھے ہوئے تھا اس کا ایک قدم آگے تھا اور دوسرا پیچھے تھا ذوالقرنین نے اس کو سلام کیا اس نے سلام کا جواب دیا پھر پوچھا تو کون ہے ؟ کہا میں ذوالقرنین ہوں اس نے کہا اے ذوالقرنین کیا تجھ کو یہ کافی نہ تھا جو تیرے پیچھے تھا یہاں تک کہ تو نے تاریکی طے کی اور تو میری طرف پہنچ گیا ذوالقرنین نے پوچھا تو کون ہے ؟ اس نے کہا میں صور پھونکنے والا ہوں میں نے ایک قدمآگے اور ایک قدم پیچھے رکھا ہوا ہے اور صور میں نے اپنے منہ پر رکھا ہوا ہے اور میں آسمان کی طرف دیکھ کر اپنے رب کے حکم کا انتظار کررہا ہوں پھر اس نے ایک پتھر کو لیا اور ان کو دے کر کہا چلے جاؤ یہ پتھر عنقریب تجھ کو خبر دے گا اس بات کی تاویل کی جو میں نے ارادہ کیا ہے ذوالقرنین واپس آیا یہاں تک کہ اپنے لشکر کے پاس پہنچ گیا اور علماء کو جمع کیا اور ان کو محل کی اور مینار کی اور پرندے کی اور جو اس نے کہا اور جو اس نے جواب دیا اور صور والے کی بات اور اس نے کا پتھر عطا کرنا اور اس کا یہ کہنا جو میں نے کہا ہے اس کی تاویل مجھے یہ پتھر دے گا یہ تمام باتیں ان کو بتائیں اور کہا تم لوگ اس پتھر کے بارے میں مجھ کو بتاؤ یہ کیا ہے اور اس کے ذریعہ اس سے کس چیز کا ارادہ کیا ہے علماء نے میزان منگوایا اور ایک طرف وہ پتھر رکھ دیا گیا پھر صور والے کا پتھر بھاری نکلا پھر اس کے مقابلے میں سو پتھر رکھ دیئے گئے پھر بھی وہ پتھر بھاری نکلا ذوالقرنین نے کہا کیا تم میں سے اس پتھر کے بارے میں کسی کو علم ہے اور خضر (علیہ السلام) اپنے حال پر بیٹھے ہوئے تھے اور بات نہیں کررہے تھے ذوالقرنین نے ان سے کہا اے خضر کیا آپ کے پاس اس پتھر کے بارے میں کوئی علم ہے ؟ فرمایا ہاں پوچھا وہ کیا ہے ؟ خضر (علیہ السلام) نے فرمایا اے بادشاہ اللہ تعالیٰ عالم کو عالم کے ذریعے آزمائش میں ڈالتے ہیں اور عام لوگوں کو دوسرے لوگوں کے ذریعہ آزمائش میں ڈالتے ہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو میرے ذریعہ آزمائش میں ڈالا ہے اور مجھے آپ کے ذریعہ آزمائش میں ڈالا ہے ذوالقرنین نے اس سے کہا میں تجھ کو نہیں دیکھتا مگر وہی میرا مطلوب بیان کرے گا خضر (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا اسی طرح ہی ہے اور پھر کہا کہ میرے پاس آجاؤ انہوں نے ترازو کو پکڑا اور ایک طرف صاحب صور کا پتھر رکھ دیا اور دوسرے پلڑے میں دوسرا پتھر رکھ دیا اور خضر (علیہ السلام) نے مٹی میں سے ایک مٹھی بھری اور اس کو پتھر کے ساتھ رکھ دیا پھر میزان کو اٹھادیا گیا اور وہ پتھر بھاری ہوگیا جس کے ساتھ مٹی تھی صور والے پتھر پر علماء نے کہا سبحان اللہ اے ہمارے رب ہم نے اس کو ہزار پتھروں کے ساتھ رکھا پھر بھی وہ بھاری ہوگیا اور خضر نے ایک پتھر اور مٹھی مٹی کی رکھی تو وہ پتھر بھاری ہوگیا ذوالقرنین نے ان سے کہا مجھے اس کی تاویل کے بارے میں بتائیے فرمایا میں تجھ کو بتاوں گا بلاشبہ تو مشرق اور مغرب پر غالب آیا اس نے تجھے کفایت نہ کی یہاں تک کہ اندھیرے میں داخل ہوا اور یہاں تک تو صور والے کی طرف پہنچا اور تیری آنکھ نہیں بھرے گی مگر مٹی ذوالقرنین نے کہا تو نے سچ کہا ذوالقرنین نے کوچ کیا اور اندھیرے میں دوبارہ لوٹ آیا اور لوگ اپنے گھوڑے کے اگلے حصے کے نیچے سے آوازسن رہے تھے لوگوں نے پوچھا اے بادشاہ یہ آواز کیسی ہے جو ہم اپنے گھوڑوں کے نیچے سے سن رہے ہیں ذوالقرنین نے کہا جس نے اس کو پکڑا وہ بھی شرمندہ ہوا اور جس نے اس کو چھوڑا وہ بھی شرمندہ ہوا پھر ایک گروہ نے اس کو پکڑا اور ایک گروہ نے چھوڑ دیا جب وہ لوگ روشنی میں پہنچے تو انہوں نے دیکھا وہ زبرجد ہے جس نے اسے اٹھایا تھا وہ شرمندہ ہوا کہ زیادہ نہ اٹھایا اور چھوڑنے والا بھی شرمندہ ہوا کہ اس نے اس کو نہ اٹھایا نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ میرے بھائی ذوالقرنین پر رحم فرمائے وہ تاریکی میں داخل ہوا اور اس سے بےرغبت ہو کر نکلا اگر وہ اس سے نکلتا رغبت کرتے ہوئے تو نہ چھوڑتا اس میں سے ایک پتھرکو مگر اس کو نکال لیتا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور وہ یعنی ذوالقرنین دومۃ الجندل میں ٹھہرا اور اس میں اللہ کی عبادت کی یہاں تک کہ مرگئے اور ابوالشیخ کے الفاظ یوں ہیں کہ ابو جعفر (رح) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ رحم فرمائے میرے بھائی ذوالقرنین پر اگر وہ زبر جد کو ابتداء میں پالیتے جو اس میں سے کسی چیز کو نہ چھوڑتے یہاں تک کہ اس کو نکال لیتے لوگوں کی طرف کیونکہ وہ ابتداء میں رغبت کرنے والے تھے دنیا میں لیکن وہ اس کے پانے پر اس وقت کامیاب ہوئے جب کہ وہ بےپرواہی کرنے والے تھے دنیا میں اور ان کے اس میں کوئی حاجت نہ تھی۔ 33:۔ ابن اسحاق، فریابی، ابن ابی الدنیا نے کتاب من عاش بعدالموت میں ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے روایت کیا کہ علی بن ابی طالب ؓ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ ایسا بندہ تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے محبت کی اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی اس نے اللہ کے لئے اخلاص پیش کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے اخلاص کی قدر دانی فرمائی اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک قوم کی طرف بھیجا۔ ذوالقرنین کی دعوت توحید : ان کو اللہ کی توحید کی طرف بلایا اور اسلام کی طرف دعوت دی تو ان لوگوں نے ان کو سر کی دائیں طرف مارا تو وہ مرگئے اللہ تعالیٰ نے ان کو روکے رکھا جب تک چاہا پھر ان کو زندہ کیا پھر ان کو دوسری امت کیطرف بھیجا انہوں نے ان کو اللہ اور اسلام کی طرف بلایا تو ان لوگوں نے ان کو سر کے بائیں طرف مارا تو وہ مرگئے اللہ تعالیٰ نے (اس موت میں) ان کو روکے رکھا جب تک اللہ نے چاہا پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ فرمایا ان کے لئے بادلوں کو مسخر کیا اور اس میں ان کو اختیار دیا تو انہوں نے اس کے دشوار کام کو اختیار کیا اس کے مطیع ہونے پر اور اس کی دشواری یہ ہے کہ وہ بارش نہیں برساتا اور اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کا نور پھیلا دیا اور اس کے لئے اسباب لمبے کردیئے اور رات اور دن کو اس پر برابر کردیا اس وجہ سے وہ زمین کی مشرقوں اور اس کے مغربوں تک پہنچے۔ 34:۔ عبد بن حمید اور ابن منذر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ ذوالقرنین جب پہاڑ کو پہنچا جس کو قاف کہا جاتا ہے پہاڑوں کے فرشتہ نے اس کو آواز دی اے خطا کرنے والے کے بیٹے ! جہاں تو آیا ہے اس جگہ نہ کوئی تجھ سے پہلے آیا اور نہ تیرے بعد کوئی آئے گا ذوالقرنین نے اس کو جواب دیا اور پوچھا میں کہاں ہوں ؟ فرشتے نے اس سے کہا آپ ساتویں زمین میں ہیں ذوالقرنین نے کہا کوئی چیز مجھے نجات دے گی ؟ فرشتے نے کہا تجھ کو یقین نجات دے گا ذوالقرنین نے کہا اے اللہ ! مجھے یقین عطا فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو نجات دے دی فرشتے نے اس سے کہا کہ تو عنقریب جائے گا ایسی قوم کی طرف کہ تو ان کے لئے ایک بلند دیوار بنائے گا جب تو اس کو بنائے اور اس سے فارغ ہوجائے تو اپنے بارے میں بیان نہ کر کہ تو نے اس کو بنایا ہے اپنی قابلیت سے یاقوت سے (اگر تو نے اپنی قابلیت اور قوت کا اظہار کیا) تو اللہ تعالیٰ نے تیری بنائی ہوئی عمارت پر اپنی کمزور مخلوق کو مسلط کردیں گے اور وہ اس کو گرا دے گی پھر ذوالقرنین نے اس سے کہا یہ پہاڑ کیا ہے تو فرشتے نے کہا یہ وہ پہاڑ ہے جس کو قاف کہا جاتا ہے اور وہ سرسبز ہے اور آسمان سفید ہے اور آسمان کی سرسبزی اس پہاڑ کی وجہ سے ہے اور یہ پہاڑ پہاڑوں کی ماں ہے اور سب پہاڑ اس کی رگیں ہیں جب اللہ تعالیٰ ارادہ فرماتے ہیں کہ فلاں بستی کو ہلایا جائے (یعنی اس میں زلزلہ آجائے) تو اس میں سے ایک رگ کو حرکت دیتے ہیں پھر اس فرشتے نے انگوروں کا ایک گچھا لیا اور اس سے کہا کہ ایک دانہ تجھ کو سیراب کردے گا (یعنی ایک دانہ تیرا پیٹ بھر دے گا) اور جب بھی تو اس میں سے ایک دانہ لے گا تو اس کی جگہ ایک دانہ اور پیدا ہوجائے گا ذوالقرنین وہاں سے نکلا تو وہ اس بنیاد کے پاس آیا جس کے بنانے کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا تھا لوگوں نے ان سے کہا (آیت) ” یذا القرنین ان یاجوج وماجوج مفسدون فی الارض “ (سے لے کر) ” اجعل بینکم وبینہم ردما “ عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ وہ قومیں جن کے پاس ذوالقرنین پہنچے وہ منسک، ناسک، تاویل، اور راحیل تھے ابو سعیدؓ سے روایت کیا کہ وہ پچیس قبائل تھے یاجوج وماجوج کے علاوہ۔ 35:۔ حاکم نے معاویہ ؓ سے روایت کیا کہ پوری زمین کے بادشاہ چار تھے سلیمان (علیہ السلام) ، ذوالقرنین، اہل حلوان میں سے ایک آدمی اور دوسرا آدمی ان سے پوچھا گیا کیا وہ شخص خضر تھا انہوں نے فرمایا نہیں۔ ذوالقرنین مسکینوں والا لباس پہنتا تھا : 36:۔ ابن ابی حاتم اور ابن عساکر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ذوالقرنین ساری زمین کا بادشاہ تھا سوائے مارب والی بلقیس کے اور ذوالقرنین مسکینوں والے کپڑے پہنتا تھا پھر وہ شہروں میں داخل ہوجاتا تھا اور وہ ان کے عیوب کو دیکھتا تھا ان کے رہنے والوں کو قتل کرنے سے پہلے بلقیس کو اس بات کی خبر ہوئی تو اس نے اپنا ایک قاصد بھیجا تاکہ اس کی ایک تصویر بنا لائے جب وہ اپنے مالک میں بیٹھا ہو اور ایک اس کی تصویر مساکین کے کپڑوں میں بنا لائے بلقیس نے مساکین کو جمع کرنا اور ان کو کھانا کھلانا شروع کیا اس کے پاس اس کا قاصد تصویر لے کر آیا اس نے ایک تصویر اپنے قریب رکھی اور دوسری تصویر باب الاسطوانہ پر رکھی اور وہ ہر دن مساکین کو کھلاتی تھی جب وہ کھانے سے فارغ ہوگئے تو اس نے ایک ایک کو دیکھا اور وہ باہر نکل رہے تھے یہاں تک کہ ذوالقرنین مسکینوں کے لباس میں آیا اور اس کے شہر میں داخل ہوا پھر مساکین کے ساتھ کھانے کے لئے بیٹھا ان کی طرف کھانا قریب کیا گیا جب وہ لوگ فارغ ہوگئے تو ان کو ایک ایک کرکے باہر نکالا گیا اور یہ دیکھ رہی تھی اس کی صورت کی طرف مساکین کے کپڑوں میں یہاں تک کہ ذوالقرنین گذرے تو اس کی صورت کی طرف دیکھ کر کہا ان کو بٹھا دو اور باقی مساکین کو نکال دو ذوالقرنین نے اس سے کہا تو نے مجھے کیوں بٹھایا اور میں بھی تو مسکین ہوں کہنے لگی نہیں تو ذوالقرنین ہے یہ تیری صورت ہے مساکین کے کپڑوں میں بنی ہوئی ہے اللہ کی قسم مجھ سے جدا نہیں ہوگا یہاں تک کہ تو میرے لئے امان لکھ دے میری بادشاہت کے بارے میں یا میں تیری گردن اتار دوں گی جب ذوالقرنین نے یہ دیکھا تو اس کے لئے امان لکھ دی سوائے بلقیس کے علاقہ کے اور کوئی علاقہ ذوالقرنین کی فتح سے نہیں بچا۔ 37:۔ ابن ابی حاتم نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ ذوالقرنین کی بادشاہت بارہ سال تھی۔ 38:۔ ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے عظمہ میں عبیداللہ بن ابو جعفر (رح) سے روایت کیا کہ ذوالقرنین اپنے بعض سفر میں تھے ایک قوم پر سے گذرے کہ ان کی قبریں ان کے گھروں کے دروازہ پر تھیں اور ان کے کپڑے ایک ہی رنگ کے تھے اور وہ سب کے سب مرد تھے اس میں کوئی عورت نہیں تھی ان میں سے ایک آدمی کو انہوں نے ایک شخص سے ملاقات کی اس نے اس سے کہا میں نے ایسی چیز کو دیکھا کہ میں نے اپنے سفروں میں ایسا نہیں دیکھا پوچھا وہ کیا ہے ؟ ذوالقرنین نے اس سے بیان کیا جو اس نے قوم میں دیکھا تھا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے دروازوں پر قبریں اس لئے ہیں کہ ہم نے ان کو نصیحت بنایا ہوا ہے اپنے دلوں کے لئے تاکہ کسی دل میں دنیا کا خیال نہ آئے پس جب کوئی باہر نکلے تو اپنی قبروں کو دیکھ کر اپنی ذات کی طرف رجوع کرے اور کہے کہ اس ٹھکانے کی طرف مجھے لوٹنا ہے اور اسی جگہ کی طرف لوٹ گئے ہیں جو مجھ سے پہلے تھے لیکن ہمارا ایک رنگ کا لباس اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اعلی کپڑے پہن کر اپنے ساتھی پر فضیلت نہ جتائے اور تیرا یہ کہنا کہ سب مرد ہیں ان کے ساتھ کوئی عورت نہیں میری عمر کی قسم ہم کو مرد اور عورت سے پیدا کیا گیا لیکن یہ دل کسی چیز میں مشغول نہیں ہوگا مگر یہ اس کے ساتھ مشغول ہوجاتا ہے) (اس لئے) ہم نے اپنی عورتوں اور اپنے بچوں کو ایک قریب بستی میں بسایا ہوا ہے اور جب کوئی آدمی اپنے گھروالی کا ارادہ کرتا ہے اس (جماع) کا جس کا آدمی ارادہ کرتا ہے تو وہ اپنی بیوی کے پاس آتا ہے ایک رات یا دو راتیں اس کے ساتھ گذارتا ہے پھر یہاں واپس آجاتا ہے اور ہم یہاں عبادت کے لئے اکیلے رہتے ہیں میں تم کو کسی ایسی بات سے نصیحت نہیں کرسکتا جو تم نے خود اپنے نفسوں کے بارے میں تجویز کر رکھی ہے مجھ سے سوال کر جو تو چاہے اس نے پوچھا تو کون ہے ؟ کہا میں ذوالقرنین ہوں اس نے کہا میں تجھ سے کیا سوال کروں جبکہ تو میرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں ہے ذوالقرنین نے کہا کس طرح ؟ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر چیز تک پہنچنے کا سامان عطا فرمایا ہے پوچھا کیا تو قادر ہے اس بات پر کہ تو میرے پاس لائے اس چیز کو جو میری تقدیر میں نہیں لکھی اور کیا تو مجھ سے وہ چیز دور کرسکتا ہے جو چیز میری تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔ 39:۔ بیہقی نے شعب میں وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ جب ذوالقرنین مطلع الشمس پر پہنچا تو فرشتے نے اسے کہا اے ذوالقرنین ! تو میرے لئے لوگوں کی صفات بیان کر ذوالقرنین نے کہا کہ تیرا ایک کم عقل سے بات کرنا اس شخص کی طرح ہے جو قبر والوں کے سامنے کھانا رکھتا ہے اور تیرا عقل مند آدمی سے بات کرنا اس طرح ہے جو چٹان کو پانی سے تر کرتا ہے تاکہ وہ گیلی ہوجائے یا لوہے کو پکاتا ہے تاکہ سالن حاصل کرے اور پتھر کو منتقل کرنا پہاڑوں کی چوٹیوں سے یہ زیادہ آسان ہے تیرا گفتگو کرنا اس شخص سے جو عقل نہیں رکھتا۔
Top