Dure-Mansoor - Ar-Ra'd : 116
وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا١ۙ سُبْحٰنَهٗ١ؕ بَلْ لَّهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ
وَ : اور قَالُوْا : انہوں نے کہا اتَّخَذَ : بنا لیا اللہُ : اللہ وَلَدًا : بیٹا سُبْحَانَهٗ : وہ پاک ہے بَلْ : بلکہ لَهٗ : اسی کے لیے مَا : جو فِي : میں السَّمَاوَاتِ : آسمانوں وَ الْاَرْضِ : اور زمین كُلٌّ : سب لَهٗ : اسی کے قَانِتُوْنَ : زیر فرمان
اور انہوں نے کہا کہ اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے وہ اس سے پاک ہے، بلکہ اسی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے۔
(1) امام بخاری نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھ کو ابن آدم نے جھٹلایا اور اس کو یہ لائق نہیں تھا اور ابن آدم نے مجھ کو گالی دی اور اس کو یہ لائق نہیں تھا اس کو جھٹلانا یہ ہے کہ وہ گمان ہوتا ہے تو میں اس کو دوبارہ لوٹانے پر قادر نہیں ہوں جیسے وہ تھا اور اس کا مجھ کو گالی دینا یہ ہے کہ اس کا یہ کہنا میرا بیٹا ہے اور میں بیوی اور بیٹے سے پاک ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے لئے شریک قرار دینا بڑا گناہ ہے (2) امام بخاری، ابن مردویہ اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ابن آدم نے مجھ کو جھٹلایا اور مجھے جھٹلانا اس کو مناسب نہیں تھا اور اس نے مجھے گالی دی اس کو مجھے گالی دینا مناسب نہیں تھا اس کا یہ کہنا کہ میں اس کو ہرگز دوبارہ پیدا نہیں کروں گا جیسا کہ مجھے پہلی بار پیدا کیا تھا مجھے جھٹلانا ہے اور پہلی بار پیدا کرنا مجھ پر زیادہ آسان نہیں ہے اس کے دوبارہ پیدا کرنے سے اور اس کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا بنا لیا ہے۔ مجھے گالی دینا ہے اور میں اللہ ہوں جو احد بےنیاز ہے نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا اور اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ (3) امام احمد، بخاری، مسلم، بسائی، ابن مردویہ بیہقی نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے واسطہ سے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی بھی صبر کرنے والا نہیں اذیت پر۔ لوگ اس کے لیے اولاد تجویز کرتے ہیں اور اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں حالانکہ وہ ان کو رزق دیتا ہے اور ان کو عافیت دیتا ہے۔ (4) ابن ابی شیبہ، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے غالب بن عجرد (رح) سے روایت کیا کہ مجھ سے اہل شام میں سے ایک آدمی نے بیان کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب زمین کو پیدا فرمایا اور جو کچھ اس میں ہے درختوں میں سے ان کو بھی پیدا فرمایا جب کہ زمین میں کوئی درخت نہیں تھا۔ جو انسان نے اگایا ہو لیکن یہ اس کا پھل استعمال کرتے ہیں یہاں تک کہ فاجر لوگ اتنا بڑا کلمہ کہتے ہیں لفظ آیت ” وقالوا اتخذ اللہ ولدا، سبحنہ، بل لہ ما فی السموت والارض، کل لہ قنتون “ (کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا بنایا) جب وہ یہ بات کہتے ہیں تو زمین کانپ جاتی ہے اور درختوں کے کانٹے نکل آتے ہیں۔ (5) ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وقالوا اتخذ اللہ ولدا “ سے مراد ہے کہ جب لوگوں نے اللہ تعالیٰ پر (بیٹے کا) بہتان باندھا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو خود پاکی بیان فرمائی۔ فرمایا سبحانہ ! اما قولہ تعالیٰ : سبحانہ : (6) عبد بن حمید، ابن ابی حاتم اور محاملی نے اپنی امالی میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” سبحان اللہ “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر نقص اور ہر عیب سے اپنی پاکی بیان فرماتے ہیں۔ (7) عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر اور البیہقی نے الاسماء والصفات میں موسیٰ بن طلحہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ سے تسبیح کے بارے میں پوچھا گیا کہ انسان سبحان اللہ کہتا ہے (اس کا کیا مطلب ہے) آپ نے فرمایا ہر نقص سے اللہ تعالیٰ کی برأت ہے اور دوسرے لفظ میں یوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا ہے ہر عیب سے۔ (8) ابن جریر دیلمی اور الخطیب نے الکفایہ میں دوسرے متعدد موصول طریق سے موسیٰ بن طلحہ بن عبد اللہ عن ابیہ عن جدہ، طلحہ بن عبید اللہ کے سلسلہ سے ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سبحان اللہ کی تفسیر کے بارے میں پوچھا آپ نے فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا پاکی بیان کرنا ہر نقص اور کمزوری سے۔ (9) امام ابن مردویہ نے سفیان ثوری کے طریق سے بعد اللہ بن عبد اللہ بن موھب (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے طلحہ ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ سے ” سبحان اللہ “ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا ہے ہر عیب سے۔ (10) ابن ابی حاتم نے میمون بن مہران ؓ سے روایت کیا کہ ان سے ” سبحان اللہ “ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ ایسا اسم ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی تعظیم بیان کی جاتی ہے۔ اور ہر عیب سے اس کی پاکی بیان کی جاتی ہے۔ (11) ابن ابی شیبہ اور ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ابن الکواء نے حضرت علی ؓ سے ” سبحان اللہ “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا یہ وہ کلمہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے پسند فرمایا ہے۔ (12) ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ سبحان اللہ وہ اسم ہے کہ لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے کہ اس کو اپنی طرف منسوب کریں۔ (13) عبد بن حمید نے یزید بن اصم (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی ابن عباس ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ لا الہ الا اللہ کو ہم جانتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور الحمد للہ کو بھی ہم پہچانتے ہیں کہ ساری نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں اور اس پر اس کی تعریف بیان کی جاتی ہے اور اللہ اکبر کو بھی ہم پہچانتے ہیں کہ اس سے بڑی کوئی چیز نہیں لیکن یہ سبحان اللہ کیا ہے ؟ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا تو اس کو کیوں نہیں جانتا یہ وہ کلمہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے اس کو پسند فرمایا اور اس کا اپنے ملائکہ کو بھی حکم فرمایا اور بہترین لوگوں نے اس کی مخلوق میں سے اس کلمہ کا قصد کیا۔ اما قولہ تعالیٰ : کل لہ قنتون : (14) امام احمد بن حمید، ابو یعلی، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور النحاس اور الناسخ میں، ابن حبان، طبرانی نے الدوسط میں، ابو نصر السجزی نے الابانہ میں، ابو نعیم نے الحلیہ میں، الضیاء نے المختارہ میں، ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا قرآن مجید کا ہر حرف جس میں قنوت کا ذکر کیا گیا ہو وہ اطاعت ہے۔ (15) ابن جریر اور ابن المنذر نے کئی طریق سے حضرت عباس ؓ سے روایت کیا کہ قانتون سے مراد ہے مطیعون (یعنی اطاعت کرنے والے) ۔ (16) امام طستی نے اپنے مسائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق (رح) نے ان سے ” کل لہ فنتون “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا اقرار کرنے والے۔ پھر پوچھا کیا عرب اس معنی سے واقف ہیں ؟ فرمایا ہاں کیا تو نے عدی بن زید کا شعر نہیں سنا۔ قانتا للہ یرجو عفوہ یوم لا یکفر عبد ما ادخر ترجمہ : اللہ تعالیٰ کا اقرار کرتے ہوئے اس سے درگزر کی امید رکھتا ہے اس دن جس میں کوئی بندہ انکار نہیں کرے گا جو کچھ اس نے (اعمال کا) ذخیرہ کیا۔ (17) ابن جریر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا لفظ آیت ” کل لہ قنتون “ سے مراد ہے اس کی عبادت کے ساتھ اقرار کرنے والے۔ (18) ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ لفظ آیت ” کل لہ فنتون “ یعنی ہر اطاعت کرنے والا (اور) اقرار کرنے والا ہے بیشک اللہ تعالیٰ اس کا رب ہے اور اس کا خالق ہے۔
Top