Dure-Mansoor - An-Nisaa : 172
اَسْمِعْ بِهِمْ وَ اَبْصِرْ١ۙ یَوْمَ یَاْتُوْنَنَا لٰكِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْیَوْمَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
اَسْمِعْ : سنیں گے بِهِمْ : کیا کچھ وَاَبْصِرْ : اور دیکھیں گے يَوْمَ : جس دن يَاْتُوْنَنَا : وہ ہمارے سامنے آئیں گے لٰكِنِ : لیکن الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) الْيَوْمَ : آج کے دن فِيْ : میں ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ : کھلی گمراہی
وہ کیا ہی سننے والے اور کیا ہی دیکھنے والے ہوں گے جس دن ہمارے پاس آئیں گے لیکن ظالم لوگ آج صریح گمراہی میں ہیں
1:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” اسمع بہم وابصر “ کے بارے میں روایت کیا کہ کفار اس دن کہیں گے ہم نے ایک چیز کو سن لیا اور ہم نے اس کو دیکھ لیا حالانکہ وہ آج تک نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں۔ 2:۔ عبدالرزاق اور ابن منذر نے قتادہ ؓ سے (آیت) ” اسمع بہم وابصر “ کے بارے میں روایت کیا کہ اپنی قوم کوسناؤ اور اپنی قوم کو دکھاؤ (آیت) ” یوم یاتوننا “ (یعنی جس دن وہ ہمارے پاس آئیں گے) اور یہ واقعہ اللہ کی قسم قیامت کے دن ہوگا۔ 3:۔ ابن ابی حاتم نے (آیت) ” اسمع بہم وابصر “ کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ کی قسم اس سے مراد قیامت کا دن ہے وہ سنیں گے جب ان کا سننا نفع نہ دے گا اور وہ دیکھیں گے جب ان کو دیکھنا نفع نہ دے گا۔ 4:۔ سعید بن منصور، احمد، عبدبن حمید، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابویعلی، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن حبان اور ابن مردویہ نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب جنت والے جنت میں داخل ہوں گے اور دوزخ والے دوزخ میں داخل ہوں گے موت کو چت کبرے مینڈھے کی شکل میں لایا جائیگا اور اس کو جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا کیا جائے گا اور کہا جائے گا اے جنت والو کیا تم اس کو پہچانتے ہو وہ جھانکیں گے اور دیکھیں گے اور کہیں گے ہاں یہ موت ہے اور ان میں سے ہر ایک اس کو دیکھے گا پھر کہا جائے گا اے جنت والوں تم ہمیشہ رہو گے موت نہیں آئے گی اور اے دوزخ والو تم ہمیشہ رہوگے موت نہیں آئے گی پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی ” وانذر ھم یوم الحسرۃ اذ قضی الامر، وھم فی غفلۃ “ اور اپنے ہاتھ مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا دنیا والے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ 5:۔ نسائی، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا (آیت) ” وانذر ھم یوم الحسرۃ “ کے بارے میں فرمایا کہ جنت والوں کو پکارا جائے گا وہ جھانکنے لگیں گے اور دوزخ والوں کو پکارا جائے گا وہ بھی جھانکیں گے اور دیکھیں گے ان سے کہا جائے گا کیا تم اس کو پہنچانتے ہو وہ کہیں گے ہاں پھر موت کو چت کبرے مینڈھے کی صورت میں لایاجائے گا اور کہا جائے گا یہ موت ہے اس کو قریب لاکر ذبح کیا جائے گا پھر کہا جائے گا اے جنت والو تم ہمیشہ جنت میں رہو گے۔ موت نہیں آئے گی اور اے دوزخ والو تم ہمیشہ دوزخ میں رہو گے موت نہیں آئے گی پھر یہ ” وانذر ھم یوم الحسرۃ اذ قضی الامر “۔ 6:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے ” وانذر ھم یوم الحسرۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ موت کو چت کبرے مینڈھے کی شکل میں بنادیں گے پھر اس کو ذبح کردیا جائے گا دوزخ والے موت سے مایوس ہوجائیں گے جس کی وہ امید رکھتے تھے پھر ان حسرت لاحق ہوگی دوزخ میں ہمیشہ رہنے کی وجہ سے۔ موت کو جنت و دوزخ کے درمیان قتل کیا جائے گا : 7:۔ ابن ابی حاتم نے اور ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے ” وانذر ھم یوم الحسرۃ اذ قضی الامر “ کے بارے میں فرمایا کہ جب جنت والے جنت میں اور دوزخ والے دوزخ میں داخل ہوجائیں گے موت کو چت کبرے مینڈھے کی صورت میں لایا جائے گا یہاں تک کہ جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا کردیا جائے گا پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا اے جنت والو یہ موت ہے جو لوگوں کو موت دیتی تھی دنیا میں اور کوئی ایک بھی باقی نہیں بچے گا جنت کے اوپر کے درجوں میں اور نہ نیچے کے درجوں میں مگر یہ ہے جو لوگوں کو موت دیتی تھی دنیا میں اور کوئی ایک بھی باقی نہیں بچے گا جنت کے اوپر کے درجوں میں اور نہ نیچے کے درجوں میں مگر یہ کہ اس کی طرف دیکھے گا پھر آواز دی جائے گی اے دوزخ والو یہ موت ہے جو لوگوں کو دنیا میں موت دیتی تھی تو کوئی باقی نہیں رہے گا کہ اس کی طرف دیکھے گا پھر آواز دی جائے گی اے دوزخ والو یہ موت ہے جو لوگوں کو دنیا میں موت دیتی تھی تو کوئی باقی نہیں رہے گا دوزخ کے گڑھوں میں اور نہ نچلے حصے میں یعنی جہنم کی تہہ میں مگر سب اس کو دیکھ لیں گے پھر جنت اور دوزخ کے درمیان (موت کو) ذبح کردیا جائے گا پھر ایک آواز دے اے جنت والو تم لوگ ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہو گے اور اے دوزخ والو تم ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہو گے اس سے جنت والے خوش ہوجائیں گے اور اگر کوئی خوشی سے مرنے والا ہوتا تو وہ مرجاتا اور دوزخ والے گدھے کی طرح رینگیں گے اس رینگ سے اگر کوئی مرنے و الا ہوتا تو مرجاتا اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے ” وانذر ھم یوم الحسرۃ اذ قضی الامر “ یعنی جب موت کو ذبح کردیا جائے گا۔ 8:۔ ابن جریر نے علی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے ” یوم الحسرۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ قیامت کے دن کے ناموں میں سے ہے اور یہ آیت پڑھی (آیت) ” ان تقول نفس یحسرتی علی ما فرطت فی جنب اللہ “۔ 9:۔ ابن ابی حاتم نے روایت کی ہے کہ عمر بن عبدالعزیز (رح) نے گورنر کی طرف لکھا اما بعد بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر موت کو لکھ دیا جب انکو پیدا فرمایا پس اس کی طرف سب کے لوٹنے کی جگہ ہے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنی سچی کتاب میں نازل فرمایا اپنے علم سے اور فرشتوں کو گواہ بنایا اپنی مخلوق پر اس میں یہ ہے کہ وہ زمین کا مالک ہے اور جو کچھ اس کے روبرو ہے (اس کا بھی وہی مالک ہے) اور اسی کی طرف لوٹ کر جائیں گے۔
Top