Dure-Mansoor - Maryam : 83
اَلَمْ تَرَ اَنَّاۤ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ تَؤُزُّهُمْ اَزًّاۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اَنَّآ اَرْسَلْنَا : بیشک ہم نے بھیجے الشَّيٰطِيْنَ : شیطان (جمع) عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) تَؤُزُّهُمْ : اکساتے ہیں انہیں اَزًّا : خوب اکسانا
اے مخاطب ! کیا تو نے نہیں دیکھا کہ ہم نے شیاطین کا کافروں پر چھوڑ رکھا ہے جو انہیں خوب ابھارتے ہیں
1:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” انا ارسلنا الشیطین علی الکفرین توزھم ازا “ یعنی شیطانوں کو کافروں پر ہم مسلط کردیتے ہیں جو ان کو اغوا کرلیتے ہیں۔ 2:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” توزھم “ یعنی وہ شیاطین مشرکین کو محمد ﷺ اور آپ کے اصحاب کے خلاف اکساتے ہیں۔ 3:۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” توزھم ازا “ کہ شیاطین ان کو مسلمانوں کے خلاف اس طرح اکساتے ہیں جیسے کتے کو شکار پر اکسایا جاتا ہے۔ 4:۔ عبدالرزاق، عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” توزھم ازا “ یعنی ان کو اکساتے ہیں اللہ کی نافرمانی کی طرف۔ نافرمانوں پر شیطان مسلط ہوتا ہے : 5:۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے (آیت) ” الم ترانا ارسلنا الشیطین علی الکفرین توزھم ازا “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” ومن یعش عن ذکر الرحمن نقیض لہ شیطنا فھو لہ قرین (32) ”(الزخرف آیت : 32) کی طرح ہے آیت کا ترجمہ ہے (جو شخص دانستہ طور پر اندھا بنتا ہے رحمن کے ذکر سے تو ہم اس کے لئے ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں پس وہ ہر وقت اس کا ساتھی رہتا ہے۔ 6:۔ ابن انباری نے و قف میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ارزق (رح) نے ان سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” توزھم ازا “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا اس سے مراد ہے کہ وہ ان کو بھڑکائے رہتے ہیں اور اس بارے میں شاعر نے کہا ہے : حکیم امین لایبالی بخبلہ اذا ازہ الاقوام لم یترمرم : ترجمہ : وہ ذات حکیم، امین ہے بخل کی پروا نہیں کرتا جب اس کو قومیں برانگیختہ کرتی ہیں تو وہ خاموش نہیں رہتا : 7:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباسؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” انما نعدلہم عدا “ یعنی ان کے جانیں جو دنیا میں سانس لیتی ہیں وہ شمار کئے جاتے ہیں جیسے ان کے سال اور ان کی عمریں شمار کی جاتی ہیں۔ 8:۔ عبد بن حمید نے ابو جعفر بن علی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” انما نعدلہم عدا “ یعنی ہر چیز کو ہم گنتے ہیں یہاں تک کہ سانس کو بھی۔ 9:۔ ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم نے اور بیہقی نے بعث میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” یوم نحشر المتقین الی الرحمن وفدا “ یعنی سوار ہوکر۔ 10:۔ ابن جریر، ابن ابی شیبہ، اور ابن منذر نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” یوم نحشر المتقین الی الرحمن وفدا “ یعنی اونٹوں پر سوار کرکے رحمن کے پاس اکٹھا کریں گے۔ 11:۔ عبد بن حمید نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” یوم نحشر المتقین الی الرحمن وفدا “ یعنی ہم عمدہ اونٹنیوں پر سوار کریں گے اور ان کے کجاوے زمرد اور یاقوت کے ہوں گے اور جو رنگ چاہیں گے اسے کے ہوں گے۔ 12:۔ عبدالرزاق اور عبد بن حمید نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” یوم نحشر المتقین الی الرحمن وفدا “ یعنی جنت کی طرف۔ 13:۔ عبد بن حمید نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” یوم نحشر المتقین الی الرحمن وفدا “ کہ وہ وفد بنا کر اپنے رب کے پاس جائیں گے اور وہ عزت کئے جائیں گے ان کو (انعامات) عطا کئے جائیں گے ان کو سلام پیش کیا جائے گا اور ان کی سفارش قبول کی جائے گی۔ میدان حشر میں حاضرین کی تین قسمیں : 14:۔ بخاری، مسلم، نسائی، اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن لوگ اکٹھے کئے جائیں گے تین طریقوں پر (کچھ لوگ) رغبت کرنے والے (کچھ) خوف زدہ ہوں گے اور ایک ایک اونٹ پر دو یا تین یا دس سوار ہوں گے باقی سب لوگوں کو آگ ہانک کرلے جائے گی جہاں وہ دوپہر کو ٹھہریں گے آگ بھی ان کے ساتھ ٹھہرے گی جہاں وہ رات کو رہیں گے آگ بھی ان کے ساتھ رات کو رہے گی۔ 15:۔ ابن مردویہ نے علی ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا (آیت) ” یوم نحشر المتقین الی الرحمن وفدا “ فرمایا اللہ کی قسم متقین کو اپنے قدموں پر نہیں لایا جائے گا اور ان کو ہانکا نہیں جائے گا اور ان کو جنت کی اونٹنیاں دی جائیں گے مخلوق نے جن کی مثل نہ دیکھی ہوں گی ان کے کجاوے سونے کے ہوں گے اور لگامیں زبرجد کی ہوں گی اور متقین ان پر بیٹھیں گے یہاں تک کہ جنت کا دروازہ کھٹکائیں گے۔ 16:۔ ابن ابی شیبہ، عبداللہ بن احمد نے زوائد المسند میں، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، حاکم اور بیہقی نے بعث میں (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) علی ؓ نے یہ آیت پڑھی (آیت) ” یوم نحشر المتقین الی الرحمن وفدا “ اور فرمایا اللہ کی قسم کہ (اللہ کے مہمان) پیدل نہیں آئیں گے اور نہ ان کو ہانکا جائے گا لیکن ان کو جنت کی اونٹنیوں میں سے اونٹنیاں دی جائیں گے کہ ایسی اونٹنیاں مخلوق نے نہیں دیکھی ہوں گی ان پر سونے کے کجاوے ہوں گے اور لگامیں زبر جد کی ہوں گی ان پر وہ لوگ سوار ہوں گے یہاں تک کہ جنت کا دروازہ کھٹکائیں گے۔ 17:۔ ابن ابی الدنیا نے صفۃ الجنۃ میں ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے طرق سے علی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے (اس آیت) (آیت) ” یوم نحشر المتقین الی الرحمن وفدا “ کے بارے میں پوچھا اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ وفد تو سواروں کے قافلہ کو کہتے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے جب وہ اپنی قبروں سے نکلیں تو سفید اونٹنیاں پیش کی جائیں گی ان کے پر ہوں گے اور ان پر سونے کے کجاوے ہوں گے ان کی جوتیوں کے تسمے نور سے ہوں گے جو چمک رہے ہوں گے ان کا ہر قدم تاحد نگاہ ہوگا اور وہ جنت کے دروازہ پر پہنچیں گے وہاں ایک سرخ یاقوت کا حلقہ ہوگا سونے کی تختیوں پر اچانک جنت کے دروازہ پر ایک درخت ہوگا اس کی جڑ سے دو چشمے پھوٹتے ہیں جب وہ ان چشموں میں سے ایک چشمہ کا پانی پئیں گے تو ان کے پیٹوں میں جو غلاظت ہوگی وہ دھل جائے گی اور دوسرے چشمہ سے غسل کریں گے تو کبھی ان کے بدن اور بال میلے نہ ہوں گے سونے کے تختے پر حلقہ کو ماریں گے اے علی ! اگر تو سن لیتا کڑے کی آواز کو اور یہ آواز ہر حور کو پہنچے گی کہ اس کا شوہر آگیا ہے تو وہ جلدی نہیں کرے گی اور اپنے نگران کو بھیجے گی وہ اس کے لئے دروازہ کھولے گا اور جب اس کو دیکھے گا تو سجدہ کرتے ہوئے جھک جائے گا اور وہ نگران کہے گا اپنے سر کو اٹھائیے کیونکہ میں تیرا نگران ہوں مجھے تیرا معاملہ سپرد کیا گیا ہے وہ متقی اس نگران کے پیچھے چلے گا حور جلدی نہیں کرے گی اور وہ یاقوت اور موتیوں کا خیموں سے باہر آئے گی یہاں تک کہ وہ اس سے معانقہ کرے گی پھر وہ کہے گی اے میرے محبوب میں تجھ سے محبت کرتی ہوں اور میں راضی ہوں کبھی ناراض نہ ہوں گی، اور میں نرم ونازک ہوں کبھی سخت نہیں پڑوں گی اور میں ہمیشہ رہوں گی اور میں کبھی نہیں مروں گی اور میں مقیم رہوں گی کبھی کوچ نہ کروں گی اور متقی ایسے گھر میں داخل ہوگا کہ اس کی جس کی اونچائی ایک لاکھ ہاتھ ہوگی وہ سرخ سبز اور زرد مویتوں اور یاقوتوں کی چٹانوں پر بنایا گیا ہوگا وہ موتی اور یاقوت ایک دوسرے کے مشابہ نہ ہوں گے اور کمرے میں بستر اور پلنگ ہوں گے اور ہر پلنگ پر ستر بسترے ہوں گے اور ان پر ستر بیویاں یوں گی اور ہر بیوی پر ستر جوڑے ہوں گے اس کے جوڑوں کے پیچھے اس کی پنڈلیوں کا گودہ نظر آئے گا وہ متقی تمہاری ان راتوں میں سے ایک رات کی مقدار میں اس سے جماع کرے گا ان کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی (جیسے فرمایا) (آیت) ” انھرمن مآء غیر اسن “ (محمد آیت 15) صاف ہوں گی ان میں گہرا پن نہیں ہوگا (آیت) ” انھرمن لبن لم یتغیر طعمہ “ (محمد آیت 15) اور وہ جانور کے تھنوں سے نہیں نکلے گا (آیت) ” انھرمن خمرالذۃ للشربین “ (محمد آیت 15) اور شراب کی ایسی نہریں جن کو مردوں نے اپنے قدموں میں نہیں نچوڑا ہوگا (آیت) ” انھرمن عسل مصفی “ (محمد آیت 15) اور وہ شہد کی مکھی کی پیٹوں سے نہیں نکلے گا کہ پس وہ پھل میٹھے ہوں گے اگر چاہے تو کھڑے ہو کر کھائے گا اور اگر چاہے تو بیٹھ کر کھائے گا اور اگر چاہے تو ٹیک لگا کر کھائے گا اگر کھانے کو دل چاہے گا تو اس کے پاس ایک پرندہ آئے گا جس کے پر سفید ہوں گے وہ اس کے پہلووں سے جس رنگ میں چاہے گا کھائے گا پھر وہ پرندہ اڑ جائے گا پھر ایک فرشتہ داخل ہوگا اور کہے گا ” سلم علیکم ، (الزمر : 73) تلکم الجنۃ اور ثتموھا بما کنتم تعلمون (الاعراف : 43) (یعنی تم پر سلام ہو اور تم کو جنت کو وارث بنادیا گیا ان اعمال کے بدلے میں جو تم کیا کرتے تھے۔ 18۔ ابن ابی حاتم نے مسلم بن جعفر بجلی کے طریق سے روایت کیا انہوں نے فرمایا میں نے ابو معاذ بصری کو سنا انہوں نے علی ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ جب متقین اپنی قبروں سے نکلیں گے تو ان کو سفید اونٹنیاں پیش کی جائیں کی جائیں گی جن کے پر ہوں گے ان پر سونے کے کجاوے ہوں گے ان کے جوتوں کا تسمہ نور کا ہوگا جو چمک رہا ہوگا ان کا ہر قدم تا حدنگاہ ہوگا وہ ایک درخت کے پاس پہنچیں گے اس کی جڑ میں دو چشمے نکلتے ہیں ان میں سے ایک چشمے سے پانی پئیں گے تو ان کے پیٹوں کی غلاظت دھل جائے گی اور دوسرے چشمے سے نہائیں گے تو ان کے بدن کبھی میلے نہ ہوں گے اور اس کے بعد ان کے بال کبھی میلے نہ ہوں گے اور ان پر نعمتوں کی تازگی جاری ہوگی وہ جنت کے دروازہ پر آئیں گے وہاں سرخ یاقوت کا ایک حلقہ ہوگا سونے کی تختیوں پر وہ اس حلقہ کو تختہ پر ماریں گے تو بجنے کی آواز سنی جائے گی اور وہ ہر حور کو پہنچے گی کہ اس کا خاوند آچکا ہے تو وہ (حور) اپنے نگران کو بھیجے گی تو وہ اس کے لئے دروازہ کو کھول دے گا جب وہ اس کو دیکھے گا تو اس کے لئے سجدہ میں گرپڑے گا وہ نگران کہے گا اپنے سر کو اٹھائیے میں تیرا نگران ہوں مجھے تیرا معاملہ سپرد کیا گیا ہے وہ اس کے پیچھے جائے گا تو حور جلدی کو حقیر سمجھے گی اور موتی اور یاقوت کے خیمے سے نکلے گی یہاں تک کہ اس سے معانقہ کرے گی پھر وہ کہے گی تو میرا محبوب ہے اور میں تجھ سے محبت کرتی ہوں اور میں ہمیشہ رہنے والی ہوں اور میں نہیں مروں گی اور میں ایسی نرم اور ملائم ہوں کبھی میرا دل سخت نہ ہوگا اور میں راضی ہوں کہ (کبھی) ناراض نہ ہوں گی اور میں مقیم ہوں اور کوچ نہیں کروں گی پھر وہ اپنے گھر میں داخل ہوگا کہ اس کی بنیاد سے اس کی چھت تک ایک لاکھ ذراع (ہاتھ) ہوگی اس کی بنیاد مختلف مویتوں کی چٹانوں پر ہوگی کوئی زرد، کوئی سرخ اور کوئی سبز ہوگی وہ ایک دوسرے سے مشابہ نہیں ہوں گی کمرے میں ستر پلنگ ہوں گے ہر پلنگ پر ستر بستر ہوں اور اس بستر پر ستر بیویاں ہوں گی ہر بیوی پر ستر جوڑے ہوں گے جوڑوں کے اندر اس کی پنڈلی کا گودا دیکھا جائے گا ان کا جماع تمہاری ان راتوں میں سے ایک رات کی مقدار میں پورا ہوگا ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی (آیت) ” انھرمن مآء غیر اسن “ (محمد آیت 15) یعنی صاف ہوں گی کوئی گدلا پن ان میں نہ ہوگا (آیت) ” انھرمن لبن لم یتغیر طعمہ “ (محمد آیت 15) فرمایا کہ یہ دودھ جانور کے تھنوں سے نہ نکلے گا (آیت) ” انھرمن خمرالذۃ للشربین “ (محمد آیت 15) فرمایا اس کو مردوں نے اپنے قدموں سے نہ نچوڑا ہوگا (آیت) ” انھرمن عسل مصفی “ (محمد آیت 15) فرمایا اور شہد کی مکھیوں کے پیٹوں سے نہیں نکلے گا کہ وہ پھلوں سے شہد کو بنائیں پس وہ میٹھے پھل ہوں اگر چاہیں گے تو کھڑے ہو کر کھائیں گے اگر چاہیں گے تو بیٹھ کر کھائیں گے اگر چاہیں گے تو ٹیک لگا کر کھائیں گے پھر یہ (آیت) ” ودانیۃ علیہم ظللھا “ (الدھر : 14) تلاوت کی جب کھانے کی خواہش ہوگی تو سفید پرندہ ان کے پاس آئے گا اور کبھی سبز پرندہ وہ اپنے پروں کو اٹھائے گا تو اس کے پہلو سے جس قسم کا کھانا چاہے گا کھالے گا پھر وہ اڑ کر چلا جائے گا فرشتہ داخل ہو کر کہے گا (آیت) ” سلم علیکم “ (آیت) ” تلکم الجنۃ اور ثتموھا بما کنتم تعملون ) “ 19:۔ ابن جریر، ابن منذر ابن ابی حاتم نے اور بیہقی نے بعث میں ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ (آیت) ” ونسوق المجرمین الی جھنم وردا “ یعنی پیاسے (جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے) 20:۔ عبدالرزاق اور عبد بن حمید نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ونسوق المجرمین الی جھنم وردا “ یعنی پیاسے آگ کی طرف ہانکے جائیں گے۔ 21:۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے (آیت) ” ونسوق المجرمین الی جھنم وردا “ یعنی ان کی گردنیں پیاس سے ٹوٹ رہی ہوں گی۔ 22:۔ ابن منذر نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ونسوق المجرمین الی جھنم وردا “ سے مراد ہے پیاسا ہونا۔ ھناد نے حسن سے اسی طرح روایت کیا کہ۔ 23:۔ ابن جریر، ابن منذر ابن ابی حاتم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الا من اتخذ عند الرحمن عھدا “ سے مراد ہے لا الہ الا اللہ کی گواہی دی ہو اور اپنی قوت اور طاقت سے برأت کی ہو اور نہ امید رکھے مگر اللہ سے۔ 24:۔ ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الا من اتخذ عند الرحمن عھدا “ یعنی مومن بندے اس دن (اسی حال میں) ہوں گے کہ وہ ایک دوسرے کی شفاعت کریں گے۔ 25:۔ ابن ابی شیبہ نے مقاتل بن حبان (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الا من اتخذ عند الرحمن عھدا “ میں عہد سے مراد ہے صلاح۔ 26:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الا من اتخذ عند الرحمن عھدا “ سے مراد ہے کہ جو آدمی (اس حال میں) مرا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا تھا تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ 27:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کسی مومن کو خوشی عطا کی تو تحقیق اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوشی عطا کی تو اس نے رحمن سے وعدہ لے لیا اور جس نے رحمن سے وعدہ لے لیا تو اس کو آگ نہیں لگے گی بلاشبہ اللہ تعالیٰ وعدہ کی خلاف ورزی نہیں فرماتے۔ 28:۔ ابن ابی شیبہ ابن ابی حاتم طبرانی حاکم (اور ابن مردویہ نے روایت کیا کہ حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابن مسعود ؓ نے (آیت) ” الا من اتخذ عند الرحمن عھدا “ کی تلاوت کی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے قیامت کے دن جس کے پاس میرا عہد ہے تو وہ کھڑا ہوجائے تو کوئی کھڑا نہ ہوگا مگر جس نے دنیا میں یہ کہا ہوگا تم لوگ کہو : اللہم فاطر السموات عالم الغیب والشھادۃ انی اعھد الیک فی ھذہ الحیاۃ الدنیا انک ان تکلنی الی نفسی تقربنی من الشر وتباعدنی من الخیر وانی لا اثق الا برحمتک فاجعلہ لی عندک عھدا تودیہ الی یوم القیامۃ انک لا تخلف المیعاد۔ ترجمہ : اے اللہ زمین و آسمانوں کے پیدا کرنے والے غائب اور حاضر کے جاننے والے میں تجھ سے وعدہ کرتا ہوں اس دنیا کی زندگی میں کہ بلاشبہ اگر تو مجھ کو اپنے نفس کے سپرد کردے گا تو وہ مجھے شر کے قریب کردے گا اور مجھ کو خیر سے دور کردے گا اور میں بھروسہ نہیں کرتا مگر تیری رحمت کے ساتھ پس تو کردے اس کو میرے لئے ایک عہد کہ تو اس کو ادا کرے گا قیامت کے دن تک بلاشبہ آپ وعدہ کے خلاف نہیں کرتے۔ 29:۔ طبرانی الاوسط میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص قیامت کے دن پانچ نمازیں لے کر آئے گا کہ اس نے حفاظت کی تھی ان کے وضو کی، ان کے اوقات کی، ان کے رکوع کی، اور ان کے سجود کی (یعنی) کسی چیز میں کوتاہی نہیں کی ہوگی تو وہ (اس حال میں) آئے گا کہ اللہ کے نزدیک اس کے لئے ایک عہد ہوگا کہ اس کو عذاب نہیں دیں گے اور جو شخص (اس حال میں) آیا کہ ان میں سے کسی چیز میں کمی کی ہوگی تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی عہد نہ ہوگا اگر چاہے گا تو اس پر رحمت فرمائے گا اگر چاہے گا تو اس کو عذاب دے گا۔ 30:۔ حکیم ترمذی نے ابوبکر الصدیق ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص ہر نماز سے سلام پھیرنے کے بعد یہ کلمات کہے تو فرشتہ ایک کاغذ میں لکھ کر اس پر مہر لگا دے گا پھر اسے قیامت کے دن تک محفوظ کرے گا جب اللہ تعالیٰ بندے کو اس کی قبر سے اٹھائیں گے تو یہ فرشتہ آئے گا اور اس کے پاس ایک کتاب ہوگی اور آواز دے گا عہد کرنے والے کہاں ہیں ؟ یہاں تک کہ وہ عہد نامے ان کے حوالے کردے گا اور تو یہ کلمات کہے : اللہم فاطر السموات عالم الغیب والشھادۃ الرحمن الرحیم انی اعھد الیک فی ھذہ الحیاۃ الدنیا بانک انت الذی لا الہ الا انت وحدک الا شریک لک وان محمد عبدک ورسولک، فلا تکلنی الی نفسی، فانک ان تکلنی الی نفسی تقربنی من الشر وتباعدنی من الخیر وانی لا اثق الا برحمتک فاجعلہ لی عندک عھدا تودیہ الی یوم القیامۃ انک لا تخلف المیعاد۔ ترجمہ : اے اللہ زمین و آسمانوں کے پیدا کرنے والے غائب اور حاضر کے جاننے والے بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا بلاشبہ میں آپ کی طرف عہد کرتا ہوں اس دنیا کی زندگی میں کہ بلاشبہ آپ ہی اللہ ہیں آپ کے سوا کوئی معبود نہیں آپ اکیلے ہیں آپ کا کوئی شریک نہیں اور محمد ﷺ آپ کے بندے اور رسول ہیں مجھے اپنے نفس کے سپرد نہ کیجئے اگر آپ نے مجھے اپنے نفس کر سپرد کیا تو آپ مجھے شر کے قریب کردے گا اور مجھ کو خیر سے دور کردے گا اور میں بھروسہ نہیں کرتا مگر تیری رحمت کے ساتھ پس تو کردے اس کو میرے لئے ایک عہد کہ تو اس کو ادا کرے گا قیامت کے دن تک بلاشبہ آپ وعدہ کے خلاف نہیں کرتے۔
Top