Dure-Mansoor - Maryam : 27
فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ١ؕ قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا
فَاَتَتْ بِهٖ : پھر وہ اسے لیکر آئی قَوْمَهَا : اپنی قوم تَحْمِلُهٗ : اسے اٹھائے ہوئے قَالُوْا : وہ بولے يٰمَرْيَمُ : اے مریم لَقَدْ جِئْتِ : تو لائی ہے شَيْئًا : شے فَرِيًّا : بری (غضب کی)
سو وہ اس بچہ کو اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس لے کر آئی، ان لوگوں نے کہا کہ اے مریم یہ تو نے بڑے غضب کا کام کیا۔
1:۔ سعید بن منصور اور ابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” فاتت بہ قومھا تحملہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ چالیس دنوں کے بعد (وہ اپنے بچے کو اٹھا کرلے آئیں) جب ان کا نفاس کا خون بند ہوگیا۔ 2:۔ ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” لقد جئت شیئا فریا “ میں ” فریا “ یا مشدد سے مراد ہے عظیما (یعنی تو ایک بڑا معاملہ لے کر آئی) 3:۔ عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لقد جئت شیئا فریا “ یعنی بڑا معاملہ۔ 4:۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن عبدالعزیز (رح) سے روایت کیا کہ بنی اسرائیل کے زمانہ میں بیت المقدس میں عین سلوان کے پاس ایک چشمہ تھا جب کوئی عورت گناہ میں ملوث ہوتی تھی تو اس کے پاس آکر اس میں سے پانی پیتی تھی اگر وہ بری ہوتی تو اس کو کوئی نقصان نہ ہوتا اور اگر اس نے واقعی بدکاری کی ہوتی تو وہ مرجاتی جب مریم (علیہا السلام) حاملہ ہوئی تو لوگ ان کو خچر پر سوار ہو کرلے آئے اس خچر نے ٹھوکر کھائی تو انہوں نے اللہ عزوجل سے یہ دعا مانگی کہ اس کے رحم کو بانجھ کردے تو اس وقت وہ مادہ خچر بانجھ ہوگئی جب اس (چشمہ) کے پاس آئی تو اس میں پانی پیا تو اس نے آپ میں خیر کا اضافہ فرمایا پھر اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ اس چشمہ کے ذریعہ کسی مومن عورت کو رسوا نہ فرما تو وہ چشمہ زمین کی گہرائی میں چلا گیا (اور ختم ہوگیا) 5:۔ ابن ابی شیبہ، احمد، عبد بن حمید، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن حبان، طبرانی، ابن مردویہ، اور بیہقی نے دلائل میں مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت کیا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے اہل نجران کی طرف بھیجا تو ان لوگوں نے پوچھا تم بتاؤ تم کیا پڑھتے ہو ؟ (اور یوں پڑھنے لگے) (آیت) ” یا اخت ہارون وموسی قبل عیسیٰ بکذا وکذا (میں ان کو جواب نہ دے سکا) مغیرہ ؓ نے فرمایا کہ جب میں واپس آّیا تو میں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے ذکر کی آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو نے ان کو نہیں بتایا وہ اپنے بچوں کے نام انبیاء کریم اور جو ان سے پہلے نیک لوگ گذر چکے ہیں ان کے ناموں پر رکھتے تھے۔ 6:۔ خطیب اور ابن عساکر نے مجاہد (رح) سے (آیت) ” یا اخت ہارون “ (الآیۃ) کے بارے میں روایت کیا کہ حضرت مریم (علیہا السلام) ایسے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں جو نیکی میں پہچانا جاتا تھا اور لوگ ان میں برائی کا تصور بھی نہ کرتے تھے اور لوگوں میں ایسے لوگ بھی تھے جو نیکی کے ساتھ معروف تھے وہ نیک بچے جنم دیتے تھے اور دوسرے فساد کے ساتھ پہچانے جاتے تھے وہ فسادی بچے جنم دیتے تھے اور ہارون نیک اور محبوب فرد تھے اپنے کنبے میں اور یہ ہارون موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی نہیں ہیں لیکن یہ دوسرے ہارون ہیں ہم کو یہ ذکر کیا گیا کہ جس دن ان کی وفات ہوئی تو ان کے جنازے میں بنی اسرائیل کے چالیس ہزار افراد شامل تھے ان میں سے ہر ایک کا نام ہارون تھا۔ 7:۔ ابن ابی حاتم نے سفیان (رح) نے (آیت) ” یا اخت ہارون “ کے بارے میں فرمایا ہم نے سنا کہ یہ ایک اسم ہے جو دوسرے اسم کے ساتھ موافق تھا۔ 8:۔ ابن ابی حاتم نے ابن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ مجھے خبر دی گئی کہ کعب ؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” یا اخت ہارون “ میں ہارون موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی نہیں ہیں تو عائشہ ؓ نے فرمایا تو نے جھوٹ کہا تو کعب ؓ نے فرمایا اے ام المومنین ! اگر نبی کریم ﷺ نے ایسا فرمایا ہو اور آپ تو زیادہ جانتے تھے اور زیادہ خبر رکھنے والے تھے ورنہ میں تو جانتا ہوں کہ ان کے درمیان (یعنی دونوں ہارون کے درمیان) چھ سو سال کا عرصہ ہے تو عائشہ ؓ خاموش ہوگئیں۔ 9:۔ ابن ابی حاتم نے علی بن ابی طلحہ سے (آیت) ” یا اخت ہارون “ کے بارے میں روایت کیا کہ آپ کی ہارون بن عمران کی طرف نسبت اس لئے کی گئی ہے کیونکہ آپ ان کی اولاد میں سے تھیں جیسے تیراکہنا اے انصار کے بھائی۔ 10:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ حضرت مریم (علیہا السلام) ہارون کی اولاد میں سے تھیں اس لئے کہا گیا (آیت) ” یا اخت ہارون “ یہ اس طرح ہے جیسے کوئی آدمی دوسرے آدمی کو کہتا ہے اے بنولیث کیے بھائی یا بنو فلاں کے بھائی۔ 11:۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر ؓ سے (آیت) ” یا اخت ہارون “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہارون زانی قوم کا ایک آدمی تھا اس لئے اس کی طرف آپ کو لوگوں نے منسوب کیا۔ 12:۔ ابن ابی حاتم نے ابوبکر بن عیش (رح) سے روایت کیا کہ ابی ؓ کی قرأت میں یوں تھا کہ ان لوگوں نے کہا ” یا ذالمھد “ ( یعنی اے گہوارے والے یا اے بستر والے )
Top