Dure-Mansoor - Maryam : 16
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مَرْیَمَ١ۘ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّاۙ
وَاذْكُرْ : اور ذکر کرو فِى الْكِتٰبِ : کتاب میں مَرْيَمَ : مریم اِذِ انْتَبَذَتْ : جب وہ یکسو ہوگئی مِنْ اَهْلِهَا : اپنے گھروالوں سے مَكَانًا : مکان شَرْقِيًّا : مشرقی
اور کتاب میں مریم کو یاد کیجئے جبکہ وہ اپنے گھروالوں سے علیحدہ ہو کر ایک ایسی جگہ چلی گئی جو مشرق کی جانب تھا
1:۔ عبدالرزاق، عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اذ انتبذت “ یعنی الگ ہوگئیں (آیت) ” من اھلھا مکانا شرقیا “ یعنی مشرق کی طرف دور علیحدہ جگہ۔ 2:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اذانتبذت من اھلھا مکانا شرقیا “ یعنی ایسی جگہ آپ چلی گئی تھیں جہاں سورج کی دھوپ پڑرہی تھی ایسا نہ ہو کہ لوگوں میں سے کوئی اس کو دیکھ لے۔ 3:۔ فریابی، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نصاری نے مشرق کو قبلہ بنالیا کیونکہ مریم (علیہا السلام) نے اپنے گھروالوں سے دور مشرقی جانب ایک جگہ بنالی تھی انہوں نے ان کی پیدائش کی جگہ کو قبلہ بنالیا ہے یہود نے پیشانی کی ایک طرف سجدہ کیا جبکہ ان کے اوپر پہاڑ بلند کیا گیا تو خوف کے مارے پہاڑ کی طرف دیکھ رہے تھے وہ اس بات سے خوف کررہے تھے کہ وہ ان پر نہ آپڑے تو ان سب نے سجدہ کیا اللہ تعالیٰ کو راضی کرتے ہوئے اس لئے انہوں نے اس طرح سجدہ کر ناسنت بنالیا۔ 4:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اہل کتاب کے لئے نماز اور حج بیت اللہ کو فرض کیا گیا تھا اور وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (آیت) ” اذانتبذت من اھلھا مکانا شرقیا “ کی وجہ سے مشرق کی جانب پھرگئے اور انہوں نے نماز شروع کردی سورج کے طلوع ہونے کی جانب۔ 5:۔ ابن عساکر نے داود بن ابی ہند کے طریق سے سعید بن جبیر ؓ سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب مریم (علیہا السلام) بالغ ہوئیں تو وہ ایک علیحدہ گھر میں تھیں اچانک ان کے پاس ایک آدمی بغیر اجازت داخل ہوا تو وہ ڈریں کہ شاید یہ کسی دھوکہ کے لئے آیا ہے کہنے لگیں (آیت) ” انی اعوذ بالرحمن منک ان کنت تقیا “ جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” انما انا رسول ربک، لاھب لک غلما زکیا “ کہنے لگی (آیت) ” انی یکون لی غلم ولم یمسسنی بشرولم اک بغیا “ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا (آیت) ” کذلک، قال ربک “ (اسی طرح تیرے رب نے کہا ہے) اور جبرائیل (علیہ السلام) بار بار یہ کہتے رہے اور آپ یہ کہتی رہی (آیت) ” انی یکون لی غلم “ اور جبرائیل (علیہ السلام) ان کو غافل کرکے ان کی قمیص کی جیب میں پھونک مار دی اور حضرت مریم (علیہا السلام) کے پاس سے اٹھ کھڑے ہوئے اس کے ذریعہ آپ کو حمل ٹھہر گیا کہنے لگیں اگر میں مغرب کی جانب نکلوں اور لوگ مغرب کی طرف نماز پڑھتے ہیں لیکن مشرق کی جانب نکلوں گی اس طرح پر کہ کوئی مجھے نہ دیکھے گا تو وہ مشرق کی جانب نکلیں اس درمیان کہ وہ چل رہیں تھیں اچانک دردزہ شروع ہوگیا تو انہوں نے اپنی نظر کو گھمایا کیا کوئی ایسی چیز ہے کہ جس سے میں اپنے آپ کو چھپا سکوں ایک کھجور کا تنا نظر آیا کہنے لگیں کہ میں اس تنے سے لوگوں سے چھپ جاتی ہوں اور تنے کے نیچے نہر جاری تھی آپ کھجور کے ساتھ چمٹ گئیں جب بچہ پیدا ہوگیا تو ہر وہ چیز جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی تھی زمین کے مشرقوں اور مغربوں میں وہ سجدہ میں گر پڑی آپ کی وجہ سے ابلیس گھبرا گیا ابلیس نکلا اوپر چڑھا (لیکن) کوئی عجیب امر اس کو نظر نہ آیا وہ مشرق کی طرف گیا لیکن ادھر بھی اسے کوئی عجیب امر نظر نہ آیا اس سے صبر نہ ہوا تو وہ مغرب کی طرف آیا تاکہ حالات دیکھے مگر اس نے کسی چیز کو نہ دیکھا اس درمیان کہ وہ گھوم رہا تھا اچانک کھجور کے پاس سے گذرا تو وہاں ایک عورت تھی اس کے ساتھ بچہ تھا جو اس نے جنا تھا اور فرشتوں نے اس عورت اور اس کے بچے کو گھیرے میں لئے ہوئے تھے ابلیس نے کہا یہ نئی بات پیدا ہوئی ہے وہ ان کی طرف گیا اور پوچھا یہ کیا ہوا ہے تو ان فرشتوں نے کلام کیا اور کہنے لگے ایک نبی جو بغیر باپ کے پیدا کیا گیا اور کہنے لگا اللہ کی قسم میں اس کے ذریعہ اکثر لوگوں کو گمراہ کردوں گا یہودی گمراہ ہوئے اور انہوں نے اس کا انکار کیا نصاری گمراہ ہوئے اور کہنے لگے وہ اللہ کا بیٹا ہے، ابن عباس ؓ نے فرمایا ایک فرشتے نے حضرت مریم (علیہا السلام) کو آواز دی اس کے نیچے سے (آیت) ” قد جعل ربک تحتک سریا “ ابلیس نے کہا اس بچے کے علاوہ کوئی عورت بچہ جنم دیتی ہے اس کا مجھے علم ہوتا ہے اور میری ہتھیلی پر ہی جنم دیتی ہے مجھے اس کا علم نہیں ہوا جب یہ حاملہ ہوئی اور مجھے اس کا علم نہ ہوا جب اس نے بچہ جنم دیا۔ اجنبی مرد کو دیکھ کر خوف زدہ ہونا : 6:۔ حاکم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں اور ابن عساکر نے سدی کے طریق سے ابومالک سے اور انہوں نے (حاکم نے تصحیح بھی کی ہے) ابن عباس ؓ اور مرہ بن مسعودؓ سے روایت کیا کہ مریم (علیہا السلام) محراب کی جانب نکلیں اس حیض کی وجہ سے جو ان کو پہنچا تھا جب پاک ہوگئیں اچانک ایک مرد کو اپنے ساتھ پایا (اسی کو فرمایا) (آیت) ” فتمثل لھا بشرا سویا “ اس کو (دیکھ کر) ڈرگئیں اور کہا (آیت) ” انی اعوذ بالرحمن منک ان کنت تقیا “ وہ نکلیں اور وہ چادر اوڑھے ہوئے تھیں اس فرشتے نے ان کو آستین سے پکڑ لیا اور آپ کی قمیص کی جیب میں پھونک مارد ی اور آپ کی قمیص آگے سے پھٹی ہوئی تھی وہ پھونک آپ کے سینے میں داخل ہوگئی اور آپ حاملہ ہوگئیں اور آپ کے پاس ایک رات آپ کی بہن زکریا (علیہ السلام) کی بیوی زیارت کے لئے جب اس کے لئے دروازہ کھولا گیا تو وہ ان سے چمٹ گئیں زکریا (علیہ السلام) کی بیوی نے کہا اے مریم کیا تو جانتی ہے کہ میں حمل سے ہوں ؟ مریم (علیہا السلام) نے کہا کیا تو جانتی ہے میں بھی حمل سے ہوں ؟ زکریا (علیہ السلام) کی بیوی نے کہا میں محسوس کرتی ہوں کہ جو بچہ میرے پیٹ میں ہے اس بچہ کو سجدہ کرتا ہے جو تیرے پیٹ میں ہے اسی کو فرمایا (آیت) ” مصدقا بکلمۃ من اللہ “ (آل عمران آیت 39) زکریا (علیہ السلام) کی بیوی نے یحییٰ (علیہ السلام) کو جنا جب مریم (علیہا السلام) کو وضع حمل ہونے لگا تو محراب کی جانب نکلیں (آیت) ” فاجآءھا المخاض الی جذع النخلۃ، قالت یلیتنی مت قبل ھذا “۔ فنادھا “ یعنی جبرائیل (علیہ السلام) نے آواز دی (آیت) ” من تحتھا الاتحزنی “ جب اس کو جنا تو شیطان گیا اور بنی اسرائیل کو خبر دی کہ مریم (علیہا السلام) نے بچہ جنا ہے جب لوگوں نے آپ سے بات کرنے کا ارادہ کیا تو آپ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف اشارہ کردیا تو انہوں نے بات کرتے ہوئے فرمایا (آیت) ” انی عبداللہ، اتنی الکتب “ (یعنی آیات) جب وہ (یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو ہر بت آپ کی وجہ سے زمین پر جھک گیا۔ عیسی (علیہ السلام) کی پیدائش کا واقعہ : 7:۔ اسحاق بن بشر اور ابن عساکر نے جو بیر کے طریق سے ضحاک سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” واذکر فی الکتب مریم “ یعنی اس کا ذکر یہود و نصاری اور عرب کے مشرکین کے سامنے بیان کیجئے (آیت) ” اذانتبذت “ یعنی جب وہ نکلی (آیت) ” من اھلھا مکانا شرقیا “ یعنی وہ نکلی تھیں بیت المقدس سے جو مشرقی جانب تھی (آیت) ” فاتخذت من دونہم حجابا “ اور یہ اس وقت ہوا جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو عزت دینے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت دینے کا ارادہ کیا اس وقت آپ نے حیض سے غسل کیا اور دھوپ لینے بیٹھ گئیں اور اپنے اور اپنی قوم کے درمیان ” حجابا “ (پردہ کے طور پر) ایک پہاڑ کردیا اور وہ پہاڑ آپ کی مجلس اور بیت المقدس کے درمیان تھا (آیت) ” فارسلنا الیھا روحنا “ یعنی جبرائیل (علیہ السلام) (آیت) ” فتمثل لھا بشرا “ انسانوں کی صورت میں (آیت) ” سویا “ درمیانہ قد کے نوجوان سفید چہرہ والے اور گھنگریالے بالوں والے ابھی ابھی مسیں ابھر رہی تھیں جب اپنے آگے اس کو کھڑا ہوادیکھا کہنے لگیں (آیت) ” قالت انی اعوذ بالرحمن منک ان کنت تقیا “ آپ کو بیت المقدس کے خادم یوسف بنی اسرائیل کا شبہ ہوا جو آپ کی دیکھ بھال کرتا تھا اور آپ کے ساتھ چلتا تھا آپ کو خوف ہوا کہ کہیں شیطان نے اس کو بہکا دیا ہو اسی وجہ سے آپ نے کہا (آیت) ” قالت انی اعوذ بالرحمن منک ان کنت تقیا “ یعنی اگر تو اللہ کا خوف کھاتا ہے تو میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا اور وہ ہنس پڑے (آیت) ” انما انا رسول ربک، لاھب لک غلما زکیا “ یعنی جو اللہ کا مطیع ہوگا بغیر باپ کے (آیت) ” الت انی یکون لی غلم ولم یمسسنی بشر “ یعنی خاوندنے مجھے نہیں چھوا ” (آیت) ” ولم اک بغیا “ اور نہ میں بدکارہ ہوں جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” کذلک “ یعنی اسی طرح تمہارے رب نے فرمایا ہے (آیت) ” قال ربک ھو علی ھین “ اور یہ مجھ پر آسان ہے بغیر باپ کے پیدا کرنا (آیت) ” ولنجعلہ ایۃ للناس “ تاکہ اس بچے کو لوگوں کے لئے عبرت بنا دوں اور یہاں ان میں سے مراد خاص طور پر ایمان والے ہیں اور آپ ان لوگوں کے لئے رحمت تھے جنہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ آپ اللہ کے رسول ا ہیں (آیت) ” وکان امرا مقصیا “ اور اس بات کا فیصلہ ہوچکا کہ بچہ بغیر باپ کے پیدا ہوگا جبرائیل (علیہ السلام) قریب ہوئے اور آپ کے گریبان میں پھونک مار دی وہ پھونک آپ کے پیٹ میں داخل ہوگئی اور آپ حاملہ ہوگئی جیسے عورتیں حاملہ ہوتی ہیں رحم میں اور بچہ دانی میں اور اس کو جنا جیسے عورتیں جنتی ہیں آپ کو پیاس لگی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ایک اردن سے چھوٹی نہر جاری کردی اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” قدجعل ربک تحتک سریا “ اسری سے مراد ہے چھوٹی نہر اور کھجور کا تنا اسی وقت پھل دار ہوگیا اسی کو فرمایا (آیت) ” رطبا جن یا “ ( ُ پکی تیار کھجوریں) جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ کو نیچے سے آواز دی (آیت) ” وھزی الیک بجذع النخلۃ “ کہ کھجور کے تنے کو اپنی جانب حرکت دو اس تنے پر کوئی پتے وغیرہ نہیں تھے اور وہ طویل زمانے سے خشک ہوچکا تھا تو اس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے زندہ کردیا اور پھلدار بنادیا پھر فرمایا (آیت) ” تسقط علیک رطبا جن یا “ یعنی تازہ تازہ پکی کھجوریں تجھ پر گرنے لگیں گی (آیت) ” فکلی “ پکی کھجور کھا (آیت) ” واشربی “ اور نہر میں سے پانی پی لے (آیت) ” وقری عینا “ اپنے بچہ کے ساتھ (اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کر) اس نے کہا میں کیا جواب دوں گی اگر مجھ سے لوگوں نے سوال کیا یہ بچہ کہاں سے آیا ؟ جبرائیل نے ان سے فرمایا (آیت) ” فقولی انی نذرت للرحمن صوما “ تو تم کہو کہ میں نے رحمن کے لئے نذر مانی ہے روزہ کی عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں (آیت) ” فلن اکلم الیوم انسیا “ پس میں آج کسی انسان سے بات نہیں کروں گی یہاں تک کہ وہ خود ہی میرے اور اپنے بارے میں بتائے گاراوی نے کہا کہ ان لوگوں نے مریم (علیہا السلام) کو محراب سے گم پایا یوسف سے پوچھا اس نے کہا مجھے معلوم نہیں اور اس کے محراب کی چابی زکریا (علیہ السلام) کے پاس ہے انہوں نے زکریا (علیہ السلام) کو تلاش کیا اور دروازہ کھولا تو آپ وہاں موجود نہیں تھیں انہوں نے زکریا (علیہ السلام) کو تہمت لگائی اس کو پکڑ لیا اور برا بھلا کہا ایک آدمی نے کہا میں نے اس کو (یعنی مریم علیہا السلام) کو وہاں جگہ میں دیکھا ہے وہ لوگ اس کی طلب میں نکلے اور انہوں نے ایک کوے کی آواز سنی کھجور کے تنے پر اور مریم (علیہا السلام) اس کے نیچے موجود تھیں وہ لوگ اس تنے کی طرف گئے (آیت) ” فاتت بہ قومھا تحملہ “ (اس بچے کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لے آئی) ابن عباس ؓ نے فرمایا جب مریم (علیہا السلام) نے دیکھا کہ اس کی قوم آرہی ہے تو آپ نے اس بچے کو اٹھایا اور ان کے سامنے لے آئیں اسی کو فرمایا (آیت) ” فاتت بہ قومھا تحملہ “ یعنی آپ کو شک اور تہمت کا خوف نہ تھا جب ان لوگوں نے مریم (علیہا السلام) کو اس کیفیت میں دیکھا تو اس کے باپ نے اپنی قمیص کو پھاڑ دیا اور اپنے سر پر مٹی ڈالنی شروع کی اور آپ کے بھائیوں نے اور آل زکریا (علیہ السلام) نے بھی کہا (آیت) ” قالوا یمریم لقد جئت شیئا فریا “ تو نے بڑا جرم کیا (آیت) ” یا اخت ھرون ماکان ابوک امراسوء وما کانت امک بغیا “ نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں زانیہ عورت تھی تو نے یہ کیسے کرلیا اس کے باوجود کہ (تیرا) بھائی نیک ہے (تیرا) باپ نیک ہے اور (تیری) ماں بھی نیک عورت ہے (آیت) ” فاشارت الیہ “ (یعنی مریم (علیہا السلام) نے اس بچے کی طرف اشارہ کیا) اور ان سے کہا کہ تم لوگ اس بچے سے بات کرو عنقریب وہ تم کو خبر دے گا (اور اپنے بارے میں بتائے گا) (آیت) ” انی نذرت للرحمن صوما “ (کہ میں نے رحمن کے لئے روزہ کی نذر مانی ہے) کہ میں تم سے اس معاملہ میں بات نہیں کروں گی کیونکہ وہ میری طرف سے عنقریب وضاحت کرے گا اور وہ تمہارے لئے ایک نشانی اور عبرت ہوگا (آیت) ” قالوا کیف نکلم من کان فی المھد صبیا “ یعنی جو گہوارہ میں کم سن بچہ ہو اور جو ابھی چیتھڑوں میں لپیٹا ہوا ہو وہ بولا نہیں کرتے اللہ تعالیٰ نے اس کو بلوایا تو اس نے اپنی ماں کی طرف سے وضاحت کی اور یہ ایک عبرت تھی ان کے لئے اس بچہ نے کہا (آیت) ” انی عبداللہ “ یحییٰ (علیہ السلام) جب پیدا ہوئے تو اس کی عمر تین سال تھی اور جس نے آپ کی سب سے پہلے تصدیق کی تھی اور فرمایا بلاشبہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے اللہ کے اس قول کو (آیت) ” مصدقابکلمۃ من اللہ “ (آل عمران آیت 39) اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” اتینی الکتب وجعلنی نبیا “ یعنی تمہاری طرف نبی بنایا (آیت) ” جعلنی مبرکا این ما کنت “ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ا رشاد فرمایا وہ برکت جو اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے لئے بنائی تھی وہ یہ تھی کہ آپ معلم تھے اور آداب سکھانے والے تھے جہاں بھی ہوں (آیت) ” واوصنی بالصلوۃ والزکوۃ “ یعنی اس نے مجھے نماز ادا کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا ہے (آیت) ” وبرابوالدتی “ اور مجھے خدمت گذار بنایا اپنی والدی کا اور اس کی کبھی نافرمانی نہیں کی ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” وبرابوالدتی “ فرمایا تو زکریا (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ اکبر اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو پکڑ کر اپنے سینے کے ساتھ ملایا اور لوگوں نے جان لیا کہ یہ آدمی بغیر باپ کے پیدا کئے گئے (آیت) ” ولم یجعلنی جبارا شقیا “ اور اس نے مجھے جابر اور بدبخت نہیں بنایا (آیت) ” والسلم علی یوم ولدت ویوم اموت ویوم ابعث حیا “ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت) ” ذلک عیسیٰ ابن مریم قول الحق الذی فیہ یمترون “ ‘ یعنی وہ لوگ شک کرتے ہیں یہودیوں کے قول کی وجہ سے پھر عیسیٰ (علیہ السلام) بات کرنے سے رک گئے یہاں تک کہ بولنے والوں کی عمر کو پہنچ گئے۔ 8:۔ ابن ابی شیبہ ابن ابی حاتم اور ابونعیم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ مریم (علیہا السلام) نے بیان فرمایا جب میں اکیلی ہوتی تھی تو مجھ سے عیسیٰ (علیہ السلام) بات کرتے تھے اور وہ میرے پیٹ میں تھے اور جب میں لوگوں کے ساتھ ہوتی تھی تو وہ میرے پیٹ میں تسبیح اور تکبیر بیان کرتے تھے اور میں اس کو سنتی تھی۔ 9:۔ عبدالرزاق، فریابی، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جونہی آپ حاملہ ہوئیں تو (اسی وقت) بچہ جن دیا۔ 10:۔ ابن عساکر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ مریم (علیہا السلام) سات یا نو گھنٹوں کے لئے حاملہ ہوئی پھر اسی دن بچہ جن دیا۔ 11:۔ ابن عساکر نے عکرمہ کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مریم (علیہا السلام) نے آٹھ ماہ میں بچہ جنا یہی وجہ ہے جو بچہ آٹھ میں پیدا ہوتا ہے وہ مرجاتا ہے تاکہ مریم (علیہا السلام) کو عیسیٰ (علیہ السلام) کی وجہ سے کوئی اسی بات نہ کہی جائے۔ 12:۔ حاکم نے زید العمی (رح) سے روایت کیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) عاشورا کے دن پیدا ہوئے۔ 13:۔ عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں نوف (رح) سے روایت کیا کہ مریم (علیہا السلام) الگ تھلگ رہنے والی لڑکی تھی اور زکریا (علیہ السلام) اس کی بہن کے شوہر تھے جس نے آپ کی کفالت کی اور وہ ان کے ساتھ رہتی تھیں جب اس کے پاس جاتے تو اس کو سلام فرماتے تو وہ ان کے سامنے موسم سرما کا پھل موسم گرما میں اور موسم گرما کا پھل موسم سرما رکھ دیتیں ایک مرتبہ زکریا (علیہ السلام) ان کے پاس آئے تو انہوں نے ان کی طرف بعض پھل پیش کئے تو فرمایا (آیت) ” رزقا، قال یمریم انی لک ھذا قالت ھو من عنداللہ، ان اللہ یرزق من یشآء بغیر حساب (37) ھنالک دعا زکریا ربہ “ (سے لے کر) ” ایتک الا تکلم الناس ثلثۃ ایام الا رمزا “ (تک) ” سویا “ یعنی تندرست ” فخرج علی قومہ من المحراب فاوحی الیہم “ یعنی ان کے لئے لکھ دیا گیا۔” ان سبحوا بکرۃ وعشیا “ راوی نے کہا اس درمیان کہ وہ بیٹھی ہوئی تھیں اپنے گھر میں اچانک ایک آدمی ان کے سامنے کھڑا تھا کہ جس نے پردوں کو پھاڑ دیا تھا جب اس کو دیکھا تو کہنے لگیں (آیت) ” انی اعوذ بالرحمن منک ان کنت تقیا “ جب مریم (علیہا السلام) نے رحمن کا ذکر کیا تو جبرائیل (علیہ السلام) گھبرا گئے تو فرمایا (آیت) ” انما انا رسول ربک، لاھب لک غلما ذ کیا “ (سے لے کر) (آیت) ” وکان امرا مقضیا “ تک۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ کے گریبان میں پھونک دیا آپ حاملہ ہوگئیں یہاں تک کہ جب وہ بھاری ہوگئیں تو آپ کو ایسی طرح درد زہ محسوس ہوا جو عورتوں کو ہوتا ہے اور وہ نبوت کے گھر میں تھیں ان کو شرم آئی اور حیا کی وجہ سے اپنی قوم سے بھاگ گئیں، اور مشرق کی جانب چلی گئیں اور ان کی قوم ان کی طلب میں نکلی اور انہوں نے پوچھنا شروع کیا کہ تم نے ایسی ایسی لڑکی دیکھی ہے کسی نے ان کو خبر نہ دی اور مریم (علیہا السلام) کو درد زہ کھجور کے تنے کے پاس لے آیا (آیت) ” المخاض الی جذع النخلۃ “ اور انہوں نے ٹیک لگا لی کھجور کے تنے کے ساتھ اور کہنے لگیں (آیت) ” یلیتنی مت قبل ھذا وکنت نسیا منسیا “ فرمایا وہ ایک حیض تھا حیض میں سے (آیت) ” فنادھا من تحتھا “ یعنی جبرائیل (علیہ السلام) نے وادی کے دور کنارے سے آواز دی (آیت) ” الا تحزنی قد جعل ربک تحتک سریا “ یعنی چھوٹی نہر (جاری کردی) پھر فرمایا (آیت) ” وھزی الیک بجذع النخلۃ تسقط علیک رطبا جن یا “ جب ان کو جبرائیل (علیہ السلام) نے یہ کہا ان کا حوصلہ بلند ہوگیا اور ان کا دل خوش ہوگیا انہوں نے (بچے کی) ناف کاٹی اور اس کو ایک کپڑے میں لپیٹ دیا اور اس کو اٹھالیا ان کی قوم ایک گائیوں کے چرانے والے سے ملاقات ہوئی اور وہ لوگ ان کی طلب میں تھے انہوں نے پوچھا اے چرواہے کیا تو نے ایسی ایسی لڑکی دیکھی ہے ؟ اس نے کہا نہیں لیکن میں نے گذشتہ رات اپنی گائیوں کی ایک عجیب کیفیت دیکھی جو پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی پھر اس نے کہا میں نے دیکھا کہ تمام گائیوں نے اس وادی میں سجدہ کرتے ہوئے رات گذاری وہ لوگ چلے اس طرف جہاں چرواہے نے نشان دہی کی تھی جب ان کو مریم (علیہا السلام) نے دیکھا تو بیٹھ گئیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو دودھ پلانا شروع کردیا وہ لوگ آئے یہاں تک کہ ان کے پاس آکر ٹہر گئے اور انہوں نے کہا (آیت) ” قالوا یمریم لقد جئت شیئا فریا “ یعنی بڑے کام کو (طے آئی) (آیت ) ’ فاشارت الیہ “ یعنی حضرت مریم (علیہا السلام) نے بچہ کی طرف اشارہ کیا کہ اس سے بات کرو تو وہ اس سے متعجب ہوئے اور کہنے لگے (آیت) ” کیف نکلم من کان فی المھد صبیا “ (29) قال انی عبداللہ، اتینی الکتب وجعلنی نبیا (30) جعلنی مبرکا این ما کنت ‘ واوصنی بالصلوۃ والزکوۃ مادمت حیا (31) وبرابوالدتی ولم یجعلنی جبارا شقیا (32) والسلم علی یوم ولدت ویوم اموت ویوم ابعث حیا (33) “ راوی نے کہا کہ لوگوں نے اس میں اختلاف کیا۔ پردہ کرنا عورت کی ذمہ داری ہے : 14:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے عمر بن خطاب ؓ سے پوچھا نصاری اپنے مذابح پر پردے ڈالنا کیوں پسند کرتے ہیں تو انہوں نے فرمایا نصاری اپنی قربانیوں پر پردے کو اللہ تعالیٰ کے اس قول فاتخذت من دونہم حجابا “ کی وجہ سے پسند کرتے ہیں۔ 15:۔ عبدابن حمید ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابوصالح (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” فارسلنا الیھا روحنا “ کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف ایک فرشتے کو بھیجا اور اس نے ان کے گریبان میں پھونک ماری اور (وہ پھونک) ان کے فرج میں داخل ہوگئی۔ 16:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فارسلنا الیھا روحنا “ سے مراد جبرائیل (علیہ السلام) ہیں۔ 17:۔ سعید بن منصور اور ابن منذر نے سعیدبن جبیر ؓ سے (آیت) ” فارسلنا الیھا روحنا “ کے بارے میں روایت کیا کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے ان کے گریبان میں پھونک دیا اور وہ پھونک پہنچ گئی جہاں اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ 18۔ ابن ابی حاتم نے عطاء بن یسار (رح) سے روایت کیا کہ جبرائیل (علیہ السلام) کے ان کے پاس ایک مرد کی صورت میں آئے اور پردے کو ہٹا دیا جب انہوں نے (غیر محرم) کو دیکھا تو اس سے پناہ مانگی پھر جبرائیل (علیہ السلام) نے اس کی قمیص کے گریبان میں پھونک مار دی تو وہ (پھونک) ان کو پہنچ گئی اور یہ بات شہر میں پھیل گئی تو زکریا (علیہ السلام) نے ہجرت کرلی اور ان کو چھوڑ دیا اور اس سے پہلے وہ فتوی لیتے تھے اور ان کے پاس لوگ آتے تھے یہاں تک اگر آپ سلام کرتے کسی شخص کو تو وہ اس کا جواب نہ دیتا تھا۔ 19:۔ ابن ابی حاتم حاکم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں (حاکم نے تصحیح بھی کی ہے) ابی بن کعب ؓ سے (آیت) ” فتمثل لھا بشرا سویا “ کے بارے میں روایت کیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی روح انسانی صورت میں ظاہر ہوئی پس آپ اس سے حمل والی ہوگئیں فرماتے آپ اس سے حاملہ ہوگئیں جس نے آپ سے بات کی تھی اور وہ حضرت مریم (علیہا السلام) کے منہ میں داخل ہوا تھا۔ 20:۔ عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابو وائل (رح) سے (آیت) ” قالت انی اعوذ بالرحمن منک ان کنت تقیا “ کے بارے میں روایت کیا کہ مریم (علیہا السلام) نے جان لیا تھا کہ تقوی ہی انسان کو بچانے والا ہے۔ 21:۔ ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” قالت انی اعوذ بالرحمن منک ان کنت تقیا “ یہ اس لئے کہا کہ آپ ڈریں اس بات سے کہ آنے والا شاید آپ کی ذات کا ارادہ سے آرہا ہے (تو جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا) (آیت) ” انما انا رسول ربک، لاھب لک غلما زکیا “ (یعنی میں تیرے رب کا قاصد ہوں تاکہ میں تجھ کو ایک سمجھ دار لڑکا عطا کروں) اور لوگوں نے یہ گمان کیا کہ انہوں نے ان کے کرتے کے گریبان میں اور ان کی آستین میں پھونک ماری تھی۔ 22:۔ عبد بن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس طرح پڑھا (آیت) ” لاھب لک “ ھمزہ اور الف کے ساتھ (یعنی واحد متکم کا صیغہ پڑھا) اور عبداللہ ؓ کی قرأت میں یوں ہے ” لیھب لک “ یا کے ساتھ۔ 23:۔ عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ ” غلما زکیا “ سے مراد ہے نیک لڑکا۔ 24:۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولم اک بغیا “ یعنی زانیہ عورت۔ 25:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” مکانا قصیا “ سے مراد ہے دورجگہ۔ 26:۔ عبدالرزاق، عبد بن حمید، ابن ابی شیبہ، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” مکانا قصیا “ سے مراد ہے دور جگہ اور (آیت) ” فاجآء ھا المخاض “ سے مراد ہے درد زہ نے اس کو مجبور کردیا۔ 27:۔ طستی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق نے ان سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” فاجآء ھا المخاض “ کے بارے میں بتائیے (اس سے کیا مراد ہے ؟ ) انہوں نے فرمایا اس سے مراد ہے کہ اس کو مجبور کردیا پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے حسان بن ثابت ؓ کا یہ شعر نہیں سنا : اذا شددنا شدۃ صلاقۃ فاجانا کم الی سفح الجبل : ترجمہ : جس وقت ہم نے سچی سختی کی تو ہم نے تم کو مجبور کردیا (پناہ لینے پر) پہاڑ کے دامن کی طرف۔ 28:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فاجآء ھا المخاض “ سے مراد ہے مجبور کرنا۔ 29:۔ ابن ابی شیبہ، ابن منذر، ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فاجآء ھا المخاض “ سے مراد ہے پہنچا دیا۔ 30:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فاجآء ھا المخاض الی جذع النخلۃ “ یعنی کھجور کا تنہ خشک تھا۔ 31:۔ عبدبن حمید نے ہلال ابن خباب کے طریق سے ابوعبید (رح) سے (آیت) ” فاجآء ھا المخاض الی جذع النخلۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ ایک خشک کھجور تھی جس کو لایا گیا تھا تاکہ اس کے ساتھ ایک گھر بنایا جائے ایسے گھر کو بیت اللحم کہتے ہیں مریم (علیہا السلام) نے اس کو حرکت دی تو وہ اچانک (ہرا بھرا) کھجور (کا درخت) بن گیا۔ 32:۔ ابن ابی حاتم نے ابو واقدہ (رح) سے روایت کیا کہ مریم (علیہا السلام) کے لئے کھجور نے پھل اگایا اور وہ اس طرح آپ سے چمٹی رہی جیسے ولادت کے وقت ایک عورت دوسری عورت کے ساتھ چمٹی رہتی ہے۔ 33:۔ ابن جریر اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ـ” وکنت نسیا منسیا “ یعنی میں پیدا ہی نہ کی جاتی اور میں کوئی چیز نہ ہوتی۔ 34:۔ ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ـ” وکنت نسیا منسیا “ یعنی میں پھینکا ہوا حیض کا چیتھڑا ہوتی۔ 35:۔ عبد بن حمید نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ـ” وکنت نسیا منسیا “ یعنی حیض کا چیتھڑا ہوتی (جس کو پھینک دیا جاتا ہے ) 36:۔ عبد بن حمید نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ـ” وکنت نسیا منسیا “ یعنی میں پھینکا ہوا حیض کا چیتھڑا ہوتی۔ 37:۔ عبدالرزاق، عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے (آیت) ـ” وکنت نسیا منسیا “ کے بارے میں روایت کیا کہ آپ فرماتے ہیں کہ غیر معروف ہوتی اور معلوم نہ ہوتا میں کون ہوں۔ 38:۔ عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم نے ربیع بن انس (رح) نے (آیت) ـ” وکنت نسیا منسیا “ کے بارے میں فرمایا کہ میں گری ہوئی پھینکی ہوئی چیزہوتی (واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب) 39:۔ ابوعبید، عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے علقمہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس کو اس طرح پڑھا (آیت) ” فنادھا من تحتھا “۔ 40:۔ ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فنادھا من تحتھا “۔ سے مراد ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ کو آواز دی عیسیٰ (علیہ السلام) سے بات نہ کی یہاں تک کہ آپ اسے اپنی قوم کے پاس لے آئیں۔ 41:۔ عبد بن حمید نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ جس نے اس کو آواز دی وہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے۔ 42:۔ عبد بن حمید نے ضحاک اور عمروبن میمون رحمہما اللہ نے ا سی طرح روایت کیا ہے۔ 43:۔ ابن ابی حاتم نے براء ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فنادھا من تحتھا “۔ سے فرشتہ مراد ہے۔ 44:۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر ؓ سے (آیت) ” فنادھا من تحتھا “۔ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے جبرائیل (علیہ السلام) مراد ہیں جو وادی کے نیچے آواز دے رہے تھے۔ 45:۔ عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فنادھا من تحتھا “۔ سے عیسیٰ (علیہ السلام) مراد ہیں کہ انہوں نے آواز دی۔ 46:۔ عبدالرزاق، عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فنادھا من تحتھا “۔ سے عیسیٰ (علیہ السلام) مراد ہیں کہ انہوں نے آواز دی۔ 47:۔ ابن منذر نے ابی بن کعب ؓ نے فرمایا جس نے مریم (علیہا السلام) سے خطاب کیا وہ وہی تھا جس کو آپ اٹھائے ہوئے تھی اپنے پیٹ میں وہ اس کے منہ میں داخل تھا۔ 48:۔ ابوعبید اور ابن منذر نے زربن حبیش (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” فنادھا من تحتھا “۔ پڑھا۔ 49:۔ عبدالرزاق، عبدبن حمید اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فنادھا من تحتھا “۔ یعنی فرشتے نے کھجور کے نیچے سے (آواز دی ) ۔ 50:۔ ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ جس نے (آیت) ” من تحتھا “ پڑھا ہے (یعنی زیر کے ساتھ) اس کے نزدیک وہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے اور جس نے (آیت) ” من تحتھا “ پڑھا (یعنی زبر کے ساتھ) تو اس کے نزدیک آواز دینے والے عیسیٰ (علیہ السلام) تھے۔ 51:۔ عبد بن حمید نے ابوبکر بن عیاش (رح) سے روایت کیا کہ عاصم بن ابی النجود (رح) نے یوں پڑھا (آیت) ” فنادھا من تحتھا “ نصب کے ساتھ اور عاصم (رح) نے فرمایا جس نے نصب کے ساتھ پڑھا تو اس کے نزدیک آواز دینے والے عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور جس نے اس کو زیر کے ساتھ پڑھا تو اس کے نزدیک آواز دینے والے جبرائیل (علیہ السلام) ہیں۔ 52:۔ ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے (آیت) ” جعل ربک تحتک سریا “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد نبی اور وہ عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ 53:۔ ابن ابی شیبہ، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے جریر بن حازم (رح) سے روایت کیا کہ میں نے محمد بن عبد بن جعفر (رح) سے پوچھا کہ تمہارے اصحاب اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” جعل ربک تحتک سریا “ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں میں نے ان سے کہا کہ میں نے قتادہ ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس سے مراد ہے چھوٹی نہر پھر انہوں نے فرمایا قتادہ ؓ عنہنے میری طرف سے بیان کیا کہ قرآن ہماری لغت میں نازل ہوا اور اس مراد الرجل السری یعنی سردار آدمی۔ 54:۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے (آیت) ” جعل ربک تحتک سریا “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے ان کی اپنی ذات مراد ہے کہا گیا اور وہ لوگ جو کہتے ہیں السری کا معنی البحر ہے فرمایا ایسا نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو ” جنبھا “ ہوتا (یعنی اس کے پہلو کی طرف) اور اس کے نیچے نہر نہ ہوتی۔ 55:۔ طبرانی، ابن مردویہ اور ابن نجاز نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ وہ سری جس کو اللہ تعالیٰ نے مریم (علیہا السلام) کے لئے فرمایا یعنی (آیت) ” جعل ربک تحتک سریا “ یعنی نہر اللہ تعالیٰ نے مریم (علیہا السلام) کے پانی پینے کے لئے نہر نکالی تھی۔ 56ـ:۔ طبرانی نے صغیر میں اور ابن مردویہ نے براء بن عازب ؓ سے (آیت) ” قد جعل ربک تحتک سریا “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد ایک چھوٹی نہر ہے۔ 57ـ:۔ عبدالرزاق، فریابی، سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن منذر ابن ابی حاتم حاکم اور ابن مردویہ نے (حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) براء ؓ سے (آیت) ” قد جعل ربک تحتک سریا “ کے بارے میں روایت کیا کہ کہ اس سے مراد چھوٹی نہر ہے۔ 58:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” قدجعل ربک تحتک سریا “ سے مراد ہے عیسیٰ (علیہ السلام) کی نہر۔ 59:۔ سعید بن منصور، عبد بن حمید، اور ابن منذر نے عثمان بن محصن (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ سے ” سریا “ کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا اس سے مراد ہے چھوٹی نہر کیا تو نے شاعر کا یہ شعر نہیں سنا وہ کہتا ہے : سلم ترالدالی منہ ازورا اذا یعج فی السری ھرھرا : ترجمہ : تسلیم کرلے اسی سے پانی مانگنے والے کا سینہ تجھ کو ٹیڑھا نظر آئے گا جس وقت نہر میں تیز پانی آواز دیتا ہے۔ 60:۔ ابن انباری نے و قف میں اور طستی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق نے پوچھا مجھے اللہ تعالیٰ عزوجل کے اس قول (آیت) ” تحتک سریا “ کے بارے میں بتائیے تو فرمایا اس سے مراد ہے چھوٹی نہر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے شاعر کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا : سھل الخلیفۃ ما جدذومائل مثل السری تمدہ الانھار ترجمہ : خلیفہ نرم خو، خوبیوں والا اور نوازشات کرنے والا ہے چھوٹی نہر کی مثل دوسری نہریں اس کو لمبا کرتی ہیں۔ 61:۔ عبد بن حمید نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ ” سریا “ سے مراد ہے چھوٹی نہر۔ 62:۔ عبد بن حمید نے عمر بن میمون و ابراہیم رحمہا اللہ سے اسی طرح روایت کیا۔ 63:۔ عبد بن حمید نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ حسن (رح) نے یہ (رح) آیت تلاوت کی اور ان کے پہلو میں حمید بن عبد الرحمن الحمیری (رح) بیٹھے تھے حمید نے کہا اے ابوسعید اس سے مراد چھوٹی نہر ہے اور حسن (رح) نے فرمایا تمہاری مجلسیں ہمیں اچھی لگتی ہیں لیکن ہماری نسبت تم پر امراء کا غلبہ ہے۔ 64:۔ عبد بن حمید نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ ” السری “ سے مراد ہے پانی۔ 65:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” سریا “ سے مراد ہے نہر سریانی زبان میں۔ 66ـ:۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” سریا “ سے مراد ہے نہر قبطی زبان میں۔ 67ـ:۔ ابن عساکر نے سفیان بن حسین (رح) سے (آیت) ” قد جعل ربک تحتک سریا “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس کو حسن (رح) نے تلاوت کیا اور فرمایا (آیت) ” سریا “ سے اللہ کی قسم عیسیٰ (علیہ السلام) مراد ہیں ان سے خالد بن صفوان (رح) نے فرمایا اے ابو سعید عرب کے لوگ چھوٹی نہر کو السری کہتے ہیں انہوں نے فرمایا تو نے سچ کہا۔
Top