Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Dure-Mansoor - Al-Baqara : 124
وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ١ؕ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا١ؕ قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ١ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ
وَاِذِ
: اور جب
ابْتَلٰى
: آزمایا
اِبْرَاهِيمَ
: ابراہیم
رَبُّهٗ
: ان کا رب
بِکَلِمَاتٍ
: چند باتوں سے
فَاَتَمَّهُنَّ
: وہ پوری کردیں
قَالَ
: اس نے فرمایا
اِنِّيْ
: بیشک میں
جَاعِلُکَ
: تمہیں بنانے والا ہوں
لِلنَّاسِ
: لوگوں کا
اِمَامًا
: امام
قَالَ
: اس نے کہا
وَ
: اور
مِنْ ذُرِّيَّتِي
: میری اولاد سے
قَالَ
: اس نے فرمایا
لَا
: نہیں
يَنَالُ
: پہنچتا
عَهْدِي
: میرا عہد
الظَّالِمِينَ
: ظالم (جمع)
اور جب آزمایا ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات کے ذریعہ تو انہوں نے ان کو پورا کیا۔ ان کے رب نے فرمایا کہ میں تم کو لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں، انہوں نے عرض کیا اور میری اولاد میں سے، ان کے رب نے فرمایا کہ میرا عہد ظلم کرنے والوں کو نہ ملے گا۔
(1) عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، حاکم (انہوں نے اسے صحیح بھی کہا ہے) اور بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” واذابتلی ابرہم ربہ بکلمت “ کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو طہارت کے ساتھ آزمایا۔ پانچ کا تعلق سر سے ہے اور پانچ کا تعلق جسم سے ہے سر میں پانچ چیزیں یہ ہیں۔ مونچھوں کا کترنا، کلی کرنا، ناک میں پانی چڑھانا اور مسواک کرنا اور سر کے (بالوں) میں مانگ نکالنا اور جم میں پانچ چیزیں یہ ہیں۔ ناخن کا کاٹنا، زیر ناف بالوں کا مونڈنا، ختنہ کرنا اور بغل کے بال اکھاڑنا اور پاخانہ پیشاب کی جگہ کو پانی سے دھونا۔ امتحانی کلمات کون سے ہیں ؟ (2) ابن اسحاق، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ کلمات جن میں ابراہیم (علیہ السلام) مبتلا گئے گئے۔ انہوں نے ان کو پورا فرمایا (وہ یہ ہیں) اللہ کے لیے اپنی قوم کو چھوڑنا جب ان کو چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ اور اللہ کے لیے نمرود پر حجت قائم کرنا، جب آپ اس مقام پر کھڑے ہوئے جس میں لوگوں کا آپ سے اختلاف تھا۔ اور ان کا آگ میں ڈالے جانے پر صبر کرنا تاکہ وہ لوگ ان کو جلا دیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے اور اس کے بعد اپنے وطن اور اپنے شہروں سے ہجرت کرلینا جب ان کو اللہ تعالیٰ نے نکلنے کا حکم دیا اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو مہمان نوازی کا حکم دیا آپ کا اس پر قائم رہنا اور اپنے لڑکے کو ذبح کرنے پر آپ کو آزمائش میں ڈالا گیا اور جب وہ ان سب آزمائشوں سے گزر چکے اور مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا اسلم (یعنی سرتسلیم خم کردو) تو عرض کیا کہ میں رب العالمین کے لیے سرتسلیم خم کرتا ہوں۔ (3) ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ کلمات جن کے ذریعہ ان کو آزمایا گیا وہ دس تھے چھ انسان میں ہیں اور چار حج کی علامات میں سے ہیں۔ وہ چیزیں جو انسان میں ہیں (وہ یہ ہیں) زیر ناف بالوں کو مونڈھنا، بغل کے بالوں کو اکھاڑنا، ختنہ کرانا، ناخن کاٹنا، مونچھوں کو کترنا، مسواک کرنا اور جمعہ کے دن غسل کرنا اور حج کی علامات میں سے چار چیزیں یہ ہیں بیت اللہ کا طواف کرنا، صفہ مروہ کے درمیان سعی کرنا، شیاطین کو کنکری مارنا اور طواف زیادت (یعنی فرض طواف) کرنا۔ (4) ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن ابی حاتم، حاکم، ابن مردویہ اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اس دین کے ساتھ جس کسی کو آزمایا گیا ابراہیم (علیہ السلام) کے سوا کوئی بھی پورا نہ اتر سکا۔ (اور) لفظ آیت ” واذابتلی ابرہم ربہ بکلمت فاتمھن “ کے بارے میں جب پوچھا گیا کہ وہ کلمات کیا تھے ؟ تو فرمایا کہ وہ اسلام کے تیس حصے ہیں۔ دس سورة برّۃ میں ہیں ” التئبون العبدون “ سے لے کر آخری آیت تک۔ اور دس سورة ” قد افلح “ کے شروع میں ہیں اور سورة سأل سأل میں لفظ آیت ” والذین یصدقون بیوم الدین “ والی آیات ہیں اور دس سورة احزاب میں ہیں لفظ آیت ” ان المسلمین والمسلمت “ سے لے کر آخری آیات تک تو انہوں نے ان سب (احکام) کو پورا کیا تو اللہ تعالیٰ نے توازن کے لیے برأت لکھ دی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” و ابراہیم الذی وفی “ (النجم آیت 37) اور ابراہیم جنہوں نے اللہ کے حکم کو پورا کردیا) ۔ (5) عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر اور حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واذابتلی ابرہم ربہ بکلمت فاتمھن “ یعنی ان کلمات میں مناسک حج بھی ہیں۔ (6) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ کلمات یہ ہیں لفظ آیت ” انی جاعلک للناس اماما “ (اور) ” واذ یرفع ابراہیم القواعد “ اور وہ آیات جو مناسک حج کے بارے میں ہیں اور وہ مقام جو ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے بنا دیا گیا اور وہ رزق جو بیت اللہ کے رہنے والوں کو دیا گیا اور محمد ﷺ کو ان کی اولاد میں سے بھیجا جانا۔ (7) ابن ابی شیبہ اور ابن جریر نے مجاہد (رح) سے لفظ آیت ” واذابتلی ابرہم ربہ بکلمت “ کے بارے میں روایت کیا ان آیات کے ذریعہ آزمائش کی گئی جو اس کے بعد ہیں۔ (8) ابن ابی شیبہ اور ابن جریر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (اللہ تعالیٰ نے) ستاروں کے ذریعہ ان کی آزمائش کی تو آپ اس پر راضی ہوئے پھر چاند کے ذریعے ان کی آزمائش کی تو اس سے راضی ہوئے۔ پھر سورج کے ذریعہ ان کو آزمائش کی اور ان سے راضی ہوگئے۔ پھر ہجرت کے ذریعہ آزمائش کی تو اس سے راضی ہوگئے پھر ختنہ کے ذریعہ ان کی آزمائش کی اور ان سے بھی راضی ہوگئے۔ پھر بیٹے کے ذریعہ آزمائش کی پھر اس سے راضی ہوئے۔ (9) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” فاتمھن “ سے مراد ہے فاداھن یعنی ان کو ادا کیا۔ (10) ابن ابی حاتم نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ میں سے مسواک کرنا ہے۔ (11) ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ میں سے ذکر اور ہاتھوں اور پاؤں کے جوڑوں کو دھونا ہے۔ (12) ابن ابی شیبہ نے المصنف میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی فطرت میں سے چھ چیزیں ہیں مونچھوں کا کترنا، مسواک کرنا، سر کے بالوں میں مانگ نکالنا، ناخنوں کو کاٹنا، استنجا کرنا اور زیر ناف بالوں کو مونڈنا (پھر) فرمایا تین چیزیں سر میں ہیں اور تین چیزیں جسم میں ہیں۔ (13) ابن ابی شیبہ، احمد بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ فطرت پانچ چیزیں ہیں یا پانچ چیزیں فطرت میں سے ہے : ختنہ کرنا، استرا لینا، مونچھوں کو کترنا، ناخن کاٹنا اور بغلوں کے بال اکھاڑنا۔ (14) امام بخاری اور نسائی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ فطرت میں سے زیر ناف بالوں کا کاٹنا، ناخن کاٹنا اور مونچھوں کو کترنا ہے۔ (15) ابن ابی شیبہ، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا دس چیزیں فطرت میں سے ہیں، مونچھوں کو کترنا، داڑھی کا بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی چڑھانا، ناخن کاٹنا، انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، بغلوں کے بال اکھاڑنا، زیر ناف بالوں کو مونڈھنا، پانی سے استنجاء کرنا، مصعب ؓ نے فرمایا کہ میں دسویں بات بھول گیا یہ کہ وہ کلی کرنا ہوگی۔ (16) ابن ابی شیبہ، احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ نے عمار بن یاسر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا فطرت میں سے یہ چیزیں ہیں کلی کرنا، ناک میں پانی چڑھانا، مسواک کرنا، مونچھوں کو کترنا، ناخن کاٹنا، بغل کے بال اکھاڑنا، استرا لینا، انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، وضو کرنے کے بعد جسم کا پانی چھڑکنا اور ختنہ کرانا۔ (17) البزار اور طبرانی نے ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا طہارت چار چیزوں میں ہے۔ مونچھوں کو کترنا، زیر ناف بالوں کو مونڈھنا، ناخن کاٹنا اور مسواک کرنا۔ (18) امام مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ ہمارے لئے رسول اللہ ﷺ نے (ان چیزوں کا) وقت مقرر فرما دیا تھا مونچھوں کو کترنے میں، ناخن کاٹنے میں، زیر ناف کے بالوں کو مونڈنے میں، بغل کے بال اکھاڑنے میں کہ ان چیزوں کو چالیس دنوں سے زیادہ نہ چھوڑے۔ (19) امام احمد اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا گیا کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ کے پاس آنے میں دیر لگائی ہے (اس کی کیا وجہ ہے) آپ نے فرمایا کہ وہ میرے پاس آنے میں دیر نہیں لگاتے مگر یہ کہ تم لوگ (اس حال میں) میرے اردگرد ہوتے ہو کہ تم مسواک نہیں کرتے اپنے ناخنوں کو نہیں کاٹتے اپنی مانچھوں کو نہیں کترتے اور اپنی انگلیوں کے جوڑوں کو صاف نہیں کرتے (اس وجہ سے جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس نہیں آتے) ۔ (20) امام ترمذی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ اپنی لبوں مبارک کو تراش لیتے تھے اور یہ بھی فرمایا کہ خلیل الرحمن یعنی ابراہیم (علیہ السلام) ایسا کرتے تھے۔ (21) ابن ابی شیبہ، احمد، ترمذی، (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) اور نسائی نے زید بن ارقم ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص مونچھوں کو نہ کاٹے وہ ہم میں سے نہیں ہیں۔ (22) امام مالک، بخاری، مسلم، ابو داؤد اور ترمذی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم مشرکین کی مخالفت کرو کہ داڑھیوں کو خوب بڑھاؤ اور مونچھوں کے کترنے میں بھی مبالغہ کرو۔ (23) امام البزار نے أنس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا مجوس کی مخالفت کرو مونچھوں کو کتر و اور داڑھیوں کو بڑھاؤ۔ داڑھی بڑھانے مونچھوں کو کٹوانے کی تاکید (24) امام ابن ابی شیبہ نے عبد اللہ بن عبید اللہ سے روایت کیا کہ مجوس میں سے ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ اس کی داڑھی منڈی ہوئی تھی اور مونچھیں لمبی تھیں۔ آپ نے اس سے فرمایا یہ کیا (صورت ہے) اس نے کہا کہ یہ ہمارے دین میں ہے۔ آپ نے فرمایا لیکن ہمارے دین میں مونچھوں کو کترنا اور داڑھی کو بڑھانا ہے۔ (25) امام البزار نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کی مونچھیں لمبی تھیں آپ نے فرمایا میرے پاس قینچی اور مسواک کو لے آؤ آپ نے مسواک اس کے ہونٹ پر رکھا اور بڑھے ہوئے بالوں کو کاٹ دیا۔ (26) امام البزار الطبرانی نے الاوسط میں بیہقی نے الشعب میں حسن سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ناخنوں کو کاٹ لیتے تھے اور مونچھوں کو کتر لیتے تھے جمعہ کی نماز کی طرف جانے سے پہلے۔ (27) امام ابن عدی نے ضعیف سند کے ساتھ حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ ہمارے لئے رسول اللہ ﷺ نے زیر ناف بالوں کو مونڈھنے کا وقت چالیس دن کا مقرر فرما دیا تھا اور اپنی بغل کے بال اکھاڑنے جب وہ ظاہر ہوں اور اپنی مونچھوں کو لمبا نہ چھوڑے۔ اور اپنے ناخنوں کو ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کاٹ دے۔ (28) ابن عساکر نے ضعیف سند کے ساتھ جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اپنے ناخنوں کو کاٹ دو کیونکہ شیطان گوشت اور ناخن کے درمیان چلتا ہے۔ (29) طبرانی نے ضعیف سند کے ساتھ وابصہ بن معیر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ہر چیز کے بارے میں سوال کیا۔ یہاں تک کہ اس میل کے بارے میں سوال کیا جو ناخنوں کے اندر ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا اس چیز کو چھوڑ دو جو تجھے شک میں ڈالے اور اس چیز کو اختیار کر جو تجھے شک میں ڈالے۔ (30) امام البزار نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھے وہم کیوں نہ ہو جب کہ تم میں کوئی ایک اپنے پوروں اور ناخنوں کے درمیان میل اٹھائے ہوئے ہوتا ہے۔ (31) بیہقی نے الشعب میں قیس بن حازم ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے نماز پڑھائی تو اس میں آپ کو وہم ہوگیا (پھر) کسی کے پوچھنے پر آپ نے فرمایا مجھے وہم کیوں نہ ہو کہ تم میں سے کوئی اپنے ناخنوں اور پوروں کے درمیان میل اٹھائے ہوئے ہے۔ (32) امام ابن ماجہ الطبرانی نے ضعیف سند کے ساتھ ابو امامہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مسواک کیا کرو کیونکہ مسواک منہ کے لیے صفائی کا آلہ ہے اور رب تعالیٰ کی رضا مندی کا سبب ہے میرے پاس جب بھی جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے انہوں نے مجھے مسواک کرنے کی وصیت فرمائی یہاں تک کہ مجھے ڈر ہوا کہ یہ مجھ پر اور میری امت پر فرض نہ کردیا جائے اگر میں اس بات کا خوف نہ کرتا کہ میری امت پر یہ کام بھاری ہوجائے گا تو میں ان کے لیے فرض کردیتا اور میں اتنا مسواک کرتا ہو یہاں تک کہ مجھے اس بات کا خوف رہتا ہے کہ کہیں میرے منہ کا اگلا حصہ گھس نہ جائے۔ (33) امام طبرانی نے ضعیف سند کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مسواک کو لازم پکڑو کیونکہ یہ منہ کے لئے صفائی کا آلہ ہے رب کی رضا مندی کا سبب ہے اور نگاہ کی تیزی کا موجب ہے۔ (34) امام ابن عدی اور بیہقی نے الشعب میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مسواک کو لازم پکڑو کیونکہ یہ منہ کے لیے صفائی کا آلہ ہے رب کی رضا مندی کا سبب ہے فرشتوں کو خوش کرنے والا ہے نیکیوں میں اضافہ کرنے والا ہے اور وہ سنت میں سے ہے جو نگاہ کو تیز کرتا ہے دانتوں کی زردی کو دور کرتا ہے۔ مسوڑھوں کو مضبوط کرتا ہے، بلغم کو نکالتا ہے اور منہ میں خوشبو پیدا کرتا ہے۔ مسواک کی تاکید (35) امام بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر مجھے اپنی امت پر تکلیف کا خوف نہ ہوتا تو میں ان گو ہر نماز میں مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ (36) امام احمد نے حسن سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر مجھے اپنی امت پر تکلیف کا خوف نہ ہوتا تو میں ان کو ہر نماز کے لیے وضو اور ہر وضو کے لیے مسواک کا حکم کرتا۔ (37) البزار، ابو یعلی اور طبرانی نے ضعیف سند کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ ہمیشہ مسواک کا ذکر فرماتے تھے یہاں تک کہ ہم اس بات سے ڈرنے لگے کہ کہیں اس کا حکم قرآن میں نازل نہ ہوجائے۔ (38) امام احمد، حرش بن ابی اسامہ، البزار، ابو یعلی، ابن خزیمہ دار قطنی، حاکم (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) ابو نعیم نے کتاب السواک میں بیہقی نے الشعب میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسواک کے ساتھ نماز کی بغیر مسواک والی نماز پر ستر گنا فضیلت رکھتی ہے۔ (39) البزار اور بیہقی نے جید سند کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ وہ نبی اکرم ﷺ سے نقل فرماتی ہیں کہ مسواک کے ساتھ دو رکعتیں بغیر مسواک والی والی ستر رکعتوں سے افضل ہیں۔ (40) احمد اور ابویعلی نے سند جید کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھے مسواک کرنے کا (اتنا زیادہ) حکم فرمایا گیا یہاں تک کہ میں گمان کرنے لگا کہ مجھ پر اس بارے میں قرآن یا وحی نازل ہوجائے گی۔ (41) امام احمد، ابو یعلی اور طبرانی نے ضعیف سند کے ساتھ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نیند نہیں فرماتے تھے مگر یہ کہ ان کے پاس مسواک رکھا ہوتا تھا جب آپ نیند سے بیدار ہوتے تھے تو پہلے مسواک کرتے۔ (42) امام طبرانی نے حسن سند کے ساتھ ام سلمہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جبرائیل (علیہ السلام) مجھے برابر مسواک کی نصیحت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے اپنی داڑھوں پر خوف محسوس کیا (کہ یہ مسواک کی وجہ سے گھس نہ جائیں) ۔ (43) البزار، ترمذی، الحکیم نے نوادر الاصول میں کلیح بن عبد اللہ خطمی (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پانچ چیزیں انبیاء کی سنت میں سے ہیں۔ حیا، حلم، پچھنے لگوانا، مسواک کرنا، اور خوشبو لگانا (44) امام طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ رات کو نیند نہیں فرماتے تھے اور آپ نیند سے بیدار نہیں ہوتے تھے مگر آپ پہلے مسواک فرماتے تھے۔ (45) امام طبرانی نے حسن سند کے ساتھ زید بن خالد جہنی (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نمازوں کے لیے نکلتے تو مسواک کرتے تھے۔ (46) ابن ابی شیبہ اور ابو داؤد نے ضعیف سند کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ جب بھی دن میں یا رات میں نیند فرما کر بیدار ہوتے تھے تو وضو کرنے سے پہلے مسواک فرماتے تھے۔ (47) ابن ابی شیبہ، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ نبی اکرم ﷺ جب گھر میں داخل ہوتے تھے تو سب سے پہلے کیا کام کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلے مسواک فرماتے تھے۔ قرآن پڑھنے والے مسواک کا خاص اہتمام کریں (48) ابن ماجہ نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ تمہارے منہ قرآن کے لیے راستے ہیں سو تم اس (منہ) کو مسواک کے ساتھ صاف کرو۔ ابو نعیم نے کتاب المسواک میں حضرت علی ؓ سے مرفوع روایت کیا ہے۔ (49) امام ابن السنی اور ابو نعیم نے طب نبوی میں کہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسواک آدمی کی فصاحت کو زیادہ کرتا ہے۔ (50) امام ابن السنی نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا ہے کہ قرآن کا پڑھنا اور مسواک کرنا بلغم کو دور کرتا ہے۔ (51) ابو نعیم نے معرفۃ الصحابہ میں سمویہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کسی رات کو نہیں سوتے تھے یہاں تک کہ مسواک نہ کرلیتے۔ (52) ابن ابی شیبہ نے المصنف میں ابو نعیم نے کتاب السواک میں ضعیف سند کے ساتھ ابو عتیق (رح) کے واسطہ سے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ وہ جب اپنی خواب گاہ پر جاتے تھے یا رات کو نیند سے جاگتے تھے تو مسواک فرماتے تھے اور جب نماز کی طرف جاتے تھے تو بھی مسواک کرتے تھے۔ ابو عتیق کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا آپ نے اپنی جان کو مشقت میں ڈٖال دیا ہے انہوں نے فرمایا کہ حضرت اسامہ ؓ نے مجھے یہ بتایا کہ نبی اکرم ﷺ ان اوقات میں مسواک فرمایا کرتے تھے۔ (53) ابو نعیم نے حسن سند کے ساتھ عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا خوف نہ ہوتا تو ان کو سحری کے وقت مسواک کرنے کا حکم کرتا۔ (54) طبرانی نے الاوسط میں حسن سند کے ساتھ حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا خوف نہ ہوتا تو میں ہر وضو کے ساتھ مسواک کا حکم کرتا۔ (55) امام شافعی، ابن ابی شیبہ، احمد، نسائی، ابو یعلی، ابن خزیمہ، ابن حاکم، ابن حبان اور بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسواک منہ کے لیے صفائی کا آلہ ہے اور رب تعالیٰ کی رضا مندی کا سبب ہے۔ (56) احمد طبرانی نے الاوسط میں حسن سند کے ساتھ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا مسواک کو لازم پکڑو کیونکہ یہ منہ کو صاف کرنے والا ہے۔ اور رب تبارک و تعالیٰ کی رضا مندی کا سبب ہے۔ (57) امام احمد نے ضعیف سند کے ساتھ قثم یا تمام میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ہمارے پاس نبی اکرم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہیں کیا ہوگیا تم میرے پاس زرد دانتوں کے ساتھ آتے ہو اور مسواک نہیں کرتے اگر میں اپنی امت پر مشقت کا خوف نہ کرتا تو ان پر مسواک کو فرض کردیتا جیسا کہ اس پر وضو فرض کیا گیا ہے۔ (58) طبرانی نے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ مسواک نبی اکرم ﷺ کان کی اس جگہ پر رکھتے تھے جہاں کاتب قلم رکھتا ہے۔ (59) امام العقیلی نے الضعفاء میں اور ابو نعیم نے السواک میں ضعیف سند کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ جب سفر (کا ارادہ) فرماتے تھے تو اپنے ساتھ مسواک سے کنگھا، سرمہ دانی، بوتل اور شیشہ لے لیتے تھے۔ (60) ابو نعیم نے کمزور سند کے ساتھ رافع بن خدیج ؓ سے مرفوعا روایت کیا کہ مسواک کرنا واجب ہے۔ (61) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ہم کو مسواک کے بارے میں (اتنا زیادہ) حکم دیا گیا یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ اس کے بارے میں عنقریب (کوئی حکم) نازل ہوجائے گا۔ (62) ابن ابی شیبہ نے حسان بن عطیہ (رح) سے مرفوعا روایت کیا کہ وضو آدھا ایمان ہے اور مسواک آدھا وضو ہے اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا خوف نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم کرتا۔ وہ دو رکعتیں جس میں بندہ مسواک کرلیتا ہے ان ستر رکعتوں سے افضل ہیں جن میں مسواک نہیں کرتا۔ (63) ابن ابی شیبہ نے سلیمان بن سعد ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مسواک کرو اور صفائی حاصل کرو (اور) مسواک کرنے میں طاق عدد کو (اختیار) کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق عدد کو پسند فرماتا ہے۔ (64) امام ابن عدی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو میں جوڑوں کا خاص خیال رکھنے کا حکم فرمایا اس لئے کہ میل جوڑوں میں زیادہ تیزی سے بھر جاتی ہے۔ (65) حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں مجہول سند کے ساتھ عبد اللہ بن بسر ؓ سے مرفوعا روایت کیا کہ اپنے ناخنوں کو کاٹ دو اور ناخنوں کی تراش کو دفن کر دو ۔ اور اپنی انگلیوں کے جوڑوں کو صاف کرو۔ (66) امام بخاری مسلم، ابو داؤد، ترمذی نے شمائل میں، نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اہل کتاب اپنے بالوں کو لٹکایا کرتے تھے اور مشرکین اپنے سروں میں مانگ نکالا کرتے تھے۔ اور نبی اکرم ﷺ اہل کتاب کی موافقت کو پسند فرماتے تھے کاموں میں جن کے بارے میں حکم نہیں دیا گیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی پیشانی کے بالوں کو لٹکایا اور پھر بعد میں ان میں مانگ نکالی۔ (67) ابن ماجہ اور بیہقی نے جید سند کے ساتھ ام سلمہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب (زیر ناف بالوں کو) نورہ لگاتے تھے تو پھر ان (ناف کے بالوں کو) اپنے ہاتھ سے الگ کردیتے تھے۔ (68) امام بیہقی نے انتہائی ضعیف سند کے ساتھ حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نورہ نہیں لگاتے تھے جب بال بڑے ہوجاتے تو ان کو مونڈ دیتے تھے۔ (69) امام احمد بیہقی نے شداد بن اوس ؓ سے مرفوعا روایت کیا کہ مردوں کے لیے ختنہ کرانا سنت ہے اور عورتوں کے لیے اچھا ہے۔ (70) ابو داؤد نے امام طبرانی نے مسند الشامیسین میں، ابو الشیخ نے کتاب الصقیفقہ میں ابن عباس ؓ سے اس کی مثل روایت کی ہے۔ ابو داؤد نے عثیم بن کلیب (رح) سے روایت کیا اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا میں مسلمان ہوگیا ہوں آپ نے اس سے فرمایا کفر کے بالوں کو اپنے سے دور کر دے یعنی حلق کرے (پھر) نبی اکرم ﷺ نے دوسرے آدمی سے بھی فرمایا جو ان کے ساتھ تھا کہ کفر کے بالوں کو پھینک دے اور ختنہ بھی کرالے۔ (71) بیہقی نے زھری سے روایت کیا کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا کہ جو شخص ایمان لے آئے اس کو چاہئے کہ وہ ختنہ کرائے۔ ختنہ کرنا سنت ہے (72) امام احمد اور طبرانی نے عثمان بن ابی العاص ؓ سے روایت کیا کہ ان کو ختنہ کی مجلس میں بلایا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ختنہ کے پروگرام پر آتے تھے اور وہ اس کے لیے بلایا نہیں جاتا تھا۔ (73) امام طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بچہ کے بارے میں سات چیزیں ساتویں دن سنت ہیں۔ ساتویں دن اس کا نام رکھنا، ختنہ کرنا، اس سے تکلیف دہ چیزوں کو دور کرنا، عقیقہ کرنا، اس کے بالوں کو حلق کرانا عقیقہ سے اس کو آلودہ کرنا اور اس کے سر کے بالوں کے وزن کے برابر سونا یا چاندی صدقہ کرنا۔ (74) ابو الشیخ نے کتاب العقیقہ میں اور بیہقی نے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت حسن اور حضرت حسین ؓ کا ختنہ کرایا اور ہر ایک کا ختنہ ساتویں دن ہوا۔ (75) بیہقی نے موسیٰ علی بن رباح (رح) سے روایت کیا اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے (اپنے بیٹے) اسحاق (علیہ السلام) کا ختنہ ساتویں دن کیا اور (اپنے بیٹے) اسماعیل (علیہ السلام) کا ختنہ ان کے بالغ ہونے کے وقت کیا۔ (76) امام ابن سعد نے حی بن عبد اللہ (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے 13 سال کی عمر میں ختنہ کرایا۔ (77) ابو الشیخ نے العقیقہ میں موسیٰ بن علی بن رباح (رح) سے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو ختنہ کرنے کا حکم ملا اور ان کی عمر 80 سال تھی انہوں نے جلدی سے کلہاڑے کے ساتھ ختنہ کردیا ان کو شدید درد ہوا اور انہوں نے اپنے رب سے دعا فرمائی اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ تو نے جلدی کی پہلے اس سے کہ ہم تم کو آلات کا حکم دیتے۔ عرض کیا اے میرے رب میں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ آپ کے حکم میں تاخیر کر دوں۔ (78) امام بخاری اور مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) نے کلہاڑے کے ساتھ تیس سال کی عمر میں ختنہ کیا۔ (79) ابن عدی اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) سب سے پہلے آدمی تھے جنہوں نے ختنہ کیا جبکہ ان کی 120 سال کی عمر تھی آپ نے کلہاڑے کے ساتھ ختنہ کیا پھر اس کے بعد 80 سال زندہ ہے۔ (80) ابن سعد، ابن ابی شیبہ، حاکم اور بیہقی نے سعید بن المسیب کے طریق سے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ابراہیم خلیل اللہ نے کلہاڑے کے ساتھ ایک سو بیس سال کی عمر میں ختنہ کیا پھر اس کے بعد 80 سال زندہ رہے۔ سعید (رح) نے کہا کہ سب سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) نے ختنہ کیا اور سب سے پہلے انہوں نے سفید بال دیکھے تو پوچھا اے میرے رب ! یہ کیا ہے۔ فرمایا اے ابراہیم یہ وقار ہے عرض کیا اے میرے رب اس وقار کو میرے لئے اور زیادہ کر دیجئے اور سب سے پہلے انہوں نے مہمان کی ضیافت کی اور سب سے پہلے انہوں نے اپنی مونچھوں کو کترا اور سب سے پہلے انہوں نے اپنے ناخنوں کو کاٹا اور سب سے پہلے انہوں نے (زیر ناف بالوں کے لیے) استرا استعمال کیا۔ (81) ابن عدی اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے سب سے پہلے مہمان کی ضیافت کی اور سب سے مونچھوں کو کترا۔ اور سب سے پہلے سفید بالوں کو دیکھا اور سب سے پہلے ناخنوں کو کاٹا اور سب سے پہلے اپنے کلہاڑے سے ختنہ کیا۔ (82) امام بیہقی نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ ہاجرہ، سارہ (علیہا السلام) کی خادمہ تھی پھر انہوں نے حاجرہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دے دی (جس سے انہوں نے نکاح کرلیا) (ایک مرتبہ) حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق (علیہما السلام) دونوں نے آپس میں دوڑ لگائی۔ اسماعیل (علیہ السلام) آگے بڑے گئے اور اپنے والد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی گود میں بیٹھ گئے (ان کی بیوی) سارہ نے کہا اللہ کی قسم میں ضرور ضرور تبدیل کروں گی اس سے (یعنی ہاجرہ سے) تین اشراف چیزوں کو (یعنی دو کان اور ایک ناک کو) ابراہیم (علیہ السلام) اس بات سے ڈرے کہ (شاید ہاجرہ کی ناک یا کان کاٹ دے یا اس کے کانوں میں سوراخ کر دے پھر سارہ سے فرمایا تو کوئی کام کرے اپنی قسم اس سے پورا کرسکتی ہے۔ تو اس کے کانوں میں سوراخ کر دے تو کان چھیدنے کا آغاز یہاں سے ہوا۔ (83) امام بیہقی نے سفیان بن عینیہ (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے (اپنی بیوی) سارہ کے مزاج کو خراب ہونے کی شکایت کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی اے ابراہیم تم پہلے شخص ہو جس نے شلوار پہنی اور پہلے شخص جو جس نے بالوں میں مانگ نکالی تم پہلے شخص ہو جس نے اسرا لیا اور جس نے اپنا ختنہ کیا اور جس نے مہمان نوازی کی اور جس کے سفید بال ظاہر ہوئے۔ (84) امام وکیع نے واصل مولیٰ ابن عینیہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ اے ابراہیم ! تم زمین والوں میں میرے نزدیک سب سے زیادہ عزت والے ہو جب تو سجدہ کرے تو زمین کو اپنی شرم گاہ مت دکھا (اس پر) انہوں نے شلوار بنالی۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے سفید بال (85) امام حاکم نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ آسمان سے ایک ہتھیلی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان سفید بال ظاہر ہوئے۔ پھر وہ ہتھیلی ابراہیم کے سر کے قریب ہوتی گئی یہاں تک کہ انتہائی قریب ہوگئی وہ سفید بال اس نے ان کے سر پر ڈال دئیے اور کہا پھیل جا وقار کے ساتھ پھر اللہ تعالیٰ نے ان بالوں کی طرف وحی فرمائی کہ غالب آجاؤ تو سارے سر میں سفیدی چھا گئی۔ یہ پہلے شخص تھے جن کے سفید بال ہوئے اور انہوں نے سب سے پہلے ختنہ بھی کیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو ابراہیم پر نازل کیا تھا جو محمد ﷺ پر نازل کیا جیسے لفظ آیت ” التائبون العابدون الحامدون “ سے ” وبشر المؤمنین “ تک اور ” قد افلح المومنون “ سے ” ہم فیہا خلدون “ تک اور ” ان المسلمین والمسلمت “ (الآیہ) اور جو ” سأل سائل “ (سورۃ) میں سے لفظ آیت ” والذین ہم علی صلاتھم دائمون “ سے لے کر ” قائمون “ تک ان سہام (یعنی احکام) کو ابراہیم (علیہ السلام) اور محمد ﷺ کے سوا کسی نے پورا نہیں کیا۔ (86) امام ابن سعد نے طبقات میں سلمان ؓ سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے خیر کا سوال کیا تو ان کا دو تہائی سر سفید ہوا انہوں نے (اپنے رب سے) پوچھا یہ کیا ہے ؟ کہا گیا کہ وہ دنیا میں عبرت ہے اور آخرت میں نور ہے۔ (87) امام احمد نے الزہد میں سلمان فارسی ؓ سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے بستر پر آئے اور اللہ تعالیٰ سے خیر کا سوال کیا۔ صبح ہوئی تو ان کا دو تہائی سر سفید تھا۔ یہ کیفیت ان کو اچھی نہ لگی ان سے کہا گیا تو پریشان نہ ہو کیونکہ یہ دنیا میں عبرت ہے اور آخرت میں تیرے لئے نور ہے اور یہ (دنیا میں) پہلے سفید بال تھے۔ (88) دیلمی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا سب سے پہلے مہندی اور کتم سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خضاب کیا۔ (89) امام بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے ابراہیم ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہود و نصاری اپنے بالوں کو نہیں رنگتے سو تم ان کی مخالفت کرو۔ (90) ابو داؤد، ترمذی (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) نسائی ابن ماجہ نے ابو ذرد ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بلاشبہ سب سے بہترین چیز جس سے تم سفیدی کو تبدیل کرو وہ مہندی اور کتم ہے۔ (91) امام ترمذی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اپنے سفید بالوں (کی رنگت) کو تبدیل کرلو اور یہود کی مشابہت اختیار نہ کرو۔ (92) البزار نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عجمی لوگوں کی مشابہت اختیار نہ کرو (اور) داڑھی (کی رنگت) کو تبدیل کرو۔ (93) ابن ابی شیبہ نے المصنف میں اور البزار نے سعد بن ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے منبر پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خطاب کیا جب رومیوں نے لوط (علیہ السلام) کو قید کرلیا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جہاد کیا یہاں تک کہ ان کو رومیوں سے چھڑ والیا۔ (94) ابن عساکر نے حسان بن عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ سب سے پہلے لڑائی میں لشکر کو میمنہ میسرہ اور قلب میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ترتیب دیا۔ جب وہ ان لوگوں سے قتال کرنے کے لیے چلے جنہوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو قید کرلیا تھا۔ (95) ابن ابی شیبہ نے یزید بن ابی یزید (رح) سے روایت کیا اور انہوں نے ایک آدمی سے روایت کیا جس کا انہوں نے نام لیا کہ سب سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) نے جھنڈا باندھا جب ان کو یہ بات پہنچی کہ ایک قوم نے حضرت لوط (علیہ السلام) پر غارت گری کرتے ہوئے ان کو قیدی بنا لیا تو انہوں نے ایک جھنڈا باندھا اور اپنے غلاموں اور دوستوں کو ساتھ لے کر ان کی طرف چلے یہاں تک کہ ان کو پالیا اور ان کو اور ان کے اہل و عیال کو چھڑا لیا۔ (96) ابن ابی الدنیا نے کتاب الرمی میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ریشمی کپڑا استعمال کیا۔ (97) ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مہمان نوازی فرمائی۔ (98) ابن سعد، ابن ابی الدنیا، ابو نعیم نے الحلیہ میں بیہقی نے الشعب میں عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم خلیل الرحمن کی کنیت ابو الضیفان تھی اور ان کے محل کے چار دروازے تھے تاکہ کو یہ مہمان (اندر آنے سے) رہ نہ جائے۔ (99) بیہقی نے عطا (رح) سے کہا کہ انہوں نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جب صبح کے کھانے کا ارادہ فرماتے تھے تو ایسے شخص کو ایک میل کی تلاش کرتے تھے جو ان کے ساتھ کھانا کھائے۔ (100) ابن ابی الدنیا نے کتاب الاخوان میں، الخطیب نے اپنی تاریخ میں، دیلمی نے مسند الفردوس میں، الغسولی نے اپنے جزء میں، تمیم داری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے آدمی کے معانقہ کے بارے میں پوچھا گیا جب وہ کسی آدمی سے ملتا ہے آپ نے فرمایا کہ امتوں کا سلام تھا اور دوسرے الفاظ میں یہ اہل ایمان کا سلام تھا اور ان کی خالص محبت تھی اور سب سے پہلے خلیل الرحمن (علیہ السلام) نے معانقہ فرمایا۔ ایک دن وہ اپنے جانوروں کو بیت المقدس کے پہاڑوں سے دوسرے پہاڑوں کی طرف لے کر نکلے اچانک انہوں نے ایک خوبصورت آواز سنی جو اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کر رہی تھی پس آپ جس مقصد کے لیے جا رہے تھے وہ بھول گئے اور اس آواز کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اچانک وہ ایک بوڑھا آدمی تھا گھنے بالوں والا جس کا قد اٹھارہ ہاتھ تھا جو اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کر رہا تھا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا اسے شیخ تیرا رب کون ہے ؟ اس نے کہا جو آسمان میں ہے پھر پوچھا زمین کا رب کون ہے ؟ کہا آسمان میں ہے پھر پوچھا آسمان میں کوئی اور بھی رب ہے ؟ اس نے کہا اس کے سوا کوئی رب نہیں۔ کوئی معبود نہیں مگر وہ اکیلا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اس سے پوچھا تیرا قبلہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا کعبہ کی طرف پھر اس کے کھانے کا پوچھا اس نے کہا میں پھلوں کو گرمی کی موسم میں جمع کرلیتا ہوں اور سردی کی موسم میں اس کا کھا لیتا ہوں۔ پھر پوچھا کہ تیری قوم میں سے تیرے ساتھ کوئی باقی ہے ؟ اس نے کہا نہیں پھر پوچھا تیرا گھر کہاں ہے ؟ اس نے کہا وہ غار میں ہے فرمایا ہمیں اپنے گھر لے جا۔ اس نے کہا میرے اور اس کے درمیان ایک وادی ہے جو عبور نہیں کی جاسکتی پوچھا پھر کس طرح تو اس کو عبور کرتا ہے کہا کہ میں جاتے ہوئے اور آتے ہوئے اس کے اوپر سے پیدل چلتا ہوں فرمایا ہمیں بھی لے چل۔ شاید کہ وہ ذات جس نے تیرے لئے اس وادی کو مطیع کردیا ہے میرے لئے بھی مطیع کر دے گی۔ دونوں چل پڑے یہاں تک کہ آخر تک پہنچے دونوں وادی پر اکھٹے چل رہے تھے اور ہر ایک اپنے ساتھی پر تعجب کر رہا تھا۔ جب دونوں اس غار میں داخل ہوئے تو اچانک اس کا قبلہ ابراہیم (علیہ السلام) والا قبلہ ہے ابراہیم نے اس سے فرمایا سب سے زیادہ سخت دن کونسا ہے ؟ شیخ نے کہا کہ وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ حساب کے لیے اپنی کرسی لگائے گا جس دن آگ کو بڑھکایا جائے گا کوئی مقرب فرشتہ یا کوئی نبی مرسل باقی نہیں بچے گا۔ جس نے اس میں گرنے کا ارادہ نہ کیا ہو ابراہیم (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا اے شیخ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ مجھے اور آپ کو اس دن کی ہولناکی سے امن عطا فرمائے۔ شیخ نے کہا میری دعا سے کچھ نہیں ہوتا اور میری دعائیں آسمان میں تین سال سے رکی ہوئی ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کیا میں تجھ کو نہ بتاؤں تیری دعا کیسے رکی ہوئی ہے۔ کہنے لگا کیوں نہیں اللہ تعالیٰ جب کسی بندہ سے محبت فرماتے ہیں تو اس کے سوال کو روک لیتے ہیں کیونکہ اس کی آواز کو پسند فرماتے ہیں (کہ میرا بندہ بار بار مجھ سے مانگتا ہے) پھر ہر سوال کے بدلہ میں اس کے لیے (آخرت میں) ایسی چیز کا ذخیرہ فرما دیتے ہیں کہ اس چیز کا کسی بشر کے دل میں تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ سے بغض رکھتے ہیں تو اس کی ضرورت کو جلدی پورا فرما دیتے ہیں یا اس کے دل میں نا امیدی ڈال دیتے ہیں تاکہ اس کی آواز کو روک لے پس تیری کون سی دعا آسمان میں رکی ہوئی ہے ؟ اس نے کہا یہاں میرے پاس ایک نوجوان گزرا تھا جس کے سر میں زلفیں تھیں۔ تین سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس کے ساتھ بکریاں بھی تھیں۔ میں نے پوچھا یہ کون آدمی ہے کہنے لگا ابراہیم خلیل اللہ میں نے کہا اسے اللہ ! اگر زمین میں خلیل موجود ہے تو مجھے اس کو دکھا دے۔ میری اس دنیا سے جانے سے پہلے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا تیری دعا قبول ہوچکی ہے۔ پھر اس سے معانقہ فرمایا اس دن سے معانقہ شروع ہوا۔ اور اس سے پہلے ایک دوسرے کو سجدہ کرتے تھے پھر اسلام کے ساتھ مصافحہ آگیا پھر نہ کسی نے سجدہ کیا اور نہ معانقہ کیا اور ہرگز انگلیاں نہیں جدا ہوتیں یہاں تک کہ ہر ایک مصافحہ کرنے والے کو بخش دیا جاتا ہے۔ عبادت کرنے والے ساتھی کی آرزو کرنا (101) ابن ابی شیبہ، احمد نے الزہد میں ابو نعیم نے الحلیہ میں کعب ؓ سے روایت کیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بلاشبہ مجھے یہ بات غم میں ڈالتی ہے کہ میں اپنے علاوہ کسی ایک کو بھی زمین میں تیری عبادت کرنے والا نہیں دیکھتا (اس پر) اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف فرشتوں کو نازل فرمایا جو ان کے ساتھ رہتے تھے اور ان کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔ (102) امام احمد اور ابو نعیم نے نوف البکائی سے روایت کیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے میرے رب میرے علاوہ زمین پر کوئی بھی تیری عبادت کرنے والا نہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے تین ہزار فرشتوں کو نازل فرمایا۔ انہوں نے تین دن تک ان کی امامت کی۔ (103) امام ابن سعد نے کلبی (رح) نے بیان فرمایا کہ ابراہیم علیہ وسلم سب سے پہلے آدمی تھے جنہوں نے مہمان کی ضیافت کی اور سب سے پہلے آدمی تھے جنہوں نے ثرید (سالن) تیار کیا اور سب سے پہلے تھے جنہوں نے سفید بال دیکھے جبکہ آپ کے پاس مال اور خدام کی کثرت تھی۔ (104) ابن ابی شیبہ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے سب سے پہلے ثرید (سالن) تیار کیا۔ (105) دیلمی نے نبی ط بن شریط ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سب سے پہلے آپ پر پکائی ہوئی روٹی تیار کی۔ (106) امام احمد نے الزہد میں مطرف (رح) سے روایت کیا کہ سب سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) نے علیحدگی اختیار کی۔ یہ انہوں نے خدائی یاد کرنے کے لئے اپنی قوم سے علیحدگی اختیار کی۔ (107) ابن ابی شیبہ نے المصنف میں بخاری، مسلم، ترمذی اور نسائی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ہمارے درمیان رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا قیامت کے دن سب سے پہلے مخلوق میں سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کپڑا پہنایا جائے گا۔ (108) ابن ابی شیبہ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (قیامت کے دن) لوگ ننگے بدن، ننگے پاؤں اکھٹے کئے جائیں گے (پھر) سب سے پہلے آدم (علیہ السلام) کو کپڑے پہنائے جائیں گے۔ (109) ابو نعیم نے الحلیہ میں عبید بن عمیر (رح) سے روایت کیا کہ لوگ ننگے بدن، ننگے پاؤں اکٹھے کئے جائیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا میں اپنے خلیل کو ننگے بدن نہیں دیکھتا ہوں پھر ابراہیم (علیہ السلام) کو سفید کپڑا پہنایا جائے گا اور وہ سب سے پہلے (انسان) ہوں گے جن کو کپڑا پہنایا جائے گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو قیامت کے روز سب سے پہلے لباس پہنایا جائے گا (110) ابن ابی شیبہ اور احمد نے الزہد میں عبید اللہ بن حرث (رح) سے روایت کیا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کو دو قطعی کپڑے پہنائے جائیں گے پھر نبی اکرم ﷺ کو حیرہ کا ضبہ پہنایا جائے گا۔ اور آپ عرش کے داہنی طرف ہوں گے (111) ابن ابی شیبہ، ابو داؤد، ترمذی، نسائی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا یا خیر البریہ یعنی مخلوق میں سے سب سے سے زیادہ بھلائی والے۔ آپ نے فرمایا وہ ابراہیم (علیہ السلام) ہیں۔ (112) ابن ابی شیبہ نے ابو صالح (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) رزق کی تلاش میں محنت کی مگر کھانا پر قادر نہ ہوئے پھر وہ ایک مرتبہ سرخ زمین کے پاس سے گزرے تو اسی میں سے کچھ مٹی اٹھالی پھر اپنے اہل و عیال کی طرف لوٹ آئے انہوں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا سرخ گندم ہے جب اس کو کھولا تو اس کو سرخ گندم پایا جب اس میں سے کچھ بوتے تھے تو اس کی جڑ سے شاخ تک خوشہ ہی اگتا تھا جس میں دانے ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے ہوتے تھے۔ (113) ابن ابی شیبہ، احمد نے الزہد میں ابو نعیم نے الحلیہ میں سلمان ؓ سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے اوپر دو بھوکے شیر بھیجے گئے انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو محبت سے چاٹا اور ان کو سجدہ کیا (اور ان کو کوئی تکلیف نہ پہنچائی) ۔ (114) امام احمد، مسلم ابو داؤد اور نسائی نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا میرے پاس میرے رب نے یہ پیغام بھیجا کہ میں قرآن کو ایک قرأت میں پڑھوں میں نے درخواست کی کہ اے میرے رب ! میری امت پر آسانی فرمائیے پھر حکم فرمایا کہ میں سات قرأتوں پر قرآن پڑھوں۔ (پھر فرمایا) ہر بار جو تو نے سوال کو لوٹایا ہے اس کے برابر اب مجھ سے مانگ لے میں نے عرض کیا اے اللہ ! میری امت کی مغفرت فرما دے۔ اے اللہ ! میری امت کی مغفرت فرما دے اور تیسری درخواست میں نے اس دن کی جس دن میں طرف ساری مخلوق امید لگائے ہوئے ہوگی حتی کہ ابراہیم (علیہ السلام) بھی امید لگائے ہوئے ہوں گے۔ (115) امام احمد نے الزہد میں، ابو نعیم نے الحلیہ میں حضرت کعب ؓ سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) مہمان کو کھانا کھلاتے تھے مسکین پر اور مسافر پر رحم کرتے تھے ایک مرتبہ مہمانوں کو ملنے میں دیر لگ گئی تو گردن لمبی کرکے انتظار کرتے رہے۔ مہمان کو ڈھونڈنے کے لیے وہ بارہ راستے میں نکلے اور (تھک کر) بیٹھ گئے ملک الموت آدمی کی صورت میں ان کے سامنے سے گزرا۔ اس نے سلام کیا تو آپ نے سلام کا جواب دیا پھر اس سے پوچھا تو کون ہے ؟ اس نے کہا میں مسافر ہوں فرمایا میں یہاں تیرے جیسے آدمی کے لیے بیٹھا تھا اس کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا میرے ساتھ چل۔ اس کو اپنے گھر لے آئے جب (ان کے لڑکے) اسحاق (علیہ السلام) نے (مہمان کو) ایکھا تو ان کو پہچان لیا اور رونے لگے جب (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی) حضرت سارہ نے اسحاق کو روتے دیکھا تو وہ رونے لگیں جب ابراہیم (علیہ السلام) نے سارہ کو روتے دیکھا تو وہ بھی رونے لگے۔ جب ملک الموت نے ابراہیم (علیہ السلام) کو روتے دیکھا تو وہ بھی رونے لگے پھر ملک الموت آسمان پر چڑھ گئے۔ جب وہ اوپر چڑھ گئے تو ابراہیم (علیہ السلام) ناراض ہوگئے اور فرمایا کہ تم لوگوں کے رونے کی وجہ سے میرا مہمان چلا گیا۔ اسحاق (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے والد محترم ! مجھے ملامت نہ کیجئے۔ جب میں نے آپ کے ساتھ ملک الموت کو دیکھا تو میں نے یہ سمجھا کہ آپ کی موت قریب ہے۔ اس لئے آپ اپنے اہل و عیال کے لیے وصیت فرما دیجئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ایک (علیحدہ) کمرہ تھا جس میں عبادت کیا کرتے تھے۔ جب اس سے باہر آتے تو اس کو بند کردیتے اور اس میں کوئی داخل نہ ہوتا تھا ایک مرتبہ ابراہیم (علیہ السلام) تشریف لائے اپنے عبادت خانے کو کھولا جس میں عبادت کیا کرتے تھے اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی وہاں بیٹھا ہوا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا تجھے کس نے یہاں داخل کیا ؟ کس کی اجازت سے تو داخل ہوا ؟ اس نے کہا رب البیت (یعنی اللہ تعالیٰ ) کی اجازت سے داخل ہوا ہوں۔ آپ نے فرمایا رب البیت اس بات کا زیادہ حقدار ہے۔ پھر کمرے کے ایک کونے میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔ اور دعا مانگی جس طرح پہلے کرتے تھے ملک الموت اوپر چڑھ گئے اس سے پوچھا گیا تو نے کیا دیکھا ؟ اس نے کہا اے میرے رب میں تیرے ایسے بندے کے پاس سے ہو کر آیا ہوں کہ اس کے بعد زمین میں کوئی بہتر نہیں۔ پھر اس سے کہا گیا توں نے اس سے کیا دیکھا ؟ اس نے کہا تیری مخلوق میں سے میں نے کسی کو ایسا نہیں چھوڑا جو ان کے لیے ان کے دین میں اور ان کی معیشت میں خیر کی دعا نہ کرتاہو۔ ملک الموت سے ملاقات کا ذکر پھر ابراہیم (علیہ السلام) جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا اسی حال میں رہے پھر ایک مرتبہ (اپنے عبادت خانہ) تشریف لائے اس کا دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک آدمی بیٹھا ہوا ہے اس سے فرمایا تو کون ہے ؟ اس نے کہا میں ملک الموت ہوں۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اگر تو سچا ہے تو مجھے کوئی ایسی نشانی دکھا جس سے میں پہچان لوں کہ تو ملک الموت ہے اس نے کہا اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لیں۔ پھر جب آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے تو اس نے آپ کی وہ صورت دکھائی جس سے وہ مؤمنین کی روح قبض کرتا ہے آپ نے ایسا نور اور رونق دیکھی جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر کہا (دوبارہ) دیکھو تو اس نے آپ نے آپ کی وہ صورت دکھائی جس سے وہ کافروں اور فاجروں کی روح قبض کرتا ہے ابراہیم (علیہ السلام) پر اتنا خوف سوار ہوا کہ آپ نے اپنے پیٹ کو زمین کے ساتھ ملا لیا قریب تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی روح نکل جاتی پھر آپ نے اس سے فرمایا کہ اس کو پہچان جس کا تجھے حکم دیا گیا ہے۔ اور اس کی طرف چلا جا۔ ملک الموت اوپر چڑھ گئے تو ان سے کہا گیا ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ مہربانی کا برتاؤ کرو پھر ان کے پاس اس حال میں آئے کہ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے گھروں میں تھے ملک الموت بہت بوڑھے آدمی کی شکل میں تھے اب اس کی کوئی چیز سلامت نہ تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب ان کو دیکھا تو ان پر رحم آیا اور ایک ٹوکرا لے کر انگوروں میں چلے گئے اور کچھ انگور ٹوکری میں چن کر لائے پھر آکر اس کے سامنے رکھ دئیے اور اس بوڑھے سے فرمایا کہ ان کو کھالے وہ ہاتھ رکھتا اور ان کو یہ دکھاتا کہ وہ کھا رہا ہے اور وہ اس کو اپنی داڑھی میں اپنے سینے پر چبا کر گرا رہا تھا ابراہیم (علیہ السلام) نے (یہ دیکھ کر) تعجب کیا اور اس سے فرمایا تیرا کوئی دانت بھی باقی نہیں ہے۔ کتنی عمر ہے تیری ؟ اس نے ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر کا حساب لگایا اس نے کہا میری عمر اتنی اور اتنی ہے ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا میری بھی اتنی عمر گزر چکی ہے میں انتظار میں ہوں کہ تیری طرح (بوڑھا) ہوجاؤ (مگر میں ایسا نہیں چاہتا) اے اللہ ! مجھے اپنی طرف بلا لیجئے ابراہیم (علیہ السلام) کا دل خوش ہوگیا اور ملک الموت نے اسی حال میں ان کی روح کو قبض کرلیا۔ (116) امام حاکم نے واقدی (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) دمشق کی ایک بستی غوطہ میں پیدا ہوئے جس کو برزہ کہا جاتا تھا۔ یہ ایک پہاڑ کے قریب ہے جس کو قاسیون کہا جاتا ہے۔ (117) امام بیہقی نے شعب الایمان میں ابو السکن ہجری (رح) سے روایت کیا کہ خلیل اللہ اچانک فوت ہوئے، حضرت داؤد (علیہ السلام) اچانک فوت ہوئے۔ حضرت سلیمان بن داؤد اچانک فوت ہوئے اور صالحین بھی اچانک فوت ہوئے اور وہ مؤمن پر ہلکی ہوتی ہے اور کافر پر سخت ہوتی ہے۔ (118) روایت کیا کہ ملک الموت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس ان کی روح قبض کرنے کے لیے آئے ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اے ملک الموت کیا تو نے ایسے خلیل کو دیکھا ہے جو اپنے خلیل کی روح کو قبض کرے ملک الموت اوپر اپنے رب کی طرف چلے گئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس سے کہ کیا تو نے دیکھا ہے کسی خلیل کو جو اپنے خلیل کی ملاقات کو ناپسند کرے ؟ ملک الموت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے اور ان سے یہ الفاظ کہے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ابھی ابھی میری روح قبض کرے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی موت کا واقعہ (119) امام ابو نعیم نے الحلیہ میں سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کے سامنے ملک الموت کو بھیجتے تھے (پھر) ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس ان کی روح قبض کرنے کے لیے ملک الموت کو بھیجا تاکہ ان کی روح کو قبض کرے وہ ایک نوجوان خوبصورت آدمی کی شکل میں ابراہیم (علیہ السلام) کے گھر میں داخل ہوئے۔ اور ابراہیم (علیہ السلام) غیرت مند آدمی تھے۔ جب ملک الموت ان کے ہاں داخل ہوئے تو ان کو غیرت سوار ہوئی اور ان سے فرمایا اے اللہ کے بندے ! کس نے تجھے میرے گھر میں داخل کیا ؟ جواب دیا کہ مجھے اس گھر کے مالک نے داخل کیا ہے ابراہیم (علیہ السلام) پہچان گئے ملک الموت نے کہا اے ابراہیم مجھے تیری روح کے قبض کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ فرمایا اے ملک الموت مجھے مہلت دے دوں یہاں تک (میرا بیٹا) اسحاق آجائے انہوں نے مہلت دیدی۔ جب اسحاق آئے تو ابراہیم (علیہ السلام) ان کے لیے کھڑے ہوگئے اور ہر ایک نے دوسرے سے معانقہ کیا ملک الموت نے اس معانقہ کو چھڑایا اور اپنے رب کے پاس لوٹ گئے اور عرض کیا اے میرے رب میں نے تیرے خلیل کو موت سے گھرایا ہوا دیکھا اللہ پاک نے فرمایا اے ملک الموت میرے خلیل کی نیند میں اس کی روح قبض کرلے چناچہ ملک الموت ان کی نیند میں آئے اور ان کی روح قبض کرلی۔ (120) امام احمد نے الزہد میں المروزی نے الجنائز میں ابن ابی ملکیہ (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) جب اللہ تعالیٰ سے ملے ان سے کہا گیا تو نے موت کو کیسے پایا ؟ عرض کیا میں نے اپنی جان کو اس طرح پایا گویا کہ معدہ سے رواح کھینچی جا رہی ہے پھر ان سے کہا گیا ہم نے آپ پر موت کو آسان کردیا ہے۔ (121) احمد، ابن ابی الدنیا نے العزاء میں اور ابن داؤد نے البعث میں ابن حبان حاکم (انہوں نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) اور بیہقی نے البعث میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مؤمنین کی (نابالغ) اولاد جنت کے ایک پہاڑ میں ہے ان کی کفالت حضرت ابراہیم اور سارا (علیہا السلام) کر رہے ہیں یہاں تک کہ ان کو قیامت کے دن ان کے والدین کی طرف لوٹا دیں گے۔ (122) سعید بن منصور نے مکحول ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بلاشبہ مسلمان کے بچے سبز پرندوں کی صورت میں جنت کے ایک درخت کے اوپر ہیں ان کی کفالت ابراہیم (علیہ السلام) کرتے ہیں۔ أما قولہ تعالیٰ : قال انی جاعلک للناس اماما : (123) عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” قال انی جاعلک للناس اماما “ سے مراد ہے کہ لوگ تیرے دین، تیری ہدایت اور تیرے طریقے کی اقتدار کریں گے لفظ آیت ” قال من ذریتی “ یعنی میری اولاد کو بھی امام بنا دیجئے لفظ آیت ” قال لا ینال عھدی الظلمین “ (یعنی تیری اولاد میں سے جو نافرمان ہوں گے) لوگ ان کے دین کی ان کی ہدایت کی اور ان کے طریقے کی اقتدا نہیں کریں گے۔ (124) عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ یہ عہد قیامت کے دن کے متعلق ہے کہ ان کا وعدہ کسی ظالم کو نہ پہنچے گا لیکن دنیا میں انہوں نے اس وعدہ کو پایا اور وہ مسلمانوں کے وارث بنے ان سے نکاح کئے وغیرہ لیکن جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ اور اس کی عزت و اکرام اس کے دوستوں پر ہی ہوگا۔ (125) ابن جریر نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ لفظ آیت ” قال انی جاعلک للناس اماما “ یعنی تیری اقتداء کی جائے گی اور پیروی کی جائے گی۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا لفظ آیت ” ومن ذریتی “ یعنی میری اولاد میں سے ایسے بنا دیجئے کہ لوگ اس کی پیروی کریں۔ (126) الفریابی اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو فرمایا لفظ آیت ” قال انی جاعلک للناس اماما قال ومن ذریتی “ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میری اولاد کو بھی امام بنا دیجئے تو (اللہ تعالیٰ ) نے ایسا کرنے سے انکار فرما دیا پھر فرمایا لفظ آیت ” لا ینال عھدی الظلمین “ یعنی میرا وعدہ (تیری اولاد میں سے امام بنانے کا) کسی ظالم کو نہیں پہنچے گا۔ (127) وکیع، عبد بن حمید اور ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لاینال عھدی الظلمین “ سے مراد ہے کہ میں کسی ظالم یعنی کاف کو امام نہیں بناؤں گا کہ لوگ اس کی پیروی کریں۔ (128) ابن اسحاق، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ ان کو یہ خبر دی گئی کہ ان کی اولاد میں سے ظالم یعنی کافر بھی ہوں گے جن کو میرا وعدہ نہیں پہنچے گا اور یہ اس کی شان کے لائق نہیں کہ وہ ظالموں کو والی بنائے (129) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حجرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” لاینال عھدی الظلمین “ کے بارے میں روایت کیا کہ ظالم کے لئے آپ پر کوئی وعدہ نہیں کہ اللہ کی نافرمانی میں آپ اس کی اطاعت کریں۔ (130) وکیع اور ابن مردویہ نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” لاینال عھدی الظلمین “ کے بارے میں فرمایا کہ اطاعت صرف نیکی میں ہے۔ (131) عبد بن حمید نے عمران بن حصین ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔ (132) عبد بن حمید نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ نبی کی اطاعت کے علاوہ کسی کی اطاعت فرض نہیں ہے۔
Top