Dure-Mansoor - Al-Kahf : 86
حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَةٍ وَّ وَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا١ؕ۬ قُلْنَا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِمَّاۤ اَنْ تُعَذِّبَ وَ اِمَّاۤ اَنْ تَتَّخِذَ فِیْهِمْ حُسْنًا
حَتّٰٓي : یہانتک کہ اِذَا بَلَغَ : جب وہ پہنچا مَغْرِبَ : غروب ہونے کا مقام الشَّمْسِ : سورج وَجَدَهَا : اس نے پایا اسے تَغْرُبُ : ڈوب رہا ہے فِيْ : میں عَيْنٍ : چشمہ۔ ندی حَمِئَةٍ : دلدل وَّوَجَدَ : اور اس نے پایا عِنْدَهَا : اس کے نزدیک قَوْمًا : ایک قوم قُلْنَا : ہم نے کہا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ : اے ذوالقرنین اِمَّآ : یا چاہے اَنْ : یہ کہ تُعَذِّبَ : تو سزا دے وَاِمَّآ : اور یا چاہے اَنْ : یہ کہ تَتَّخِذَ : تو اختیار کرے فِيْهِمْ : ان میں سے حُسْنًا : کوئی بھلائی
یہاں تک کہ جب سورج کی چھپنے کی جگہ پر پہنچا تو سورج کو ایک سیاہ چشمہ میں ڈوبتا ہوا پایا اور اس موقعہ پر اس نے ایک قوم دیکھی ہم نے کہا اے ذوالقرنین آپ ان کو سزا دو اور یا ان میں خوبی کا معاملہ اختیار کرو۔
سورج غروب ہونے کی جگہ : 1:۔ عبدالرزاق، سعید بن منصور، ابن جریر، ابن منذر، اور ابن ابی حاتم نے عثمان بن ابی حاضر (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ سے ذکر کیا گیا کہ معاویہ بن ابی سفیان ؓ اس آیت کو اس طرح پڑھتے ہیں۔ (آیت) ” تغرب فی عین حامیۃ “ جو سورة کہف میں ہے ابن عباس نے فرمایا کہ میں نے معاویہ ؓ سے کا ہ ہم اس کو ” حمئۃ “ پڑھتے ہیں معاویہ ؓ نے کہا عبداللہ بن عمرو ؓ سے سوال کرو تم اس کو کس طرح پڑھتے ہو عبداللہ ؓ نے فرمایا جیسے کہ تم پڑھتے ہو ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ میں نے معاویہ ؓ سے کہا کہ میرے گھر میں قرآن نازل ہوا (پھر) میں نے کعب ؓ کے پاس ایک آدمی بھیجا اور ان سے پوچھا کہ تم تورات میں کیسے پاتے ہو کہ سورج کہاں غروب ہوتا ہے ؟ کعب ؓ نے اس آدمی سے کہا عرب والوں سے سوال کرو کیونکہ وہ اس کو زیادہ جانتے ہیں لیکن تورات میں یہ ہے کہ سورج پانی اور مٹی میں غروب ہوتا ہے اور اپنے ہاتھ سے مغرب کی طرف اشارہ فرمایا ابن ابی حاضر (رح) نے فرمایا اگر میں تمہارے ساتھ ہوتا تو میں تمہاری تائید کرتا ایک کلام کے ذریعہ اور ” حمئۃ “ کے متعلق اس کے ذریعہ بصیرت زیادہ ہوتی ابن عباس ؓ نے پوچھا وہ کلام کیا ہے ؟ میں نے کہا ہم تبع کی بات کو ترجیح دیتے ہیں جو اس نے ذوالقرنین کے علم اور علم کی اتباع کے بارے میں ذکر کیا (اور یہ کہا) قد کان ذوالقرنین عمرومسلما ملکا تدین لہ الملوک وتحسد ترجمہ : ذوالقرنین لمبی عمر والا مسلمان بادشاہ تھا کہ بادشاہ اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتے تھے اور حسد (بھی) کرتے تھے۔ فاتی المشارق والمغارب یبتغی اسباب ملک من حکیم مرشد ترجمہ : وہ مشرقوں اور مغربوں میں آیا کہ اس نے بادشاہی (و حکومت) کے اسباب طلب کئے حکیم مرشد (یعنی اللہ تعالیٰ ) سے۔ فرای مغیب الشمس عند غروبھا فی عین ذی خلب وثاط حرمد ترجمہ : تو اس نے سورج کے غروب ہونے کی جگہ کو دیکھا اور ایک سیاہ بدبودار مٹی کے چشمے میں غروب ہورہا تھا۔ ابن عباس ؓ نے پوچھا ” خلب “ کیا ہے ؟ میں نے کہا ان کے کلام میں مٹی ہے پھر پوچھا ” ثاط “ کیا ہے ؟ میں نے کہا وہ دلدل ہے پھر پوچھا حرمد کیا ہے ؟ میں نے کہا وہ سیاہ ہے ابن عباس ؓ نے ایک لڑکے کو بلایا اور اس سے فرمایا یہ جو کہتا ہے اس کو لکھ لو۔ 2:۔ ترمذی، ابن جریر اور ابن مردویہ نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے اس طرح پڑھا (آیت) ” فی عین حمئۃ “۔ 3:۔ حاکم، طبرانی اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ اس طرح پڑھتے تھے (آیت) ” فی عین حمئۃ “ 4:۔ حافظ عبدالغنی بن سعید نے ایضاح الاشکال میں مصداع بن یحی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ابی بن کعب ؓ نے اس طرح پڑھا جس طرح نبی کریم ﷺ ان کو پڑھایا (آیت) ” تغرب فی عین حمئۃ “ 5:۔ ابن جریر نے اعرج (رح) کے طریق سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ اس کو (آیت) ” فی عین حمئۃ “ پڑھتے تھے پھر (آیت) ” ذات حمئۃ “ پڑھتے تھے۔ 6:۔ سعید بن منصور، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس کو یوں پڑھتے تھے (آیت) ” فی عین حمئۃ “ کعب ؓ نے فرمایا میں نے کسی کو اس طرح پڑھتے ہوئے نہیں سنا جیسے وہ کتاب اللہ ہے سوائے ابن عباس کے ہم نے اس کو تورات میں یوں پایا ہے (آیت) ” تغرب فی عین حمئۃ سوداء “۔ 7:۔ سعید بن منصور اور ابن منذر نے عطا کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میں نے حضرت معاویہ ؓ کے پاس (آیت) ” حمئۃ “ اور ” حامیۃ “ پڑھنے کے متعلق عمرو بن العاص ؓ سے اختلاف کیا (اور فرمایا) میں نے اس کو پڑھا (آیت) ” فی عین حمئۃ “ عمرو نے فرمایا ” حامیۃ “ ہم نے کعب ؓ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ اللہ کی نازل کردہ کتاب میں یوں ہے (آیت) ” تغرب فی طینۃ سودا “۔ 8:۔ عبدالرزاق، سعید بن منصور، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے ابن حاضر کے طریق ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ہم معاویہ ؓ کے پاس بیٹھے تھے تو انہوں نے پڑھا (آیت) ” تغرب فی عین حمئۃ “ میں نے ان سے کہا کہ ہم تو اس کو پڑھتے ہیں (آیت) ” فی عین حمئۃ “ معاویہ ؓ نے کعب ؓ کے پاس ایک آدمی کو بھیجا اور کہا کہ تم تورات میں سورج کے ڈوبنے کو کہاں پاتے ہو ؟ کعب ؓ نے فرمایا عربی زبان کا تو مجھے علم نہیں لیکن میں تورات میں پاتا ہوں کہ سورج پانی اور مٹی میں غروب ہوتا ہے۔ 9:۔ سعید بن منصور نے طلحہ بن عبید اللہ (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس کو یوں پڑھتے تھے (آیت) ” فی عین حمئۃ “۔ 10:۔ ابن ابی حاتم نے علی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فی عین حمئۃ “ سے مراد ہے گرم چشمہ۔ 11:۔ احمد، ابن ابی شیبہ، ابن منیع، ابویعلی، ابن جریر، اور ابن مردویہ نے عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے سورج کی طرف دیکھا جب وہ غروب ہورہا تھا تو آپ نے فرمایا اللہ کی آگ ہے گرم کی ہوئی پھر فرمایا اگر اللہ نے اسے نہ روکا ہوتا تو وہ زمین پر سب کچھ جلا دیتا۔ 12:۔ ابن ابی شیبہ، ابن منذر ابن مردویہ اور حاکم نے (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار تھا اور آپ ایک گدھے پر سوار تھے آپ نے سورج کو دیکھا جب وہ غروب ہورہا تھا آپ نے پوچھا کیا تو جانتا ہے یہ کہاں غروب ہوتا ہے ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں پھر فرمایا کہ وہ ایک گرم چشمے میں غروب ہوتا ہے یعنی بغیر ھمزہ کے پڑھا۔ 13:۔ سعید بن منصور نے ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ سورج ایک چشمے میں غروب ہوتا ہے وہ چشمہ اس کو مشرق کی طرف پھینک دیتا ہے۔ 14:۔ ابویعلی، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابوالشیخ نے عظمہ میں اور ابن جریر نے ابن جریض (رح) سے (آیت) ” ووجد عندھا قوما “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ ایک شہر تھا جس کے بارہ ہزار دروازے تھے اگر اس کے رہنے والوں کی آواز نہ ہوتیں تو لوگ سورج کی آواز کو سنتے جب وہ دھماکے کرتا ہے۔ 15:۔ ابن ابی حاتم نے سعد بن ابی صالح (رح) یوں فرمایا کرتے تھے اگر روم والوں کا شور نہ ہوتا تو لوگ سورج کی آواز کو سنتے جب وہ دھماکہ سے گرتا ہے۔ ذوالقرنین کا فیصلہ ظالم قوم کے بارے میں : 16:۔ ابن منذر نے سعید بن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ اگر مسافروں کی آوازیں نہ ہوتیں تو سورج کے دھماکے سب سنتے جب وہ اپنے غروب کے وقت گرتا ہے۔
Top