Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Dure-Mansoor - Al-Baqara : 102
وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ١ۗ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ١ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ١ؕ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِهٖ١ؕ وَ مَا هُمْ بِضَآرِّیْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ١ؕ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ١ؕ۫ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَ اتَّبَعُوْا
: اور انہوں نے پیروی کی
مَا تَتْلُوْ
: جو پڑھتے تھے
الشَّيَاطِیْنُ
: شیاطین
عَلٰى
: میں
مُلْكِ
: بادشاہت
سُلَيْمَانَ
: سلیمان
وَمَا کَفَرَ
: اور کفرنہ کیا
سُلَيْمَانُ
: سلیمان
وَلَٰكِنَّ
: لیکن
الشَّيَاطِیْنَ
: شیاطین
کَفَرُوْا
: کفر کیا
يُعَلِّمُوْنَ
: وہ سکھاتے
النَّاسَ السِّحْرَ
: لوگ جادو
وَمَا
: اور جو
أُنْزِلَ
: نازل کیا گیا
عَلَى
: پر
الْمَلَکَيْنِ
: دوفرشتے
بِبَابِلَ
: بابل میں
هَارُوْتَ
: ہاروت
وَ مَارُوْتَ
: اور ماروت
وَمَا يُعَلِّمَانِ
: اور وہ نہ سکھاتے
مِنْ اَحَدٍ
: کسی کو
حَتَّی
: یہاں تک
يَقُوْلَا
: وہ کہہ دیتے
اِنَّمَا نَحْنُ
: ہم صرف
فِتْنَةٌ
: آزمائش
فَلَا
: پس نہ کر
تَكْفُر
: تو کفر
فَيَتَعَلَّمُوْنَ
: سو وہ سیکھتے
مِنْهُمَا
: ان دونوں سے
مَا
: جس سے
يُفَرِّقُوْنَ
: جدائی ڈالتے
بِهٖ
: اس سے
بَيْنَ
: درمیان
الْمَرْءِ
: خاوند
وَ
: اور
زَوْجِهٖ
: اس کی بیوی
وَمَا هُمْ
: اور وہ نہیں
بِضَارِّیْنَ بِهٖ
: نقصان پہنچانے والے اس سے
مِنْ اَحَدٍ
: کسی کو
اِلَّا
: مگر
بِاِذْنِ اللہِ
: اللہ کے حکم سے
وَيَتَعَلَّمُوْنَ
: اور وہ سیکھتے ہیں
مَا يَضُرُّهُمْ
: جو انہیں نقصان پہنچائے
وَلَا يَنْفَعُهُمْ
: اور انہیں نفع نہ دے
وَلَقَدْ
: اور وہ
عَلِمُوْا
: جان چکے
لَمَنِ
: جس نے
اشْتَرَاهُ
: یہ خریدا
مَا
: نہیں
لَهُ
: اس کے لئے
فِي الْاٰخِرَةِ
: آخرت میں
مِنْ خَلَاقٍ
: کوئی حصہ
وَلَبِئْسَ
: اور البتہ برا
مَا
: جو
شَرَوْا
: انہوں نے بیچ دیا
بِهٖ
: اس سے
اَنْفُسَهُمْ
: اپنے آپ کو
لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ
: کاش وہ جانتے ہوتے
اور انہوں نے اس چیز کا اتباع کیا جسے سلیمان کے عہد حکومت میں شیاطین پڑھتے تھے اور نہیں کفر کیا سلیمان نے لیکن شیاطین نے کفر اختیار کیا، وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور انہوں نے اس کا بھی اتباع کیا جو نازل ہوا دو فرشتوں پر بابل میں، یہ دو فرشتے ہاروت اور ماروت تھے اور یہ دونوں نہیں سکھاتے تھے کسی کو جب تک یوں نہ کہہ دیتے کہ ہمارا وجود ایک فتنہ ہے لہٰذا تو کفر اختیار نہ کر، پس یہ لوگ ان سے وہ چیز سیکھ لیتے تھے جس کے ذریعہ مرد اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی کردیتے تھے اور وہ لوگ اس کے ذریعہ کسی کو کچھ بھی کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتے مگر اللہ کے حکم سے، اور وہ لوگ وہ چیز سیکھتے ہیں جو ان کو ضرر دینے والی ہے اور نفع دینے والی نہیں اور البتہ تحقیق انہوں نے یہ بات جان لی کہ جس نے اس کو خریدا ہے اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور بیشک وہ بری چیز ہے جس کے ذریعہ انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ دیا، اگر وہ جانتے ہوتے
ہاروت و ماروت کا تذکرہ (1) سفیان بن عبید، سعید بن منصور، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ شیاطین آسمان سے چوری چھپے باتیں سنتے ہیں جب ان میں سے کوئی سچی بات کو سن لیتا تو اس میں ہزار جھوٹ کو ملا دیتا تھا لوگوں کے دلوں میں یہ جھوٹ رچ بس گئے اور انہوں نے ان جھوٹی باتوں کے کئی رجسٹر بنا لئے اللہ تعالیٰ نے سلیمان بن داؤد (علیہ السلام) کو اس بات پر مطلع فرمایا انہوں نے ساری کتابوں کو لے کر کرسی کے نیچے دفن کردیا جب سلیمان (علیہ السلام) وفات پاگئے تو شیطان راستے میں کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کیا میں تم کو سلیمان (علیہ السلام) کا وہ خزانہ نہ بتاؤں کہ اس جیسا کسی کے پاس محفوظ خزانہ نہیں ہے لوگوں نے کہا ہاں بتاؤ پھر انہوں نے اس کو نکالا تو وہ جادو تھا اور قوموں نے ان کو متواتر نقل کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کی برأت کو نازل فرمایا اس جادو کے متعلق جو لوگ ان کے بارے میں جادو کا الزام لگاتے تھے۔ (کہ وہ جادو کرنے والے نہ تھے) اور فرمایا ” واتبعوا ما تتلوا الشیطین علی ملک سلیمن “ (الآیہ) ۔ (2) امام نسائی، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ آصف سلیمان (علیہ السلام) کا کاتب تھا اور وہ اسم اعظم جانتا تھا اور وہ ہر چیز سلیمان (علیہ السلام) کے حکم سے لکھا کرتا تھا اور اس کو ان کی کرسی کے نیچے دفن کردیتا تھا جب سلیمان (علیہ السلام) وفات پاگئے تو شیطان نے اس کو نکال لیا اور ہر دو سطروں کے درمیان جادو اور کفر (کی باتوں) کو لکھ دیا اور کہنے لگے کہ یہ وہ باتیں ہیں جن کے ذریعہ سلیمان (علیہ السلام) عمل کیا کرتے تھے جاہل لوگوں نے ان کو کافر کہا اور ان کو گالیاں دیں لیکن ان کے علماء اس مسئلہ پر توقف کر گئے مگر ان کے جاہل لوگ برابر ان کو گالیاں دیتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ پر یہ آیت اتاری لفظ آیت ” واتبعوا ما تتلوا الشیطین “۔ (3) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت و سلطنت ختم ہوگئی تو جنات اور انسانوں کی کچھ جماعتیں مرتد ہوگئیں اور انہوں نے شہوات کی پیروی کی۔ جب سلیمان (علیہ السلام) کو پھر حکومت مل گئی۔ اور لوگ (پھر سے) دین پر قائم ہوگئے تو ان کی کتابیں ان پر غالب آگئیں جن کو انہوں نے اپنی کرسی کے نیچے دفن کردیا پھر جب آپ کی وفات ہوگئی تو جنات اور انسانوں نے ان کتابوں پر غلبہ پالیا اور کہنے لگے کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلیمان (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی جس کو انہوں نے ہم سے چھپایا ہوا تھا۔ انہوں نے اس کتاب کو لے لیا اور اس کو اپنا دین بنا لیا۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری لفظ آیت ” واتبعوا ما تتلوا الشیطین “ یعنی وہ لوگ ان خواہشات کی پیروی کرتے تھے جو شیاطین ان کے پاس پڑھا کرتے تھے اور وہ باجے ساز اور کھیل تماشے والی باتیں تھیں اور وہ ہر چیز تھی جو اللہ کے ذکر سے روکنے والی تھی۔ انگشت سلیمانی کی حقیقت (4) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جب بیت الخلا میں جانے کا ارادہ فرماتے تھے یا کوئی اور کام کرنے لگتے تو آپ اپنی انگوٹھی اپنی اہلیہ جرادہ کو (اتار کر) دے دیتے تھے جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اس امتحان میں مبتلا کرنا چاہا جس میں وہ مبتلا ہوئے ایک دن انہوں نے اپنی انگوٹھی جرادہ کو دی۔ شیطان سلیمان (علیہ السلام) کی صورت میں بن کر ان کے پاس آیا اور اس نے کہا میری انگوٹھی مجھ کو دے دے۔ اس سے انگوٹھی لے کر شیطان نے پہن لی۔ جب اس نے انگوٹھی پہنی تو شیاطین جنات اور انسان سب اس کے قریب ہوگئے سلیمان (علیہ السلام) اپنی بیوی کے پاس آئے اور اس سے کہا میری انگوٹھی سے اس نے کہا تو جھوٹ بولتا ہے تو سلیمان نہیں ہے۔ انہوں نے پہچان لیا کہ یہ آزمائش ہے جس میں مجھے مبتلا کیا گیا ہے۔ شیاطین نے ان دنوں ایک کتاب لکھی جس میں جادو اور کفر تھا۔ پھر انہوں نے اس کتاب کو سلیمان (علیہ السلام) کی کرسی کے نیچے دفن کردیا پھر ان کو نکالا اور لوگوں کے سامنے پڑھنا شروع کیا اور کہنے لگے کہ سلیمان اس کتاب کے ذریعے لوگوں پر غلبہ حاصل کرتے تھے۔ (اس بات کو سن کر) لوگ سلیمان (علیہ السلام) سے بیزار ہوگئے اور ان کی طرف کفر کو منسوب کرنے لگے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا اور ان پر یہ آیت اتاری ” وما کفر سلیمان ولکن الشیطین کفروا “۔ (5) امام ابن جریر نے بن حوشب (رح) سے روایت کیا کہ یہودیوں نے کہا محمد ﷺ کی طرف دیکھو انہوں نے حق کو باطل کے ساتھ مخلوط کردیا ہے۔ وہ سلیمان کو انبیاء کے ساتھ ذکر کرتا ہے حالانکہ وہ جادو گر تھے جو ہوا پر سواری کرتے تھے تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ” واتبعوا ما تتلوا الشیطین “ (الآیہ) (6) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ یہودیوں نے نبی اکرم ﷺ سے تورات کے چند امور کے بارے میں پوچھا وہ جس چیز کے بارے میں سوال کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں قرآن نازل فرما دیتے تھے آپ یہود سے جھگڑتے جب انہوں نے دیکھا کہ جو کچھ ہم پر اتارا گیا ہے یہ ہم سے بھی زیادہ جاننے والے ہیں تو پھر انہوں نے آپ سے جادو کے بارے میں پوچھا اور اس بارے میں آپ سے جھگڑنے لگے۔ تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” واتبعوا ما تتلوا الشیطین “ (الآیہ) اور شیاطین نے ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے جادو اور کہانت وغیرہ کی باتیں تھیں۔ اور اس بارے میں جو کچھ چاہا (لکھ دیا) اور انہوں نے اس (کتاب) کو سلیمان (علیہ السلام) کی نشست کے نیچے دفن کردیا۔ سلیمان (علیہ السلام) غیب کا علم نہیں جانتے تھے جب سلیمان (علیہ السلام) نے اس دنیا کو چھوڑا تو شیطانوں نے اس جادوکو باہر نکالا اور لوگوں کو دھوکہ دینے لگے اور کہنے لگے کہ سلیمان (علیہ السلام) کا یہ علم تھا جو انہوں نے لوگوں پر حسد کرتے ہوئے چھپایا ہوا تھا نبی اکرم ﷺ نے یہود کو اس جادو کی حقیقت بتائی تو وہ لوگ آپ کے پاس سے واپس لوٹ گئے اور وہ غمگین اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دلیل کو باطل کردیا۔ جنات کی شرارت و جادو کا تذکرہ (7) سعید بن منصور نے خصیف (رح) سے روایت کیا کہ جب کوئی درخت اگتا تھا تو سلیمان (علیہ السلام) اس سے پوچھتے تھے کہ تو کس بیماری کی دوا ہے ؟ تو وہ کہتا تھا کہ اس اور اس طرح کی بیماری کے لیے۔ جب خرنوبہ کا درخت لگا تو اس سے پوچھا کہ تو کس چیز کے لیے ہے ؟ اس نے کہا آپ کی مسجد کو خراب کرنے کے لیے (پھر) کچھ عرصہ کے بعد آپ کی وفات ہوگئی شیاطین نے ایک کتاب لکھی اور اس کو سلیمان (علیہ السلام) کے مصلی کے نیچے چھا دیا۔ اور کہنے لگے ہم تم کو بتائیں گے کہ جس چیز کے ساتھ سلیمان (علیہ السلام) دوا کیا کرتے تھے اور اس کتاب کو نکال لائے اس میں جادو اور شرکیہ دم تھے (اس پر) اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” واتبعوا ما تتلوا الشیطین “ سے لے کر ” وما انزل علی الملکین “ تک اور حضرت ابی ؓ کی قرأت میں ” وما یتلی “ ہے۔ لفظ آیت ” وما یتلی علی الملکین ببابل ھاروت و ماروت وما یعلمن من احد حتی یقولا انما نحن فتنۃ فلا تکفر “ فرشتے انہیں جادو سیکھنے سے سات مرتبہ منع کرتے انکار کرتا اور سیکھنے پر ضد کرتا وہ دونوں سکھا دیتے تو اس سے نور نکل کر آسمان میں چھا جاتا تھا۔ فرمایا کہ نور سے مراد وہ معرفت ہے جس سے وہ معرفت حاصل کرتا تھا (وہ نکل جاتا تھا) ۔ (8) امام ابن جریر، ابن المنذر نے ابو مجلز (رح) سے روایت کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے ہر جانور سے وعدہ لیا کہ جب کسی آدمی کو کوئی مصیبت پہنچتی اور وہ اس عہد کے واسطے سے سوال کرتا تو وہ جانور اس کا راستہ چھوڑ دیتا۔ لوگوں نے اس کو جادو سمجھا تو کہنے لگے یہ وہ ہے جس کے ساتھ سلیمان (علیہ السلام) عمل کیا کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ” وما کفر سلیمان “ (الآیہ) ۔ (9) امام ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واتبعوا ما تتلوا “ سے مراد ہے ” ما تتبع “ پیروی کرنا۔ (10) امام ابن جریر نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واتبعوا ما تتلوا الشیطین “ یعنی جو وہ (شیاطین) بیان کرتے تھے۔ (11) امام ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” علی ملک سلیمن “ یعنی ” فی ملک سلیمن “ (سلیمان (علیہ السلام) کے عہد حکومت میں) ۔ (12) امام ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وما کفر سلیمن “ یعنی یہ کفریہ کام نہ اس کا مشورہ سے تھا اور نہ اس کی رضا سے تھا لیکن یہ ایسی چیز تھی جو شیاطین نے خود گھڑی تھی لفظ آیت ” یعلمون الناس السحر وما انزل علی الملکین “ یعنی جادو دو قسم کے تھے۔ ایک وہ جادو جس کو شیاطین سکھاتے تھے اور دوسرا وہ جادو جس کو ہاروت و ماروت سکھاتے تھے۔ (13) امام ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وما انزل علی الملکین “ یعنی یہ دوسرا جادو تھا جس کے ذریعہ لوگوں سے جھگڑتے تھے کیونکہ فرشتوں کا کلام جو ان کے درمیان آپس میں ہوتا تھا جس کو جب انسانوں نے سیکھا اس پر عمل کیا تو وہ جادو گر بن گیا۔ (14) امام ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ایک جادو وہ تھا جس کو شیاطین سکھاتے تھے اور جو فرشتے سکھاتے تھے وہ مرد اور عورت کے درمیان جدائی (سبب) ہوتا تھا۔ (15) ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وما انزل علی الملکین “ یعنی یہ وہ تھا جس کے ذریعہ مرد اور عورت کے درمیان جدائی ہوتی تھی۔ (16) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وما انزل علی الملکین “ یعنی اللہ تعالیٰ نے سحر نہیں اتارا تھا۔ (17) ابن ابی حاتم نے حضرت علی ؓ سے اس آیت کے بارے میں نقل کیا کہ وہ دو فرشتے تھے آسمان کے فرشتوں میں سے۔ ابن مردویہ حضرت علی ؓ سے مرفوع روایت نقل کی۔ (18) امام ابن ابی حاتم نے عبد الرحمن بن ابزی (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے لفظ آیت ” وما انزل علی الملکین داؤدو سلیمن “۔ (19) امام ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ لفظ آیت ” وما انزل علی الملکین “ سے مراد بابل کے دو عجمی کافر تھے۔ (20) امام بخاری نے اپنی تاریخ میں اور ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وما انزل علی الملکین “ سے مراد ہیں جبرائیل اور میکائیل (علیہما السلام) ” ببابل ھاروت وماروت “ جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ (21) ابن ابی حاتم نے عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وما انزلعلی الملکین “ کہ جبرائیل اور میکائیل پر جادو نہیں اترا۔ وأما قولہ : ببابل : (22) امام ابو داؤد، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ مجھ کو میرے حبیب ﷺ نے بابل کی سرزمین پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا کیونکہ وہ ملعون ہے۔ (23) دین پوری نے المجالسہ میں اور ابن عساکر نے نعیم بن سالم کے طریق سے حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو بابل کی طرف جمع فرمایا تو ان کی طرف ہوا کو بھیجا شرقی، غربی اور قبلی بحری اس ہوا نے سب کو بابل میں جمع کردیا وہ سب لوگ اس دن جمع ہوگئتے اور دیکھ رہے تھے کہ کیوں ان کو جمع کیا گیا اچانک ایک پکار نے والے نے پکارا جس نے مغرب کو اپنی داہنی طرف بنایا اور مشرق کو اپنی بائیں طرف بنایا اور اس کا منہ بیت اللہ کی طرف ہے۔ اس کے لیے آسمان والوں کا کلام ہے یعرب بن قحطان اٹھا تو اس سے کہا گیا اے یعرب بن قحطان ابن ھود تو وہ ہے اور یہ پہلا شخص تھا جس نے عربی زبان میں بات کی اور پکارنے والا برابر پکارتا رہا جس نے اس طر اور اس طرح کام کیا اس کے لیے اس طرح اور اس طرح (جزا ہوگی) یہاں تک کہ وہ لوگ بہتر زبانوں میں گفتگو کر رہے تھے اور آواز ختم ہوگئی۔ اور زبانیں خلط ملط ہوگئیں اس لئے اس کا نام بابل رکھا گیا اس دن زبان بابل تھی اور خیر اور شر کے ملائکہ حیاء اور ایمان کے ملائکہ، صحت اور شکار کے ملائکہ غنی کے ملائکہ شرف کے ملائکہ مروت کے ملائکہ جہالت کے ملائکہ شدت کے مائ کہ زمین پر اترے یہاں تک کہ وہ عراق میں پہنچ گئے پھر بعض ملائکہ نے بعض سے کہا جدا ہوجاؤ ایمان کے فرشتے نے کہا میں مکہ اور مدینہ میں رہوں گا۔ حیاء کے فرشتے نے کہا کہ میں تیرے ساتھ رہوں گا شفاء کے فرشتہ نے کہا میں جنگل میں رہوں گا صحت کے فرشتہ نے کہا میں تیرے ساتھ رہوں گا جفا (یعنی سختی) کے فرشتہ نے کہا کہ میں مغرب میں رہوں گا جہالت کے فرشتہ نے کہا کہ میں تیرے ساتھ رہوں گا تلوار کے فرشتہ نے کہا کہ میں شام میں رہوں گا شدت اور تنگی کے فرشتہ نے کہا میں تیرے ساتھ رہوں گا غنی (یعنی مالداری) کے فرشتہ نے کہا کہ میں یہیں قیام کروں گا مروت کے فرشتہ نے کہا کہ میں تیرے ساتھ رہوں گا شرف کے فرشتہ نے کہا کہ میں تم دونوں کے ساتھ ہوں۔ سو غنی مروت اور شرف کے فرشتے عراق میں جمع ہوگئے۔ (24) امام ابن عساکر نے ایک سند کے ذریعہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے چار چیزوں کو پیدا فرمایا اور ان کے پیچھے چار چیزیں اور پیدا فرمائیں قحط سالی کو پیدا فرمایا اور اس کے پیچھے زہد کو اور اس کی حجاز میں ٹھہرا دیا۔ عفت کو پیدا فرمایا اور اس کے پیچھے غفلت کو پیدا فرمایا اور اس کو یمن میں ٹھہرا دیا رزق کو پیدا فرمایا اور اس کے پیچھے طاعون کو پیدا فرمایا اور اس کو شام میں ٹھہرا دیا فجور کو پیدا فرمایا اور اس کے پیچھے درہم کو پیدا فرمایا اور اس کو عراق میں ٹھہرا دیا۔ (25) امام ابن عساکر نے سلیمان بن یسار (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کعب احبار کو لکھا کہ میرے لئے کوئی ٹھہرنے کی جگہیں چن لیں۔ انہوں نے ان کی طرف لکھا کہ اے امیر المؤمنین ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ (مختلف) چیزیں جمع ہوگئی ہیں سخاوت نے کہا میں یمن کا ارادہ کرتی ہوں حسن الخلق نے کہا میں تیرے ساتھ رہوں گا جفا نے کہا میں حجاز کا ارادہ کرتا ہوں فقر نے کہا میں تیرے ساتھ رہوں گا شہادت نے کہا میں شام کا ارادہ کرتا ہوں تلوار نے کہا میں تیرے ساتھ رہوں گا علم نے کہا میں عراق کا ارادہ کرتا ہوں عقل نے کہا میں تیرے ساتھ رہوں گا غنی نے کہا میں مصر کا ارادہ کرتا ہوں ذلت نے کہا میں تیرے ساتھ رہوں گی۔ اے امیر المؤمنین (اب) اپنے لئے چن لیجئے۔ جب یہ خط پہنچا تو حضرت عمر نے فرمایا تب تو عراق، تب تو عراق (بہتر ہے) ۔ (26) امام ابن عساکر نے حکیم بن جابر (رح) سے روایت کیا کہ مجھے بتایا گیا کہ اسلام نے کہا میں شام کی زمین کا جاننے والا ہوں موت نے کہا میں تیرے ساتھ رہوں گا بادشاہی نے کہا عراق کی زمین سے ملوں گا قتل نے کہا میں تیرے ساتھ رہوں گا بھوک نے کہا میں عرب کی زمین کو جانے والا ہوں صحت نے کہا میں تیرے ساتھ رہوں گی۔ (27) امام ابن عساکر نے دغفل (رح) سے روایت کیا کہ مال نے کہا میں عراق میں رہوں گا۔ غدر نے کہا میں تیرے ساتھ رہوں گا طاعت نے کہا میں شام میں رہوں گی۔ جفا نے کہا میں بھی تیرے ساتھ رہوں گی مروت نے کہا میں حجاز میں رہوں گی فقر نے کہا میں تیرے ساتھ رہوں گا۔ وأما قولہ : ” ھاروت وما روت “ حدیث ابن آدم (علیہ السلام) کے قصہ میں گزر چکی ہے اور دوسرے آثار باقی ہیں۔ (28) سعید، ابن جریر، اور خطیب نے اپنی تاریخ میں نافع (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عمر ؓ کے ساتھ سفر کیا جب آخری رات تھی تو فرمایا اے نافع ! دیکھ کیا سرخ ستارہ طلوع ہوگیا ؟ میں نے دو مرتبہ کہا نہیں پھر میں نے کہا وہ طلوع ہوگیا فرمایا اس کو خوش آمدید نہ ہو۔ میں نے کہا سبحان اللہ ! وہ ایک ستارہ ہے اطاعت کرنے والا (حکم الٰہی کو) سننے والا فرمانبرداری کرنے والا ستارہ ہے فرمایا میں نے تجھ سے وہ بات کہی ہے جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ نے فرمایا فرستوں نے کہا اے ہمارے رب آپ کس طرح نبی آدم کے گناہوں پر صبر کرلیتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ان کو مبتلا کرتا ہوں اور تم کو عافیت دی فرشتے کہنے لگے اگر ہم ان کی جگہ پر ہوتے تو تیری نافرمانی نہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنے میں سے دو فرشتے چن لو اور خون چن لو ھاروت اور ماروت کو انہوں نے چن لیا وہ دونوں نیچے اتر گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر شبق کو ڈال دیا میں نے پوچھا شبق کیا ہے ؟ فرمایا شہوت۔ ان کے پاس ایک عورت آئی جس کو زہرہ کہا جاتا تھا اور وہ ان کے دلوں میں واقع ہوگئی ان میں سے ہر ایک نے دوسرے سے کہا کیا تیرے دل میں وہ چیز واقع ہوگئی ہے جو میرے دل سے واقع ہوئی ہے اس نے کہا ہاں (پھر) ان دونوں نے اس اس عورت سے مطلب براری کا ارادہ کیا۔ وہ کہنے لگی کہ تم دونوں کو (اپنے اوپر) قدرت نہیں دوں گی۔ یہاں تک کہ تم مجھے وہ اسم سکھا دو جس کے ذریعہ تم دونوں آسمان کی طرف چڑھتے ہو اور اترتے ہو انہوں نے انکار کیا پھر ان دونوں نے اس (عورت) سے دوبارہ سوال کیا اس نے (جب) انکار کیا تو ان دونوں نے وہ اسم اس کو سکھا دیا جب وہ عورت (اوپر کو) اڑ گئی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو ستارہ بنا دیا اور ان دونوں کے پر کاٹ دئیے۔ پھر ان دونوں نے اپنے رب سے توبہ کا سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو اختیار دیدیا اگر تم چاہو تو تم دونوں کو اس حالت میں لوٹا دوں جس پر تم (پہلے) تھے اور (اس حال میں) قیامت کے دن تم دونوں کو عذاب ہوگا اور اگر چاہو تو تم کو دنیا میں عذاب دے دوں اور قیامت کے دن تم کو پہلے حال میں لوٹا دوں جس پر تم تھے ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کہ دنیا کا عذاب ختم ہوجائے گا اس لئے آخرت کے عذاب کو دنیا کے عذاب پر چن لو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ تم دونوں بابل میں آجاؤ (لہٰذا) دونوں بابل آئے ان کو دھنسا دیا گیا اور آسمان اور زمین کے درمیان الٹا لٹکا دیا گیا قیامت کے دن تک عذاب دئیے جائیں گے۔ (29) سعید بن منصور نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ میں حضرت ابن عمر ؓ کے ساتھ ایک سفر میں تھا مجھ سے فرمایا ستاروں کو دیکھتا رہ۔ جب (ستارہ) طلوع ہوجائے تو مجھ کو جگا دینا۔ جب ستارہ طلوع ہوگیا تو میں نے ان کو جگا دیا وہ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا اور اس کو سخت گالیاں دینی شروع کیں میں نے عرض کیا اے ابو عبد الرحمن اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے یہ ستارہ ہے جو نکلتا ہے اطاعت کرتا ہے آپ اس کو کیوں گالیاں دے رہے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ ایک عورت نبی اسرائیل میں بدکار تھی اور فرشتوں کو اس کی وجہ سے سزا ملی۔ (30) بیہقی نے شعب الایمان میں موسیٰ بن جبیر سے موسیٰ بن عقبہ سے سالم سے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ملائکہ نے اوپر سے جھانک کر دنیا کو دیکھا تو انہوں نے بنی آدم کو دیکھا کہ وہ نافرمانیاں کر رہے ہیں کہنے لگے اے ہمارے رب یہ لوگ کتنے جاہل ہیں یہ آپ کی عظمت کو کتنا کم جانتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر تم ان کی جگہ ہوتے تو تم بھی میری نافرمانی کرتے کہنے لگے یہ کیونکر ہوسکتا ہے ہم آپ کی تسبیح حمد اور پاکی بیان کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اپنے میں سے دو فرشتوں کو چن لو۔ انہوں نے ہاروت و ماروت کو چن لیا (اللہ تعالیٰ نے) ان کو زمین کی طرف اتار دیا اور ان کے اندر بنی آدم کی طرح شہوت بھی ڈال دی اور ان کے لیے ایک عورت پیش کی گئی وہ دونوں یہاں تک کہ گناہ میں پڑگئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا دنیا یا آخرت کے عذاب کو اختیار کرلو ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی کی طرف دیکھا اور کہا تو کون سا پسند کرتا ہے جو تو اختیار کرے دوسرے نے کہا کہ دنیا کا عذاب ختم ہونے والا ہے۔ اور آخرت کا عذاب ختم ہونے والا نہیں ہے تو ان دونوں نے دنیا کے عذاب کو اختیار کرلیا انہی دونوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا لفظ آیت ” وما انزل علی الملکین “۔ (31) اسحاق بن راہویہ، عبد بن حمید، ابن ابی الدنیا نے العقوبات میں، ابن جریر اور ابو الشیخ نے العظمہ میں اور حاکم نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ یہ زہرہ (ستارہ) جسے عرب لوگ زہرہ کہتے ہیں اور عجم کے لوگ ناھیذ کہتے ہیں دو فرشتے تھے جو لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا کرتے تھے ایک زہرہ نامی عورت ان دونوں کے پاس آئی ان میں سے ہر ایک نے اپنے ساتھی کو بتائیے بغیر اس عورت کا ارادہ کیا پھر ایک نے اپنے ساتھی سے کہا اے میرے بھائی میرے دل میں ایک خیال ہے میں نے ارادہ کیا تجھ کو وہ بتادوں دوسرے نے کہا بتاؤ شاید کہ میرے دل میں ایسا ہی خیال ہو جیسے تیرے دل میں رہے دونوں اس بات پر متفق ہوگئے (مگر) عورت نے ان دونوں سے کہا کہ مجھ کو بتاؤ اس اسم کے بارے میں جس کے ذریعہ تم دونوں آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہو زمین کی طرف اتر آتے ہو دونوں نے کہا اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے عورت نے کہا کہ میں تم دونوں کے پاس نہیں آسکتی جب تک کہ اس (اسم) کو مجھے نہ سکھاؤ گے۔ ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا اس کو سکھا دے دوسرے نے کہا ہم کو اللہ تعالیٰ کا کتنا سخت عذاب ہوگا دوسرے نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت کے وسیع ہونے کی امید رکھتے ہیں اس سے اس عورت کو سکھا دیا اس عورت نے وہ اسم پڑھا اور آسمان کی طرف اڑ گئی اس کے چڑھنے کی وجہ سے ایک فرشتہ خوف زدہ ہوا جو آسمان میں سے اس نے اپنا سرجھکایا اور اب تک نہیں بیٹھا اللہ تعالیٰ نے اس عورت کو مسخ کردیا تو وہ ستارہ بن گئی۔ (32) امام اسحاق بن راہویہ اور ابن مردویہ نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ زہرہ پر لعنت کرے کیونکہ یہ وہی عورت تھی جس نے ہاروت اور ماروت دونوں فرشتوں کو فتنہ میں ڈالا۔ (33) عبد بن حمید اور حاکم نے ابو العباس (رح) سے روایت کیا کہ زہرہ اپنی قوم میں ایک عورت تھی اس کو اپنی قوم میں بیدخت کہا جاتا تھا۔ (34) عبد الرزاق اور عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ وہ عورت جس نے فرشتوں کو فتنہ میں ڈالا تھا مسخ کردی گئی وہ یہ سرخ ستارہ ہے یعنی زہرہ۔ دو فرشتوں کی آزمائش (35) موحد بن عبد الرزاق، ابن شیبہ، عبد بن حمید، ابن ابی الدنیا نے (العقوبات میں) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے الشعب میں ثوری سے موسیٰ بن عقبہ سے سالم سے ابن عمر اور کعب ؓ سے روایت کیا کہ ملائکہ نے نبی آدم کے اعمال اور ان کے گناہوں کا ذکر کیا ان سے کہا گیا کہ اگر تم ان کی جگہ پر ہوتے تو تم بھی انہیں کی طرح گناہ کرتے اب تم اپنے میں دو کو چن لو انہوں نے ہاروت اور ماروت کو چن لیا ان دونوں سے کہا گیا کہ میں تم کو بنی آدم کی طرف رسول بنا کر بھیجوں گا لیکن میرے اور تمہارے درمیان کوئی رسول نہیں میں تم دونوں کو اتارتا ہوں میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، زنا نہ کرنا اور شراب نہ پینا۔ کعب نے فرمایا کہ اللہ کی قسم اس دن کی شام ابھی نہ ہوئی تھی جس میں ان کو اتارا گیا تھا یہاں تک کہ ان سب کاموں کو کرلیا جن سے ان کو منع کیا گیا تھا۔ (36) حاکم نے حضرت ابن عمر ؓ کے طریق سے روایت کیا کہ حمراء طلوع ہوگئی بعد اس کے جب اس کو دیکھا تو فرمایا نہیں ہے خوش آمدید پھر فرمایا کہ فرشتوں میں سے دو فرشتے ہاروت اور ماروت نے اللہ تعالیٰ سے زمین پر اترنے کا سوال کیا وہ دونوں زمین پر اتر گئے اور لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے تھے جب شام ہوتی تو کلمات پڑھ کر آسمان کی طرف چڑھ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے خوبصورت لوگوں میں سے ان کے مشابہ ایک عورت کو بنا دیا اور ان دونوں میں شہوت بھی ڈال دی ان دونوں نے اس سے پیچھے ہٹنا شروع کیا اور ان کے دلوں میں (اس عورت کی محبت) ڈال دی گئی وہ برابر اس سے (بات چیت) کرتے رہے یہاں تک کہ اس عورت نے ایک مقررہ وقت کا وعدہ ان سے کرلیا وہ عورت اپنے مقررہ وقت پر ان کے پاس آگئی تو اس نے کہا مجھے وہ کلمات سکھا دو جس کے ذریعہ تم اوپر کو چڑھتے ہو انہوں نے وہ کلمات اس کو سکھا دئیے اس نے وہ کلمات پڑھے اور آسمان کی طرف چڑھ گئی (وہاں پہنچ کر) وہ مسخ ہوگئی اور (ستارہ) بنا دی گئی۔ جیسا کہ تم دیکھتے ہو جب شام ہوئی تو ان دونوں نے وہ کلمہ پڑھا تو نہ چڑھ سکے (پھر) ان دونوں کی طرف یہ پیغام بھیجا گیا اگر تم چاہوں تو آخرت کا عذاب (لے لو) یا چاہو تو قیامت تک دنیا کا عذاب (بھگت لو) ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ہم دنیا کے عذاب کو ایک لاکھ گنا (بھی) اختیار کریں گے۔ اس لئے ان دونوں کو قیامت تک عذاب ہوتا رہے گا۔ (37) ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ میں ایک سفر میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے ساتھ اترا۔ جب رات ہوئی تو انہوں نے اپنے غلام سے فرمایا دیکھ لے کیا حمراء (ستارہ) طلوع ہوگیا۔ اس کا طلوع ہونا مبارک نہ ہو اور نہ اللہ تعالیٰ اس کو زندہ رکھے وہ فرشتوں کی ساتھی تھی (کہ دونوں کو مبتلا کیا) فرشتوں نے کہا بنی آدم کی نافرمانیوں کو آپ کس طرح چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ وہ حرام خون کو بہاتے ہیں۔ اور تیری حرام کردہ چیزوں سے تجاوز کرتے ہیں۔ اور زمین میں فساد مچاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ان کو شہوت میں مبتلا کیا ہے۔ شاید کہ اگر میں تم کو شہوات میں مبتلا کر دوں جیسا کہ میں نے ان کو مبتلا کیا ہے۔ تو تم بھی ان کی طرح کرو گے کہنے لگے نہیں (ہم ہرگز ایسا نہیں کریں گے) اللہ تعالیٰ نے فرمایا اپنے فرشتوں میں سے دو کو چن لو۔ تو انہوں نے ہاروت و ماروت کو چن لیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں سے فرمایا میں تم کو زمین کی طرف اتارنے والا ہوں اور تم سے وعدہ لینے والا ہوں کہ تم شرک نہ کرنا، زنانہ کرنا اور خیانت بھی نہ کرنا ان دونوں کو زمین پر اتار دیا اور ان پر شہوت کو ڈال دیا اور ان کے پاس خوبصورت عورت کی شکل میں زہرہ کو پیش کیا وہ ان کے سامنے نہ آئی تو ان دونوں نے اس کا ارادہ کیا وہ کہنے لگی کہ میں ایک دین پر ہوں کہ جب تک کوئی میرے دین کا پیروکار نہ ہو۔ میرے پاس نہیں آسکتا۔ انہوں نے پوچھا تیرا دین کیا ہے ؟ کہنے لگی مجوسیہ (آگ پرست) انہوں نے کہا کیا ہم شرک کریں ؟ یہ وہ چیز ہے جس کا ہم اقرار نہیں کرسکتے پھر وہ ان سے دور رہی جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ پھر وہ ایک دن ان کے سامنے آئی تو ان دونوں نے اس کا ارادہ کیا کہنے لگی جو کچھ تم چاہتے ہو (اس میں کوئی رکاوٹ نہیں) سوائے اس کے کہ میرا شوہر ہے اور میں ناپسند کرتی ہوں کہ اس کو اس معاملہ کی خبر لگ جائے اور وہ بدنام ہوجائے۔ اگر تم دونوں میرے دین کا اقرار کرتے ہو اور یہ شرط بھی ہوگی کہ تم مجھے آسمان کی طرف لے جاؤ گے تو یہ تمہاری خواہش پوری ہوسکتی ہے (ان دونوں نے) اس کے دین کا اقرار کرلیا۔ اور جو چاہتے تھے وہ مطلب سے پورا کیا پھر اس کو ساتھ لے کر آسمان کی طرف چڑھ گئے جب آسمان پر پہنچے تو ان دونوں میں سے اس عورت کو اچک لیا گیا اور ان دونوں کے پر کاٹ دئیے گئے جس سے وہ دونوں ڈرتے ہوئے شرمندہ ہوتے اور روتے ہوئے نیچے گرگئے زمین میں ایک نبی تھے جو وہ اجمعوں کے درمیان دعا کرتے تھے جب جمعہ کا دن ہوتا تو اس کی دعا قبول ہوجاتی۔ ان دونوں نے (آپس میں) کہا کہ ہم فلاں نبی کے پاس جائیں اور ان سے ہم سوال کریں تو وہ ہمارے لئے توبہ کی طلب کرے (شاید توبہ قبول ہوجائے) وہ دونوں ہی نبی کے پاس آئے تو انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے کس طرح زمین والے آسمان والے کے لیے معافی طلب کریں انہوں نے کہا ہم آزمائش میں ڈالے گئے ہیں انہوں نے کہا تم دونوں میرے پاس جمعہ کے دن آؤ وہ دونوں آئے تو انہوں نے کہا کہ تمہارے بارے میں کوئی جواب نہیں دیا گیا دوسرے جمعہ میرے پاس آؤ (پھر) وہ دونوں آئے تو اس نبی نے فرمایا تم دونوں اختیار کرلو تم کو اختیار دیا گیا ہے اگر تم دنیا کی معافی اور آخرت کے عذاب کو اختیار کرو۔ اور اگر تم دنیا کے عذاب کو پسند کرلو تو قیامت کے دن اللہ کے حکم پر پوگے۔ ان دونوں میں سے ایک نے کہا کہ دنیا تھوڑی سی گزری ہے (اور بہر باقی ہے) دوسرے نے کہا افسوس ہے تجھ پر پہلی بات میں میں نے تیری اطاعت کی ہے اب تو میری اطاعت کر۔ (دنیا کا) عذاب فنا ہونے والا ہے باقی رہنے والے عذاب کی طرح نہیں ہے۔ (دوسرے نے پھر) کہا قیامت کے دن بیشک ہم اللہ کے حکم پر ہوں گے میں ڈرتا ہوں کہ وہ ہم کو عذاب دے، پہلے نے کہا نہیں (عذاب نہیں ہوگا میں امید کرتا ہوں) اگر اللہ تعالیٰ نے جان لیا کہ ہم نے دنیا کے عذاب کو اختیار کرلیا آخرت کے عذاب سے ڈرتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ہم پر دونوں (عذابوں) کو جمع نہیں فرمائے گا۔ (پھر) انہوں نے دنیا کے عذاب کو اختیار کیا۔ ان کو آگ سے بھرے ہوئے پرانے کنویں میں لوہے کی چرخیوں میں جکڑ کر الٹا لٹکا دیا گیا جو ان کو اوپر لے جاتی ہیں اور نیچے لے جاتی ہیں۔ ابن کثیر (رح) کہتے ہیں کہ اس روایت کی سند جید ہے یہ روایت معاویہ بن صالح عن نافع کی سند سے زیادہ اثبت اور واضح ہے۔ (38) امام ابن المنذر، ابن ابی حاتم، حاکم (انہوں نے اسے صحیح بھی کہا ہے) اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب بنی آدم کے لوگوں میں گناہ اور اللہ کے ساتھ کفر کا ارتکاب ہوا تو آسمان میں فرشتوں نے کہا کہ اے اس عالم کو پالنے والے آپ نے ان کو اپنی عبادت اور اطاعت کے لیے پیدا کیا تھا اور یہ لوگ ان (گناہوں) میں پڑگئے۔ اور کفر کرنے جانوں کو ناحق قتل کرنے۔ حرام مال کے کھانے، زنا اور چوری اور شراب کے پینے کا ارتکاب کرلیا انہوں نے ان پر بددعا کرنی شروع کی اور ان کو معذود نہ سمجھتے تھے۔ ان سے کہا گیا کہ وہ غیب میں ہیں اس لئے ان کو تم ملامت نہ کرو ان سے کہا گیا تم اپنے میں سے افضل ترین فرشتوں کو چن لو میں ان کو چند چیزوں کا حکم کروں گا اور (چند چیزوں سے) روکوں گا انہوں نے ہاروت اور ماروت کو چنا اور دونوں زمین پر اترے اللہ تعالیٰ نے ان میں بنی آدم جیسی شہوات رکھ دی اور ان کو حکم کیا کہ (صرف) اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ان کو کسی حرام کردہ جان کے قتل کرنے سے اور حرام کا مال کھانے زنا کرنے اور شراب پینے سے بھی روکا گیا یہ فرشتے ایک زمانہ تک زمین پر رہے لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرتے تھے یہ ادریس (علیہ السلام) کا زمانہ تھا۔ اس زمانہ میں ایک عورت تھی جس کا حسن عورتوں میں ایسا تھا جتنا سارے ستاروں میں زہرہ کا حسن تھا یہ دونوں اس (عورت) کے پاس آئے اور اس کی محبت میں گرفتار ہو کر اس کی ہر بات مان لی اور اس سے مطلب براری کا اظہار کیا۔ (یعنی زنا کا ارادہ کیا) اس نے انکار کیا مگر اس صورت میں کہ وہ دونوں اس کے دین کو قبول کرلیں۔ انہوں نے اس سے اس کے دین کے بارے میں پوچھا تو اس نے ان دونوں کے لیے ایک بت نکالا کہ تم اس کی عبادت کرو انہوں نے کہا اس کی عبادت کی ہم کو کوئی ضرورت نہیں۔ وہ دونوں چلے گئے اور ٹھہرے رہے جب تک اللہ پاک نے چاہا پھر دونوں آئے اور اپنی خواہش نفس کا ارادہ کیا اس عورت نے پہلے کی طرح کہا (پھر) دونوں واپس چلے گئے کچھ وقت بعد پھر لوٹ کر آئے اور اپنی خواہش کا اظہار کیا جب اس عورت نے دیکھا کہ بت کی عبادت سے انکار کرتے ہیں تو کہنے لگی کہ تین چیزوں میں سے ایک چیز کو اختیار کرلو۔ یا اس بت کی عبادت کرو یا اس آدمی کو قتل کر دو یہ شراب پی لو۔ انہوں نے کہا یہ تینوں کام حلال نہیں ہیں۔ مگر شراب ان میں سے زیادہ آسان ہے۔ انہوں نے اس میں سے پی لیا۔ (نشہ میں آکر) دونوں عورت پر واقع ہوگئے پھر ڈرنے لگے کہ یہ شخص لوگوں کو ہمارے کام کی خبر نہ دیدے تو اس کو بھی قتل کردیا۔ جب ان سے نشہ اترا تو ان کو معلوم ہوا کہ ہم سے خطا واقع ہوچکی ہے۔ تو انہوں نے آسمان کی طرف چڑھنے کا ارادہ کیا مگر نہ چڑھ سکے اس وقت فرشتوں پر ان کا راز کھل گیا تو فرشتوں کو ان کے گناہ میں واقع ہونے سے تعجب ہوا۔ اور فرشتوں نے جان لیا کہ جو غیب میں ہوتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا کم ہوتا ہے اس کے بعد سے فرشتوں نے زمین میں رہنے والوں کے لیے استغفار کرنا شروع کردیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” والملئکۃ یسبحون بحمد ربھم ویستغفرون لمن فی الارض “ (اور فرشتے) اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتے ہیں اور استغفار کرتے ہیں ہر اس کے لیے جو زمین میں ہے (اب) ان سے کہا گیا کہ دنیا کے عذاب یا آخرت کو اختیار کرلو کہنے لگے کہ دنیا کا عذاب تو ختم ہونے والا ہے۔ اور آخرت کا عذاب ختم نہیں ہوگا اس لئے انہوں نے دنیا کے عذاب کو اختیار کیا۔ ان دونوں فرشتوں کا بابل میں عذاب ہو رہا ہے۔ (39) امام ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آسمان دنیا کے رہنے والوں نے زمین پر رہنے کو اوپر سے جھانک کر دیکھا کہ وہ گناہ کر رہے ہیں انہوں نے عرض کیا اے ہمارے رب زمین والے گناہ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم میرے ساتھ ہو اور وہ مجھ سے غائب ہیں پھر ان سے کہا گیا کہ اپنے میں سے تین کو چن لو انہوں نے تین کو چن لیا کہ وہ زمین کی طرف اتریں گے زمین والوں کے درمیان فیصلے کریں گے اور انسانوں جیسی شہوت ان کے اندر ڈال دی گئی۔ اور ان کو حکم دیا گیا کہ شراب نہ پینا کسی جان کو (ناحق) قتل نہ کرنا۔ زنانہ کرنا اور بتوں کو سجدہ نہ کرنا۔ ان میں سے ایک نے (جانے سے) معذرت کرلی (پھر) دو فرشتے زمین پر اترے ایک خوبصورت عورت ان کے پاس آئی جس کو اناھلیہ کہا جاتا تھا وہ دونوں اس کی محبت میں گرفتار ہوگئے دونوں اس کے مکان پر آئے اور اس سے اپنی خواہش کا ارادہ کیا اس عورت نے ان کو کہا نہیں (یہ تمہاری) خواہش پوری نہ ہوگی یہاں تک کہ تم میری شراب پیو۔ میرے پڑوسی کے بیٹے کو قتل کرو اور میرے بت کو سجدہ کرو اور انہوں نے کہا ہم سجدہ نہیں کریں گے۔ اور انہوں نے شراب پی لی پھر اس (نوجوان) کو قتل کردیا پھر بت کے سامنے سجدہ بھی کرلیا۔ آسمان والوں نے ان کی طرف جھانک کر دیکھا وہ عورت ان سے کہنے لگی کہ تم مجھ کو وہ کلمہ بتاؤ کہ جب تم اس کو کہتے ہو تو اوپر چڑھ جاتے ہو انہوں نے وہ کلمہ اس کو بتادیا وہ اوپر چڑھ گئی اللہ تعالیٰ نے اسے ستارہ بنا دیا اور یہ زہرہ ستارہ وہی عورت ہے۔ حضرت سلیمان بن داؤد (علیہما السلام) کو ان کے پاس بھیجا گیا (پھر) ان کو دنیا اور آخرت کے عذاب میں اختیار دیا گیا تو انہوں نے دنیا کے عذاب کو اختیار کیا (اور) دونوں آسمان اور زمین کے درمیان لٹکے ہوئے ہیں۔ (40) امام ابن جریر نے ابو عثمان النہدی سے حضرت عبد اللہ بن مسعود اور ابن عباس ؓ دونوں حضرات سے روایت کیا کہ جب اولاد آدم کثیر ہوگئی اور انہوں نے نافرمانیاں کیں تو زمین اور پہاڑوں کے فرشتوں نے بددعا کی (اور کہا) کہ اے ہمارے رب ان کو مہلت نہ دے (یعنی ان پر فورا عذاب نازل فرما دے) اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی بھیجی کہ میں نے تمہارے دلوں سے شہوت اور شیطان کو دور کردیا ہے اور اگر میں تم کو محفوظ نہ رکھتا (یعنی ان چیزوں کو نہ روکتا) تو تم بھی ایسا ہی کرتے ان کے دلوں میں یہ بات آئی کہ اگر وہ (کسی آزمائش میں) مبتلا کئے گئے تو وہ (نافرمانی سے) بچے رہیں گے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ تم اپنے افضل فرشتوں میں دو کو چن لو۔ انہوں نے ہاروت اور ماروت کو چن لیا (پھر) ان کو زمین کی طرف اتار دیا گیا۔ ان کی طرف زہرہ اہل فارس کی عورت کی صورت میں اتری جس کو بیدخت کہا جاتا تھا ان دونوں فرشتوں نے اس عورت کے ساتھ بدکاری کی جب ان دو فرشتوں سے بدکاری ہوئی (پھر) ملائکہ ایمان والوں کے لیے استغفار کرنے لگے (پھر) دنیا اور آخرت کے عذاب کا ان کو اختیار دیا گیا تو انہوں نے دنیا کے عذاب کو اختیار کیا۔ (41) عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر، اور ابن المنذر نے زبیری کے طریق سے عبید اللہ بن عبد اللہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں نقل فرمایا کہ یہ دو فرشتے تھے جو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے اتارے گئے تھے اور یہ اس وجہ سے کہ فرشتے بنی آدم کے احکام کا مذاق اڑاتے تھے ایک عورت ان کی طرف مقدمہ لے گئی تو وہ دونوں اس کی وجہ سے ڈر گئے (پھر) وہ اوپر چڑھ گئے بالآخر ان کے آسمان کی طرف چڑھنے کے درمیان اس عورت کا مسئلہ آڑے آگیا (کہ گناہ کرلیجئے) اور اس کو عذاب دنیا اور آخرت کے عذاب کے درمیان اختیار دیا گیا تو انہوں نے دنیا کے عذاب کو اختیار کیا۔ (42) سعید بن منصور نے خصیف (رح) سے روایت کیا کہ میں مجاہد (رح) کے ساتھ تھا ہمارے پاس سے قریش میں سے ایک آدمی گزرا مجاہد نے اس سے کہا کہ تو نے اپنے باپ سے کیا سنا ؟ اس نے کہا میں نے اپنے باپ سے سنا کہ جب ملائکہ نے بنی آدم کے برے اعمال کو دیکھا کیونکہ انسانوں کا کوئی عمل فرشتوں سے چھپا ہوا نہ تھا تو فرشتے ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ بنی آدم کی طرف دیکھو کہ وہ اس اس طرح (برے) اعمال کرتے ہیں کس چیز نے ان کو اللہ تعالیٰ پر جرأت دیدی فرشتے انسانوں کے عیوب بیان کرتے اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا میں نے سن لیا جو کچھ تم بنی آدم کے بارے میں کہتے ہو۔ اپنے میں سے دو فرشتوں کو چن لو اور وہ زمین پر اتارے جائیں گے ان میں بنی آدم کی شہوت رکھی جائے گی انہوں نے ہاروت و ماروت کو چن لیا اور کہنے لگے اے ہمارے رب کہ ان دونوں کی مثل ہمارے درمیان کوئی نہیں ہے دونوں زمین کی طرف اتر گئے اور ان میں بنی آدم کی شہوت ڈال دی گئی اور زہرہ ستارہ ایک عورت کی شکل میں پیش کی گئی جب انہوں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے۔ اور ان کے کانوں اور ان کی آنکھوں پر شہوت چھا گئی۔ جب انہوں نے آسمان کی طرف اڑنے کا ارادہ کیا تو نہ اڑ سکے ان کے پاس ایک فرشتہ آیا اور کہنے لگا کہ تم نے یہ کیا کردیا ہے۔ (اب) تم دنیا کے عذاب کو یا آخرت کے عذاب کو چن لو۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا تیری کیا رائے ہے ؟ اس نے کہا کہ میں دنیا میں عذاب دیا جاؤں پھر (دنیا میں) عذاب دیا جاؤں مجھے نہ زیادہ محبوب ہے اس بات سے کہ میں آخرت میں ایک گھڑی عذاب دیا جاؤں (اب) وہ دونوں زنجیروں میں الٹے لٹکے ہوئے ہیں اور دونوں آزمائش میں ڈوب گئے۔ (43) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو ملائکہ کی طرف کھول دیا تو وہ بنی آدم کے اعمال کی طرف دیکھنے لگے جب انہوں نے ان کو گناہ کرتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگے اب ہمارے رب یہ آدم کی اولاد جن کو آپ نے اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا اپنے فرشتوں کو اس کے لیے سجدہ کرایا۔ اس کو ہر چیز کے نام سکھائے وہ گناہ کا کام کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر تم ان کی جگہ پر ہوتے تو ہم بھی ان کی طرح (برے) اعمال کرتے۔ کہنے لگے آپ کی ذات پاک ہے ہم کو (گناہ کرنا) لائق نہیں ہے۔ ان کو حکم دیا گیا کہ تم دو فرشتوں کو چن لو جو زمین کی طرف اتارے جائیں گے انہوں نے ہاروت اور ماروت کو چن لیا اور ان کو زمین کی طرف اتارا گیا اور ان کے لیے ہر چیز حلال کردی گئی سوائے اس کے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہ کرو گے چوری نہیں کرو گے۔ زنا نہیں کرو گے۔ شراب نہ پیو گے۔ اور کسی جان کو قتل نہ کرو گے جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ مگر حق کے ساتھ (اب) ان کے سامنے ایک عورت پیش کی گئی۔ جس کو آدھا حسن دیا گیا تھا جس کو بیدخت کہا جاتا تھا جب انہوں نے اس کو دیکھا تو اس سے خواہش نفس کا ارادہ کیا کہنے لگی یہ ممکن نہیں مگر یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرو شراب پیو کسی جان کو (ناحق) قتل کرو اور اس بت کو سجدہ کرو انہوں نے اس سے کہا ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کریں گے ایک نے دوسرے سے کہا اس کی طرف واپس لوٹ جاؤ۔ وہ کہنے لگی نہیں (تمہارا مقصد پورا نہیں کروں گی) مگر یہ کہہ تم شراب پی لو تو دونوں نے پی لی یہاں تک کہ مدہوش ہوگئے۔ ان کے پاس ایک مانگنے والا آیا انہوں نے اس کو قتل کردیا جب ان فرشتوں سے سب کچھ ہوگیا اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے لئے آسمان کو کھول دیا کہنے لگے آپ کی ذات پاک ہے آپ زیادہ جاننے والے ہیں سلیمان بن داؤد (علیہما السلام) کے پاس اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ ان دونوں کو دنیا کا عذاب یا آخرت کے عذاب کا اختیار دے دو ۔ تو انہوں نے دنیا کے عذاب کو اختیار کرلیا اور ان کو بختی اونٹ کی گردنوں کی طرح ان کے ٹخنوں سے گردنوں تک بیڑیاں ڈال دی گئیں۔ اور ان کو بابل (شہر) میں یہ سزا دی گئی۔ (44) امام ابن ابی الدنیا نے ذم الدنیا میں اور بیہقی نے الشعب میں حضرت ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا دنیا سے ڈرو کیونکہ وہ ہاروت اور ماروت سے زیادہ جادو کرنے والی ہے۔ (45) الخطیب نے مالک سے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میرے بھائی عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے حواریوں کے گروہ دنیا سے ڈرو یہ تم پر جادو نہ کردے اللہ کی قسم ہاروت و ماروت سے زیادہ جادو کرنے والی ہے۔ اور تم جان لو کہ بلاشبہ دنیا جانے والی ہے اور آخرت آنے والی ہے اور ہو ایک کے ان دونوں میں سے بیٹے ہیں سو تم دنیا کے بیٹے نہ بنو آخرت کے بیٹے بنو آج کا دن عمل کا ہے حساب نہیں ہے۔ اور کل حسان ہوگا عمل نہیں ہوگا۔ (46) حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں حضرت عبد اللہ بن بسر مازنی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا دنیا سے ڈرو قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے وہ ہاروت و ماروت سے زیادہ جادو کرنے والی ہے۔ (47) امام ابن جریر نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ جب بنی آدم میں سے لوگ گناہوں میں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر میں واقع ہوگئے تو فرشتوں نے آسمان میں کہا اے اس عالم کے رب آپ نے ان کو اپنی عبارت اور اطاعت کے لیے پیدا فرمایا تھا مگر وہ کفر پر سوار ہوگئے اور جانوں کو قتل کر رہے ہیں حرام مال کھا رہے ہیں چوری زنا اور شراب نوشی کر رہے ہیں تو انہوں نے ان پر بد دعا کرنا شروع کردی اور ان کو معذور نہیں سمجھا۔ فرشتوں سے کہا گیا کہ یہ غیب میں ہیں انہوں نے انسانوں کا عذر قبول نہ کیا ان سے کہا گیا کہ اپنے میں سے دو فرشتوں کو چن لو میں ان کو اپنے حکموں کے ساتھ حکم کروں گا اور ان کو اپنی نافرمانی سے روکوں گا انہوں نے ہاروت و ماروت کو چن لیا ان کو زمین کی طرف اتار دیا گیا اور ان میں بنی اسرائیل جیسی شہوات رکھ دی گئیں اور ان کو حکم کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ان کو روک دیا گیا کہ کسی جان کو قتل نہ کرو جس کا قتل کرنا حرام ہے۔ اور حرام مال نہ کھانا اور چوری نہ کرنا زنانہ کرنا اور شراب نہ پینا اور وہ اس (عہد) پر زمین میں ایک زمانے تک رہے لوگوں کے درمیان فیصلے کرتے تھے اور یہ ادریس (علیہ السلام) کا زمانہ تھا۔ زہرہ نامی عورت کا حسن اس زمانہ میں ایک عورت تھی جو سارے لوگوں میں اس کا حسن ایسا تھا جیسے ستاروں میں زہرہ کا حسن ہے۔ اس نے ان کے پاس آنے سے انکار کردیا۔ تو دونوں اس کی ہر بات کے سامنے جھک گئے اور اس سے خواہش نفس کا ارادہ کیا اس نے انکار کیا کہ جب تک تم میرے حکم اور میرے دین پر نہ آجاؤ گے (میں تنہارے پاس نہ آؤں گی) انہوں نے اس کے دین کے بارے میں پوچھا اس نے ایک بت نکالا اور کہنے لگی کہ میں اس کی عبادت کرتی ہوں انہوں نے کہا کہ ہمیں اس کی عبادت کی کوئی ضرورت نہیں (یہ کہہ کر) چلے گئے اور صبر کیا جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا پھر اس کے پاس آئے اور اس کی باتوں کو تسلیم کرلیا اور اس سے خواہش نفس کا ارادہ کیا کہنے لگی یہ ممکن نہیں جب تک اس دین کو اختیار نہ کرو جس پر میں ہوں انہوں نے کہا اس کی عبادت کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ بت کی عبادت سے انکار کر رہے ہیں تو کہنے لگی کہ تین باتوں میں سے ایک بات کو اختیار کرلو یا بت کی عبادت کرو یا ایک شخص کو قتل کر دو یا اس شراب کو پی لو کہنے لگے کہ یہ ایک (کام) ہمارے لائق نہیں لیکن شراب پینا آسان ہے۔ دونوں نے شراب کو پی لیا یہاں تک کہ جب بےہوشی طاری ہوگئی تو اس عورت پر واقع ہوگئے ایک شخص ان کے پاس سے گزرا جبکہ یہ بدکاری میں مشغول تھے وہ اس بات سے ڈرے کہ یہ ہمارا راز فاش نہ کر دے اس کو قتل کردیا۔ جب ان سے نشہ دور ہوا تو ان کو گناہوں میں واقع ہونے کا پتہ چلا اب انہوں نے آسمان کی طرف چڑھنے کا ارادہ کیا مگر نہ چڑھ سکے اور ان کے اور آسمان کے فرشتوں کے درمیان پڑا پردہ اٹھا تو فرشتوں نے ان کے گناہوں میں واقع ہونے کو دیکھا اور جان لیا کہ جو شخص غیب میں ہوتا ہے اس میں اللہ کا خوف کم ہوتا ہے۔ پھر انہوں نے زمین والوں کے لیے استغفار کرنا شروع کردیا جب وہ گناہوں میں واقع ہوگئے تو ان سے کہا گیا کہ دنیا کے عذاب کو یا آخرت کے عذاب کو اختیار کرلو کہنے لگے دنیا کا عذاب (ایک دن) ختم ہوجائے گا۔ اور آخرت کا عذاب حتم نہ ہوگا اس لئے انہوں نے دنیا کے عذاب کو اختیار کیا اور ان کو بابل شہر میں عذاب دیا گیا۔ (48) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ ہاروت اور ماروت زمین کی طرف اتارے گئے۔ جب ان کے پاس کوئی آتا جادو سیکھنے کے لیے تو اس کو سختی کے ساتھ منع کرتے تھے اور اس کو کہتے تھے کہ ہم آزمائش ہیں تم کفر نہ کرو اور یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے خیر، شر، کفر اور ایمان کو جان لیا اور انہوں نے یہ بھی جان لیا کہ جادو کفر میں سے ہے۔ جب کوئی آدمی (بات ماننے سے) انکار کردیتا تو وہ دونوں فرشتے اس کو حکم کرتے کہ فلاں جگہ میں آجائے۔ جب وہ ان کے پاس آتا تو شیطان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا اور وہ اس کو (جادو) سکھا دیتا اور اگر اس (جادو) کو سیکھ لیتا تو (ایمان کا) نور اس سے نکل جاتا اور وہ اس کی طرف دیکھتا جو آسمان میں پھیلا ہوا ہوتا۔ جادو سے متعلق ایک عورت کا واقعہ (49) امام ابن ابی حاتم، حاکم اور بیہقی نے السنن میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ دومتہ الجندل کے رہنے والوں میں سے ایک عورت میرے پاس آئی جو رسول اللہ ﷺ کو ان کی وفات کے فورا بعد آپ سے جادو کے متعلق پوچھنے کے لیے آئی تھی جس پر ان سے عمل نہیں کیا تھا کہنے لگی میرا شوہر تھا جو مجھ سے غائب ہوگیا میرے پاس ایک بڑھیا آئی تو میں نے اس سے شکایت کی وہ کہنے لگی اگر تو وہ کام کرے جو میں تجھ کو حکم کروں تو میں اس کو تیرے پاس لے آؤں گی۔ جب رات ہوئی تو وہ میرے پاس دو کالے کتے لے آئیں ایک پر میں سوار ہوئی اور دوسرے پر وہ (عورت) سوار ہوئی کچھ وقت گزرا کہ ہم بابل پہنچ گئے اچانک میں نے دو آدمی دیکھے جو (الٹے) لٹکے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا تو کس لئے آئی ہے۔ میں نے کہا کیا تم جادو جانتے ہو انہوں نے کہا ہم آزمائش ہیں تو کفر نہ کر۔ اور واپس لوٹ جا میں نے انکار کیا اور کہا نہیں (میں واپس نہیں جاؤں گی) انہوں نے کہا اس تنور کی طرف چلی جا اس میں پیشاب کرلے پھر آجا میں چلی گئی میری کھال کانپ رہی تھی اور میں ڈر رہی تھی پھر میں اس کے پاس لوٹ آئی میں نے کہا میں نے ایسا کرلیا ہے انہوں نے کہا تو نے کیا دیکھا ؟ میں نے کہا میں نے کوئی چیز نہیں دیکھی کہنے لگے تو نے جھوٹ بولا تو نے (پیشاب) نہیں کیا۔ اپنے شہر واپس چلی جا اور کفر نہ کر، بلاشبہ تو اپنے دین پر ہے میں نے (واپس جانے سے) انکار کیا۔ پھر انہوں نے کہا اس تنور کی طرف چلی جا اور اس میں پیشاب کردے میں گئی اور اس میں پیشاب کردیا میں نے ایک گھڑ سوار کو دیکھا جو لوہے کے ساتھ اپنے چہرہ کو ڈھانپے ہوئے تھا جو مجھ سے نکلا یہاں تک کہ آسمان میں چلا گیا اور مجھ سے غائب ہوگیا۔ یہاں تک کہ میں نے اس کو نہیں دیکھا۔ میں ان کے پاس آئی اور کہا کہ میں نے پیشاب کرلیا انہوں نے کہا تو نے کیا دیکھا ؟ میں نے کہا کہ میں نے ایک گھڑ سوار کو دیکھا لوہے کے ساتھ اپنے چہرے کو ڈھانپے ہوئے تھا جو مجھ سے نکلا اور آسمان میں چلا گیا یہاں تک کہ وہ مجھ سے غائب ہوگیا کہنے لگے تو نے سچ کہا یہ تیرا ایمان تھا جو تجھ سے نکل گیا اب تو چلی جا میں نے اس عورت سے کہا اللہ کی قسم مجھے تو کوئی چیز معلوم نہیں ہوئی اور انہوں نے مجھ سے کچھ بھی نہیں کہا۔ اس بوڑھی عورت نے کہا اگر تو معلوم کرنا چاہتی ہے۔ تو یہ گندم لے اور اس کو بودے میں نے بودیا پھر مجھے کہا گیا اس کو دیکھ بھال کر پھر کہا گیا اس کو کاٹ دے تو میں نے کاٹ دیا پھر مجھے کہا گیا اسے صاف کر میں نے صاف کردیا۔ پھر مجھے کہا گیا اس کو خشک کر تو میں نے اس کو خشک کردیا پھر مجھے کہا گیا اس کو پیس دے تو میں نے پیس دیا پھر مجھ سے کہا گیا اس کی روٹی پکا تو میں نے روٹی پکا دی۔ جب میں دیکھا کہ میں نے کوئی چیز اٹھاتی ہوں مگر وہ میرے ہاتھ میں سے گر جاتی ہے اور اسے امیر المؤمنین اللہ کی قسم میں شرمندہ ہوں نہ پہلے میں نے کبھی یہ کام کیا اور نہ آئندہ کروں گی۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب سے پوچھا اور وہ (صحابہ) اس دن کثیر تعداد میں تھے مگر کسی نے اس کو جواب نہ پایا۔ اور ہر ایک اس بارے میں فتوی دینے سے ڈرتا تھا جس کے بارے میں وہ اس کو نہ چانتا ہو مگر یہ کہ ابن عباس ؓ اور بعض دوسرے لوگ جو ان کے پاس تھے انہوں نے اس سے کہا کہ اگر تیرے والدین زندہ ہوتے یا ان دونوں میں سے ایک بھی زندہ ہوتا تو تیرے لئے کافی ہوتے۔ (یعنی تمہارے اس جواب میں کفایت کرتے) (50) امام ابن المنذر نے اوزاعی کے طریق سے ہارون بن رباب (رح) سے روایت کیا کہ میں عبد الملک بن مروان کے پاس آیا اور اس کے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا جس کے لیے تکیہ لگایا گیا تھا اور وہ اس پر ٹیک لگائے ہوئے تھا۔ انہوں نے کہا یہ وہ آدمی ہے جس نے ہاروت و ماروت سے ملاقات کی ہے۔ میں نے کہا یہ شخص کہا ہاں ! میں نے (اس آدمی) سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے ہم سے (واقعہ) بیان کر اس نے بیان کرنا شروع کیا اور وہ (اپنے) آنسوؤں پر قابو نہ پاسکا (یعنی اس کے آنسو بہتے رہے) کہنے لگا کہ میں نو عمر لڑکا تھا اور میں نے اپنے باپ کو نہیں پایا اور میری ماں تھی جو مجھ کو میری ضرورت کے مطابق مال دیتی تھی میں اس کو خرچ کرتا تھا اس کو ضائع کرتا تھا میری ماں اس کے بارے میں مجھ سے نہیں پوچھتی تھی (کہ تو نے مال کہاں خرچ کیا) جب عرصہ دراز گزر گیا اور والدہ بوڑھی ہوگئی تو میں نے اس بات کو پسند کیا کہ میں اس بارے میں جان لوں کی یہ اموال میری ماں کے پاس کہاں سے آتا تھا میں نے ایک دن اس سے کہا کہ یہ اموال تیرے پاس کہاں سے آتا ہے کہنے لگی کہ اے میرے بیٹے کھا اور مزے کر اور اس بات میں سوال نہ کر یہ تیرے لئے بہتر ہے میں نے اس پر اصرار کیا تو کہنے لگی کہ تیرا باپ جادو گر تھا میں برابر پوچھتا رہا اور اصرار کرتا رہا اس نے مجھے اس گھر میں داخل کردیا جس میں بہت مال تھا۔ کہنے لگی اے میرے بیٹے یہ سارا تیرے لئے ہے کھا اور مزے کر اور اس بارے میں سوال نہ کر میں نے کہا میں ضرور جانوں گا کہ یہ (مال) کہاں سے آیا۔ (پھر) کہنے لگی کہ اے میرے بیٹے کھا اور مزے کر اور (اس بارے میں) سوال کر یہ تیرے لئے بہتر ہے میں نے (پھر) اس پر اصرار کیا تو کہنے لگی کہ تیرا باپ جادوگر تھا اور یہ اموال اس نے جادو سے جمع کئے۔ کہنے لگا میں نے کھایا جو کچھ میں نے کھایا اور گزر چکا جو کچھ گزر چکا پھر میں نے سوچا کہ عنقریب یہ مال ختم ہوجائے گا۔ سو مجھے چاہئے کہ میں بھی جادوکو سیکھوں اور (مال) جمع کر دوں جیسے میرے باپ نے جمع کیا تھا۔ میں نے اپنی ماں سے کہا میرے باپ کے زمین والوں میں سے کون سے لوگ خاص اور اس کے دوست تھے کہنے لگے فلاں آدمی جو اس مکان میں ہے میں تیار ہو کر اس کے پاس آیا اور اس کو سلام کیا اس نے کہا کون آدمی ہے ؟ میں نے کہا فلاں کا بیٹا ہوں جو تیرے دوست تھے اس نے خوش آمدید کہا (اور کہا) کس لئے آئے ہو تیرے باپ نے اتنا مال چھوڑا ہے (اب تجھے کس کی طرف کوئی حاجت نہیں ہوگی۔ میں نے کہا میں تیرے پاس جادو سیکھنے آیا ہوں کہنے لگا اے میرے بیٹے اس کا ارادہ نہ کر اس میں خیر نہیں میں نے کہا میں ضرور سیکھوں گا اس نے کہا اس نے مجھ کو قسم دی اور اصرار کیا کہ اس کو طلب نہ کر اور اس کا ارادہ نہ کر میں نے کہا میں ضرور سیکھوں گا۔ کہنے لگا اچھا جب تو بات نہیں مانتا تو اب چلا گیا اور جب فلاں دن ہو تو مجھ کو یہاں مل جانا میں واپس چلا گیا اور وقت مقرر پر پھر اس نے آکر ملا پھر اس نے مجھ کو قسم دی اور مجھ کو منع کیا اور کہنے لگا کہ سحر کا ارادہ نہ کر اس میں خیر نہیں۔ میں نے انکار کیا جب اس نے دیکھا کہ میں نے (بات ماننے سے) انکار کردیا ہے تو اس نے کہا میں تجھ کو ایک ایسی جگہ میں داخل کروں گا تو اس میں ضرور اللہ کا ذکر نہیں کرنا۔ (یہ کہہ کر) اس نے مجھے زمین کے نیچے ایک سرنگ میں داخل کردیا اور محسوس نہ ہوئی تین سو سے زیادہ سیڑھیاں داخل ہوتا چلا گیا (وہاں) دن کی روشنی محسوس نہ ہوئی تھی جب میں انتہائی نیچے پہنچا تو اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ ہاروت اور ماروت زنجیروں میں (بندھے ہوئے) ہوا میں لٹکے ہوئے ہیں ان کی آنکھیں ڈھال کی مانند تھی۔ اور ان کے سر کے بارے میں کچھ ذکر کیا گیا جس کو میں یاد نہیں رکھ سکا اور ان کے دو پر تھے۔ جب میں نے ان دونوں کی طرف دیکھا تو میں نے کہا ” لا الہ الا اللہ “ (یہ سن کر) وہ اپنے پروں کو سختی کے ساتھ مارے اور کچھ دیر تک زور سے چلائے پھر چپ ہوگئے پھر میں نے کہا ” لا الہ الا اللہ “ پھر انہوں نے ایسا ہی کیا پھر میں نے تیسری مرتبہ ایسے ہی کیا پھر انہوں نے ایسے ہی کیا پھر وہ خاموش ہوگئے اور میں بھی خاموش ہوگیا۔ پھر انہوں نے میری طرف دیکھا اور مجھ سے کہنے لگے آدمی ہے میں نے کہا ہاں ! میں نے کہا تمہیں کیا ہوا جب میں نے اللہ کو یاد کیا اور تم نے جو کچھ کیا کہنے لگے یہ وہ نام ہے جس کو ہم نے نہیں سنا جب سے ہم عرش کے نیچے سے نکلے ہیں کہنے لگے کون سی امیت سے ہو میں نے کہا محمد ﷺ کی امت سے کہنے لگے کیا ان کی بعثت ہوگئی ؟ میں نے کہا ہاں ! کہنے لگے کیا لوگ ایک ہی شخص پر جمع ہوگئے ہیں یا وہ مختلف ہیں۔ میں نے کہا کہ وہ ایک شخص پر جمع ہوگئے ہیں یہ سن کر ان کی تکلیف ہوئی (پھر) کہنے لگے لوگوں کے آپس میں تعلقات کیسے ہیں ؟ میں نے کہا برے ہیں اس بات سے وہ دونوں خوش ہوئے۔ پھر کہنے لگے کیا بحیرۃ الطبریہ تک عمارتیں پہنچ گئیں ہیں ! میں نے کہا نہیں اس بات سے وہ دونوں غمگین ہوئے پھر وہ چپ ہوگئے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوا جب میں نے تم کو لوگوں کے ایک شخص پر جمع ہونے کی خبر دی تو یہ بات تم دونوں کو بری لگی ؟ کہنے لگے کہ قیامت قریب نہیں ہوگی جب تک لوگ ایک آدمی پر جمع ہیں (پھر) میں نے پوچھا کہ تم کیوں خوش ہوئے جب میں تمہیں ان کا آپس میں اختلاف کی خبر دی۔ کہنے لگے کہ ہمیں (اس سے) قیامت کے قریب ہونے کی امید ہوئی۔ پھر میں نے پوچھا کہ تم کیوں غمگین ہوئے جب میں نے بتایا کہ عمارتیں بحیرہ طبریہ نہیں پہنچیں کہنے لگے کہ قیامت کبھی بھی قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ عمارتیں بحیرہ طبریہ تک پہنچ جائیں میں ان سے کہا مجھ کو نصیحت کرو کہنے لگے کہ اگر تو اس بات کی طاقت رکھے کہ نہ سوئے تو ایسا کرلینا کیونکہ (یہ) کام خوش بختی کا ہے۔ (51) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ہاروت و ماروت کا واقعہ یہ ہے کہ فرشتوں نے بنی آدم کے ظلم پر بڑا تعجب کیا حالانکہ ان کے پاس رسول، کتابیں اور دلائل آچکے ہیں ان کے رب نے ان سے فرمایا تم اپنے میں سے دو فرشتوں کو چن لو جو زمین میں بنی آدم کے درمیان فیصلہ کریں گے انہوں نے ہاروت و ماروت کو چن لیا۔ ان کو (زمین پر) اتارنے کے وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم نے بنی آدم کے بارے میں تعجب کیا ان کے ظلم اور ان کی معصیت پر حالانکہ ان کے پاس رسول اور کتابیں ہیں یکے بعد دیگرے آتی تھیں اور میرے اور تمہارے درمیان کوئی پیغام رساں نہیں ہے۔ تم اس طرح اور اس طرح کرنا اور اس طرح کو چھوڑ دینا (پھر) ان کو حکم بھی فرمایا اور منع بھی فرمایا پھر اس بات پر ان کو نیچے اتار دیا۔ ان دونوں سے بڑھ کر فیصلے کئے (اور) وہ دن کو بنی آدم کے درمیان فیصلے کرتے تھے جب شام ہوئی تو اوپر چڑھ جاتے اور وہ فرشتوں کے ساتھ رہتے اور جب صبح ہوتی تو (نیچے) اتر آتے اور انصاف کرتے رہے یہاں تک کہ ان پر خوبصورت عورت کی شکل میں زہرہ ستارہ ان کے پاس آیا وہ جھگڑا کرنے لگی انہوں نے اس کے خلاف فیصلہ کردیا۔ جب وہ عورت چلی گئی تو ہر ایک نے اپنے دل میں (عورت کی محبت کو) پایا ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کیا جیسے میں محسوس کر رہا ہوں تم بھی محسوس کر رہے ہو اس نے کہا ہاں (پھر) ان دونوں نے اس عورت کو بلایا تو ہمارے پاس آجا ہم تیرے حق میں فیصلہ کردیں گے وہ واپس آئی تو انہوں نے اس کے حق میں فیصلہ کردیا اور اس سے کہا تو ہمارے پاس آنا جب وہ آئی تو انہوں نے اپنی شرمگاہوں کو اس کے لیے کھول دیا ان کے لوں میں شہوت تو تھی مگر ایسی شہوت نہ تھی جیسے انسانوں میں عورتوں کی شہوت اور لذت ہوتی ہے۔ جب وہ اس کام کو پہنچ گئے اور اس کام کو حلال کرلیا اور ہم نے ان کو فتنے میں ڈال دیا تو وہ زہرہ (عورت) اڑ گئی اور جہاں اس کی جگہ تھی وہاں لوٹ گئی۔ جب شام ہوئی اور وہ اوپر چڑھنے لگی تو ان کو ڈانٹ دیا گیا اور (اوپر چڑھنے کی) اجازت نہیں دی گئی تو ان کے پر ان کو اوپر نہ اٹھاسکے (پھر) انہوں نے بنی آدم میں سے اس آدمی سے مدد کی درخواست کی اس کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کیجئے اس نے کہا کہ کس طرح زمین والے آسمان والوں کے لیے دعا کریں کہنے لگے کہ ہم نے اپنے رب سے سنا ہے کہ آسمان میں تیرا ذکر خیر کے ساتھ فرما رہے تھے اس نے ان دونوں سے ایک دن دعا کرنے کا وعدہ کیا جب اس نے (وعدہ کے مطابق) دعا کی تو اس کی دعا کو قبول کرلیا گیا اور ان کو دنیا کے عذاب یا آخرت کے عذاب کے بارے میں اختیار دیا گیا کہ جس کو چاہو اختیار کرلو) ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی کی طرف دیکھا پھر دونوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ آخرت میں اللہ کے عذاب کے گروہ اتنے ہمیشہ ہیں ہاں دنیا کے ساتھ سات مثل (پھر) ان دونوں کو بابل شہر میں جانے کا حکم دیا گیا اور وہاں ان کو عذاب ہوتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ لٹکے ہوئے ہیں لوہے کی زنجیروں میں اور اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں۔ (52) امام زبیر بن بکار نے الموفقیات ابن مردویہ اور دیلمی نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ سے مسخ شدہ چیزوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ تیرہ چیزیں ہیں ہاتھی، ریچھ، خنزیر، بندر، بام مچھلی، گوہ، چمگاڈر، بچھو، سیاہ کیڑا، مکڑی خرگوش، سہیل، ستارہ زہرہ ہے۔ پھر پوچھا گیا یا رسول اللہ ان کے مسخ ہونے کا کیا سبب ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاتھی ایک ظالم لواطت کرنے والا شخص تھا کہ کسی خشک یا گیلی چیز کو نہ چھوڑتا تھا اور ریچھ عورت تھی جو لوگوں کو اپنی طرف بلاتی تھی۔ اور خنزیر ان انصاری میں سے تھا جنہوں نے دستر خوان اترنے کا سوال کیا تھا جب وہ نازل ہوگیا تو کفر کرنے لگے اور بندر یہودی ہیں جنہوں نے ہفتہ کے دن میں زیادتی کی اور جریث (یعنی بام مچھلی) دیہاتی آدمی تھا جو حاجیوں کا مال ٹیڑھے منہ کی لکڑی سے چرایا کرتا تھا۔ اور چمگاڈر ایک مرد تھا جو کھجور کے اوپر پھل چوری کرتا تھا اور بچھو وہ آدمی تھا جو اپنی زبان سے کسی کو سلام نہیں کرتا تھا اور دعوص (یعنی پانی کا کیڑا) چلغوزہ تھا جو دوستوں کے درمیان جدائی ڈال دیتا تھا اور مکڑی وہ عورت تھی جس نے اپنے شوہر پر جادو کردیا۔ اور خرگوش ایک ایسی عورت تھی جو حیض سے پاک نہیں ہوتی تھی اور سہیل ستارہ یمن سے عزر اکٹھا کرنے والا ایک شخص تھا اور زہرہ ستارہ بنی اسرائیل کے بعض بارشاہوں کی لڑکی تھی جس کے ذریعہ ہاروت و ماروت فتنہ میں مبتلا ہوئے۔ (53) امام طبرانی نے الاوسط میں ضعیف سند کے ساتھ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ جبرائیل (علیہ السلام) نبی اکرم ﷺ کے پاس جس وقت تشریف لایا کرتے تھے اس وقت کے علاوہ دوسرے وقت میں ایک مرتبہ حاضر خدمت ہوئے رسول اللہ ﷺ ان کی طرف اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا اے جبرائیل ! کیا بنات ہے میں تمہارا رنگ بدلا ہوا دیکھتا ہوں انہوں نے کہا کہ میں آپ کے پاس نہیں آیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آگ کی چابیاں لانے کا حکم فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے جبرائیل ! مجھ کو آگ کی صفت بیان کر اور مجھ کو جہنم کی کیفیت بھی بتا جبرائیل (علیہ السلام) نے بیان فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہنم کو حکم فرمایا تو اس کو ہزار سال تک جلایا گیا (اس کی آگ) سرخ ہوگئی پھر حکم فرمایا تو پھر ہزار سال تک جلایا گیا تو (اس کی آگ) سیاہ ہوگئی اب وہ (جہنم) اندھیری سیاہ ! اس کی چنگاریاں روشن نہیں ہوئیں اور نہ اس کے شعلے بجھتے ہیں اور اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر سوئی کے سوراخ کے برابر جہنم کو کھول دیا جائے تو اس کی گرمی سے زمین پر رہنے والے مرجائیں اور اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر جہنم کے دروغوں میں سے ایک دروغہ دنیا میں ظاہر ہوجائے اور وہ اس کو دیکھ لیں تو اس کے چہرہ کی بدصورتی اور اس کی بد بو سے تمام زمین والے مرجائیں۔ اور اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر دوزخ والوں کے زنجیروں کے کڑوں میں ایک کڑا جس کی صفت اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمائی ہے۔ دنیا کے پہاڑوں پر رکھ دیا جائے تو یہ پہاڑ لینے لگ جائیں اور ان میں سورخ کرکے سب سے نیچے والی زمین تک پہنچ جائیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے جبرائیل (آپ کا یہ بیان کرنا) میرے لئے کافی ہے رسول اللہ ﷺ نیجبرائیل کی طرف دیکھا کہ وہ رو رہے تھے۔ آپ نے فرمایا اے جبرائیل رو رہے ہو حالانکہ اللہ کی بارگاہ میں تیرا بڑا رتبہ ہے۔ جبرائیل نے کہا میں کیوں نہ روؤں میں نے رونے کا زیادہ مستحق ہوں شاید کے میں اللہ تعالیٰ کے علم میں اس حال کے علاوہ دوسرے حال میں ہوں جس پر میں اب ہوں اور میں نہیں جانتا کہ میں بھی ابلیس کی طرح (کسی آزمائش میں) مبتلا کیا جاؤں حالانکہ وہ بھی فرشتوں میں سے تھے۔ اور میں نہیں جانتا کہ میں بھی ہاروت و ماروت کی طرح مبتلا کیا جاؤں تو (اس بات پر) رسول اللہ ﷺ بھی رونے لگے اور جبرائیل بھی روتے رہے۔ دونوں برابر روتے رہے یہاں تک کہ ان کو آواز دی گئی اے جبرائیل اور اے محمد) ﷺ کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تم دونوں کو اس بات سے امن دے دیا ہے کہ تم اس کی (یعنی اللہ تعالیٰ کی) نافرمانی کرو۔ واما قولہ تعالیٰ : وما یعلمن من احد حتی یقولا انما نحن فتنۃ : ترجمہ : وہ دونوں نہیں سکھاتے تھے کسی کو جب تک یوں نہ کہہ دیتے کہ تمہارا وجود ایک فتنہ ہے۔ (54) امام ابن جریر نے حسین اور قتادہ (رح) دونوں حضرات سے روایت کیا کہ وہ دونوں (یعنی ہاروت و ماروت) جادو سکھایا کریں یہاں تک کہ کہہ دیا کریں کہ ہم آزمائش ہیں سو تم کفر نہ کرو (کیونکہ جادو کرنا کفر ہے) (55) امام ابن جریر نے قتادہ (رح) نے فرمایا کہ ” انما نحن فتنۃ “ سے مراد بلا ہے (یعنی آزمائش) وأما قولہ : فلا تکفر : جادو گرو کا ہن کی بات ماننا حرام ہے (56) امام البزار اور حاکم نے عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جو شخص کسی کاہن یا جادوگر کے پاس آیا اور جو کچھ اس نے کہا اس کو سچا مان لیا تو اس نے اس دین کا انکار کیا جو محمد ﷺ پر اتارا گیا۔ (57) امام البزار نے عمران بن حصین رضیا للہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جس نے بدشگونی کی یا اس کے لیے بدشگونی (یعنی پڑی فال) لی گئی یا جس نے کہانت کا عمل کیا اس کے لیے کہانت کا عمل کیا گیا جو جادو کرے یا اس کے لیے جادو کیا گیا اور جو شخص (کسی پر جادو کرنے کے لئے) سخت گرہ لگائے اور جو شخص کسی غیبت کے خبریں بتانے والے کے پاس آئے اور اس کی باتوں کو سچا مان لے تو اس نے اس دین کا انکار کیا جو محمد ﷺ پر اتارا گیا۔ (58) امام عبد الرزاق نے صفوان بن سلیم ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص جادو میں سے تھوڑا یا زیادہ سیکھ لیا تو یہ اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اس کا آخری عہد ہوگا۔ وأما قولہ : فیتعلمون منھما : (الآیہ) (59) عبد بن حمید اور ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فیتعلمون منھما یفرقون بہ بین المرء وزوجہ “ سے مراد ہے کہ وہ جادو کے ذریعہ میاں بیوی کو جدا کردیتے تھے اور ان میں بغض پیدا کردیتے تھے۔ (60) امام ابن جریر نے سفیان (رح) سے روایت کیا کہ ” الا باذن اللہ “ سے مراد ہے ” بقضاء اللہ “ یعنی اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے ساتھ۔ (61) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ” ولقد علموا “ یعنی اہل کتاب جانتے تھے جو وہ اللہ کی کتاب میں سے پڑھتے تھے اور اس میں جو ان سے وعدہ لیا گیا تھا کہ بلاشبہ جادوگر کے لیے قیامت کے دن اللہ کے نزدیک کوئی حصہ نہ ہوگا۔ (62) امام مسلم نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ شیطان اپنے تخت کو پانی پر بچھاتا ہے پھر اپنے لشکروں کو لوگوں میں بھیجتا ہے اور ان سے اقرار لیتا ہے۔ سب سے قریبی اس کا وہ شیطان ہوتا ہے جو بہت بڑا فتنہ برپا کر کے آتا ہے۔ (ان میں سے ایک آکر) کہتا ہے میں فلاں کے ساتھ برابر لگا رہا یہاں تک کہ میں نے (جب) اس کو چھوڑا تو اس طرح اور اس طرح کہہ رہا تھا (اس کے جواب میں) ابلیس کہتا ہے کہ اللہ کی قسم تو نے کچھ بھی نہیں کیا ان میں سے ایک آتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں نے اس کو نہیں چھوڑا یہاں تک کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی۔ ابلیس اس کو اپنے قریب کرلیتا ہے اور اس کو اپنے ساتھ چمٹا لیتا ہے اور کہتا ہے ہاں تو نے بڑا کارنامہ انجام دیا۔ (63) امام ابو الفرح الاصبہانی نے الاغانی میں عمرو بن دینار (رح) سے روایت کیا کہ حسن بن علی بن ابی طالب ؓ کے ذریعہ ابی قیس سے فرمایا کہ تیرے لئے حلال کرتا ہوں اس لئے اگر تو میرے اور میرے نفس کے درمیان جدائی ڈال دے اور کیا تو نے عمر بن خطاب ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ میں میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالوں یا ان کی طرف تلوار لے کو چلوں۔ (64) ابن ماجہ نے ابو رحم ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دو (مرد و عورت) کے نکاح میں سفارش کرنا سب سے افضل سفارش ہے۔ (65) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ما لہ فی الاخرۃ من خلاق “ میں خلاق سے مراد قوام ہے۔ (66) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” مالہ فی الاخرۃ من خلاق “ سے مراد ہے نصیب (یعنی حصہ) (67) امام الطستی نے اپنے مسائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نافع ازرق نے ان سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” مالہ فی الاخرۃ من خلاق “ کے بارے میں بتائیے ؟ انہوں نے فرمایا ” من خلاق “ سے مراد ہے ” من نصیب “ انہوں نے پھر پوچھا کیا عرب اس معنی سے واقف ہیں ؟ فرمایا ہاں کیا تو نے امیہ بن ابی صلت کا شعر نہیں سنا وہ کہتا ہے : یدعون بالویل فیہا لاخلاق لہم الاسرابیل من قطر واعلال ترجمہ : (وہ لوگ دوزخ میں ہلاکت کو پکاریں گے اس میں ان کے لیے کوئی حصہ نہ ہوگا سوائے تارکول اور بیڑیوں۔ (68) امام ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” مالہ فی الاخرۃ من خلاق “ سے مراد ہے من نصیب۔ (69) عبد الرزاق اور ابن جریر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” مالہ فی الاخرۃ من خلاق “ سے مراد ہے کہ اس کا دین نہ ہوگا۔ وأما قولہ : ولبئس ماشروا : (70) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ ” ولبئس ماشرو “ سے مراد ” باعوا “ یعنی جو کچھ انہوں نے بیچا (برا ہے ان کے لیے) ۔
Top