Dure-Mansoor - Al-Baqara : 10
فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ١ۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ١ۙ۬ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ
فِىْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : بیماری ہے فَزَادَھُمُ : پس زیادہ کیا ان کو / بڑھایا ان کو اللّٰهُ : اللہ نے مَرَضًا : بیماری میں وَ : اور لَھُمْ : ان کے لئے عَذَابٌ : عذاب ہے اَلِيْمٌ : درد ناک / المناک بِمَا : بوجہ اس کے جو كَانُوْا : تھے وہ يَكْذِبُوْنَ : جھوٹ بولتے
ان کے دلوں میں بڑا روگ ہے سو اللہ نے ان کا روگ بڑھا دیا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے۔
(1) امام ابن اسحاق، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ مرض سے مراد شک ہے اور لفظ آیت ” فزادھم اللہ مرضا “ یعنی زیادہ کیا اللہ تعالیٰ نے ان کو شک میں۔ ابن جریر نے ابن مسعود سے اس کی مثل روایت کیا ہے۔ (2) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ لفظ آیت ” فی قلوبھم “ سے مراد ہے نفاق اور ” ولہم عذاب الیم “ سے مراد ہے عبرت ناک اور دردناک (عذاب) اور لفظ آیت ” بما کانوا یکذبون “ سے مراد ہے وہ بدلتے ہیں اور تحریف کرتے ہیں۔ (3) الطستی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نافع بن ازرق نے ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” فی قلوبھم مرض “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا اس سے مراد نفاق ہے عرض کیا گیا عرب کے لوگ اس نفاق کو جانتے ہیں انہوں نے فرمایا ہاں ! کیا تو نے شاعر کا یہ قول نہیں سنا : اجامل اقواما حیاء وقداری صدورھم تعلی علی مراضحھا ترجمہ : میں ایک قوم سے حیا کی وجہ سے حسن سلوک کا مظاہرہ کرتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ ان کے سامنے مجھ پر مخالفت کی وجہ سے جوش مارتے رہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ مجھے لفظ آیت ” ولہم عذاب الیم “ کے بارے میں بتائیے۔ تو انہوں نے فرمایا ” الیم “ کا معنی دردناک۔ میں نے پھر عرض کیا کیا عرب کے لوگ اس معنی کو جانتے ہیں انہوں نے فرمایا ہاں کیا تو نے شاعر کا یہ قول نہیں سنا ؟ نام من کان خلیا من الم وبقیت اللیل طولا لم انم یعنی وہ شخص سوگیا جو خالی ہے تکلیف سے اور لمبی رات میں نے بےآرامی اور بےخوابی میں گزاردی۔ (4) امام ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ہر جگہ قرآن میں ” الیم “ سے مراد دردناک (عذاب) ہے۔ (5) ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ سے روایت کیا ہے کہ الالیم کا معنی سارے قرآن میں دردناک ہے۔ امام عبد بن حمید اور ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ مرض کا معنی ہے اللہ کے حکم میں شک کرنا لفظ آیت ” فزادھم اللہ مرضا “ کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا شک زیادہ کردیا) ۔ لفظ آیت ” ولہم عذاب الیم، بما کانوا یکذبون “ کا معنی ہے بچو جھوٹ سے کیونکہ یہ نفاق کے باب میں سے ہے اللہ کی قسم ہم نے کبھی بھی کوئی عمل کبر اور جھوٹ سے بڑھ کر کسی بندے کے دل کو جلدی خراب کرنے والا نہیں دیکھا۔ (7) امام ابن جریر نے ابن زید سے لفظ آیت ” فی قلوبھم مرض “ کے بارے میں یہ نقل کیا ہے کہ یہ مرض دین میں ہے اور جسموں میں نہیں ہے اور وہ منافق لوگ ہیں اور مرض وہ شک ہے جو اسلام میں داخل ہوتا ہے۔ (8) ابن جریر نے ربیع سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” فی قلوبھم مرض “ سے نفاق والے لوگ مراد ہیں اور مرض وہ شک ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے بارے میں ان کے دلوں میں ہے لفظ آیت ” فزادھم اللہ مرضا “ یعنی (زیادہ کیا اللہ تعالیٰ نے اس کام) شک کو۔ (9) امام ابن جریر نے ضحاک سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ولہم عذاب الیم “ سے مراد دردناک عذاب ہے اور قرآن میں ہر جگہ الیم سے دردناک عذاب ہی مراد ہے۔
Top